عبدالعلی کیاری میں ایک چھوٹا سا پودا لگا رہے تھے۔ اتنے انہماک اور احتیاط سے کہ انہیں قلبِ مومن کے آنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ وہ ان کے عقب میں کھڑا ان ننھے ننھے پودوں کو دیکھتا رہا جو انہوں نے کیاری میں لگائے ہوئے تھے۔ کیلی گرافی ان کی پہلی محبت تھی، باغبانی دوسری۔
”اس بار آپ کو میرے آنے کا پتا نہیں چلا۔” بہت دیر خاموشی سے انہیں دیکھتے رہنے کے بعد قلب مومن نے مدھم آواز میں کہا تھا۔ وہ بری طرح ہڑبڑا کر پلٹے تھے اور پھر جیسے اسے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
”دروازہ کھلا تھا کیا؟” وہ اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔
”آپ کا دروازہ تو ہمیشہ ہی کھلا رہتا ہے۔”
مومن نے جواباً مسکراتے ہوئے ان سے الگ ہو کر کہا تھا۔ وہ عجیب سی خوشی سے ہنسے۔
”ہاں، اس بار مجھے تمہارے آنے کا علم نہیں ہو سکا۔ تم ترکی میں شوٹنگ کرنے آئے ہو؟”
انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔ وہ جیسے اسے سامنے دیکھ کر باغبانی بھول گئے تھے۔
”نہیں۔ لیٹرباکس ملا تھا اپنے خط پڑھ کر آپ سے ملنے آیا ہوں۔”
اس نے جواباً دادا سے کہا تھا۔ عبدالعلی نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”میں اب سارا سامان سنبھالتے سنبھالتے تھکنے لگا ہوں، سوچا جو جس کا اثاثہ ہے، اسے سونپ دوں۔ بہت کچھ اور بھی ہے جو تمہیں سونپنا ہے۔”
انہوں نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا تھا۔ قلبِ مومن کا چہرہ انہیں کچھ عجیب لگا تھا، کچھ بدلا ہوا تھا ان نقش و نگار میں۔
”آپ سے جس فلم کا وعدہ کیا تھا، وہ فلم اناؤنس کر آیا ہوں۔” مومن نے انہیں بتایا۔
”مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔” وہ حیران ہوئے۔
وہ دادا کے جملے پر خفا نہیں ہوا تھا، مسکرا دیا تھا۔
”مجھ سے آپ کی توقعات نہ ہونے کے برابر ہیں بس۔ آپ ٹھیک کہتے تھے دادا۔”
اس نے عجیب اعترافی سے انداز میں کہا۔
”کیا؟” عبدالعلی حیران ہوئے۔
”مجھے اللہ اور اس کے تعلق کے بارے میں کچھ پتا ہے نہ ہی میں روحانیت کو سمجھتا ہوں۔ کیا مسئلہ ہو گیا ہے میرے ساتھ۔ آپ کی باتیں میرے ذہن سے نکلتی نہیں ہیں۔ آپ نے کبھی مجھ سے ایسی باتیں نہیں کی تھیں جیسی اب کرنے لگے تھے۔ کیوں دادا؟”
وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔
”میری غلطی تھی۔” عبدالعلی نے جیسے اپنی ندامت کا اظہار کیا۔
”آپ کو پتا ہے اللہ سے میرا تعلق کب ٹوٹا؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس نے رنج کے عالم میں دادا سے کہا تھا۔ ”جب مجھے یہ پتا چلا کہ اللہ معاف نہیں کرتا، جواب نہیں دیتا۔ میں اتنے خط لکھتا تھا اللہ کو، اتنے خط۔ اتنے خط۔ کچھ بدلا ہی نہیں میری زندگی میں۔ سب کچھ برے سے برا ہوتا گیا۔”
وہ رنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”وہ رب تھا اسے قلبِ مومن کی کچھ تو پروا کرنی چاہیے تھی، ایک انسان کی غلطی تھی اور ہم سب تباہ ہو گئے۔” وہ غم سے کہہ رہا تھا۔
”اللہ معاف کرتا ہے مومن! ہم انسان نہیں کرتے۔ یہ سارے گڑھے جس میں ہم گرتے ہیں، یہ اللہ نے نہیں کھودے، ہمارے کھودے ہوئے ہیں۔ اللہ تو عجیب پر پردہ ڈالنے والا ہے، بخشنے والا ہے۔ اس کی سب سے بڑی صفت ہی بندے سے اس کی محبت ہے۔” عبدالعلی اسے سمجھا رہے تھے۔
”پھر میری ماں کو کیوں معاف نہیں کیا اللہ نے؟ میں نے تڑپتے ہوئے دیکھا انہیں۔ معافی مانگتے دیکھا، کیوں اللہ نے میرے باپ کے دل میں رحم نہیں ڈالا میری ماں کے لیے۔ کیا اتنا بڑا گناہ تھا وہ جس کی سزا ہم تینوں نے کاٹی۔” وہ عجیب تکلیف کے عالم میں کہہ رہا تھا۔
”جانتا ہوں تمہاری ماں گناہ گار نہیں تھی۔ تمہیں پتا ہے معاف کس نے نہیں کیا تھا؟ میں نے۔ ضد باندھی تھی اور یہ ضد میری ہی اولاد کو کھا گئی۔ تم سب کی زندگیوں کو برباد کرنے والا میں تھا۔”
عبدالعلی نم آنکھوں کے ساتھ کہہ رہے تھے۔
”دادا۔”
مومن کی جیسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تھا وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کس طرف اشارہ تھا ان کا۔ عبدالعلی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کا ہاتھ تھامے وہ اسے عقبی لان سے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے تھے۔ اپنے کمرے میں لے جا کر انہوں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اپنی الماری کھول کر وہ لکڑی کی ایک مرصع صندوقچی نکال کر لائے تھے اور اسے ایک میز پر رکھ کر انہوں نے مومن سے کہا۔
”اسے کھولو۔”
مومن نے الجھے ہوئے انداز میں ان کا چہرہ دیکھا ان کے رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔ آگے بڑھ کر اس نے صندوقچی کا ڈھکن اٹھایا۔ وہ خطوں سے بھری ہوئی تھی اور ان لفافوں کے اوپر لکھا نام دیکھ کر قلب مومن کے دل کی حرکت جیسے ایک لمحہ کے لیے رکی تھی۔ وہ اس کے باپ کی لکھائی تھی اور ان کے نام تھی۔ وہ اتنے سالوں بعد بھی پہلی نظر میں اسے پہچان گیا تھا۔ وہ عبدالعلی کے نام لکھے ہوئے طہٰ کے خط تھے۔ ایک لفافہ اٹھا کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر اس نے عبدالعلی کو دیکھا پھر کھلے ہوئے اس لفافے کے اندر سے وہ خط نکالا۔ ایک چھوٹے سے کاغذ پر اس کے باپ کی لکھائی میں ایک مختصر سی تحریر تھی۔
بابا!
آج قلبِ مومن پیدا ہوا ہے۔ آپ کا پوتا، مجھے قلب ِمومن کے لیے معاف کر دیں۔
طہٰ
٭…٭…٭
”اتنا بڑا دھوکا کیا ہے فیصل نے ہمارے اور ہماری بیٹی کے ساتھ۔ اگر شادی نہیں کر سکتا تھا تو یہ سب ڈھونگ کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی۔”
ثریا روئے جا رہی تھی مگر سلطان گم صم بیٹھا تھا۔ وہ دونوں فیصل کے گھر کے دروازے سے ہی لوٹ آئے تھے۔ غم سے نڈھال۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ثریا وہ دوپٹہ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس پر مومنہ کے نکاح کے لیے خود کام بنا رہی تھی۔ سلمیٰ ستارہ اور گوٹا کناری کے ساتھ۔
”ابھی تو اچھے دنوں کا سوچا ہی تھا اور میری بیٹی تو۔”
سلطان نے مدھم آواز میں ثریا کی بات کاٹ دی تھی۔
”وہ جانتی ہے یہ سب ثریا۔ میرا دل کہتا ہے، وہ جانتی ہے۔”
ثریا اس کی بات پر جیسے روتے روتے چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”یہ کیسے ممکن ہے سلطان! کہ وہ یہ سب جانتی ہو اور ہم سے جھوٹ بولے۔” اسے یقین نہیں آیا۔ ”اور ہم سے چھپائے گی کیوں؟ اتنا بڑا غم کیوں جھیلے گی اکیلے۔”
سلطان نے عجیب سے انداز میں اس سے کہا۔ ”مومنہ ہے نا اس لیے۔”
٭…٭…٭
تھکن گہری تھی مگر نیند تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور خاموشی تھی کہ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اس سب کے بیچوں بیچ رات کے اس پچھلے پہر شوٹنگ سے واپسی پر مومنہ سلطان اپنے کمرے کے وسط میں قالین پر چوکڑی مارے بیٹھی تھی اور اس کے سامنے میک اپ کے سامان کا وہ پاؤچ تھا جس میں لپ پینسلز تھیں۔ ہوٹل کے اس کمرے میں پڑے ڈیسک پر موجود رائٹنگ پیڈ کے A4 کاغذ کو قالین پر رکھے میک اپ کی ان پینسلز کو بکھرائے وہ اس کاغذ پر خطاطی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ایک نام لکھ رہی تھی اور اس میں محو تھی۔ امریکا میں کام کے دباؤ، گھر سے دوری کی اداسی اور تنہائی کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے اس کے پاس یہ واحد علاج تھا جو وہ کر رہی تھی۔ میک اپ کے سامان سے خطاطی اور ڈرائنگ کرنا اس کی بچپن کی عادات میں شامل تھا اور وہ عادت اب تک چلی آرہی تھی۔
آج تنہائی کچھ سوا تھی اور دماغ جسم کے تھک کر ٹوٹنے کے باوجود سونے پر تیار نہیں تھا اور یہ کیفیت امریکا میں اس کی روٹین بن گئی تھی اور پھر وہ اسی طرح رنگ اپنے گرد بکھرائے اللہ کا کوئی نام لکھنے لگتی۔ آج اس نے امریکا میں ہی بالی ووڈ کی ایک اور فلم سائن کر لی تھی۔ ایک ورلڈ سینما فلم۔ اپنی ایجنٹ کے ساتھ کانٹریکٹ کیا تھا۔ ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں پبلک آگہی کی ایک مہم کے لیے اقوام متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور یہ سب اس کی پہلی فلم کی ریلیز اور شوٹنگ ختم ہونے سے پہلے ہو رہا تھا۔ اس کا اگلا پورا سال کام کے حوالے سے ٹائم لائنز میں بٹا ہوا تھا اور اس کے پاس فی الحال کچھ نیا سائن کرنے اور ڈیٹس دینے کے لیے وقت نہیں تھا۔ اس کے اکاؤنٹ میں اب پیسہ بغیر کسی جتن کے آنے لگا تھا اور ٹھہرنے لگا تھا اور اس سب کے بیچوں بیچ مومنہ سلطان خوشی سے محروم تھی۔ اس رات کاغذ پر ایک لپ پینسل سے اللہ کا نام لکھتے ہوئے اسے حسنِ جہاں یاد آئی تھی۔ وہ کئی بار اس کے پرس کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کے میک اپ کا سامان بھی اسی طرح کھول کر بیٹھ جاتی تھی جب سلطان اس کا میک اپ کر رہا ہوتا۔ سلطان اسے ٹوکتا اور حسنِ جہاں سلطان کو روک دیتی۔
اسے یاد آیا تھا۔ پہلی بار اس کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے نام کی خطاطی کروانے والی حسنِ جہاں ہی تھی۔ وہ اسی کا شوق تھا جو مومنہ سلطان کے اندر پنپنے لگا تھا اور وہ اس کے میک اپ کے سامان کے ساتھ خطاطی کرنا شروع ہوتی اور حسنِ جہاں ہنسنے لگتی۔ سلطان سے کہتی۔
”تمہاری بیٹی کس چیز سے کیا لکھ رہی ہے۔ کیا بنا رہی ہے۔”
”بے وقوف ہے۔”
سلطان مدافعانہ انداز میں کہتا اور اسے ڈانٹتا۔
”بے وقوف نہیں ہے سلطان! عقل مند ہے بس اللہ اسے نصیب والا کرے۔”
سلطان بے اختیار آمین کہتا۔
”اور اسے کبھی اداکارہ نہ بنائے۔”
حسنِ جہاں کہتی اور سلطان اس پر بھی آمین کہتا۔
وہ اس کم عمری میں بھی حسنِ جہاں کا چہرہ دیکھتی اسے جانچنے کی کوشش کرتی رہتی کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہہ رہی تھی۔ اور اب وہ اداکارہ کا نصیب لیے بیٹھی حسنِ جہاں کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کے ہر دوسرے جملے میں اس نے زوال کا لفظ سنا تھا اور اس نے ہمیشہ حیران ہو کر سوچا تھا کہ وہ زوال کیا چیز تھی جس سے اس کا باپ ڈرتا تھا اور جو حسنِ جہاں پر آگیا تھا اور اب جب وہ عروج کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ رہی تھی تو اسے پہلی بار کسی بازگشت کی طرح حسنِ جہاں کی کہی گئی بات یاد آئی تھی۔
”جھریاں نہیں زوال ہے سلطان۔ چہرے سے پہلے لوگوں کے دلوں اور آنکھوں میں آتا ہے۔”
یکدم مومنہ سلطان کو باپ کی بات یاد آئی تھی۔ فون اٹھا کر اس نے سلطان کو کال کی تھی، اس بات سے بے خبر کہ وہ اب وہ راز جانتے تھے جو وہ چھپائے پھر رہی تھی۔
”مومنہ کیسی ہو بیٹا؟”
پہلی گھنٹی کے بعد ہی سلطان نے فون اٹھا لیا تھا اور اس سے پوچھا تھا۔ کچھ دیر دونوں گھر، ثریا اور کام کے حوالے سے بات کرتے رہے۔ سلطان چاہنے کے باوجود اس سے فیصل کی بات نہیں کر سکا مگر اس کے لہجے میں اس نے فیصل کے حوالے سے کچھ کھوجنے کی کوشش ضرور کی تھی۔ وہاں کچھ نہیں تھا۔
”ابا! آپ نے مجھے کبھی حسنِ جہاں کے بارے میں نہیں بتایا۔”
چند لمحوں کی گفتگو کے بعد جب سلطان اس سے فیصل کے بارے میں پوچھنے کی ہمت پیدا کر رہا تھا، اس نے خلاف توقع حسنِ جہاں کا ذکر چھیڑ دیا تھا۔ وہ حیران ہوا تھا۔
”کیا نہیں بتایا مومنہ؟ سب کچھ تو بتایا ہے۔”
”صرف اس کے عروج کا بتایا ہے۔ زوال کا تو نہیں بتایا۔ کیسے آیا تھا زوال اس پر۔ کیوں آیا تھا؟” وہ کرید رہی تھی۔
”پیار مار گیا تھااسے۔ ورنہ حسنِ جہاں کے سامنے ٹھہرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا تھا۔”
سلطان نے ایک گہرا سانس لیا۔
”بے وفائی کی ہو گی۔ اس نے جس سے اس نے پیار کیا۔”
مومنہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”بے وفائی کرتا تو سہہ جاتی حسنِ جہاں۔ اس کی وفا نہیں سہہ سکی۔ بس غلطی کر بیٹھی ایک۔” اس نے آہ بھر کر کہا تھا۔
”کیا غلطی ابا؟” مومنہ نے پوچھا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});