”کیا مطلب ہے تمہارا؟ قلبِ مومن کے کیریئر کے سب سے بڑے پروجیکٹ میں کسی برانڈ کو دلچسپی نہیں ہے۔ ایکٹرز ناخوش ہیں۔ ڈیزائنر کام نہیں کرنا چاہتی۔” وہ بے حد تلخ ہوا تھا۔
”بکواس ہے یہ سب۔ میں خود بات کر لوں گا سب سے۔ میڈیا کو خریدا جا سکتا ہے، برانڈاز کو پروپوزلز اورpresentation بنا کر پروجیکٹ کی ویلیو سمجھائی جا سکتی ہے اور کاسٹ کو فلم چاہیے، پیسہ چاہیے۔ کام مل جائے گا۔ اُنہیں پھر اور کیا مسئلہ ہے؟” وہ ہتک آمیز انداز میں جیسے ان کی قابلیت پر سوال اٹھا رہا تھا۔
”مسئلہ روحانیت ہے مومن۔ ان سب لوگوں کو آپ سے روحانیت نہیں چاہیے۔” ٹینا نے اسے کچھ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا۔
”پھر کیا چاہیے مجھ سے؟” مومن کا چہرہ سرخ ہوا۔
”وہی چیز جس کے لیے آپ مشہور ہیں۔ گلیمر۔ انٹرٹینمنٹ۔ مختصر لفظوں میں مصالحہ۔” ٹینا نے کہا۔
”ان لوگوں کو ایک ہٹ فلم چاہیے اور مومن کی ہر فلم ہٹ ہوئی ہے اب تک۔ وہ جانتے نہیں کیا میرا calibre۔” وہ دوبارہ ٹینا پر برسا تھا۔
”انہیں کسی بھی مقام، calibre کے ڈائریکٹر سے روحانیت پر بنائی جانے والی کسی فلم میں دلچسپی نہیں ہے۔ کیونکر جو crowd سینما فلم دیکھنے جاتا ہے، وہ تفریح چاہتا ہے، تھرکنا چاہتا ہے، اچھا وقت گزارنا چاہتا ہے۔ انہیں کوئی فلسفہ نہیں چاہیے۔ سات سو کی ٹکٹ خریدکر انہیںsoul searching نہیں کرنی۔ آپ کیوں یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ آپ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی کامیابیوں کے ٹریک ریکارڈ کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فلم ہٹ نہیں ہو گی۔ کوئی نہیں جائے گا اسے دیکھنے۔” ٹینا بے حد جذباتی انداز میں کہتی چلی گئی تھی۔
”قلبِ مومن کی فلم فلاپ نہیں ہو سکتی۔ میں ہر ایک کو غلط ثابت کروں گا۔ جیسے ہمیشہ کرتا آیا ہوں۔” اس نے ٹینا کو مزید کچھ بولنے نہیں دیا تھا، وہ اٹھ کر اپنے آفس سے نکل گیا تھا۔
”مومن بھائی کو کسی سائیکولوجسٹ سے ملنے کی ضرورت ہے۔ تمہیں نہیں لگتا؟” داؤد نے اس کے باہر نکلتے ہی ٹینا سے کہا تھا۔
”ہاں اور عنقریب یہ ضرورت ہمیں بھی پیش آئے گی۔” ٹینا بڑبڑائی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
قلبِ مومن تقریباً آدھی رات کو اپنے اپارٹمنٹ میں گھسا تھا۔ وہ ایک برا دن تھا۔ ساری ہمت توڑ دینے والا دن لیکن ضد کو جیسے اور پکا کر دینے والا دن۔ وہ جتنے اچھے موڈ میں گھر سے نکلا تھا، اتنے ہی خراب موڈ میں واپس آیا تھا۔ لاؤنج کا ایل سی ڈی آن کرتے ہوئے وہ بے مقصد چینل سرفنگ کرنے لگا اس کی نظریں ہر چینل پر جیسے اپنی اس پریس کانفرنس اور فلم کی اناؤنسمنٹ کی کوریج کا کوئی کلپ دیکھنا چاہتی تھیں۔ کوئی تبصرہ۔ کوئی بریکنگ نیوز۔ کسی بھی لوکل چینل پر قلب مومن کے حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی۔ پرائم ٹائم نیوز ریوائنڈ کر کر کے دیکھنے کے باوجود بھی۔
قلبِ مومن نے پہلی بار اپنے آپ کو غیر اہم محسوس کیا، یہ آسانی سے جانے والا احساس نہیں تھا۔ اس نے زیرِلب کچھ گالیاں بکیں اور کن کو بکی تھیں وہ خود بھی نہیں جانتا تھا پھر وہ لوکل انٹرٹینمنٹ چینلز سے غیرملکی چینلز پر آگیا تھا اور تب ہی اس نے ایک انڈین چینل پر انٹرٹینمنٹ نیوز میں اسکرین پر مومنہ سلطان کا چہرہ دیکھا۔ نیوز اینکر اس کی ایک تصویر دکھاتے ہوئے اس کے حوالے سے خبر دے رہی تھی اور قلبِ مومن نے پلک جھپکنے میں مومنہ کا چہرہ پہچانا تھا۔
”ودیا بالن کی جگہ جس ایکٹریس کو کلف ہیکٹر کی اگلی فلم The Lost Cause میں کاسٹ کیا گیا ہے وہ کوئی انڈین ایکٹریس نہیں ہے، بلکہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ ہیں، مگر پاکستانی میڈیا کو مومنہ سلطان کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں مگر جہاں بالکل آخری سمے میں ودیا بالن نے پاکستان جانے سے انکار کر کے اس فلم کو کھویا، وہاں مومنہ سلطان کو ملنے جا رہا ہے ہالی ووڈ میں ان کا پہلا بڑا بریک۔ اب کیا وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا پاتی ہیں یا نہیں، یہ چند مہینے میں ہی فلم کے پہلے ٹریلر لانچ میں سامنے آجائے گا۔”
قلبِ مومن چینل بدل نہیں سکا، نیوز اینکر اب کوئی اور خبر پڑھ رہی تھی جبکہ وہ فون پر داؤد کو کال کر رہا تھا۔
”تم ایک ایکٹریس کو لائے تھے جس نے بہت بدتمیزی کی تھی میرے ساتھ۔ مومنہ سلطان ہی نام تھا نا اس کا؟” داؤد کی غنودگی بھری آواز سنتے ہی اس نے پوچھا تھا۔
”جی مومن بھائی۔ ہالی ووڈ فلم کرنے گئی ہوئی ہے وہ آج کل۔” وہ غنودگی کی کیفیت میں بھی قلبِ مومن کو جتائے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
”یہاں پر تو دوپٹہ بھی اتارنے پر تیار نہیں تھی۔ ہالی ووڈ کے لیے سارے اصول بدل گئے ہوں گے اس کے۔”
قلبِ مومن نے مذاق اڑانے والے انداز میں داؤد سے کہا تھا، یوں جیسے وہ متاثر نہیں ہوا تھا۔
”نہیں مومن بھائی! American born پاکستان کی گونگی بیوی کا رول کر رہی ہے جس کے شوہر پر دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگتا ہے اور وہ خودکشی کر لیتا ہے، تو پھر اس کی بیوی اس کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑتی ہے۔” داؤد نے بڑے مدافعانہ انداز میں اسے پورا رول سنایا یوں جیسے وہ اس کا دفاع کرنا چاہتا ہو۔
”کافی بکواس رول ہے۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا اور اس نے فون بند کر دیا۔
ریوائنڈ کر کے اس نے ایک بار پھر اسی چینل پر وہ خبر سنی تھی، اور عجیب سی بے چینی اورjealousy کا شکار ہوا تھا۔ شاید نہ ہوتا اگرآج ا س نے پہلے ہی یہ پریس کانفرنس نہ بھگتائی ہوتی۔ وہ بہت بڑے بینر کی فلم تھی جس کا حصہ بن کر وہ ہالی ووڈ میں موجود تھی اور قلب ِمومن اس شاک سے جیسے باہر نکلنا چاہتا تھا کہ شاید وہ واقعی ایک بڑے اسٹار کو دریافت کرنے کا سہرا اپنے سر نہیں سجا سکا۔
وہ اس وقت صرف یہی سوچنا چاہتا تھا کہ مومنہ سلطان ہالی ووڈ میں کام کرے گی، ایک اتفاقی چانس ملنے پر۔ اور بس۔
اتفاقات روز روز نہیں ہوتے اور نہ ہی مومنہ سلطان کے لیے ہوں گے۔
٭…٭…٭
مگر قلبِ مومن کی خواہش، توقع اور اندازے کم از کم مومنہ سلطان کے بارے میں بالکل غلط ثابت ہوئے تھے۔ وہ چند سینز کے لیے اس فلم کا حصہ بنی تھی اور پھر وہ چند سینز ودیا بالن کے اس رول میں تبدیل ہو گئے تھے جو فلم کے اہم کرداروں میں سے ایک تھا اگر مین لیڈ نہیں بھی تھا تو اور یہ سب کچھ اس کے امریکا پہنچنے کے چند دنوں کے اندر اندر ہوا تھا۔ اس سے فلم کی کاسٹنگ کے وقت دو رولز کے لیے آڈیشن لیا گیا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اسے اس دوسرے اہم رول کے لیے ذہن میں رکھ لیا گیا تھا، وہ فلم کے ڈائریکٹر کو آڈیشن میں بھی اس حد تک متاثر کر گئی تھی اور پھر ودیا بالن کے انکار نے جیسے اس کے لیے سب کچھ بے حد آسان کر دیا تھا۔ وہ سارے فائدے اور ساری اہمیت اور مراعات جو ودیابالن کو ملنے والی تھیں، وہ مومنہ سلطان کے حصے میں بیٹھے بٹھائے آگئی تھیں، خواہش کیے بغیر۔ اسنوکر کی میز پر اس گیند کی طرح جسے پلیئر پاکٹ نہ کر سکنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے اور پھر بھی وہ ایک اتفاقی ہٹ لگنے پر پاکٹ ہو کر اسے مقابلے کا فاتح بنا دیتی ہے۔
امریکا میں اپنے نئے کانٹریکٹ پر دستخط کرتے ہوئے وہ اس بار جذباتی نہیں ہوئی تھی۔ پچھلی بار اس کانٹریکٹ کو سائن کرتے ہوئے وہ ساتویں آسمان پر تھی کیوں کہ اسے جہانگیر کی زندگی دکھنے لگی تھی، اب ان پیپرز جو بھی لکھا ہوا تھا، وہ مومنہ سلطان کی اپنی زندگی کے لیے تھا۔ وہ سب کچھ خود اسے چن رہا تھا، وہ اسے نہیں۔
وہ فور سٹار سے فائیو سٹار ہوٹل میں منتقل کر دی گئی تھی، اس کے لیے گاڑی مختص ہو گئی تھی۔ شوٹنگ کے لیے اسے الگ وینٹی وین دے دی گئی تھی اس کے ساتھ اب ایک پوری ٹیم بھی جو اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔ کھانے پینے سے وارڈروب تک، میک اپ سے سکن کیئر اور فٹنس تک اور اس سب چکاچوند کے درمیان کبھی کبھار سین کرواتے ہوئے اس کے کانوں میں فیصل کے جملے گونجتے اور اسے پانی پانی کر دیتے۔
”تم ہاتھوں سے تھوڑا کما رہی ہو، تم تو اپنے چہرے اور جسم سے کما رہی ہو۔”
وہ کیمرہ کے سامنے کھڑے کھڑے اپنی لائنیں بھول جاتی۔ وہ لائنیں جو اسے اشاروں میں ادا کرنا تھیں، وہ بار بار ان سارے جملوں کو ذہن سے جھٹک کر بھول جانا چاہتی تھی۔ کچھ بھی یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی وہ اس گونج سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔
”کوئی بات نہیں۔ ایسے بھی سخت لفظ نہیں تھے۔” وہ بار بار دل پر مرہم رکھنے کے لیے دہراتی مگر ذہن ماننے کو تیار نہیں تھا۔ لفظ سخت نہیں تھے۔ ”کہنے والا” اہم تھا۔ اس کی زبان سے نکلنے پر وہ خنجر بنے تھے کوئی اور کہتا تو مومنہ دوسری تیسری بار سوچتی تک نہیں۔
اسے رد کر دینے کی دلیری دکھا دینے کے باوجود جو ہمت وہ اپنے اندر پیدا نہیں کر پائی تھی وہ ثریا اور سلطان کو اس رشتہ کے ختم کردینے کا انکشاف تھا۔
”تم نے فیصل کو امریکا جانے کا نہیں بتایا؟ وہ گھر آیا تھا۔” ثریا نے اس کے جانے کے دوسرے دن فیصل کے گھر آنے کی اطلاع امریکا پہنچنے پر گھر کی جانے والی پہلی کال پر ہی دے دی تھی۔
”بتایا تھا اماں! وہ بھول گیا ہو گا۔” اس نے ثریا کو ٹالا۔
”ایسے کیسے بھول گیا؟” ثریا کو یقین نہیں آیا۔
”بھولتا ہے وہ۔ بہت شروع سے ہی عادت ہے اس کی۔ اچھا پھر بعد میں فون کروں گی۔” اس نے کہتے ہوئے لائن کاٹ دی تھی۔
ثریا ماں تھی اور وہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ دو جملے اور بول کر چوروں کی طرح پکڑی جائے۔ وہ یہ انکشاف ان پر کرنے کے لیے چند دن انتظار کرنا چاہتی تھی مگر اب ہفتے گزر گئے تھے۔ وہ روز سلطان اور ثریا سے بات کرتی تھی۔ وہ روز فیصل کا ذکرکرتے اور وہ خاموشی سے سنتی رہتی، اس کے بھیجے ہوئے پیسوں سے اس کے جہیز کی تیاری کی پرجوش انداز میں سنائی جانے والی خبریں بھی اس کے بار بار منع کرنے کے باوجود اور پھر یہ گلے بھی کہ اس کے امریکا جانے کے بعد سے فیصل نے رابطہ کیا، نہ وہ سلطان اور ثریا کا فون اٹھاتا ہے اور وہ ہر بار ان دونوں سے جھوٹ بولتے ہوئے انہیں اس کی مصروفیت اور ٹورز کے قصے سنانے بیٹھ جاتی۔ وہ ہالی ووڈ میں اپنی اداکاری کی قابلیت پر کام کر رہی تھی، اتنی اداکاری تو وہ ماں باپ کے سامنے بھی کر ہی لیتی کہ وہ اس کی بات پر یقین کرتے۔
”تم سے رابطہ کرتا ہے نا؟”
ثریا ہر ایسے موضوع کا اختتام ایک ہی سوال پر کرتی اور وہ بے حد ڈھٹائی سے کہتی ”ہاں” اور ثریا کسی بچے کی طرح بہل کر مطمئن ہو جاتی۔
اور ایسی ہی کم ہمتی وہ اقصیٰ کے ساتھ فون پر رابطے میں دکھاتی۔ وہ اس سے بھی یہ کہہ نہیں پا رہی تھی کہ فیصل اور اس کے درمیان اب کچھ نہیں رہا۔ اقصیٰ فون پر فیصل کا ذکر چھیڑتی اور مومنہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے سوال گول کرتی رہتی۔
کچھ دن کے لیے اس کی زندگی میں ایک پریوں کی کہانی آئی تھی اور وہ اس سے نکل آنے کے بعد بھی خود سے جڑے ان سب لوگوں کی زندگی کو ویسا رکھنا چاہ رہی تھی کہ وہ یہ سمجھتے رہتے کہ اس کی زندگی میں اب سب اچھا تھا۔ سب ٹھیک تھا۔
اور اس سب کے دوران اسے براڈ وے سے اپنی انڈین ایجنٹ کے ذریعہ پہلی آفر آئی تھی۔ وہ تھیٹر آرٹسٹ نہیں تھی، نہ براڈ وے اس کا خواب تھا، مگر مومنہ سلطان جیسے اب ہر موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ وہ اتنا کام کرنا چاہتی تھی کہ اس کے پاس کچھ بھی سوچنے کے لیے وقت نہ ہوتا۔ مشین کی طرح۔
اس نے براڈ وے کا وہ ڈرامہ سائن کر لیا تھا جو امریکا میں بسنے والے کچھ انڈینز کے بارے میں تھا اور جس دن اس نے اس ڈرامے کے لیے کانٹریکٹ سائن کیا تھا اسی دن اسی انڈین چینل پر جس پر قلبِ مومن نے مومنہ سلطان کی پہلی فلم کے بارے میں خبر سنی تھی، اسے مومنہ سلطان کے براڈ وے پلے کے بارے میں بھی خبر مل گئی تھی۔
ہالی ووڈ کے ایک بڑے بینر کے ساتھ کی جانے والی فلم اتفاق ہو سکتی تھی لیکن براڈ وے اتفاق تھا تو مومنہ سلطان سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں تھا۔
قلبِ مومن نےLCD پر اس خبر کو دیکھنے کے بعد مومنہ سلطان کو سوشل میڈیا پر ڈھونڈنا شروع کیا تھا۔ وہ اب لاشعوری انداز میں اسے کھوج رہا تھا۔
٭…٭…٭
”ساری دُنیا کی لعنت پڑے گی اس پر، ناس پیٹا مردود۔ بالیں لے کر بھاگ گیا میری۔ کیسے پائی پائی جوڑ کر بنائی تھیں۔”
جھومر نے گلی کے تھڑے پر چوکڑی مارے بیٹھے زاروقطار روتے ہوئے کہا تھا۔ وہ تالیاں اور گالیاں بیک وقت دے رہا تھا۔ سلطان اس کے سامنے خاموش بیٹھا آدھ گھنٹے سے اس کے ساتھ ہونے والے دھوکے کے بارے میں سن رہا تھا جو اس کے کسی ”محبوب” نے اس کے ساتھ کیا تھا۔
”جھومر بڑی بدقسمت ہے محبت کے معاملے میں۔ اتنا حسن اور جوانی دے کے بھی اللہ آزما رہا ہے۔ بس کر دے میرے مالک! بس کر دے۔” وہ اب گلے میں پڑا رسی نما دوپٹہ پھیلا کر اللہ سے دہائیاں دینے لگا تھا۔
”جھومر! میرے لیے کوئی کام ڈھونڈ۔” اس کے رونے دھونے کے بیچ میں سلطان نے اسے ٹوک کر کہا تھا۔ جھومر نے روتے روتے جیسے چند لمحوں کا توقف کیا اور اس سے کہا۔
”ابھی تو کوئی فنکشن نہیں ہے میرے پاس سلطان بھائی! ملتا ہے کوئی فنکشن مجھے تو آتی ہوں تیرے پاس میک اپ کرانے ہائے میری بالیاں۔ ڈیڑھ تولے کی تھیں۔” اس نے سلطان کی بات کا جواب دینے کے بعد پھر سے دہائیاں دے کر رونا شروع کر دیا تھا۔
”نہیں جھومر! میک اپ کا کام نہیں۔ کوئی اور کام۔ سیلز مینی یا چوکیداری کا۔” سلطان نے اس بار کچھ جھجکتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”سیلز مینی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے سلطان بھائی! چوکیداری کے لیے بھاگنا پڑتا ہے تو دونوں کام نہیں کر سکتا اور وہ کام چھوڑنا کیوں چاہتا ہے جس سے اللہ تجھے رزق دے رہا ہے؟” جھومر نے حسب معمول اپنے رونے دھونے کے بیچ میں توقف کر کے اس سے سوال و جواب کیے۔
”وہ مومنہ کے سسرال والے بڑے امیر لوگ ہیں۔ ان لوگوں کو پسند نہیں ہے یہ کام۔ میں نے لڑکے سے وعدہ کیا تھا کہ یہ کام چھوڑ دوں گا۔ اب اتنے ہفتوں سے کوئی اور کام ڈھونڈ رہا ہوں اور کوئی کام نہیں مل رہا۔” سلطان نے اپنا مسئلہ بتایا۔ جھومر اپنا رونا دھونا بھول کر یک دم تڑپ اٹھا، تالی بجاتے ہوئے اس نے کہا۔
”کیوں لڑکے کی ماں بہنیں میک اپ نہیں کراتیں۔پارلروں میں جا کر۔ امیروں کی عورتیں۔ لڑکا نہیں جاتا پارلر۔ تو تُو کیوں وعدے کرتا پھر رہا ہے کام چھوڑنے کے۔ کام ہے تیرا سلطان بھائی! کام۔” جھومرنے کہا۔
”کر سکتا ہوں یہ ساری باتیں میں بھی جھومر! پر مومنہ کے لیے کر رہا ہوں سب کچھ۔ ایک ہی اولاد رہ گئی ہے میری۔ اب اس کا مستقبل میری اس قربانی سے سنورتا ہے تو سنور جائے۔ اس نے پہلے ہی بڑی قربانیاں دی ہیں ہمارے لیے۔” سلطان نے بے حد مدھم آواز میں اس سے کہا۔ جھومر کے غبارے سے مومنہ کے نام پر جیسے ہوا نکل گئی۔
”مومنہ باجی کے لیے کر رہا ہے تو پھر تو ٹھیک ہی ہے، پر وہ تو خود امریکا گئی ہوئی ہیں فلم کرنے۔ وہ چھوڑیں گی فلم؟” جھومر نے تجسس سے پوچھا تھا۔
”آخری فلم ہے یہ اس کی۔ بس پھر گھر بیٹھے گی ان شاء اللہ!” سلطان نے عجیب سی خوشی کے ساتھ کہا تھا۔
”آگے پیچھے نوکر پھریں گے اس کے، راج کرے گی۔” سلطان نے فخریہ انداز میں کہا۔
”تیرے دل کو کچھ نہیں ہو گا وہ ڈبہ ہمیشہ کے لیے بند کرتے جس پر حسنِ جہاں کی تصویر لگا رکھی ہے تُو نے سالوں سے۔”
جھومر نے اس کی بات سننے کے بعد اس سے بڑا ٹیڑھا سوال کیا تھا۔
سلطان ایک لمحے کے لیے چپ ہو گیا تھا۔
”دل کا کیا ہے جھومر۔ دل کو سمجھا لیتا ہے انسان۔ حسنِ جہاں گئی تو سمجھا لیا۔ جہانگیر گیا تو سمجھا لیا۔” سلطان نم آنکھوں کے ساتھ عجیب سے انداز میں ہنستے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});