ہال کے اس اسٹیج پر اس وقت اسپاٹ لائٹس کی روشنی میں جو رقاصہ کتھک ڈانس کی پرفارمنس کر رہی تھی وہ رقاصہ نہیں قیامت تھی۔ ایسی قیامت جو اپنی حشر سامانیوں سے بھی واقف تھی۔ اس کی آنکھیں، اس کے ہونٹ، اس کی ناک، اس کے جسم کا لوچ، اس کی ایک ایک ادا حشر ساماں تھی اور اسٹیج پر کتھک کے نرت بھاؤ پیش کرتے ہوئے اس نے سامنے ہال میں بیٹھے حاضرین کو جیسے باندھ کر رکھ دیا تھا۔ یوں جیسے وہ کسی ہپناٹسٹ کے ٹرانس میں آئے ہوئے اسٹیج پر اس کی ہر جنبش ہر حرکت کی پیروی کر رہے تھے۔ وہ آگ لگانے آئی تھی اور وہ آگ لگا رہی تھی اور وہ اسی کام کے لیے جانی جاتی تھی مگر اس شام وہاں بیٹھے جلنے والے پروانوں میں طہٰ عبدالعلی کا پورا وجود دل سمیت کسی ریشم کے کوکون کی طرح لپٹا لپٹایا حسنِ جہاں کا کردیا تھا۔ وہ اس کی خوب صورتی، رقص، جسم پتا نہیں کس چیز کی زد میں آکر گردش میں آیا تھا۔
اور حسنِ جہاں کو اسٹیج پر تھرکتے نہ طہٰ عبدالعلی کا پتا تھا نہ پروا۔ وہ اسی کی دہائی کی پاکستان کی سب سے بہترین رقاصہ و اداکارہ تھی۔ حکومت پاکستان کے ایک ثقافتی طائفے کا حصہ بن کر اس فیسٹیول میں آئی تھی اور اسٹیج پرفارم کر کے میلہ لوٹنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
بیک اسٹیج پر کھڑا سلطان قربان جانے والی نظروں سے اسٹیج پر اپنی ”ملکہ” کا ”راج” دیکھ رہا تھا اور اس راج کے نتیجے میں سامنے بیٹھے حاضرین کی ”غلامی” بھی اور یہ سلطان کے لیے بھی روز کا معمول تھا۔ حسنِ جہاں یہ نہ کرتی تو کون کرتا۔ کوئی تھا ہی نہیں اس کے سامنے ٹھہرنے والا۔
وہ رقص کرتے ہوئے رکی تھی اور جیسے اس نے کائنات کی جنبش کو لگامیں ڈال دی تھیں۔ ہال اب تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ ایک، دو، تین، چار اور پھر تالیوں کا سیلاب۔ حسنِ جہاں اپنی دلنشین مسکراہٹ اور دلربا انداز کے ساتھ جھک کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اب بیک اسٹیج آرہی تھی اور تب سلطان سے اس کی آنکھیں ملی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔
”سب کے چراغ بجھا آئی ہیں آپ۔” سلطان نے اس کے قریب آتے ہی کہا۔ وہ جواباً ہنسی۔
”مجھے لگا، تم کہو گے کہ آگ لگا آئی ہیں۔ آگ بجھانے کا کام تو کیا ہی نہیں کبھی حسنِ جہاں نے۔” اس نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے بے حد معنی خیز انداز میں کہا تھا۔
”کیا واروں میں؟” سلطان نے بے اختیار اس کی بلائیں لیں۔ اس کا پھولے ہوئے سانس سے ہو جانے والا سرخ چہرہ اور سرخ لباس اس وقت ہم رنگ تھے۔ سرتاپا شعلہ جوالہ۔
”اپنا آپ۔” حسنِ جہاں نے ساتھ چلتے ہوئے جیسے اسے چھیڑا۔
”وہ تو کب کا وار دیا۔” سلطان نے بے ساختہ اس کے عقب میں چلتے ہوئے اناؤنسمنٹ کے اس شور میں کہا جواب اگلے پرفارمر کو متعارف کروانے کے لیے کی جا رہی تھی۔
وہ وہاں حسنِ جہاں کی پہلی پرفارمنس تھی اور اگلے دن اسے دوسری پرفارمنس دینی تھی اور اس کے بعد تین چار دن کے وقفے کے بعد تیسری پرفارمنس اور پھر وہ پاکستان لوٹ جاتے مگر اس دن سلطان کی پرفارمنس کے دوران آنکھ پھڑکنے لگی تھی اور اس کی آنکھ جب پھڑکتی تھی حسنِ جہاں کو نظر لگتی تھی اور کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہوتا اس کی پرفارمنس کے درمیان مگر اس دن سلطان کے متفکر ہونے اور آنکھ کے مسلسل پھڑکنے کے باوجود کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ اب وہ پرفارمنس ختم کر کے واپس آئی تھی تو جیسے سلطان کو قرار آیا تھا۔
”شاید وہم ہی کرتا رہتا ہوں میں۔” حسنِ جہاں کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جاتے ہوئے سلطان نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹک دیا۔ نظر حسنِ جہاں کو بہت بار لگی تھی مگر ”نظر” میں وہ پہلی بار آئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ رات کے پچھلے پہر اس کے کمرے میں اسے کافی دینے آئے تھے۔ وہ اس پہر پینٹ کر رہا ہوتا تھا یا رقص اور یہی وقت عبدالعلی کے کام کا بھی تھا۔
دروازہ بجا کر وہ اندر داخل ہوئے تھے۔ طہٰ کمرے میں نہیں تھا مگر جو چیز انہوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دیکھی تھی اس نے انہیں لرزا دیا تھا۔ ایزل پر دھرے کینوس میں ایک ناچتی ہوئی عورت کا وجود۔ اس کاسرخ ہوا میں لہراتا ہوا فراک اور اس کے جسم کے نشیب و فراز۔ وہ جیسے اسٹیج سے پرفارم کرتے ہوئے سیدھا اس کینوس پر اتر آئی تھی۔ عبدالعلی کو یقین نہیں آیا تھا کہ وہ طہٰ کا کینوس تھا، انہیں لگا وہ غلطی سے کسی اور کا کینوس اٹھالایا ہو گا۔ وہ کانپتے ہوئے آگے بڑھے تھے اور انہوں نے اس کینوس کے بالمقابل وہ دوسرا کینوس بھی دیکھ لیا تھا جس پر اس کی وہ ”اللہ نور السموات والارض” والی خطاطی اب بھی نامکمل تھی وہیں تھی جہاں وہ دو راتیں پہلے تھی اور اس دوسرے کینوس پر بنے ہوئے وجود میں لگے ہوئے سارے رنگ ابھی گیلے اور تازہ تھے۔ روشنی میں چمک رہے تھے یوں جیسے وہ ابھی ابھی ہی پینٹ کرتے ہوئے اٹھ کر گیا تھا۔ وہ طہٰ عبدالعلی ہی کا پینٹ تھا اسی کے اسٹرک تھے اسی کا کام تھا۔ مگر اس آیت کو پینٹ کرتے کرتے وہ اس عورت کے جسم کو اس کینوس پر کس طرح لے آیا تھا، عبدالعلی کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”بابا۔” کھٹکے کی آواز پر وہ پلٹے تھے۔ طہٰ کمرے میں آیا تھا اور باپ کو وہاں کھڑے دیکھ کر یقینا اس کے پیروں کے نیچے سے زمین ویسے ہی سرکی ہو گی جیسے اس تصویر کو دیکھ کر عبدالعلی کے پیروں کے نیچے سے۔
”تم اللہ کی صناعی کرتے ہوئے کس کا حسن پینٹ کرنے بیٹھ گئے طہٰ؟”
ان کی آواز اور سوال میں جو جلال تھا۔ وہ طہٰ عبدالعلی کے لیے نیا تھا۔ باپ کا غصہ تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اور اب دیکھا تھا تو گنگ ہو گیا تھا۔
”یہ تمہارا شاہکار ہوتا۔ اللہ نور السموات والارض۔ یہ نہیں۔” انہوں نے باری باری دونوں کینوسوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ بے حد غضب ناک انداز میں۔
”تم اللہ کی آیت کی خطاطی کرتے کرتے اسے ادھورا چھوڑ کر اس عورت کا جسم اور چہرہ بنانے بیٹھ گئے۔” ان کی آواز میں اب غم تھا۔ اس خاندان میں پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی خطاط کسی عورت کو پینٹ کرنے لگے اور وہ بھی انہی کا بیٹا۔
”غلطی ہو گئی بابا۔” طہٰ نے بے ساختہ اُن سے کہا۔ عبدالعلی نے بات کاٹ دی۔
”گناہ کہتے ہیں اسے۔ غلطی نہیں۔”
”طہٰ! ہم خطاطوں کے قبیلے سے ہیں۔ وہ بھی اس خطاطی سے جو قرآن پاک کے نسخے لکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ محقق والے ہیں ہم۔ ہمارے یہ ہاتھ، ان کا ہنر امانت ہے اللہ کی اور اللہ اپنی امانت میں خیانت برداشت نہیں کرتا۔” وہ اب نرم پڑتے ہوئے اسے سمجھا رہے تھے۔
”کون ہے یہ؟” انہوں نے اس سے پوچھا۔
”حسنِ جہاں۔” طہٰ نے بے اختیار کہا۔ عبدالعلی تضحیک آمیز انداز میں ہنسے۔
”کچھ بھی نہیں ہے حسنِ جہاں۔ چہرہ ہے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔ جسم ہے۔ جسم ڈھل جاتے ہیں۔ جو فنا ہو جائے وہ کہاں کی حسنِ جہاں۔” وہ اس سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے تھے۔ بہت بڑی غلطی تھی جو ان کے بیٹے نے کی تھی۔
مگر عبدالعلی کو یقین تھا وہ پہلی اور آخری غلطی تھی کیوں کہ وہ پچھتا رہا تھا یا کم از کم انہیں یہی لگا تھا۔
ان کا اندازہ غلط تھا کہ انہوں نے حسن جہاں کی حقیقت بتا دی تھی طہٰ کو۔ وہ حسنِ جہاں کا عشق تھا گمراہ کیے بغیر کیے ختم ہوتا۔
٭…٭…٭
وہ ناشتے کی میز پر اخبار لیے بیٹھے تھے۔ صفحے پلٹتے ان کی نظر اس کلچرل فیسٹیول کے حوالے سے فیچر پر گئی تھی جس میں طہٰ پرفارم کر رہا تھا اور وہ خبر نہیں تھی جس پر وہ رکے تھے۔ وہ طہٰ کے ساتھ ایک رقص کرتی لڑکی کی تصویر تھی جس پر وہ ٹھہر گئے تھے۔ ان دونوں کی بہت بڑی بڑی تصاویر برابر میں لگی ہوئی تھیں اور عبدالعلی نے ایک نظر میں ہی حسن جہاں کا چہرہ پہچان لیا تھا۔ وہ وہی چہرہ تھا جو اس کینوس پر پہلی بار ان کے بیٹے نے بنایا تھا۔
”السلام علیکم بابا۔ اخبار میں میری پرفارمنس کے بارے میں خبر آئی۔” طہٰ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھ رہا تھا اور ساتھ ان سے پوچھ رہا تھا۔
عبدالعلی نے کچھ کہے بغیر اخبار کا وہ صفحہ اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔ طہٰ نے اخبار کے اس صفحے پر ان تصویروں پر نظر ڈالی پھر باپ کو دیکھا۔
”یہی ہے حسنِ جہاں؟” عبدالعلی چائے کپ میں اُنڈیلتے ہوئے اس سے پوچھ رہے تھے۔ طہٰ نے سر ہلایا۔
”تم روز مل رہے ہو اُس سے؟” عبدالعلی نے عجیب انداز میں پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔ لمبی خاموشی کے بعد اس نے باپ سے کہا۔
”بابا! میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” انہیں لگا، وہ ان سے مذاق کر رہا تھا۔ سات دن کے اس فیسٹیول کا یہ نتیجہ کیسے ہو سکتا تھا۔
”وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔” اس نے جیسے باپ کو یقین دلانے کی کوشش کی۔
”اس اچھی لڑکی کی وجہ سے پہلی بار تم نے کینوس پر عورت کا جسم پینٹ کیا۔ یہ اچھائی ہے اُس کی۔” عبدالعلی کے لہجے میں تحقیر تھی۔
”آپ ایک بار حسنِ جہاں سے ملیں، آپ کا دل بدل جائے گا۔” عبدالعلی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”نہیں بدلے گا لیکن تم اگر اس سے شادی کر لو گے تو تم بدل جاؤ گے۔ تم پہلے ہی بدل گئے ہو۔”
”نہیں بابا! میں نہیں بدلا۔ میں آج بھی وہی طہٰ ہوں۔ وہی خطاط۔”
”وہی خطاط رہو گے نہیں طہٰ۔ اسے چھوڑ دو۔ تم اس کے لیے نہیں بنے۔”
”بابا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔”
”میں کہوں تب بھی نہیں؟” عبدالعلی کو جھٹکا لگا تھا۔
”مجھ سے یہ سوال نہ کریں۔ مشکل میں نہ ڈالیں مجھے۔” وہ گڑگڑایا تھا۔
”مشکل ہے یا آسانی، تمہیں باپ اور حسنِ جہاں میں سے کسی ایک کو چُننا ہے۔” وہ ناشتہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”بابا۔” طہٰ نے انہیں پکارا۔ وہ نہیں رُکے۔ دل پارہ پارہ کر دیا تھا اس نے اُن کا۔ یہ آزمائش کیوں آن کھڑی ہوئی تھی ان کے سامنے۔ عبدالعلی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
اس رات وہ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر روتے رہے۔
”اے میرے رب! مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالنا۔ صدیوں سے میرا خاندان تیری کبریائی بیان کرنے والوں میں سے رہا ہے۔ یہی پہچان ہے ہماری۔ اس سلسلے کو ختم نہ کرنا۔ اے میرے رب! طہٰ کے دل سے حسنِ جہاں کو نکال دے۔ وہ سات دن میں اس کے دل پر قابض ہوئی ہے تو چاہے تو سات سانسوں میں اسے اس کے دل سے نکال دے۔ طہٰ عبدالعلی کے ہنر کو صرف اپنے لیے رکھ۔ اس کے دل سے دنیا نکال دے۔ حسنِ جہاں بھی نکال دے۔”
وہ روتے گڑگڑاتے رہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا۔ حسنِ جہاں ان سے طہٰ نہیں چھینے گی، وہ طہٰ سے وہ ہنر چھین لے گی جو ان کے خاندانوں کا نسلوں سے اثاثہ تھا۔ جو عورت اسے آیات کی خطاطی سے اپنی تصویروں پر لے آئی تھی۔ وہ اور کیا نہ کرتی۔ حسنِ جہاں کے لیے اس لمحہ ان کے دل کا میل صرف اسی وجہ سے تھا۔ بعد میں وہ اور وجہ سے بڑھا تھا۔
٭…٭…٭
سفید چادر میں سر تاپا چھپا طہٰ کے ساتھ اس شام ان کے گھر کی دہلیز پر کون کھڑا تھا۔ وہ عبدالعلی بغیر بتائے بھی جان گئے تھے۔ وہ جس آزمائش سے بچنے کے لیے رات بھر روتے رہے تھے۔ وہ اگلے دن چل کر ان کے گھر آگئی تھی۔ طہٰ ان کے گھر اسے یوں لایا تھا جیسے وہ گھر عبدالعلی کا نہیں حسن جہاں کا تھا۔ ہاتھ پکڑ کر ملکہ کی طرح اور عبدالعلی اندر اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ زندگی میں انہیں ایسا غصہ کبھی نہیں آیا تھا۔
”بابا! یہ حسنِ جہاں ہے۔ آپ سے ملنا چاہتی تھی۔” طہٰ اسے بڑے کمرے میں ہی چھوڑ کر اندر ان کے کمرے میں آیا تھا۔
”تم کیوں لائے ہو اسے یہاں؟ تم مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کہ تم نے باپ اور حسنِ جہاں میں سے حسنِ جہاں کا انتخاب کر لیا؟”
وہ اس پر برس پڑے تھے۔ سفید چادر میں لپٹی حسنِ جہاں کا چہرہ بھی سفید پڑا تھا۔ کھلے دروازے سے وہ اس کمرے میں کھڑے رہ کر بھی دوسرے کمرے میں موجود ان دونوں کو دیکھ اور سن رہی تھی۔
”ساری زندگی آپ نے کبھی مجھ سے اس طرح بات نہیں کی۔ اب کیوں کر رہے ہیں بابا؟ ایسا کیا کر بیٹھا ہوں میں؟” طہٰ نے تڑپ کر باپ سے کہا تھا۔
”تم نے میرے خاندان کے اثاثے اور اگلی نسل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ تمہارے ہاتھ اب اللہ کا نام نہیں لکھیں گے اس عورت کی خوب صورتی پینٹ کریں گے۔ وہ شیطان ہے، تمہیں ورغلانے آئی ہے تمہیں گمراہ کر کے یہاں سے لے جائے گی۔” عبدالعلی نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ حسنِ جہاں کھڑے کھڑے ریت بنی تھی۔
”وہ حسن جہاں ہے۔ اُسے اللہ میری طرف لایا ہے۔ اللہ نے اسے یہاں بسایا ہے۔” طہٰ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے عبدالعلی سے کہا تھا۔
”یہاں نفس ہے، اللہ نہیں ہے۔” عبدالعلی نے اس کے سینے پر ہاتھ لگاتے ہوئے تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
”جو چاہے کہہ لیں۔” وہ ویسا ہی کھڑا رہا تھا۔
”پتا ہے کیا پینٹ کرتے تھے؟کیا بنانے لگے ہو؟ ایک عورت کا چہرہ، جسم، آنکھیں، ہونٹ۔ ہمارے خاندان کی سات نسلوں میں اللہ کے جمال کے علاوہ کسی اور کے جمال کی بات نہیں کی کسی نے۔ اور تم طہٰ… تم کہاں سے کہاں آگئے؟ابھی بھی وقت ہے پلٹ آؤ۔ نہ جاؤ اُدھر گمراہی ہے۔” وہ اب اسے سمجھانے کی آخری کوشش کر رہے تھے۔
”وہاں محبت ہے گمراہی نہیں۔” اس نے اصرار کیا تھا۔
”فریب ہے۔” عبدالعلی نے کہا۔
”اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا مجھے۔”
”تو پھر اندھا کر لو اپنے آپ کو۔” وہ بے رحمی سے بولے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});