”ایک بُری خبر ہے۔” دروازہ کھول کر اندر آتی ہوئی ٹینا نے کہا تھا۔ قلب مومن استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔
”ابھی کوئی بُری خبر باقی رہ گئی ہے؟” ٹینا کو اندازہ تھا اس کا اشارہ ان اخبارات اور میگزینز کی طرف تھا جنہوں نے یا تو اُس کی پریس کانفرنس کو اٹینڈ کرنے کے باوجود کوریج نہیں دی تھی اور اگر دی تھی تو مذاق اڑانے والے انداز میں۔
”ٹیلی فائن نے صنم کی اسپانسر شپ سے معذت کر لی ہے۔” ٹینا نے جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
”What?” قلبِ مومن کو جیسے کرنٹ ہی لگ گیا تھا۔
”احسن کے ساتھ اس کی فلم کی اسپانسر شپ کے لیے ڈیل سائن کر لی ہے انہوں نے۔” ٹینا نے جیسے ایک اور دھماکا کیا۔
”یہ کر کیسے سکتے ہیں وہ۔ میٹنگ کے لیے ٹائم لو اُن سے فوری طور پر۔” قلبِ مومن شدید پریشان ہوا تھا۔
”انہیں اگلے چھے مہینے میں کوئی بڑا پراجیکٹ کرنا تھا اور آپ نے صنم کو ہولڈ پر ڈال دیا تو برانڈ بیک آؤٹ کر گیا۔” ٹینا نے جیسے اسے برانڈ کے پیچھے ہٹنے کی وجہ بتائی۔
”کر تو رہا ہوں بڑا پراجیکٹ اسی ٹیم کے ساتھ۔ اس سے بڑی پروڈکشن۔” وہ بے حد پریشانی کے عالم میں بولا تھا۔
”وہ مذہب سے related کچھ نہیں کرنا چاہتے۔” ٹینا نے کہا۔
”مذہب؟ یہ روحانیت ہے مذہب کی بات نہیں ہے اور روحانیت تو یونیورسل تھیم ہے۔” وہ جیسے ٹینا کو ہی وہ وضاحتیں دینے لگا تھا جو اسے شاید برانڈ کو دینی چاہیے تھیں۔
”باس! اُن کے لیے مذہب اور روحانیت ایک ہی چیز ہے۔” ٹینا نے دوٹوک انداز میں اُس سے کہا۔
”کیا ایک ہی چیز؟” قلبِ مومن جھنجھلایا۔
”Fundamentalism۔۔۔ بنیاد پرستی۔” ٹینا نے صاف گوئی سے کہا۔ قلبِ مومن اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
”یہ سب میں نہیں کہہ رہی، ان کی ٹیم نے مجھ سے کہا ہے۔ انہیں مذہب اور روحانیت کے قریب سے بھی نہیں گزرنا۔ وہ اس سے بچنا چاہتے ہیں یہtaboo ہے اُن کے برانڈ کے لیے۔” وہ اسے پھر سمجھانے لگی تھی۔
”آپ دس میٹنگز کر لیں ان کے ساتھ، انہیں فرق نہیں پڑے گا۔ وہ بہت کلیئر ہیں اس معاملے میں۔ کارپوریٹ ورلڈ ہے یہ اور آپ کو پتا ہے کیسے چلتا ہے یہ۔ اسی لیے آپ سے کہہ رہی تھی یہ رسک نہ لیں۔ بہت بڑا رسک ہے۔”
”قلبِ مومن لے سکتا ہے یہ رسک اور لے گا۔” وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔ کروڑوں کی ڈیل ڈوب جانے پر بھی اسی طرح تھا۔
”میرے پاس اسٹارز ہیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سپراسٹارز۔ کوئی بھی برانڈ آجائے گا میرے ساتھ۔ ٹیلی فائن جائے بھاڑ میں۔” وہ اب غضب ناک ہو رہا تھا۔ ٹینا کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے مدھم آواز میں اس سے کہا۔
”اُن اسٹارز سے ایک بار بات کر لیں آپ۔” قلبِ مومن نے نہ سمجھنے والے انداز میں اس کا چہرہ دیکھا۔
”کیا بات کر لوں؟” وہ واقعی ہی نہیں سمجھا تھا۔
”کہ کیا وہ فلم کریں گے بھی یا نہیں؟” ٹینا نے اپنے لہجے کو حتیٰ المقدور نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی اسے اب قلبِ مومن پر ترس آنے لگا تھا۔ وہ ایک ہی دن میں اس پر بری خبروں کا انبار نہیں لادنا چاہتی تھی لیکن شاید قلبِ مومن کے ستارے گردش میں آگئے تھے یا پھر وہ خود گردش میں آگیا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جان میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ پہلے صنم کو شوٹ کر لیتے ہیں جس پر اتنا کام کر کے رکھا ہے پھر اس فلم پر کام کر لیں گے۔ دیکھو نا ابھی تو پری پروڈکشن ہونی ہے اس فلم کی اور پتا نہیں کیا ہونا ہے۔ اسپریچوئل فلم بنانا آسان تھوڑی ہے۔” شیلی نے اپنے لہجے کو حتیٰ المقدور شہد بناتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ ٹینا نے شیلی کے اعتراضات قلبِ مومن کو پہنچا دیے تھے اور اب وہ اس سے مل رہا تھا۔
”ہو جائے گا سب کام۔ تم پریشان مت ہو۔ میں ان ہی ڈیٹس میں شوٹ کروں گا جن میں میں نے صنم کو شوٹ کرنا تھا۔ دیر ہوئی بھی تو چند ہفتوں کی ہو گی۔ مہینوں پر نہیں جائے گی بات۔” قلبِ مومن نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔
”لیکن صنم کو پہلے شوٹ کر لینے میں اعتراض کیا ہے تمہیں جان؟” شیلی اس کی تسلی سے جیسے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے شیلی۔ مجھے یہ فلم صنم سے پہلے شوٹ کرنی ہے۔ تمہیں کیوں اعتراض ہے اس پر؟” اس نے جواباً شیلی سے کہا تھا۔
”مجھے نہیں سب ہی کو اعتراض ہے۔ جان دیکھو بُرا مت ماننا لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ بیٹھے بٹھائے صنم کو ہولڈ پر کیوں ڈال دیا تم نے اور پھر ایک ایسی فلم کے لیے۔ جان اتنا عجیب تجربہ کیوں کر رہے ہو تم؟”
قلبِ مومن اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ شیلی تھی جو اس سے کسی فلم کے حوالے سے سوال تک نہیں کرتی تھی۔ اعتراض تو دور کی بات تھی، جو قلبِ مومن کی بنائی گئی ہر چیز میں مفت بھی کام کرنے پر تیار ہو جاتی تھی اور آج وہ اسے کہہ رہی تھی کہ وہ عجیب تجربے کرنے جا رہا تھا۔
”یہ صرف میرے اعتراض نہیں ہیں۔ عباس کو بھی بڑی شکایتیں ہیں تم سے۔” شیلی اس کی نظروں سے جیسے کچھ گڑبڑائی تھی اور اس نے کہا تھا۔
”عباس سے کہہ دینا کہ اسے زیادہ اعتراض ہے تو نہ کرے وہ کام اور تمہیں اعتراض ہے تو تم بھی سوچ لو۔” قلبِ مومن کی اب جیسے ہمت جواب دینے لگی تھی۔
”نہیں، وہ اسکرپٹ نہیں ہے اور کہانی کا کوئی آئیڈیا بھی نہیں ہے تو اس لیے کنفوژن ہے ورنہ یہ تو نہیں کہہ رہے کہ کام نہیں کریں گے جان۔” شیلی اس کے اکھڑے انداز پر یک دم گڑبڑائی تھی اور اس نے وضاحت دینے والے انداز میں ایک نیا جواز دینے کی کوشش کی۔ اس کے سامنے جیسے آگے کنواں، پیچھے کھائی والی صورت حال تھی۔ وہ قلبِ مومن کو خفا کرتی تو پھر صرف اس فلم سے نہیں قلب مومن کی آنے والی ہر فلم سے آؤٹ ہوتی۔
”اسکرپٹ پر بیٹھ رہا ہوں اس ہفتے بغیر اسکرپٹ کے فلم نہیں کرتا کوئی۔ اتنا الّو کا پٹھا نہیں ہوں میں۔’ قلبِ مومن نے اسی جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہا تھا۔
”اور جب تم روح کی بات کرو گے تو یہ سارے لوگ جنہیں تم دوست اور ساتھی کہتے ہو تمہیں چھوڑ جائیں گے۔” عبدالعلی کے جملے اسے پچھلے کئی دنوں سے تنگ کر رہے تھے۔
٭…٭…٭
”چل سلطان! فیصل کی طرف چلنا ہے آج۔” سلطان گھر میں داخل ہوا ہی تھا جب ثریا چادر لپیٹے ہوئے اندر کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔
”کس لیے؟” سلطان حیران ہوا تھا۔
”اتنے ہفتے ہو گئے، کوئی رابطہ نہیں ہوا میرا تو اب دل ہولنے لگا ہے۔” ثریا اسے اپنی پریشانی بتا رہی تھی۔
”مومنہ کہتی ہے، وہ ملک سے باہر ہے مگر آخر کتنے دن باہر رہنا ہے اس نے۔ آج جائیں گے اس کے گھر اور اس کی امی سے مل کر آئیں گے اگر فیصل نہ ملا تو بھی۔” ثریا نے دوٹوک انداز میں کہا تھا۔
”ہاں، یہ ٹھیک کہا تو نے لیکن مومنہ سے مشورہ نہ کر لیں پہلے۔” سلطان نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی لیکن پھر جیسے متامل ہوا۔ ”کوئی ضرورت نہیں اس کی۔ ہم ماں باپ ہیں، وہ ماں باپ نہیں ہے ہماری۔ چل رکشہ پکڑ۔ پتا ہے نا تمہارے پاس؟” ثریا نے اس کی بات پر زیادہ توجہ دینے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ بیرونی دروازے کی طرف چل دی تھی۔
”ہاں، وہ جس دن اپنی ماں کو لایا تھا تو دے کر گیا تھا۔ میرے پاس رکھا ہے۔ اندر سے لاتا ہوں۔” سلطان کو یک دم یاد آیا تو وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔
”ہاں اور دیکھ پھل اور مٹھائی بھی لینے ہیں راستے میں۔ پہلی بار ان کے گھر جا رہے ہیں۔” اس نے جاتے ہوئے سلطان کو ٹوکا۔
”ہاں ہاں وہ تو لیں گے۔ خالی ہاتھ تھوڑی جائیں گے بیٹی کے سسرال۔” سلطان نے ہنستے ہوئے کہا تھا اور اندر کمرے میں چلا گیا۔ چند منٹوں بعد وہ نمودار ہوا تو اس نے کپڑے تبدیل کر لیے تھے اور بڑے فاتحانہ انداز میں اس نے ایک کاغذ ہوا میں لہرایا تھا۔
”مل گیا اُس کا پتا۔” ثریا کا چہرہ بھی چمکا۔ ”اور دیکھو چائے پینے نہ بیٹھ جانا۔ وہ لوگ تو کھانے کے لیے بھی کہیں گے مگر ہم نے نہیں بیٹھنا۔ سمجھے۔” ثریا اب اس کے ساتھ بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے جیسے اسے سمجھا نہیں رٹوا رہی تھی۔
”ہاں ہاں، جانتا ہوں سب۔ بیٹی کا سسرال ہے۔ کہاں کچھ کھانے بیٹھوں گا۔ اتنا بھی کم عقل نہ سمجھ تو سلطان کو۔” سلطان نے اسے جیسے یقین دلایا تھا کہ وہ جانتا تھا کہ اسے وہاں کس طرح برتاؤ کرنا ہے۔
ایک رکشہ پکڑ کر ڈھیر ساری مٹھائی اور پھل لیتے ہوئے وہ ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت طے کر کے شہر کے دوسرے کونے میں جب فیصل کے گھر پہنچے تو شام ہو چکی تھی اور فیصل کا گھر برقی قمقموں سے روشن تھا۔ رکشے سے شاپر پکڑے اُترے ہوئے ثریا اور سلطان نے بڑی حیرت سے اس گھر کو دیکھا تھا جہاں یقینا اس وقت کوئی فنکشن ہو رہا تھا۔
”ایڈریس تو یہی بتایا تھا اس نے۔” سلطان نے کاغذ کے اس ٹکڑے پر ایڈریس دیکھا اور پھر نیم پلیٹ اور اس کے برابر میں لکھے ہوئے نمبر کو۔
”یہ گھر پر بتیاں کیوں لگی ہوئی ہیں؟” ثریا کچھ الجھی تھی۔
”کوئی پارٹی ہو رہی ہے شاید۔” سلطان نے اندازہ لگایا۔ ”غلط پتے پر نہ آگئے ہوں، پتا دوبارہ دیکھ۔ کوئی پارٹی ہوتی تو ہمیں کیوں نہ بلاتے وہ۔ رشتہ دار ہیں اب تو ہم۔” ثریا جیسے بے چین ہوئی تھی۔
”پوچھتا ہوں چوکیدار سے۔” سلطان نے آگے بڑھتے ہوئے گھر کے کھلے دروازے کے پاس کھڑے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ فیصل صاحب کا گھر ہے کیا؟” سلطان نے چوکیدار سے سلام دعا کے بعد کہا۔
”ہاں جی۔ آپ ان کی شادی میں شریک ہونے آئے ہیں؟” چوکیدار نے جواباً ان دونوں سے پچھا۔ سلطان اور ثریا نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ انہیں لگا انہیں سننے میں غلط فہمی ہوئی تھی۔
”فیصل کی شادی؟” سلطان نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں جی۔ آج مہندی ہے ان کی۔ آپ چلے جائیں اندر۔”
چوکیدار نے ہاتھ کا اشارہ اندر پورچ کی طرف کرتے ہوئے کہا تھا اور ثریا کے ہاتھ میں پکڑا سیبوں کا شاپر زمین پر گر گیا تھا۔ سلطان کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ فیصل کے گھر کے گیٹ کے باہر ماربل کے سفید فرش پر سرخ سیب ہر طرف لڑھک رہے تھے اور ثریا اور سلطان اس بقعہ نور بنے گھر کو حسرت سے دیکھ رہے تھے جو ان کی بیٹی کا نصیب تھا اور اب کسی اور کا نصیب ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
”ٹینا اور داؤد نے آپ لوگوں کو بتا تو دیا ہو گا کہ مجھے کس طرح کا سبجیکٹ چاہیے اس فلم کے لیے۔” قلبِ مومن نے ان تین نوجوان اسکرین پلے رائٹرز سے کہا تھا جو اس وقت اس کے آفس میں اُس کی فلم کے اسکرپٹ اور کہانی کے ون لائنرز ڈسکس کرنے کے لیے آئے بیٹھے تھے۔ وہ تینوں فلم انڈسٹری میں نئے نہیں تھے۔ مختلف فلمیں لکھ چکے تھے اور قلبِ مومن کا خیال تھا، ٹینا اور داؤد کی بریفنگ کے بعد وہ جب اس کے پاس اس سیشن کے لیے آئیں گے تو بہت سارے آئیڈیاز لے کر آئیں گے اور اب وہ ان آئیڈیاز کو سننا چاہتا تھا۔
”مجھے اصل میں کوئی ریفرنس چاہیے تھا۔” ان تین رائٹرز میں سے واحد لڑکی نے تمہید باندھتے ہوئے اپنی وضاحت دی۔
”کیسا ریفرنس؟” قلبِ مومن نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”کسی فلم، کسی کتاب کا ریفرنس۔ جس طرح کی کہانی آپ کو چاہیے۔” اس لڑکی نے مزید کہا۔
”بالکل یہ ہو جائے تو بڑی آسانی ہو جائے گی ہمیں۔” ایک دوسرے رائٹر نے بھی اس لڑکی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
”کچھ آئیڈیاز لائے تو ہیں ہم لیکن ریفرنس مل جائے تو زیادہ بہتر آئیڈیاز آسکتے ہیں۔” تیسرے رائٹر نے بھی پہلے دونوں رائٹرز کی بات کی تائید کی۔
”لیکن میں چاہوں گا کہ پہلے آپ لوگوں کے آئیڈیاز سنوں۔ سمجھ تو سکوں کہ آپ کس فارمیٹ پر سوچ رہے ہیں۔” مومن نے جواباً ان سے کہا تھا۔ کمرے میں اس وقت ان تین رائٹرز اور مومن کے ساتھ ٹینا اور داؤد بھی تھے جو اپنے لیپ ٹاپ کھولے اس اسٹوری ٹیلنگ سیزن کے منٹس لے رہے تھے۔
پہلے رائٹر نے مومن کی بات پر اپنا رائٹنگ پیڈ نکال لیا اور اسے کھولتے ہوئے اس نے اپنا آئیڈیا ڈسکس کرنا شروع کیا۔
”یہ ایک بڑی روحانی کہانی ہے۔” اس نے۔ تمہید باندھتے ہوئے باری باری مومن ٹینا اور داؤد کو داد طلب انداز میں دیکھا۔ وہ تینوں بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے۔
”ایک انتہائی روحانی اور اتنی ہی کمرشل کہانی۔” رائٹر نے اگلا ڈرامائی جملہ ادا کیا۔ ”طوائفوں کے ایک کوٹھے سے کہانی شروع ہوتی ہے۔ دو طوائفوں کا دل ایک سید گھرانے کے خوبرو گدی نشین پر۔” اس سے پہلے کہ وہ اپنا دوسرا جملہ مکمل کر پاتا قلبِ مومن نے بے حد سپاٹ لہجے میں اس کی بات کاٹ دی۔
”نیکسٹ آئیڈیا پلیز۔” رائٹر نے کچھ شرمندہ سا ہو کر صفحہ پلٹتے ہوئے کہا۔ ”اچھا میرا خیال تھا یہ آئیڈیا تو ضرور ہی پسند آئے گا آپ کو۔ لیکن چلیں، دوسرا سناتا ہوں۔” اس نے کہتے ہوئے کاغذ پر نظر دوڑائی اور پھر کہنا شروع کیا۔
”ایک مزار پر قوالی ہو رہی ہے اور وہاں ایک لڑکی اپنے محبوب کے لیے منت ماننے آتی ہے۔ اس لڑکی کا محبوب۔”
قلبِ مومن نے اسے ایک بار پھر ٹوکا۔ ”مجھے روحانی وجود اور روح پر فلم چاہیے۔ یہ روایتی کہانی نہیں چاہیے۔ مزار، قوالی، محبوب۔ اس میں روحانیت کہاں ہے؟” اس نے جیسے چیلنج کرنے والے انداز میں رائٹر سے کہا اور وہ جسے برا مان گیا۔
”سوری مومن صاحب اگر آپ بتا دیں کہ آپ کو بنیادی طور پر چاہیے کیا کہانی میں تو ہمیں بھی آسانی ہو جائے گی۔”
”بتا تو رہا ہوں کہ مجھے روحانیت چاہیے۔”
”اور روحانیت کیا ہے؟” اس بار اس رائٹر نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا۔ ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد مومن نے کہا۔
”مجھے اللہ سے تعلق کی کوئی کہانی چاہیے۔”
”اللہ سے تعلق کی وضاحت کر دیں تو ہمیں اور بھی آسانی ہو جائے گی۔” اس بار یہ بات کہنے والا دوسرا رائٹر تھا۔
”اللہ سے تعلق۔” مومن کہتے ہوئے گڑبڑایا۔
”ہاں، مطلب اللہ سے تعلق ہے کیا اور وہ کیا روحانیت ہے جو آپ اس کہانی میں چاہتے ہیں۔” اس رائٹر لڑکی کا سوال بالکل واضح تھا، اس کے باوجود وہ مومن صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”میں رائٹر نہیں ہوں، آپ رائٹر ہیں۔ آپ لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ڈائریکٹر کیا ڈیمانڈ کر رہا ہے۔” وہ کچھ جھنجھلا سا گیا تھا۔
”ڈائریکٹر کے پاس ہمیشہ ریفرنسز ہوتے ہیں جیسے آپ بھی ہمیں فلمز کا بتا کر سمجھاتے ہیں کہ مجھے فلاں فلم کا وہ والا کردار چاہیے یا حقیقی زندگی کا۔ تو ایسے ہی آپ ہمیں سمجھا دیں کہ روحانیت ہے کیا اور وہ کون سے کردار ہیں جن کی کہانی ہم لکھیں مگر اس سے بھی بڑا سوال ہے کہ اللہ سے تعلق ہے کیا؟” اسی رائٹر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});