مومن کا اسٹوڈیو ایک بار پھر شوبز کے لوگوں اور جرنلسٹس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مختلف چینلز کے کیمرہ مین اپنے کیمرے ایڈجسٹ کرنے میں مصروف تھے۔ ان سب کے درمیان مومن کمرے میں داخل ہوا تھا اور سب سے پہلے اس کی طرف لپک کر آنے والی شیلی تھی، جو آتے ہی اس کے گلے لگی تھی۔
”اوہ مومن! مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے اس دوسری فلم کا سن کر۔ اس فلم میں، میں ہی لیڈ کروں گی نا۔” اس نے الگ ہوتے ہوئے بے حد اٹھلاتے ہوئے مومن سے کہا تھا۔
”بالکل۔ وقت کی کمی کی وجہ سے کوئی اور آپشن ڈھونڈنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔” قلبِ مومن نے بھی اسی انداز میں جواب دیا تھا، مگر شیلی برا ماننے کے بجائے ہنسی تھی اور وہ ایک بار پھر مومن کے گلے لگی اور تب ہی مومن کی نظریں عباس پر پڑی تھیں جو اس کے قریب آچکا تھا۔
”بہت بہت مبارک ہو مومن بھائی! میرے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ایک ہی سال میں آپ کی دونوں فلموں میں ہیرو بننے کا موقع مل رہا ہے مجھے۔”
اس نے شیلی کے ہٹتے ہی بے حد جذباتی انداز میں کہتے ہوئے مومن کے گلے لگنا ضروری سمجھا تھا۔
”تم نے سب لوگوں کو سب کچھ ہی بتا دیا ہے، میرے اناؤنس کرنے کے لیے کیا رکھا ہے پھر؟” اس سے الگ ہوتے ہوئے مومن نے گردن موڑ کر ٹینا اور داؤد کو گھورتے ہوئے کہا تھا جو اس کے ساتھ چل رہے تھے، وہ جواباً مسکرا کر رہ گئے تھے۔
قلب مومن اب اسٹیج پر اپنی کرسی سنبھال کر مائیک کو ہاتھ سے ٹھیک کرتے ہوئے بات چیت کا آغاز کر چکا تھا۔
”اتنے شارٹ نوٹس پر آپ سب کا یہاں آنے کا شکریہ۔” اس نے ایک لمحہ کے لیے توقف کیا، اسٹوڈیو میں سرگوشیاں ہوئیں۔ کیمروں کی تیزلائٹس میں قلب مومن نے بالآخر وہ سرپرائز دیا جسے دینے کے لیے اس نے اس مجمع کو اکٹھا کیا تھا۔
”یہ فلم میری اب تک کی بنائی ہوئی فلمز سے بالکل مختلف اور منفرد ہو گی کیوں کہ اس کا سبجیکٹ بے حد منفرد ہے۔ سب سے زیادہ ہائی بجٹ بھی ہو گی کیوں کہ میں اسے یادگار بنانا چاہتا ہوں اور کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہتا۔ میری اس فلم کاsubject روحانیت ہے۔ Spirituality۔”
قلبِ مومن نے بے حد ڈرامائی انداز میں کہا اور اسٹوڈیو میں یک دم خاموشی چھائی تھی پھر اسٹوڈیو میں سرگوشیاں گونجنے لگیں۔
”مجھے پتا ہے، آپ لوگوں کو ایسا لگا ہو گا جیسے آپ لوگوں کو سننے میں غلطی ہوئی ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ میری یہ فلم واقعی ہی روحانیت کے بارے میں ہو گی۔”
قلب مومن نے جیسے وہاں ہونے والی سرگوشیوں اور چہروں کو پڑھا تھا اور بے حد سنجیدگی سے اس نے اپنی بات کی وضاحت کرنا شروع کی۔ اس سے دو نشستیں چھوڑ کر بیٹھی ہوئی شیلی نے ذرا سا جھک کر برابر بیٹھے ہوئے عباس کے کانوں میں سرگوشی کی۔
”یہ نشے میں ہے نا؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”سو فیصد نشے میں ہے۔ لگتا ہے کوئی نئی ڈرگ اسٹارٹ کی ہے مومن بھائی نے۔” عباس نے بے حد فکرمند انداز میں جواباً شیلی کے کانوں میں کہا۔
وہ دونوں اس بات چیت کے دوران سامنے اسٹوڈیو میں بیٹھے میڈیا انڈسٹری سے منسلک لوگوں کے تاثرات کو بھی دیکھ رہے تھے اور وہ تاثرات کوئی خوش کن نہیں تھے۔
”آج تک مجھ پر ہمیشہ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ میں اپنی فلمز میں ہمیشہ صرف عورت کا وجود پیش کرتا ہوں، میری ہر فلم صرف گلیمر اور ہیروئن کے جسم پر شروع ہو کر وہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ میں اس لیبل کو ختم کر دوں گا اپنی فلم میں اور میری ہیروئن نہ تو گلیمرس وارڈ روب پہنے گی، نہ ہی اس کے کوئی آئٹم نمبرز ہوں گے۔ وہ soul searching کرے گی۔ کچھ بڑے ایشوز کو ہائی لائٹ کرے گی۔”
قلب مومن کہہ رہا تھا اور شیلی کی آنکھیں جیسے کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔
”ہائے عباس میرا تو سر گھوم رہا ہے، یہ قلب مومن کیا کہہ رہا ہے؟ میرا کوئی ڈانس نہیں ہو گا۔ میں گلیمرس کپڑے نہیں پہنوں گی تو میں کروں گی کیا فلم میں؟” اس نے تقریباً روہانسی ہو کر عباس کے کانوں میں کہا۔
”Soul searching!” عباس نے جواباً مذاق اڑانے والے انداز میں اس کے کانوں میں کہا۔
سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے حاضرین اب کرسیوں پر پہلو بدلنے لگے تھے، یوں جیسے مومن کی باتیں ان کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ وہ قلب مومن سے وہ سننے وہاں نہیں آئے تھے، جو وہ سنا رہا تھا۔
”آپ میں سے کوئی بھی اگر اس حوالے سے مجھ سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو تو کر سکتا ہے۔” قلب مومن نے بالآخراس مختصر سی تمہید کے بعد سوال و جواب کے سیشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹھے بٹھائےspiritualityکے موضوع پر فلم اور وہ بھی ان سارے اسکینڈلز کے بعد جو پچھلے چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر آپ کے حوالے سے آتے رہے ہیں، تو کیا یہ فلم ان اسیکنڈلز کے بعد خراب ہوتے ہوئے آپ کے امیج کو بحال کرنے کی ایک کوشش سمجھی جائے؟”
پہلا سوال ہی پرنٹ میڈیا میں شوبز کو کور کرنے والے ایک تیز و طرار صحافی کی طرف سے آیا تھا اور پہلے سوال نے ہی قلب مومن کے سامنے بے یقینی اور بداعتمادی کے اس ”کے ٹو” کو دکھا دیا تھا جس کا سامنا اس فلم کی تکمیل کے مراحل میں اسے ہونے والا تھا۔ وہ صحافی اختر کی طرف سے شروع کی جانے والی قانونی کارروائی اور نیہا کی طرف سے منظر عام پر آنے والی تصویروں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
”مجھے اسکینڈلز کی پروا نہیں ہے اور سوشل میڈیا پر آنے والے دوچار اسکینڈلز کسی کو کروڑوں کی ایک فلم بنانے پر نہیں اُکساتے۔” قلبِ مومن نے بے حد روکھے انداز میں کہا تھا۔
”لیکنspirituality کے بارے میں آخر فلم بنانا کیوں چاہتے ہیں آپ۔ کیا آپ بھی بہت سے دوسرے مسلمان نوجوانوں کی طرحborn again والے مسلمان ہو گئے ہیں۔” اگلا سوال پہلے سے بھی تندوتیز تھا۔ قلب مومن نے ہنس کر جیسے اس سوال کی کاٹ کو کم کیا تھا۔
”نہیں نہیں born again مسلمان والا کوئی چکر نہیں ہے۔ میں آج بھی صرف نام کا مسلمان ہوں۔” اس کے جملے پر اسٹوڈیو میں ہلکے قہقہے ابھرے تھے۔
”اور فائنانس کون کرے گا اس فلم کو۔ یہ ہے سب سے بڑا سوال؟” ایک اور سوال آیا۔ قلب مومن نے بے حد اطمینان سے پہلی قطار میں بیٹھے ہوئے بہت سارے برانڈز کے برانڈز منیجرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ان میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپشنز بے شمار ہیں میرے پاس۔ میری پہلی فلم میں میرے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا تھا کہ اتنے سارے برانڈز تھے کہ میرے لیے یہ مشکل ہو رہی تھی کہ میں کس برانڈ کوon board لوں اور کس کو نہیں اور یہی صورت حال ہر بار کی طرح اس بار بھی ہو گی۔”
اس کی خوداعتمادی قابلِ رشک تھی اور ان برانڈ منیجرز کے مسکراتے ہوئے چہروں نے جیسے اس کو تقویت دی تھی۔ اگلے کچھ سوال۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی ان تصویریوں کے حوالے سے تھے جن کا جواب دینے سے قلبِ مومن نے معذرت کر لی تھی۔
پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی قلب مومن کا خیال تھا ہمیشہ کی طرح وہاں موجود جرنلسٹس اور میڈیا والے اسے گھیر لیں گے۔ کرید کرید کر اس سے اس فلم کے بارے میں پوچھیں گے۔ پہلی بار اس کے پاس کوئی نہیں آیا تھا، وہاں موجود لوگ اس ہائی ٹی پر فوکس کیے ہوئے تھے جس کا انتظار کیا گیا تھا۔ وہ اس کے اسٹیج چھوڑنے سے بھی پہلے ہی اپنی نشستوں سے اٹھ چکے تھے۔
”کسی کے ذہن میں ”روحانیت” یا روحانی وجود کے بارے میں کوئی سوال ہی نہیں ہے؟” قلبِ مومن کو جیسے ان کے رویے سے ایک جھٹکا سا لگا تھا۔ انہیں تجسس تھا تو یہ کہ وہ کیوں روحانیت پر فلم کر رہا تھا مگر کسی کو اس بات کی کرید نہیں تھی کہ وہ دکھانا کیا چاہ رہا تھا۔
قلبِ مومن کا خیال تھا جب وہ جرنلسٹس اور نیوز میڈیا کے نمائندوں کے گھیرے سے نکلے گا تو اس سے ان بڑے بڑے برانڈز کے نمائندے گھیر لیں گے جو اس کی دوسری فلم کی اناؤنسمنٹ کا سنتے ہی شہد کی مکھیوں کی طرح وہاں آئے تھے، یہ بھی نہیں ہوا تھا۔
پریس کانفرنس کے فوراً بعد اس کے لیے یہ دوسرا بڑا دھچکا تھا جب اس نے باری باری ان سب کو اسٹوڈیو سے نکلتے دیکھا اور ان میں سے زیادہ تر اس سے ملے بغیر گئے تھے، یوں جیسے چپکے سے اس کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتے تھے۔ قلبِ مومن نے پہلی بار خود ایک انٹرنیشنل برانڈ کے منیجر کو روک کر اس فلم کے حوالے سے فائنانسنگ کی بات شروع کیے۔
”صنم کب شروع کریں گے آپ؟” اس برانڈ منیجرنے جواباً اس سے کہا تھا۔
”اس فلم کے تقریباً آٹھ دس مہینے کے بعد۔” قلب مومن نے اسے بتایا۔
”اوہ! ابھی کافی وقت ہے، I love that story” اور میرا برانڈ بھی بڑاkeen تھا کہ وہ ذرا جلدی آجاتی۔”
سوفٹ ڈرنک کا گلاس ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے اس نے قلبِ مومن پر اپنی مایوسی ظاہر کی۔
”ہاں وہ توdefinitelyآپ لوگ کریں گے لیکن اگر آپ لوگ چاہیں تو اس فلم میں بھی آجائیں ہمارے ساتھ۔” قلب مومن نے کہا تھا۔ جواب سیدھا سیدھا آیا تھا۔
”ہمیں یہ پسند ہے مومن لیکن اہم بات یہ ہے اسsubject کو میرا برانڈ کرے گا کیا؟ آپ جانتے ہیں ہم تو سیل فون بیچتے ہیں تو اسspirituality کی کوئی مطابقت نہیں ہے ہماری پروڈکٹ کے ساتھ۔ تو یہ فلم آپ خود کر لیں پھر صنم کے لیے تو we are all game۔” کاروباری انداز کی صاف گوئی میں اس برانڈ منیجر نے اسے بتایا تھا۔ قلب مومن کو جیسے چند لمحے یقین نہیں آیا کہ یہ جواب اسے دیا گیا ہے۔
”آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ میرے پروجیکٹ میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں؟” اس نے بے ساختہ کہا تھا۔
”نہیں نہیں یہ نہیں کہہ رہے ہم۔ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ یہ فلم ہماری ٹائپ کا پروجیکٹ نہیں ہے۔ ”صنم” ہے۔ تو ”صنم” کے لیے ہم کبھی بھی مل کر بات کر لیتے ہیں۔” اس نے مومن کا بازو ذرا سا تھپک کر اسی پروفیشنل انداز میں کہا تھا۔
”Ok، لیکن ہو سکتا ہے اس پروجیکٹ کے لیے میں آپ کے بجائے کوئی دوسرا برانڈ دیکھ لوں۔ مارکیٹ میں سیل فون بھی تو بڑے ہوتے ہیں۔ آپ کا مجھے شاید سوٹ نہیں کرتا۔Excuse me۔”
بڑے تیکھے لہجے میں کہتا ہوا وہ اس کے پاس سے ہٹا تھا۔ اس نے اسٹوڈیو میں فلم کی کاسٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ شیلی اور عباس دونوں ہی وہاں نہیں تھے۔
”شیلی اور عباس کہاں ہیں؟” اس نے اپنی طرف آتی ٹینا سے پوچھا تھا۔
”وہ چلے گئے ہیں، دونوں کو کسی پارٹی میں جانا تھا۔” ٹینا نے اسے بتایا تھا۔
مومن کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا تھا، وہ رکے بغیر بڑے الجھے انداز میں خالی ہوتے اسٹوڈیو میں سے نکل کر اپنے آفس میں آگیا تھا اور چند ہی لمحوں میں داؤد اور ٹینا بھی وہاں آگئے تھے۔
”تو کیسا رہا میڈیا او ربرانڈز کا رسپانس؟” قلبِ مومن نے ہشا بشاش نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”Hopeless، بالکل ٹھنڈا۔” ٹینا نے بے حد کھلے الفاظ میں اس سے کہا۔ قلبِ مومن کے ماتھے پر بل آئے۔
”میرا سوال یہ ہے باس کہ ہم یہ فلم کر ہی کیوں رہے ہیں، جب ہم پہلے ہی ایک فلم کی تیاری کر چکے ہیں، وہ سب کچھ چھوڑ کر ہم یہ نئی فلم کیوں شروع کرنے جا رہے ہیں؟” داؤد نے کچھ تحمل سے بات کرتے ہوئے کہا۔
”میری مرضی۔ میں جس بھی پروجیکٹ پر کام کرنا چاہوں اور کس کو پہلے کرتا ہوں، کس کو بعد میں۔ یہ تم تو مجھے نہیں بتا سکتے۔” وہ اس پر برسا تھا، داؤد نادم ہوا۔
”اصل میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج پریس کانفرنس کے بعد شیلی اور عباس بھی بڑے کنفیوزڈ تھے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ ناخوش تھے تو غلط نہیں ہو گا۔ صوفیہ نے بھی مجھ سے کہا کہ وہ اس طرح کی فلم کے ساتھ اپنے لیبل کو منسلک نہیں کرنا چاہتی، اس لیے وہ یہ وارڈروب نہیں کر سکے گی اور برانڈز کا رویہ تو آپ نے خود دیکھ لیا، کسی ایک نے بھی کوئی دل چسپی نہیں لی۔” ٹینا نے کچھ دھیمے انداز میں قلبِ مومن کو سمجھانے کی کوشش کی، وہ کچھ اور بھڑکا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});