اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

وہ بھاگتی ہوئی اسپتال کی راہداری عُبور کر رہی تھی جب شارق کے کمرے سے نکلتے روحیل کودیکھ کر وہ ٹھٹکی۔اُن دونوں کاسامنا پورے سال بعد ہورہا تھا، اُن دونوں کی شادی کے بعد روحیل نے شارق سے ملنا جُلنا بہت کم کردیا تھا،وہ اپنے آپکو زیادہ طر کاموں میں مصروف رکھتا ۔ روحیل بھی عرشیہ کو دیکھ چُکا تھا ۔ وہ بِنا کچھ بولے تیزی سے آگے بڑھنے لگا جب پیچھے سے آتی عرشیہ کی آواز نے اُسکے قدم روک لئے۔
‘تم! تم یہاں کیا کر رہے ہو؟’ وہ ایڑیوں کے بل اُسکی طرف گھوما
‘میں ہی شارق کو ہاسپٹل لایا تھا۔’
‘تو۔۔تو کیا اُنکا ایکسیڈنٹ تمھاری گاڑی سے ہوا ہے؟’ عرشیہ کے لہجے میں خود بخود تلخی در آئی
‘اِتنی بدگمانی بھی اچھی نہیں ہوتی! میں شارق کو صرف زخمی حالت میں یہاں لیکر آیا ہوں۔ میں نہیں جانتا اُسکا ایکسیڈنٹ کس کی گاڑی سے ہوا ہے۔اور آپکو کال بھی میں نے ہی کی تھی۔ بہرحال آپ اندر جائیں شارق کواِسوقت آپکی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔’ وہ اپنی بات ختم کرکے رُکا نہیں تھا، لمبے لمبے ڈگ بھرتا راہداری عُبور کر گیا۔ عرشیہ کو حیرت ہوئی آج پہلی بار اُسکی نظریں جُھکی ہوئی تھیں، وہ عرشیہ کو دیکھنے سے گُریز برت رہا تھا اور اُسکا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔وہ ساری سوچوں کو جھٹک کر ویٹنگ روم میں داخل ہوگئی۔ شارق کو پورے چار دن بعد ہوش آیا تھا لیکن اب بھی اُسکی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔ سب گھر والے یہیں موجود تھے ۔ روحیل بھی روز چکّر لگا لیا کرتا تھا لیکن وہ زیادہ تر ایسے وقتوں میں آتا تھا جب عرشیہ آس پاس موجود نہ ہویا کسی ضروری کام سے گھر گئی ہو اسلئے اُس دن کے بعد سے عرشیہ سے اُسکا سامنا نہیں ہوا تھا۔
عرشیہ جو شارق کو سوپ پِلا کر برتن سمیٹ رہی تھی۔۔ بے آواز رونے لگی۔۔
پچھلے کچھ دِنوں میں وہ بے تحاشا روئی تھی۔۔
بات بے بات آنسو اُسکی آنکھوں سے برس رہے تھے۔۔
آج بھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔
وہ شارق کی آواز پر چونکی جو بمشکل کچھ کچھ بول رہا تھا۔۔
‘عرشیہ! اِدھر آؤ میرے پاس!’ وہ اپنے برابر جگہ بناتے ہوئے آکسیجن ماسک اُتارنے لگا
‘یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ پاگل ہوگئے ہیں کیا؟’ وہ لپک کر اُس تک پہنچی اور اُسکا ہاتھ روکنا چاہاپر جب تک وہ ماسک اُتار چُکا تھا
‘ مجھے تم سے۔۔ بہت ضروری بات کرنی ہے عرشیہ۔۔ شاید۔۔ زندگی۔۔ پھر مہلت نہ دے۔۔’
‘شیری!’ عرشیہ تڑپ ہی توگئی تھی۔ وہ ویسے ہی تاروں اور پٹّیوں میں جکڑا ہوا تھا اور اُس پر سے ایسی باتیں۔ عرشیہ کو اپنا دم گُھٹتا محسوس ہوا
‘آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ گھر چل کر کریں گے ڈھیر ساری باتیں۔ ابھی آپ۔۔’ شارق نے درمیان سے اُسکی بات کاٹ دی
‘عاشی! جو۔۔ حقیقت ہے اُسے جتنی جلدی قُبول کرلو اُتنا اچھا ہے۔۔ دیکھو میں جو کہہ رہا ہوں وہ غور سے سُنو۔۔’ وہ ایک سانس لیکر رُکا پھر بولا
‘میں مانتا ہوں ماضی میں روحیل سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔۔ لیکن وہ اِتنا بُرا نہیں ہے جتنا تُم اُسے ہمیشہ سمجھتی رہی ہو۔’ عرشیہ اچنبے سے اُسے دیکھنے لگی۔ وہ کچھ بولنے کیلئے لب کھولنے ہی لگی تھی کہ شارق نے اُسے ٹوک دیا۔
‘آں! ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ہے۔’ پھر وہ کچھ پل کیلئے خاموش ہوگیا۔ شاید اُسے زیادہ بولنے میں تکلیف ہورہی تھی، اسلئے وہ بار بار رُک رہا تھا۔ عرشیہ اُسے یک ٹک نم آنکھوں سے دیکھے جا رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

‘غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں اور جو معاف کردیتا ہے اُسکا رُتبہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ روحیل نے جو کچھ بھی کیا وہ صرف اِسلئے کہ وہ تم سے بہت محبت کرتا تھا۔وہ سب اُسکا ماضی تھا لیکن آج یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دل کا بہت اچھا ہے۔ اگر مجھے وقت پر وہ ہاسپٹل نہ لاتا تو شاید میں یہ چند ساعتیں بھی تمھارے ساتھ گُزار نہ پاتا۔۔ فائدہ تو اب بھی کچھ نہیں ہے۔۔ یوں بھی زندگی ریت کی طرح میرے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے۔۔’ عرشیہ کی آنکھیں بے تحاشا سُرخ ہوچُکی تھیں اور اب آنسو سارے بند توڑ کر بہہ نکلے ۔
وہ زاروقطار رونے لگی ۔۔
‘آپ کیوں کر رہے ہیںایسی باتیں؟ آپکو کچھ نہیں ہوگا پلیز مجھ پر رحم کریں شیری!’ شارق نے اُسکی تکلیف محسوس کرکے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ دو آنسو اُسکی آنکھوں سے ٹپکے تھے۔ وہ عرشیہ کا چہرہ اوپر اُٹھا کر بولا۔
‘موت تو بر حق ہے، اور ایک نہ ایک دن آنی ہے نا۔ ۔شاید ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔ ۔عاشی! جو دن تمھارے ساتھ ، تمھاری رفاقت میں گُزرے، وہ میری زندگی کے سب سے خو بصورت دن تھے۔۔ لیکن اب جاتے جاتے میں تمھیں اِسطرح روتا تڑپتا چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔۔ تمھیں کسی کے محفوظ ہاتھوں میں، کسی کی پیار بھری بانہوں میں سونپ کر جانا چاہتا ہوں۔۔ کہو مانوگی نا میری بات؟؟ وعدہ کرو مجھ سے!’ شارق نے اُسکے آگے ہاتھ پھیلایا جسے عرشیہ نے ایک لمحے میں تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔
‘سب مانوںگی۔ جو کہیںگے وہ کروںگی بس پلیز ایسی باتیں نہ کریں ۔ مجھے آپکی ضرورت ہے ۔آپکی عاشی کو آپکی بہت ضرورت ہے شیری۔مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا پلیز میں جی نہیں پاؤنگی تمھارے بغیر۔۔’ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ شارق نے اُسے زور سے بانہوں میں بھر لیا۔
‘میں کب تم سے دور جانا چاہتا ہوں جان! پر یہ زندگی اب مزید مہلت نہیں دے رہی مجھے۔۔ میں جاتے جاتے ایک آخری فیصلہ کرنا چاہتا ہوں جو تمھیں ماننا ہوگا۔ مانوگی نا؟؟’ عرشیہ نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا
‘تم۔۔۔۔۔’ اُسے بولنے میں تکلیف ہو رہی تھی
‘تم۔۔۔ میرے جانے کے بعد روحیل سے شادی کرلینا۔۔ وہ تمھیں۔۔ بہت چاہتا ہے اور۔۔ تمھیں بہت خوش رکھے گا۔۔’
‘شارق!’ وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔ غُصّے اور غم کی شدت سے اُسکی آواز رُندھ گئی اور آنسوؤں کا گولا حلق میں پھنس گیا تھا۔ اُسے شارق سے اِس بات کی اُمید ہرگز نہ تھی۔
‘وعدہ کرو عاشی مجھ سے۔۔وعدہ کرو تم ایسا ہی کروگی؟’ شارق نے اُسکا ہاتھ تھامنا چاہا جسے وہ ایک جھٹکے سے چُھڑا کر پلٹ گئی اور تلخ لہجے میں بولی
‘فضول باتیں بند کریں! میں ایسا کوئی وعدہ نہیں کرونگی ۔ اور اب آپ کچھ نہیں بولیںگے، اسوقت آپکو صرف آرام کی ضرورت ہے۔’ اُسی وقت شارق کی درد سے کراہ سُنائی دی۔ اُسکی تکلیف بڑھ رہی تھی۔ عرشیہ ایک لمحے میں سارا غصہ بھول کر اُسکے قریب آئی ۔
‘کیا۔۔ کیا ہو رہا ہے آپکو؟ میں ڈاکٹر کو بُلا کر لاتی ہوں۔۔’ وہ بھاگنے کے ارادے سے مُڑی تھی جب شارق نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے جانے سے روک لیا۔
‘کوئی فائدہ نہیں ہے عاشی! میری زندگی کا دیا کبھی بھی بجھ سکتا ہے۔۔ وعدہ کرو مجھ سے تم میری بات مانوگی؟ روحیل سے شادی کرلو گی۔۔ میں بہت تکلیف میں ہوں عاشی۔۔ میری دھڑکنوں کو قرار دو۔۔ میں دل پر کوئی بوجھ لیکر یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔۔ میں تمھیں اِتنی اذیت اور تنہائی میں نہیں دیکھ سکتا۔۔ پلیز مجھ سے وعدہ کرو۔۔ روحیل تمھیں بہت خوش رکھے گا۔۔ کیوں روحیل، رکھوگے نا خوش میری عاشی کو؟؟’
شارق عرشیہ پر سے نظریں ہٹا کر اُسکے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ اُسکی نظروں کے تعاقب میں عرشیہ نے جیسے ہی پلٹ کر دیکھا تو وہ چونک گئی۔ روحیل پیچھے ہی اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے نظریں جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ سب کچھ سُن چکا تھا بلکہ پہلے سے سب کچھ جانتا تھا۔ عرشیہ کے آنسوؤں میں اور بھی روانی آگئی ، اِس بار وہ کچھ نہ بولی تھی۔۔ شاید بولنے کیلئے کچھ بچا ہی نہ تھا۔ روحیل قدم بڑھاتا شارق کے بیڈ کے پاس آکر رُکا اور اُسکا ہاتھ تھام کر اثبات میں سر ہِلادیا اور پھر اُسکی پیشانی چوم لی۔ روحیل کی سیاہ آنکھیں ضبط کے باعث سُرخ ہورہی تھیں۔ جو کچھ بھی تھا شارق اُسکا بہت اچھا دوست تھا۔ آج اُسے اِس حالت میں دیکھ کرروحیل کا دل بھی بہت بوجھل تھا۔ تینوں کیلئے یہ وقت ایک کٹھن اِمتحان تھا۔ ایک تکلیف دہ آزمائش تھی جسمیں وہ تینوں گِھر چُکے تھے۔
شارق نے باری باری اُن دونوں کو دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔۔
کچھ ہی لمحے بعد وہ تیز تیز سانسیں لینے لگا۔۔
اُسکی سانسیں اُکھڑ رہی تھیں۔۔
مونیٹر پر چلنے والی پٹّی میں اُسکی سانسوں کے ساتھ اُسکے دِل کی رفتار بھی تیزی سے کم ہورہی تھی ۔۔
عرشیہ نے اُسے دونوں ہاتھوں سے تھاما۔۔ روحیل بھی تیزی سے اُسکے اور قریب آیا ۔۔
‘شارق !’ یہ روحیل کی آواز تھی
‘شیری! تم مجھ سے وعدہ لیکر اسطرح مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔۔ پلیز واپس آجاؤ میں مرجاؤنگی شیری۔۔ شیری!’ شارق نے اُسکے گالوں کو نرمی سے چھوا ۔۔ وہ مسکراتا ہوا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
آہستہ آہستہ اُسکی آنکھوں میں زندگی کی رمق بُجھتی جارہی تھی۔۔
اُسکی سانسیں دم توڑ رہی تھیں۔۔
وہ مسکراتے ہونٹ بے جان ہوگئے تھے۔۔
وہ چمکدار آنکھیں ایک دم ویران لگنے لگی تھیں۔۔
وہ اپنی سانسیں پوری کرچُکا تھا۔۔
عرشیہ بے یقینی سے اُسے جھنجھوڑ رہی تھی ۔روحیل ڈاکٹر کو بُلانے باہر کی طرف بھاگا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔۔ شارق کا وجود بالکل بے جان ہوچُکا تھا۔۔ وہ اپنی زندگی ہار گیا تھا۔۔سب کو روتا بِلکتا چھوڑ کر وہ سکون کی نیند سو گیا تھا۔۔
وانیہ نے جیسے ہی آکر اُسکے شانے پر ہاتھ رکھا وہ تڑپ کر اُسکے گلے لگ گئی اور بِلک بِلک کر رونے لگی۔
‘وانیہ! دیکھو نا کتنا تنگ کر رہا ہے یہ مجھے۔ ۔اِس سے کہو پلیز اُٹھے مجھے یوں تنگ نہ کرے۔ ۔اِس سے کہو اُٹھے۔۔ اِسکی عاشی کو اِسکی بہت ضرورت ہے۔۔دیکھو کتنا بے رحم ہوگیا ہے یہ۔۔ مجھے اِس دنیا میں اکیلا کرکے چلا گیا ہے۔۔ سارے وعدے جھوٹے تھے۔۔ کہتا تھا میرے ساتھ زندگی بھر قدم سے قدم مِلا کر چلے گا۔۔ آج یہ خاموش کیوں ہے۔۔ کیوں اِتنا ظلم کیا ہے مجھ پر۔۔ اِس سے کہو اُٹھے پلیز اُٹھے۔۔’
وانیہ ساکت کھڑی تھی۔ ۔اِتنا بڑا امتحان۔۔ اِتنی بڑی آزمائش۔۔ کیسے برداشت کریگی یہ نازک سی لڑکی۔۔ وہ کتنی ہی دیر عرشیہ کو دیکھتی رہی جو آنسوؤں سے زاروقطار رو رہی تھی۔
‘اوہ میری جان!’ وانیہ نے اُسے سختی سے خود میں چُھپا لیا اور اُسکا سر سہلانے لگی۔ وہ اِسوقت بہت قابلِ رحم لگ رہی تھی۔
‘یا الّلہ! اس لڑکی کو اب روحیل بھائی کے روپ میں دُنیا کی ہر خوشی دینا۔ اب کبھی اِسے کسی آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آمین!’ شارق نے عرشیہ کی غیر موجودگی میں سب کو اپنا یہ فیصلہ سنا کر راضی کرلیا تھا کہ روحیل اور عرشیہ کی شادی کردی جائے کیونکہ صرف وہی تھا جو شارق کے بعد اُسے سنبھال سکتا تھا اور خوش رکھ سکتا تھا۔
وہ عرشیہ کو اپنے ساتھ لئے باہر کی طرف چل دی۔ سب کو گھر جانا تھا۔اچانک ہی سارا منظر بدل گیا تھا۔ قسمت نے اپنی چال چل دی تھی ۔ شارق کی ڈیڈ باڈی لئے سب بوجھل قدموں سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!