الف — قسط نمبر ۰۷

”وہ آنکھوں سے جائے گی تو دل میں آجائے گی۔ دل سے جائے گی تو شہ رگ میں خون کے ساتھ دوڑنے لگے گی۔وہ یہاں یہاں ہر جگہ ہے بابا۔ میں کہاں کہاں سے ہٹاؤں اُسے۔” وہ بے بسی سے اپنے دل، حلق کنپٹیوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”یہاں، یہاں، یہاں۔ ہر جگہ صرف اللہ ہو سکتا ہے اور کوئی نہیں۔” عبدالعلی نے اس کے سینے، حلق، سر کو چھوا تھا۔
”پیار ہو سکتا ہے۔” طہٰ نے ضد کی تھی۔
”پیار کو زوال ہے۔”
”کمال بھی تو اس کو ہے۔” وہ ضد پر اترا ہوا تھا اور حسنِ جہاں کمرے کے کھلے دروازے سے باپ بیٹے کو ایک دوسرے کے مقابل دیکھ رہی تھی۔ ایک نے اسے خاک بنا کر اُڑا دیا تھا، دوسرا تاج بنا کر سجانے پر بضد تھا۔
”جو ہاتھ اللہ کے لیے چنے گئے ہیں۔ اُن سے کسی انسان کا جمال تخلیق مت کرنا طہٰ۔ اللہ یہ ہنر تمہارے ہاتھوں سے چھین لے گا۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں اتنے سالوں سے خطاطی کر رہا ہوں میں۔ اس کا چہرہ بنا دیا تو کیا اللہ کا نام لکھنے کے قابل نہیں رہوں گا۔” وہ باپ سے بحث کر رہا تھا۔
”وہ واحد ہے۔ شراکت قبول نہیں کرتا۔ تمہارے ہاتھ کسی اور کا حسن سراہیں گے تو وہ اس حسن کو ختم کر دے گا۔”
”جو بددعا دینی ہے مجھے دیں بابا۔ حسنِ جہاں کو نہیں۔ اللہ نے اس کی محبت ڈالی ہے میرے دل میں۔ اللہ ہی نکال سکتا ہے۔ آپ نہیں نکال سکتے۔” وہ خفگی سے کہہ رہا تھا۔
”میں آپ کا گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں مگر اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔” وہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں جانے لگا تھا۔
”اللہ تو نکال سکتا ہے نا تمہارے دل سے اس کی محبت۔ میں اللہ سے دعا کروں گا۔ وہ نکال دے اسے تمہارے دل سے۔”
عبدالعلی نے جاتے ہوئے طہٰ سے کہا تھا۔ وہ رُکا، پلٹا اس نے عبدالعلی کو دیکھا پھر کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
عبدالعلی نے اسے اور حسنِ جہاں کو اس کمرے سے جاتے دیکھا تھا۔ وہ حسنِ جہاں ان کا آخری اثاثہ لے گئی تھی۔
زندگی میں پہلی بار عبدالعلی نے کسی سے نفرت کی، کسی کو بددعا دی۔ وہ خطاط تھے ان کی بددعا حسنِ جہاں کو کیسے نہ لگتی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

رات کتنی ڈھلی تھی۔ کتنی رہ گئی تھی، وقت رُکا ہوا تھا یا تھما ہوا تھا۔ قلبِ مومن کو اس کا اندازہ نہیں تھا اور اس کا اندازہ شاید عبدالعلی کو بھی نہیں تھا۔
”وہ آخری بار تھا جب میں نے طہٰ کو زندہ دیکھا پھر اس کے بعد اُس کو زندہ تو کیا مرا ہوا بھی نہیں دیکھا تھا میں نے۔” عبدالعلی کی آواز غم سے چٹخ رہی تھی۔ اتنے سالوں بعد بھی وہ شاید وہیں کھڑے تھے۔ اس گھر میں آج بھی شاید وہی لمحہ تھا۔ طہٰ کے چھوڑ جانے کا لمحہ۔
”ایک مہینے کے بعد اس کا لکھا ہوا ایک خط ملا تھا مجھے جس میں بس ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔”
”بابا مجھے معاف کر دیں۔” میں نے خط کو پھاڑ دیا تھا۔
پھر ہر مہینے اس کا خط آتا اسی ایک جملے کے ساتھ اب میں خطوں کو پھاڑتا نہیں تھا انہیں بغیر پڑھے رکھتا جاتا تھا اور اگر کبھی کھول کر پڑھ بھی لیتا تو دوبارہ کبھی نہ پڑھتا۔”
وہ اسے اپنا پچھتاوا، اپنا رنج لفظوں میں پرو کر سُنا رہے تھے۔ وہ ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس داستان میں انہیں آج بھی منفی کردار ماننے پر تیار نہیں تھا۔ ان کے اس پچھتاوے کے باوجود اس اعتراف کے بعد بھی۔
”بس ایک تمہاری پیدائش کی خبر تھی جس خط کو میں کھول کر پھر رکھ نہیں سکا۔ دل موم ہونا شروع ہو گیا تھا میرا۔” وہ عجیب دل گرفتہ انداز میں ہنسے۔
”خطاطوں کے خاندان میں اگلا خطاط آگیا تھا۔ چاہے وہ حسنِ جہاں کا بیٹا ہی تھا۔ میں اب طہٰ کے خطوں کا انتظار بھی کرنے لگا تھا۔ تمہارے بارے میں جاننے کے لیے اور اسے معاف کرنے کے بارے میں سوچنا بھی شروع کر دیا تھا میں نے۔ ہر روز رات کو میں اسے خط لکھنے کے لیے کاغذ لے کر بیٹھتا اور کاغذ پر حسن جہاں آجاتی اور میرا دل پھر سے پتھر بن جاتا۔ سارے لفظ پھر سے غائب ہو جاتے۔
تین سال بعد طہٰ کے خط آنا بند ہو گئے۔ میں بے چین ہوا پھر کچھ مہینوں کے بعد میں نے اسے خط لکھا۔ وہ خط ویسے ہی واپس آگیا تھا۔ اس پتے پر اب طہٰ نہیں رہتا تھا۔ مجھے لگا میں نے اسے پھر سے کھو دیا۔ ساری ساری رات بیٹھ کر میں اللہ سے معافی مانگتا رہتا تھا اس سے پوچھتا تھا کہ میرا دل پتھر کا کیوں ہوا؟ اپنے خون سے ایسی بے اعتنائی برتنے کے قابل کیسے ہوا میں۔ حسنِ جہاں کو ایسا حقیر سمجھنے کی جرأت کیسے ہوئی مجھے۔ میں صحیح تھا یا غلط۔ صحیح تھا تو سزا کیوں کاٹ رہا تا۔ غلط تھا تو مجھے اپنی غلطی کا وقت پر احساس کیوں نہیں ہوا۔” قلبِ مومن نے اس بوڑھے خطاط کے گالوں پر آنسو پھیلتے دیکھے۔
”آٹھ سال اسی طرح گزر گئے تھے۔ پھر ایک دن حسنِ جہاں کی طرف سے بھیجا ہوا پارسل ملا۔ اللہ کے نام لکھے ہوئے تمہارے خط تھے اور اُن ہی خطوں کے ساتھ حسنِ جہاں کا بھی ایک خط تھا۔ طہٰ کے نام تھا وہ۔ وہ سمجھ رہی تھی، وہ میرے پاس ہے۔ وہ اسے بہت پہلے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
اپنی انا، ضد، سب چھوڑ کر بھاگا گیا تھا میں تم لوگوں کے پاس۔ اللہ نے مجھے ایک موقع اور دیا تھا اپنی غلطی کو سدھارنے کا۔ میں اس بار کھونا نہیں چاہتا تھا یہ موقع۔ مگر دیر ہو گئی تھی طہٰ تمہاری ماں سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر گیا تھا۔ ایک دوست کے پاس اور ایک ایکسیڈنٹ میں وہ مر گیا۔ نہ میرا پتا اس دوست کے پاس تھا نہ تم لوگوں کا۔ اس نے دفن کر دیا تھا اسے۔”
کوئی چیز مومن کی آنکھوں میں چبھی تھی اور پھر اس کی آنکھیں دھندلائی تھیں۔ وہ اپنے بچپن کے اس لمحے کے بارے میں سننا نہیں چاہتا تھا۔ وہ قصہ خواں سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ وہیں رک جائے مگر غم میں ڈوبے اس بوڑھے شخص کو وہ کیا کہتا، کس طرح کہتا۔
”تم نہ ہوتے قلب مومن! تو میں طہٰ کے غم سے مر جاتا۔ تمہارے وجود نے زندہ رکھا مجھے، تم کو تو طہٰ ہی سمجھ کر دوبارہ پالا میں نے۔ تم کو کیسے روکتا کسی چیز سے۔ جو تم نے کرنا چاہا میں نے کرنے دیا۔ تم بورڈنگ میں جانا چاہتے تھے، میں نے جانے دیا۔ فلم میکنگ پڑھنا چاہتے تھے، میں نے امریکا بھیج دیا۔ تمہیں تو روکنے اور ٹوکنے کا حوصلہ ہی نہیں تھا عبدالعلی میں۔ لیکن اب جب عمر کی اس آخری سیڑھ پر آ کھڑا ہوں تو تم سے یہ سب کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔”
وہ رُک گئے تھے۔ اپنے آنسو صاف کر رہے تھے۔ قلب مومن نے بھی اپنے آنسو صاف کیے تھے۔ وہ کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر بولتا تو اس کی آواز لرزتی پھر وہ ٹوٹ جاتا۔ وہ ساری عمر دادا کے سامنے نہیں رویا تھا جو بھی آنسو تھے بچپن میں بہائے تھے اس نے۔ جوانی میں نہیں اور وہ اب اپنا بچپن ان کے سامنے دہرانا نہیں چاہتا تھا۔
”میں ضد نہ کرتا تو شادی ہو جاتی دونوں کی۔ میرے پاس ہوتے دونوں۔ اچھی زندگی گزار رہے ہوتے۔ اس کو شادی سے نہ روکتا بس حسنِ جہاں کی تصویریں بنانے سے روک دیتا۔ میں یہ کر لیتا یا وہ کر لیتا۔ بس کئی سال اسی میں گزار دیے میں نے۔”
”کس بات پر بابا ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر گئے تھے؟ ممی نے بتایا تھا کبھی آپ کو؟” وہ اس کے سوال پر قلب مومن کا چہرہ دیکھنے لگے تھے۔
”تم تو تھے ان کے ساتھ۔ تم کو یاد نہیں؟” عبدالعلی نے جواباً اس سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”پھر رہنے دو۔ بعض چیزوں کا علم نہ ہونا بہتر ہوتا ہے۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
پھر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”دادا۔” اس نے جیسے احتجاج کیا۔
”قلب مومن! بوڑھا ہو گیا ہوں میں۔ بہت کچھ بھول گیا ہوں۔ بہت کچھ بھول جانا چاہتا ہوں۔”
وہ کمرے سے جاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ قلبِ مومن کو اُن کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ وہ اسے بتانا نہیں چاہتے تھے۔ بھولے نہیں تھے۔ اسے یقین تھا۔ اس نے اس صندوقچی اور اس میز پر بکھرے ان معافی ناموں کو دیکھا۔ اس کے باپ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے معافی نامے۔ پچھتاوا تھا جو ان لفظوں سے جھلک رہا تھا۔ وہ حسنِ جہاں سے شادی کرنے پر پچھتایا تھا۔ کاغذ پر لکھے وہ سارے جملے قلبِ مومن کو جیسے عجیب بھول بھلیوں میں لے گئے تھے۔
٭…٭…٭
”آپ کچھ نہیں بتائیں گے ابا؟ ہمیشہ خاموش ہی رہیں گے حسنِ جہاں کے بارے میں؟” وہ فون پر سلطان کو کُرید رہی تھی۔
”کیا بتاؤں؟” سلطان کوپتا نہیں کیا یاد آیا تھا۔
”حسنِ جہاں کی زندگی کی کہانی۔ اس کے عروج کی کہانیاں سناتے رہے ہیں۔ اس کے زوال کی داستان بھی سنا دیں مجھے۔ پیار زوال لایا تو کس کا پیار؟ محبوب نے بے وفائی کی تو کیوں؟ وفا کی تو کیسے۔”
مومنہ اُسے کرید رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے حسنِ جہاں کی داستان سننے میں دلچسپی ہوئی تھی۔ ذکر تو اس نے ساری زندگی سنا تھا۔
سلطان نے فون بند کر دیا۔ وہ جانتا تھا مومنہ دوبارہ کال نہیں کرے گی۔ اس نے کال نہیں کی تھی۔ وہ پردہ جو وہ رکھنا چاہتا تھا۔ ایک بار پھر پڑا رہ گیا تھا۔ مگر مومنہ کے سوالوں نے سلطان کو بے کل کر دیا تھا۔
اپنے کمرے میں پرانی لکڑی کی الماری سے وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ ڈبہ نکال لایا تھا جسے اس بار کئی سالوں بعد اس نے نکالا تھا۔ جہانگیر کی بیماری نے جیسے اسے سب کچھ بھلا ہی دیا تھا۔ اتنے سالوں میں اور ان خطوں کو بھی جو اس ڈبے میں تھے۔ حسنِ جہاں کی ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں سلطان کے نام لکھے ہوئے وہ خط جنہیں وہ اتنے سالوں سے سینے سے لگائے بلکہ چھپائے بیٹھا تھا۔
”کیا ہوا تھا ابا حسنِ جہاں کو؟ کس کے پیار میں تخت چھوڑا تھا اس نے اپنا؟”
مومنہ کی آواز اس کے کانوں میں لہرائی تھی۔ سلطان کاغذ کھولتے ہوئے عجیب سے انداز میں ہنسا اور بڑبڑایا۔
”تخت نہیں سلطان کو چھوڑا تھا حسنِ جہاں نے۔”
٭…٭…٭
کینوس پر چڑھا کاغذ ہٹاتے ہی وہ لمحہ بھر کے لیے منجمد ہو گئی تھی۔ بازو ہوا میں پھیلائے رقصاں یہ اُس کا اپنا وجود تھا۔ اس کے سرخ کلیوں دار فراک کی ایک ایک سلوٹ اس کینوس پر تھی۔ وہ چھوتی تو اس کا لباس جیسے اس کے ہاتھ میں آجاتا۔ پل بھر کے لیے حسنِ جہاں کو ایسا ہی لگا تھا۔
”کس نے بھیجا ہے یہ؟” اس نے پلٹ کر سلطان سے کہا تھا۔
وہ اس وقت اسی تھیٹر کے میک اپ روم میں تھے۔ دو گھنٹوں اس کی پرفارمنس تھی اور یہاں میک اپ روم میں داخل ہوتے ہی اس قدم آدم کینوس نے اس کا استقبال کیا تھا۔
”طہٰ عبدالعلی ہے کوئی۔ ڈانسر اور خطاط ہے۔ اس نے بھیجی ہے آپ کے لیے۔” سلطان نے اسے بتایا۔
”اس نے مجھے کب دیکھا؟” وہ ششدر اس تصویر میں اپنے چہرے کے خدوخال دیکھ رہی تھی۔ اپنی گندھی چٹیا کے بال اور اس میں پرویا سفید موتیا۔ گلے میں پڑا وہ تعویذ اور اس کی سیاہ ڈور۔
”کل دیکھا ہو گا پرفارم کرتے۔” سلطان کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کس بات پر حیران ہو رہی تھی۔
”ایک رات میں تو نہیں بنائی ہو گی۔ ایک رات میں بن بھی کیسے سکتی ہے۔ پہلے سے کام کر رہا ہو گا اس تصویر پر۔” سلطان نے ہنس کر اسے ٹالا تھا۔
حسن جہاں نے اب پلٹ کر سلطان کو دیکھا اور کہا۔
”مگر یہ لباس میری کل رات کی پرفارمنس کا ہے۔ یہ کہاں سے دیکھ لیا پہلے اس نے۔” سلطان لمحہ بھر کے لیے گنگ ہوا پھر ہنسا۔
”ایک رات میں تو نہیں بن سکتی یہ۔ وہ پرفارم کر رہا ہے۔ آپ کو انویٹیشن بھی بھیجا ہے اس نے اپنی پرفارمنس دیکھنے کا۔ دیکھ لیں، مل لیں پوچھ لیں۔”
اس آخری مشورہ پر سلطان ساری عمر پچھتایا تھا۔ وہ کوئی کام تب تک اس سے پوچھے بغیر نہیں کرتی تھی۔ اس نے طہٰ سے ملنے کا کہا تھا اور طہٰ سے ملنے کے بعد وہ جیسے سلطان کے مدار سے نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭
طہٰ عبدالعلی سٹیج پر رقصاں تھا اور وہ بیک اسٹیج کھڑی اس کا رقص دیکھ رہی تھی۔ ترک موسیقی کی لے پر طہٰ عبدالعلی کے رقص کرتے وجود کو حسن جہاں پلک جھپکائے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس گھومتے وجود کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس لمبی ٹوپی میں چھپا ہوا تھا اور جو اس کے وجود کی گردش اس سے چھپائے ہوئے تھی اور اس کے وجود کی اس سرشار کر دینے والی گردش نے حسنِ جہاں کو عجیب انداز میں بے خود کیا تھا۔ بیک اسٹیج کھڑے اس نے اپنے بازو پھیلاتے ہوئے آہستہ آہستہ چکر کاٹنا شروع کر دیا۔ سلطان گھبرایا تھا۔
”حسنِ جہاں جی آپ کو کیا ہو رہا ہے؟” اس نے اسے روکنا چاہا تھا۔ وہ رکی نہیں تھی۔ اسٹیج پر سامنے طہٰ ناچ رہا تھا بیک اسٹیج اسی حالت میں حسن جہاں ناچ رہی تھی۔ سلطان نے اسے کبھی اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ نشے میں نہیں تھی مگر تھی۔ پاگل نہیں تھی مگر لگ رہی تھی۔ ایک ہی ردھم ایک ہی لے پر دو انسانی وجود بالکل ایک ہی رفتار اور بے خودی میں چکر کاٹتے جا رہے تھے۔ اسٹیج پر سامنے طہٰ عبدالعلی اور وہاں بیک اسٹیج پر حسنِ جہاں۔ پھر میوزک بند ہوا تھا اور سلطان نے حسنِ جہاں کو اسی طرح چکرا کر گرتے دیکھا۔ وہ گھبرایا اور اسے سنبھالنے کے لیے بھاگا۔ اسٹیج پر اس وقت طہٰ حاضرین کے سامنے جھکتے ہوئے اپنی پرفارمنس پر داد لے رہا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ جس کا عاشق تھا، وہ اس کا محبوب بن گیا تھا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں۔ میں ٹھیک ہوں۔”
”کیا ہو گیا تھاآپ کو؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۶

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!