الف — قسط نمبر ۰۷

”آپ بتائیں۔ کیا کر دیا ہے آپ نے مجھے؟” وہ میک اپ روم میں ہوش میں آنے کے بعد عجیب بے اختیاری اور بے قراری کے عالم میں سلطان کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی اور سلطان عجیب شاک کے عالم میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس سے بات کر رہی تھی مگر سلطان کو لگ رہا تھا جیسے اس کی آنکھوں میں کسی اور کا عکس تھا۔ وہ اس سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
”آپ کو کیا ہو گیا ہے حسنِ جہاں جی؟” سلطان نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ وہ گڑبڑائی۔ اس نے اپنا ہاتھ دیکھا پھر سلطان کا ہاتھ پھر سلطان کا چہرہ پھر جیسے وہ ہوش میں آئی تھی۔
”وہ کہاں ہے؟” اس نے سلطان سے پوچھا تھا۔
”وہ کون؟” سلطان نے عجیب الجھ کر اس سے پوچھا۔ حسنِ جہاں کے جواب نے اس کے سینے میں ایک خنجر گھونپا تھا۔
”طہٰ۔” یہ نام اس کے ہونٹوں پر سانپ کی طرح لہرایا تھا سلطان کے لیے۔
”اس نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ وہ میرا حال پوچھ رہا تھا۔” وہ عجیب انداز میں اپنا ہاتھ دیکھتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔
”آپ کا ہاتھ میں نے پکڑا تھا میں پوچھ رہا تھا آپ کا حال۔” سلطان نے بے قرار ہو کر اس کا ہاتھ جیسے دوبارہ پکڑا۔ حسنِ جہاں نے بے یقینی سے اس کو دیکھا پھر اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ کاؤچ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ کی پرفارمنس کا وقت ہو رہا ہے۔” سلطان نے اسے یاد دلایا۔ وہ کھڑی اس تصویر کو دیکھ رہی تھی جس پر وہ رقصاں تھی پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اپنا لباس درست کیا اور پھر یک دم جیسے اس نے آئینے میں کچھ دیکھا تھا۔
”تمہیں وہ نظر آرہا ہے؟” عجیب سرسراتی ہوئی آواز میں اس نے سلطان سے پوچھا۔
سلطان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں آئینہ دیکھا۔
”کون؟”
”طہٰ۔” ایک اور خنجر گھونپا تھا اس نے سلطان کے سینے میں۔ ایک اور سانپ لہرایا تھا اس کے ہونٹوں پر۔
”اس آئینے میں کیسے نظر آئے گا وہ؟ اس آئینے میں تو صرف آپ ہیں۔” اس نے پریشان ہو کر اس سے کہا تھا۔ وہ اسی طرح اپنے عکس کو دیکھ رہی تھی۔
”مجھے کیوں نظر آرہا ہے وہ؟ مجھے کیوں اپنا آپ نظر نہیں آرہا۔” وہ الجھی الجھی کہہ رہی تھی اور سلطان کو لگا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ابھی تو چکرا کر گری تھی وہ اگر ایسی باتیں کر رہی تھی تو ایسی باتیں بنتی تھیں۔
”آپ آرام کریں۔ ہوٹل چلتے ہیں۔ ڈاکٹر سے چیک اپ کرواتا ہوں۔” سلطان نے پریشانی سے کہنا شروع کیا۔
اس نے درمیان میں بات کاٹ دی۔
”کس چیز کا میک اپ؟” سلطان اسے دیکھ کر رہ گیا۔
”آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ میں آپ کی پرفارمنس کینسل کرواتا ہوں۔” وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ میں پرفارم کروں گی۔” وہ پھر آئینے میں دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسٹیج پر یہ وہ رقص کرنے والی حسنِ جہاں نہیں تھی جو پچھلی رات یہاں رقص کر کے گئی تھی۔ کتھک ڈانس کا آغاز کرتے ہوئے وہ حاضرین کے سامنے جھجکی تھی اور جب وہ سیدھی ہوئی تھی تو اس حاضرین میں اس نے طہٰ کو دیکھا تھا وہ پہلی قطار میں بیٹھا تھا۔ اس کی نظر اس سے پچھلی قطار پر گئی۔ وہ وہاں بھی تھا۔ اس سے پچھلی قطار میں بھی تھا۔ وہ تھا کہاں؟ ہر جگہ کیسے ہو سکتا تھا۔ وہ رقص شروع کرنا بھول گئی۔ اسٹیج کے پیچھے کھڑے سلطان کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونا شروع ہوئیں۔ وہ حاضرین کو دیکھے جا رہی تھی اور حاضرین میں اب چہ مگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ وہ اپنی نشستوں میں پہلو بدلنے لگے تھے۔ اس نے بالآخر ناچنا شروع کیا تھا۔
سلطان پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔ شاک اور غم کے عالم میں اس کے رقص میں ردھم نہیں تھا۔ وہ کس لے پر رقص کر رہی تھی۔ وہ ہی جانتی تھی لیکن کم از کم وہ طبلہ نہیں تھا۔ وہ موسیقی نہیں تھی جو اس کے لیے بج رہی تھی۔ جنہوں نے پچھلی رات اس کا رقص دیکھ کر ہوش کھویا تھا وہ بھی ویسے ہی بے یقینی سے اسے دوبارہ دیکھ رہے تھے۔ وہ اس حسنِ جہاں کو دیکھنے نہیں آئے تھے۔
پانچ سال سے سلطان اس کے ساتھ تھا۔ اسے یاد نہیں پڑتا تھا اس نے کبھی اس طرح اسے سٹیج پر رقص بھولتے دیکھا ہو اور وہ اتنا صاف پتا چل رہا ہو۔
”کیا اسے پھر طہٰ نظر آنے لگا تھا؟” سلطان نے عجیب بے بسی سے سوچا تھا یا اس کی آنکھ جو پھڑکتی رہی تھی۔ وہ ٹھیک پھڑکی تھی۔ حسِ جہاں کو نظر لگ گئی تھی۔
٭…٭…٭
”زندگی میں پہلی بار آپ ناچنا ہی بھول گئیں۔ کیوں دیکھا میں نے ایسا دن؟”
اس کے رقص والے لباس کو تہہ کرتے ہوئے ہوٹل کے کمرے میں سلطان عجیب دل گرفتہ سا کہہ رہا تھا۔ وہ اب کپڑے تبدیل کیے صوفے پر لیٹی ہوئی تھی۔
”طہٰ میرے دماغ سے چمٹ گیا ہے۔ میں ناچنا شروع کرتی ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے وہ ناچنا شروع کر دیتا ہے اور وہ ناچنے لگتا ہے تو بس وہ مجھے کہیں لے جاتا ہے۔” وہ بڑبڑانے لگی تھی۔ سلطان نے اس کا لباس تہہ کرتے کرتے عجیب تڑپ کر اس سے کہا۔
”کہاں لے جاتا ہے؟”
”کسی اور دنیا میں۔ اس جسم سے باہر۔ وہاں میں پرندے کے ایک پر کی طرح ہوا میں اڑتی ہوں۔ وہاں میں۔ اور وہ۔ اور وہ سب رقص کرتے ہیں۔” وہ عجیب سی کیفیت میں بات کر رہی تھی۔
”وہ سب کون؟” سلطان نے پھر بے چینی سے پوچھا۔
”وہ سب جو وہاں ہیں۔ طہٰ جیسے کپڑوں والے۔ وہاں زمین نہیں ہے۔ آسمان ہے مگر پیروں کے نیچے۔” وہ گنگ اسے دیکھ رہا تھا۔
”ایسی باتیں آپ نے کبھی نہیں کیں۔ ایسی باتیں تو۔” حسنِ جہاں نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
”مجھے طہٰ سے ملنا ہے۔” سلطان انکار کرنا چاہتا تھا اور اسے انکار کرنا چاہتا تھا اور اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اب مر کر بھی طہٰ اور اس کا سامنا نہیں کروائے گا مگر تب ہی ہوٹل کے کمرے کے دروزاے پر دستک ہوئی تھی اور سلطان بے اختیار خوش ہوا تھا حسنِ جہاں کا ذہن بٹ جاتا۔ شاید وہ اس سے ملاقات کی ضد بھول جاتی۔
سلطان نے دروازہ کھول دیا تھا اور دروازہ کھولنے پر پہلی بار سلطان نے اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا تھا۔ یہ جو کچھ ہو رہا تھا۔ یہ قسمت تھی، وہ اسے روک نہیں سکتا تھا۔
”مجھے حسنِ جہاں سے ملنا ہے۔” سامنے کھڑے طہٰ نے بے حدشستہ لہجے میں انگلش میں اس سے کہا تھا۔ سلطان کچھ کہے بغیر دروازے سے ہٹ گیا اور وہ ایک لمحہ کی جھجک کے بغیر اندر چلا گیا تھا۔
وہ صوفے پر نیم دراز تھی۔ طہٰ کو دیکھ کر کرنٹ کھا کر اٹھی تھی اور پھر اس نے جیسے سلطان کو پکارا تھا۔
”سلطان۔ سلطان وہ پھر نظر آنے لگا ہے۔ وہ ایسے ہی نظر آتا رہے گا۔” سلطان آگے بڑھا تھا اور اس نے حسنِ جہاں سے کہا۔
”طہٰ صاحب خود آئے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔” وہ جیسے حسنِ جہاں کی اس کیفیت کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ حسنِ جہاں نے اسے دیکھا پھر طہٰ کو پھر وہ عجیب بے قراری کے عالم میں اس کی طرف گئی تھی۔
”آپ نے مجھے کیا کیا ہے؟” وہ طہٰ کے سامنے کھڑی ہو کر پوچھ رہی تھی اور طہٰ نے جواباً اس سے پوچھا تھا۔
”میں یہ سوال آپ سے کرنے آیا ہوں۔” طہٰ نے جواباً اس سے کہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور سلطان ایک بے بس تماشائی کی طرح وہاں کھڑا تھا، جو اس تماشے سے محظوظ نہ ہونے کے باوجود بھی اسے دیکھنے پر مجبور تھا۔
”یہ تصویر دیکھ رہی ہیں؟” طہٰ اب کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ زمین پر رکھی اپنی بنائی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
”یہ ایک رات میں بنائی ہے میں نے۔ پہلی بار آپ کو دیکھنے کے بعد۔ پہلی بار کسی عورت کا چہرہ اور جسم پینٹ کیا ہے میں نے۔” وہ اُس سے کہہ رہا تھا۔
”میں نہیں مانتی۔” حسنِ جہاں نے کہا۔
”دوبارہ بنا دوں؟” اس نے جواباً حسنِ جہاں سے کہا تھا۔
”ایک رات میں؟” حسن جہان نے جیسے پوچھا۔
”اس سے بھی کم۔” وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے کہہ رہا تھا۔
”میں سامنے نہیں بیٹھوں گی۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”پہلے بھی کب بیٹھی تھیں۔” اس نے جواباً کہا تھا۔
”لیکن تم سامنے بیٹھ کر بناؤ گے۔” وہ اب اسے چیلنج کر رہی تھی یوں جیسے اپنے سحر کا توڑ کر رہی ہو۔
”منظور۔” طہٰ نے اگلے ہی لمحہ کہا تھا۔ وہ دونوں سلطان کو بھول چکے تھے اور سلطان وہ ان دونوں کی کائناتِ محبت میں اب ایک ذرہ بھی نہیں رہا تھا۔
٭…٭…٭
طہٰ اگلی شام پھر سٹیج پر پرفارم کر رہا تھا اور حسنِ جہاں پھر اسے دیکھنے پہنچی تھی۔ اسٹیج کے پیچھے وہ پھر اس کو دیکھتے ہوئے اس کی طرح ناچنے لگی تھی۔ سب کھتک دھرا کا دھرا رہ گیا تھا سب تالیاں، سب ٹھمکے، سب کچھ۔ تال تھی تو بس ایک ہی تال تھی، لے تھی تو بس ایک۔ وہ طہٰ عبدالعلی کے رنگ میں رنگتی جا رہی تھی اور سلطان اسے روکتے بے حال ہو رہا تھا۔
”آپ اپنی پرفارمنس کی ریہرسل کریں۔ ایسے ناچتی رہیں گی تو پھر اپنا ناچ بھول جائیں گی۔” سلطان نے اسے روکا تھا۔
”یہ کیوں نہیں بھولتا مجھے دیکھتے ہوئے اپنا رقص۔” وہ اس سے پوچھ رہی تھی اور سلطان کو لاجواب کر رہی تھی۔
”مجھ سے ایسے سوال نہ کریں۔” سلطان نے جیسے اس کے سامنے اپنی بے بسی بیان کی تھی۔
”دیکھو وہ نہیں بھولا نا۔ جس کے لیے ناچ رہا ہے وہ نہیں بھولا اور میں۔” وہ وہاں کھڑے اسے دیکھتے ہوئے ہنستے ہوئے رو رہی تھی یاد روتے ہوئے ہنس رہی تھی۔ سلطان نہیں پہچان پایا لیکن وہ ناچ رہی تھی، ویسے ہی گول دائرے میںچکر کاٹتے ہوئے۔ سلطا ن اس کا ہاتھ پکڑ کر روکنا چاہتا تھا مگر وہ بگولہ بنی ہوئی تھی اس کے کیا کسی کے بھی ہاتھ میں نہ آتی۔
٭…٭…٭
وہ اُس رات ایک پارک میں ملے تھے۔ طہٰ اپنے ساتھ کینوس اور ایزل لایا تھا اور حسنِ جہاں اپنے ساتھ صرف سلطان۔
وہ پارک میں ایزل رکھے کینوس اس پر ٹکائے واک وے کے لیمپس کی روشنی میں ایک بار پھر اسے پینٹ کر رہا تھا اور وہ اس کے عقب میں پارک کی اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر سلطان کے ساتھ بیٹھی اس کے ہاتھ کی ہر جنبش پر جیسے فدا ہو رہی تھی۔
”کیا فائدہ اس سب کا؟” سلطان نے جیسے اس سیلاب پر بند باندھنا چاہا تھا جو حسنِ جہاں کو اس سے چھین کر کسی دوسرے کا کر رہا تھا۔
”زندگی میں سارے کام فائدے والے کیے ہیں۔ اب تھوڑا گھاٹا بھی چکھنے دو مجھے۔” وہ سرشار تھی۔ نفع نقصان سے بے پروا تھی۔
”کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟” سلطان نے اس سے پوچھا۔
”پیار۔” مدھم آواز میں اس کی سرگوشی گونجی، پھر ہنسی۔
کوئی چھری تھی جس نے سلطان کی شہ رگ کاٹی تھی۔ وہ اس کے سامنے کسی اور سے ”وہ” کرنا چاہتی تھی جو وہ اتنے سالوں سے سلطان اس کے لیے اپنے دل میں چھپائے بیٹھا تھا۔
”وہ مجھے دیکھتا بھی نہیں اور پھر بھی میرے چہرے کے ہر نقش کو کیسے کینوس پر اتارتا چلا جا رہا ہے۔ کیسے اُتار سکتا ہے؟” وہ اس کے تاثرات سے بے خبر اس سے کہہ رہی تھی۔ طہٰ کے کینوس پر اُبھرے اپنے وجود کو دیکھتے ہوئے۔
”میں پینٹر ہوتا تو میں بھی کر دیتا۔” سلطان نے جیسے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی۔ حسنِ جہاں نے سنا ہی نہیں تھا۔
”اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے پہلی بار کسی عورت کا وجود بنایا ہے۔ مگر دیکھو، اس تصویر میں کوئی خامی نظر آتی ہے تمہیں۔” وہ طہٰ عبدالعلی کے برش کے سحر میں تھی۔
”چلیں حسنِ جہاں! کل پرفارمنس ہے آپ کی۔ یہاں ساری رات بیٹھیں گی تو کیسے ناچیں گی۔ کل آخری بار ناچنا ہے آپ کو۔” سلطان نے جیسے اسے پھر واپس کھینچنا چاہا تھا۔
”چھوڑ سلطان! میں نہیں ناچنا چاہتی اب۔ ناچنا چاہتی ہوں تو طہٰ عبدالعلی کی طرح۔” اس نے سلطان کا ہاتھ جھٹکا تھا۔ وہ دم بخود ہوا پھر بے چین۔
”آپ حسنِ جہاں ہیں، طہٰ عبدالعلی نہیں ہیں۔”
”بننا چاہتی ہوں۔” اس نے یاددہانی کروائی تھی۔ اس نے جھٹک دی تھی۔
”بن کے کیا کریں گی؟” سلطان اتنی آسانی سے ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔
”میں اس جسم سے تنگ آگئی ہوں سلطان۔ اس چہرے سے۔ جسے ہر وقت سجانا پڑتا ہے۔ اس وجود سے جو ہر وقت کچھ نہ کچھ مانگتا رہتا ہے۔ کپڑے، زیور، چیزیں، آسائشیں۔ میں بس یہاں کہیں طہٰ عبدالعلی کے ساتھ جینا چاہتی ہوں۔ روح بن کر۔” وہ اب سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہی تھی اور سلطان گونگا ہو گیا تھا۔
”یہ باتیں۔ یہ لفظ۔ کون ہے یہ آپ کے اندر جو یہ سب کہلوا رہا ہے آپ سے۔” سلطان لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد یہی کہہ پایا تھا۔
”پتا نہیں کون ہے۔ تم بتاؤ کون ہے؟” وہ اضطراب سے بولی تھی۔
”یہ جو میری روح ہے نا، وہ سانس لینے لگی ہے۔ پتا نہیں کیسے جی اٹھی ہے میں نے تو اسے مار دیا تھا۔ دفن بھی کر دیا تھا۔ اب یہ کیسے جینے لگی۔” وہ بول رہی تھی اور سلطان اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”وہ رب کا نام پہچانتی ہے۔ باقی کسی کا بھی نہیں۔ تمہیں بھی نہیں جانتی وہ۔ اب اس روح کا کیا کروں میں؟”
سلطان کے پاس سارے لفظ ختم ہو گئے تھے۔ طہٰ عبدالعلی حسنِ جہاں کی وہی تصویر دوبارہ مکمل کیے کھڑا تھا۔ ایک کے عروج کی رات تھی ایک کے زوال کی۔ بس ایک سلطان تھا جو ویسے کا ویسا رہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۶

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!