الف — قسط نمبر ۰۶

میری پیاری حسنِ جہاںجی!
آپ کا خط ملا اور دل کٹ گیا۔ وہ بے وفا نکلا نا، میں نے پہلے ہی کہا تھا آپ سے طہٰ عبدالعلی پر بھروسا نہ کریں۔ سلطان کی محبت کے سوا کسی پر بھروسا نہ کریں۔ مگر آپ نے ہمیشہ طہٰ کے نام کی تسبیح کی۔ سلطان کو آزمایا ہی نہیں۔ میں آپ کا خط پڑھ کر روتا رہا ہوں۔ پرندہ ہوتا تو اڑ کر آجاتا آپ کے پاس، لیکن انسان ہوں اور انسانوں کو جانے میں لمحہ لگتا ہے، آنے میں وقت لگتا ہے۔ پھر بھی سلطان آئے گا آپ کے پاس، بس چند مہینوں یا ہفتوں کا انتظار کر لیں، اپنے آپ کے اور قلبِ مومن کے ٹکٹوں کے لیے پیسے جمع کر لوں تو آتا ہوں آپ کے پاس۔
پر میرے آنے تک طہٰ کے جانے کا غم نہ کریں، نہ اس کے لیے آنسو بہائیں، اپنی دنیا میں واپس آجائیں۔ فلم انڈسٹری آج بھی آپ کو ڈھونڈ رہی ہے۔ لوگ آج بھی آپ کو یاد کرتے ہیں، سینما کی اسکرین پر آج بھی کوئی اداکارہ حسنِ جہاں کی طرح دلوں پر راج نہیں کرتی۔ طہٰ عبدالعلی نے قدر نہیں کی آپ کی، آپ نے اس کے لیے اپنی ”سلطنت” چھوڑ دی تھی۔ اس نے پروا نہیں کی تو آپ کب تک پروا کرتی رہیں گی اس کی۔
جانتا ہوں، دل سے کسی کو بھلانا آسان ہوتا ہے، مٹانا نہیں لیکن میں آپ سے کہتا ہوں آپ نہ اس کو بھولیں نہ اس کو مٹائیں، بس اپنی دنیا میں لوٹ آئیں۔
حسنِ جہاں جی! یہ جو ہم جیسے ہوتے ہیں نا یہ ہمیشہ مٹی کے ہی رہتے ہیں۔ ہمیشہ جسم ہی عروج دیتا ہے ہمیں اور یہی زوال۔ ہم روح اور روحانیت کے لیے بنے ہی نہیں ہوتے۔ اس راستے پر چلنے والے اور ہوتے ہیں۔ ان کا خمیر بھی اور جگہ سے اٹھا ہوتا ہے، میں اور آپ زیادہ سے زیادہ نیک ہو سکتے ہیں، اپنی اولادوں کا نام قلبِ مومن اور مومنہ رکھ سکتے ہیں مگر بس اتنا ہی۔ اس سے آگے جائیں تو پر جلنے لگتے ہیں ہمارے اور تپش سہہ نہیں پاتے ہم۔
آپ کو روکا تھا میں نے بہت۔۔۔ اسی لیے روکا تھا کیوں کہ وہاں آگے آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آنا تھا اور جس دنیا میں آپ تھیں وہاں آپ کا سکہ چلتا تھا۔ آپ نے سلطان کی بات نہیں سنی۔
سکہ بدل گیا ہے اب آپ کے جانے کے بعد یہاں کا۔۔۔ پر کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ چاہیں تو پھر آپ کا راج ہو گا یہاں اور میں سلطان آپ کے ساتھ ہوں۔ اچھے اور برے سارے دنوں میں آپ کے ساتھ سایہ بن کر چلوں گا کیوں کہ آپ سے پیار کرتا ہوں۔و ہی پاگلوں والا پیار جو آپ طہٰ سے کرتی ہے۔۔۔ نہ آپ بدلیں گی نہ میں بدلوں گا۔
خط لکھ رہا ہوں تو دل کھول کر رکھ دیا ہے آپ کے سامنے، ورنہ اتنے سالوں میں ہر بار آپ سے بات کرتے ہوئے کبھی آپ نظریں چراتی تھیں کبھی میں۔۔۔ میں جانتا ہوں سلطان کو آپ بھی بھول نہیں سکتیں۔ طہٰ کے بعد اگر کوئی یاد آتا ہو گا تو سلطان ہی یاد آتا ہو گا آپ کو۔
میری خوش فہمی دیکھیں، کیا لکھ رہا ہوں آپ کو۔ نہ اپنی شکل دیکھ رہا ہوں۔ نہ اپنی اوقات۔۔۔ لیکن پیار کا کیا کریں حسن جہاں جی، یہ میرے جیسوں کو بھی اوقات سے باہر کر دیتا ہے۔ سلطان ہی سمجھنے لگ گیا ہوں اپنے آپ کو۔۔۔ آپ نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر۔۔۔ بیچ راستے میں مجھے چھوڑ کر اتنے سالوں میں سلطان آسمان سے زمین پر آگیا مگر نہیں بدلا تو اس کے دل میں آپ کا مقام۔ آپ آج بھی سلطان کے دل کے تخت پر وہیں بیٹھی ہیں، جہاں اس نے پہلی بار آپ کو بٹھایا تھا اور یہ مقام سلطان کبھی کسی کو نہیں دے گا۔ طہٰ اور سلطان میں بس یہی فرق رہے گا ہمیشہ۔ ۔۔وہ آپ کو چھوڑ سکتا ہے، سلطان نہیں۔
آپ کا سلطان۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تم جا رہے ہو؟” قلبِ مومن صبح سویرے اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب عبدالعلی اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر اندر آئے تھے اور اسے سامان پیک کرتے دیکھ کر ان کا دل کسی دیے کی طرح بجھا تھا۔
”جانے کے لیے ہی آیا تھا دادا۔” قلبِ مومن ان کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کھلے بیگ میں اپنی چیزیں ڈالتا رہا۔
”ناراض ہو کر جا رہے ہو؟” انہوں نے چند لمحوں کے بعد اس سے کہا۔ قلب مومن ٹھٹکا اور اس نے سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے ان سے کہا۔
”ناراض کس بات پر ہوں گا؟” وہ سنجیدہ تھا۔ عبدالعلی نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”کل رات تمہارے اور میرے درمیان۔” انہوں نے کچھ کہنا چاہا، قلب مومن نے بات کاٹ دی۔
”کل رات آپ کے اور میرے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر میں آپ سے خفا ہوتا، چیلنج تھا جو آپ نے دیا اور میں نے چیلنج قبول کر لیا، اس سب میں خفگی والی بات کہاں سے آگئی؟”
وہ کہہ کر دوبارہ جھک کر اپنے بیگ کی زپ بند کرنے لگا تھا۔ عبدالعلی کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس کی بات کے جواب میں کیا کہیں، کچھ دیر کھڑے وہ جیسے کوئی الفاظ ڈھونڈتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”قلب مومن میں تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔ تمہارا دل کبھی بھی دکھانا نہیں چاہتا میں اور مجھے لگا شاید پچھلی رات میں تمہارا دل دکھا بیٹھا ہوں۔”
انہوں نے بالآخر وہ الفاظ ڈھونڈ لیے تھے جو وہ اس سے کہنا چاہتے تھے۔ قلبِ مومن نے اپنی پیکنگ ختم کر لی تھی۔ اپنے بیگز کو ایک طرف اوپر نیچے رکھتے ہوئے اس نے بے حد اطمینان سے عبدالعلی کی بات سنی، اس کے انداز میں ایک عجیب سردمہری تھی۔ لاتعلقی کا ایک عجیب سا عالم تھا۔
”آپ کا پتا ہے دادا! آپ مجھے کیوں کمتر سمجھتے ہیں؟” اس کے جملے نے عبدالعلی کو بچھو بن کر کاٹا تھا۔
”آپ مجھے اس لیے کمتر سمجھتے ہیں کیوں کہ میں حسنِ جہاں کی اولاد ہوں جس کے پاس حسن اور جسم کے استعمال کے علاوہ کچھ اور تھا ہی نہیں۔ آپ اسی لیے ان سے بابا کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ ایک ڈانسر تھیں۔”
قلب مومن کی آنکھوں اور چہرے پر جیسے ”میں سب جانتا ہوں” لکھا تھا۔ عبدالعلی نے تڑپ کر اسے روکا تھا۔
”حسنِ جہاں سے شادی سے روکنے کی وجہ نہ اس کا اداکارہ ہونا تھا، نہ رقاصہ ہونا۔ تمہیں کس نے بتایا کہ میں تمہیں اس لیے کمتر سمجھتا ہوں اور کس نے کہہ دیا کہ حسنِ جہاں کے پاس حسن اور جسم کے علاوہ کچھ اور تھا ہی نہیں؟” عبدالعلی کے انداز میں اب عجیب سی برہمی تھی۔
”اس کے پاس نیک روح تھی۔ جو تم نے کھو دی۔”
قلب مومن ان کے جملے پر ہنس پڑا۔ ”حسنِ جہاں کے پاس تھی۔ میں نے کھو دی۔” اس نے ان کا جملہ استہزائیہ میں دہرایا تھا۔
”آپ کے نزدیک نیک روح صرف ان کے پاس ہوتی ہے جو یہ کام چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ان کے پاس جو آپ کی طرح خطاطی کرتے رہتے ہیں۔ دادا spirituality کسی کی میراث نہیں ہے۔” وہ ایک بار پھر ان سے الجھ پڑا تھا۔ پتا نہیں کہاں چوٹ پڑی تھی مومن کو۔
”بے شک نہیں ہے۔ مگر اللہ کی عطا ہے اور اللہ اسے صرف اس کی قدر جاننے والوں کو عطا کرتا ہے۔”
قلبِ مومن انہیں دیکھتا رہا، ایک لاوا تھا جو ان کے اس جملے پر اس کے اندر سے پھٹ پڑنا چاہتا تھا۔ اس نے عبدالعلی سے نظریں چرا لیں۔ وہ اس بوڑھے شخص کا اتنا احترام کرتا تھا کہ وہ لاوا ان پر الٹانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس لاوے کی وجہ نہیں تھے اور جسے وہ ”نیک روح” کہہ رہے تھے، قلبِ مومن اسے کبھی ”جسم” کے علاوہ کچھ ماننے پر تیار ہی نہیں تھا چاہنے کے باوجود بھی۔
”میں چلتا ہوں۔ رکوں گا تو اور بحث ہو گی ہماری۔” وہ آگے بڑھا اور اس نے دادا کو گلے لگایا۔
”جب تم یوں گلے لگاتے ہو تو طہٰ یاد آتا ہے مجھے۔”
وہ عبدالعلی کی آواز پر جیسے ٹھٹھک گیا تھا، پھر الگ ہوتے ہوئے ہنسا۔
”جانتا ہوں میں۔ بابا ہی کے لیے اداس ہوتے ہیں آپ۔ میرے لیے کہاں ہوتے ہوں گے۔”
اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور جیسے وہ عبدالعلی کا جواب سنے بغیر تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔ عبدالعلی کو رنج ہونا چاہیے تھا۔ وہ رنجیدہ ہونے کے بجائے مسکرائے تھے۔ وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ برف کی طرح سرد نظر آتا تھا، مگر آگ کی طرح گرم تھا، سمندر کی طرح گہرا تھا مگر ریگستان کے سراب کی طرح اشتباہ نظر کا شکار کرتا تھا۔ قلبِ مومن تھا، مگر مومن بننے کے راستے سے پرے۔
٭…٭…٭
”وہ جو لوکیشنز کہی تھیں آپ نے، سب ہی مارک کر لی ہیں اور سب پر ہی کام ہو گیا ہے۔” داوؑد اور ٹینا اسے استنبول میں گزارے پچھلے کچھ دنوں میں کیے جانے والے کام کے بارے میں اپ ڈیٹ دے رہے تھے اور قلبِ مومن اس ہوٹل کے لاؤنج میں پڑے ایک صوفہ پر بیٹھا ان کی باتیں سنتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
”استنبول کی نائٹ لائف کی عکاسی کرنے کے لیے نائٹ کلبز کی بھی ریکی کر لی ہے ہم نے۔” اب ٹینا اپنے لیپ ٹاپ پر اسے ان جگہوں کی تصویریں دکھانے لگی تھی جو وہ اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے منتخب کر چکے تھے۔ قلبِ مومن آج ہی عبدالعلی کے پاس سے واپس استنبول آیا تھا اور اس وقت داؤد اور ٹینا کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات تھی۔
”ڈیٹس فائنل کر کے کل سے ای میلز کا کام ختم کر لیں گے، شوٹنگ کوآرڈینیشن کے لیے۔ پوسٹ پروڈکشن کا کام بھی یہاں ایک اسٹوڈیو کے ساتھ۔”
قلب مومن نے داؤد کو پہلی بار ٹوکا۔
”میں اس فلم کی شوٹنگ کچھ عرصہ کے لیے postpone کر رہا ہوں۔”
اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ ٹینا اور داؤد بیک وقت چونکے تھے اور انہوں نے کچھ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھا، قلبِ مومن مذاق یقینا نہیں کر رہا تھا۔
”میں اس فلم سے ایک اور فلم بنانا چاہتا ہوں کیوں کہ میرے پاس ایک بے حد یونیک آئیڈیا ہے۔”
قلب مومن کے اگلے جملے پر ٹینا بے حد ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔
”ایک سال میں دو فلمز۔Fantastic!میں تو پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ سال میں ایک کے بجائے دو فلمز کرنی چاہئیں آپ کو۔ جب انویسٹرز، انویسٹ کرنے کو تیار ہیں۔ برانڈنگ اورproduct placement کے لیے تیار ہیں تو پھر بے وقوفی ہی ہے بس ایک ہی فلم کرتے جانا۔ کیاsubject ہے دوسری فلم کا؟”
ٹینا جوش و خروش میں بات کرتے کرتے ابsubject کے بارے میں دریافت کرنے لگی۔ داؤد اس ساری گفتگو کے دوران خاموش ہی رہا تھا۔
قلبِ مومن نے میز پر پڑے گلاس سے پانی کا ایک گھونٹ بھرا اور کہا ”Spirituality”
ٹینا چپ ہو گئی۔ داؤد کو پہلے ہی لگی ہوئی تھی۔ مگر وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔
”کیا کہتے ہیں اسے اُردو میں؟”
قلب مومن نے جیسے کچھ الجھ کر یاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھول گیا تھا، داؤد نے کچھ کہنے کے بجائے لیپ ٹاپ پر گوگل پر اس لفظ کا اُردو ترجمہ ڈھونڈا اور پھر کہا ”روحانیت۔”
”بس اسی کے بارے میں فلم بنانی ہے مجھے۔” قلبِ مومن نے بے ساختہ کہا۔
”یہ جس کے نام کا مطلب ابھی گوگل سے ڈھونڈا ہے؟” ٹینا نے بے یقینی سے قلبِ مومن سے پوچھا۔ اس نے جواباً اثبات میں سرہلایا۔
”مگر اس میں دکھائیں گے کیا؟” ٹینا نے بے ساختہ کہا اور اس بار تینوں کو بیک وقت چُپ لگی تھی۔
خاموشی کے ایک لمبے وقفے کے بعد قلب مومن نے جیسے اپنی خجالت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”سوچو۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کر گیا۔
”باس! یہ میرا آئیڈیا نہیں تھا۔” داؤد نے جیسے کراہتے ہوئے اسے پکارا تھا، مگر وہ تب تک کافی دور جا چکا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۵

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!