‘کم آن عرشیہ! بھول جاؤ سب کچھ جو بھی ہوا۔ مشکل وقت تھا سمجھو گزر گیا۔آئندہ وہ کبھی تمھیں پریشان نہیں کریگا!’ آج کے واقعے پر وہ خود بھی تھوڑی پریشان ہوگئی تھی لیکن خود کو نارمل رکھے ہوئے تھی۔
‘وہ۔۔ وہ۔۔ اُسکی اِس حالت کی ذمّہ دار میں ہوں؟ میری وجہ سے وہ اتنا۔۔۔’ وہ سہمی ہوئی ، ڈری ہوئی لگ رہی تھی
‘ڈونٹ ایون تھِنک اباؤٹ اِٹ(Don’t even think about it)! تمھارا اِسمیں کوئی قصور نہیں ہے، تم نے کبھی اُسکے جذبوں کی پزیرائی نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنی طرف بڑھتے اُسکے قدموں کو روکا ہے۔ایسی کوئی فضول سوچ اپنے ذہن میںمت لاؤ پلیز اور بس یہ سوچو کی دو ہفتے بعد تمھاری شادی ہے۔’ آخر کا جملہ اِتنے پُرجوش انداز میں کہا گیا تھا کہ عرشیہ بھی مسکرانے لگی اور اُسکی سمت دیکھ کر بولی
‘کیا مجھے شارق کو ابھی یہ سب بتادینا چاہئیے؟’
‘ابھی ضرورت نہیں! ہاں، پر شادی کے بعد ضرور بتادینا۔ اب ہر منفی سوچ کو رد کردو اور بس اپنے دیوانے پروانے کے بارے میں سوچو۔’ وانیہ نے آنکھیں مٹکائیں تو عرشیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔اب وہ پچھلی تمام باتیں بُھلا کر شارق کے ہمراہ آنے والے صرف اچھے وقتوں کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی۔پھر کچھ سوچ کر ایک دم وانیہ کے گلے لگ گئی۔
‘ہائیں! یہ تمھیں کیا ہوا؟ کہیں مجھے شارق بھائی تو نہیں سمجھ رہیں تم؟’ اُسکی بات پر عرشیہ فوراً اُس سے الگ ہوئی اور اسکی کمر پر ایک ہاتھ جڑدیا
‘بہت پٹوگی تم! تھینکس۔۔ تھینکس فار ایوریتھنگ(Thanks….thanks for everything)!’ وہ سچّے دل سے اُسکا شکریہ ادا کر رہی تھی (اگر آج وانیہ نہ ہوتی تو میں کیا کرتی؟) وانیہ نے اُسے محبت سے دیکھا اور مسکرانے لگی۔
************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بیٹھی ہو کسی کے پہلو میں،
آنکھوںمیں چمکتا پیار لئے،
ہے خوشبو کسی کی قسمت میں،
دُنیا میں کسی کے ہو تو گئے،
تمھیں پیار نبھانا آ تو گیا!
تیز دھوپ کی کرنوں نے اُسکے سوئے ہوئے وجود میں جُنبش پیدا کی۔ اُس نے نیم وا آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لیا۔ رابیل پردے ٹھیک کر رہی تھی۔
‘بند رہنے دو اِن پردوں کو رابی!’ روحیل اُٹھ کر بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ آج رابیل غیر معمولی سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی
‘جانی بھائی! آپ کل کہاں تھے؟’
‘بتایا تو تھا، شارق کی شادی تھی کل تو میں وہیں۔۔۔’
‘کل دو بار شارق بھائی کا گھر پر فون آیا ہے آپ وہاں نہیں تھے۔’ وہ اُسکی بات کاٹتے ہوئے بولی۔ روحیل نے بِنا کچھ بولے تھک کر آنکھیں موند لیں۔ اب وہ اپنی اِس بہن کو کیا بتاتا کہ وہ رات بھر سڑکوں پر گاڑی دوڑا کر اپنے منتشر ذہن اور بکھرے وجود کو سنبھالنے اور اِکٹھا کرنے میں لگاہوا تھا۔
تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُس سے دور ۔۔ بہت دور چلی گئی تھی۔۔
سارے خواب بکھر گئے تھے۔۔
سب دعائیں رائیگاں گئی تھیں۔۔
رابیل نے اُسکے ہاتھ پر اپنا نازک ہاتھ رکھا۔
‘بھائی! آپکو وہاں جانا چاہئیے تھا، دیکھتے کہ شارق بھائی اور عرشیہ بھابھی۔۔۔۔’ وہ ایک دم خاموش ہوگئی شاید کچھ غلط بول گئی تھی
‘یوں بھی وہ تمھاری بھابھی ہوئی، شارق کے توسّط سے۔۔’ روحیل کے لبوں پر زخمی مسکراہٹ آکر ٹھہر سی گئی تھی۔ کتنی کھوکھلی ہنسی تھی۔۔
جس میں صدیوں کا کرب اور تکلیف ایاں تھی۔۔ رابیل کو احساس ہوا کہ وہ تھوڑا نہیں بہت زیادہ غلط بول گئی ہے۔ اُسکی آنکھیں اپنے بھائی کا درد دیکھ کر نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں۔
‘بھائی پلیز اُسے بھول جائیں۔ عرشیہ پر دنیا ختم تو نہیں ہو جاتی۔’ وہ کمال ضبط سے اُسے سمجھا رہی تھی جبکہ خود اُس کے اندر بھی کہیں بہت کچھ ٹوٹا ہوا تھا۔ کتنی پیاری سی تھی وہ لڑکی جس کو دل سے اُسنے اپنی بھابھی مان لیا تھا۔ اُسے خود عرشیہ کتنی پسند آئی تھی۔
‘اور میری تو دنیا جیسے اُسکے جاتے ہی ختم سی ہونے لگی ہے۔ رابی میں پل پل مر رہا ہوں۔۔ ٹوٹ رہا ہوں۔۔ بکھر رہا ہوں۔۔ اور مجھے سمیٹنے والا کوئی نہیں ہے۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔’ روحیل نے اپنے بال مُٹھی میں جکڑ لئے۔ اُس پر اِسوقت کا ایک ایک لمحہ عذاب بن کر گزر رہا تھا۔جِسے آپ شدتوں سے چاہتے ہوں اُسکو کسی اور کے ساتھ دیکھنا سوہانِ روح ہوتا ہے۔روح ایسی گھائل ہوجاتی ہے جیسے اُسے خاردار کانٹوں کی سِل پر گھسیٹا گیا ہو۔رابیل تیزی سے اُسکے قریب آئی اور اُسکا چہرہ اوپر اُٹھا کر اپنے ہاتھوں سے اُسکی آنکھوں کے گرد جمے پانی کو صاف کیا۔ وہ اشکبار تھا۔
‘بھائی! خود کو تکلیف مت دیں پلیز۔ میں ہوں، ممّی ہیں، ہم دونوں مل کر سمیٹیں گے آپکو۔ پلیز خود کو سنبھالئے۔ میں کبھی آپکو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ ڈیڈی کے بعد آپ ہی ہمارا واحد سہارا ہیں، ہمارا سب کچھ ہیں۔ اگر آپکو کچھ ہوگیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے۔آپکو ہمارے لئے جینا ہے۔ آپکو اپنا خیال رکھنا ہے ہما رے لئے۔’ وہ اُسکی گود میں سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ سکندر صاحب کا انتقال ہوئے دو سال بیت گئے تھے۔ اُنکے انتقال کے فوراً بعد ہی روحیل انگلینڈ سے واپس لوٹ آیا تھا۔اس کی ممّی اور بہن کو اُس کی سخت ضرورت تھی اور اب وہی اُن دونوں کی کل کائنا ت تھا۔ روحیل اپنا کرب اور دکھ بھول کر اُسے سمجھانے لگا۔
‘ارے تم رو رہی ہو پگلی!اب تم اور مّمی ہی تو میرے جینے کی واحد وجہ ہو۔ ایسے مت رو مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ تم دونوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا میں۔۔ سوری پلیز! دیکھو آج کے بعد تمھیں تمھارا وہی بھائی ملے گا جو کچھ دنوں سے کہیں کھو گیا تھا۔میں کوشش کر رہا ہوں اُسے بُھلانے کی اور دیکھنا ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہو جاؤنگا۔۔’ اُس کے اندر کوئی زور سے ہنسا تھا۔۔ کیا اِتنا آسان تھا۔۔ عرشیہ کو بُھلا دینا۔۔ جو روم روم میں بستی ہو کیا اِتنا آسان تھا۔۔ اُس بچپن کی محبت سے یوں پل بھر میں دستبردار ہو جانا۔۔
‘دیکھو اب میں مسکرا رہا ہوں۔ تم پلیز خاموش ہوجاؤ۔’ وہ اُسکے سر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا
‘جانی بھائی پلیز آپ سگریٹ پینا چھوڑ دیں۔ دیر رات تک گھر سے باہر رہنا چھوڑدیں۔ آپکو ممی کی قسم ہے۔’ رابیل فوراً آنسو پونچھ کر اُٹھ بیٹھی اور اُس سے وعدہ لینے لگی۔
‘پکّا وعدہ سوئیٹ ہارٹ! آج کے بعد کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگاؤنگا اور نہ دیر رات تک گھر سے ہاہر رہونگا، خوش؟’ روحیل نے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے وعدہ کرلیا۔ وہ اپنے اِس بھائی کو دیکھے گئی جو کچھ دنوں میں ہی کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ ۔ اُسکی سوچ کا تسلسل روحیل کی شوخ آواز نے توڑا۔
‘ویسے ہماری بہن بہت سمجھدار ہوگئی ہے۔ اب لگتا ہے حُذیفہ کے گوش گُزار کرنا ہی پڑیگا کہ تمھاری منگیتر بڑی ہوگئی ہے، اب جلدی سے بارات لاکر۔۔۔’
‘نہیں نہیں ابھی نہیں۔ ابھی تو مجھے بہت سارا پڑھنا ہے۔ ہاؤس جاب کرنی ہے اُسکے بعد آپ اُن سے۔۔۔۔’ روحیل کے منہ پر ہاتھ رکھے وہ جلدبازی میں بول گئی اور جب اُسکی نظر پڑی تو وہ شرارت سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ رابیل کو ڈھیروں شرم نے آگھیرااور وہ شرم کے مارے ایک دم خاموش ہوگئی۔ وہ ایک زبردست قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔
‘ہاہاہا! پگلی! چلو فٹافٹ تیار ہوجاؤ، آج ہم باہر لنچ کرتے ہیں۔ اور ہاں! حُذیفہ کو بھی اِنوائٹ کرلینا۔’ وہ اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتا باتھروم کی جانب بڑھ گیا اور رابیل جو اُسکی بات پر کِھل اُٹھی تھی، آخر کا جملہ سنتے ہی دوبارہ نظریں جُھکا گئی۔
************************
کمرے کی خاموش فضاء میں سکوت طاری تھا۔ اُسکی ہلکی ہلکی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔شارق جو نیچے دوزانو ہوکر بیٹھا تھا، اُٹھا اور آکر عرشیہ کے برابر بیٹھ گیا ۔اُس نے عرشیہ کو اپنے حصار میں لیا اور سختی سے بھینچ لیا۔پھر دھیرے دھیرے اُسکے بالوں میں اپنی اُنگلیاں پھیرنے لگا۔
‘میں خدا کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اُس نے مجھے اِتنی خوبصورت اورخوب سیرت بیوی سے نوازا ہے۔ یقیناً میری کوئی نیکی الّلہ کو محبوب رہی ہے جو اُس نے میرے نصیب میں تمھیں لکھ دیا۔پلیز اب کسی قسم کا کوئی ڈر یا خوف اپنے دل و دماغ میں مت لاؤ۔ تمھارے کردار میں کسی قسم کا کوئی جھول نہیں ہے۔ تم کسی کی مُجرم نہیں ہو۔ تم نے کچھ غلط نہیں کیا، تمھارا ہر عمل اور ہر بات ہمیشہ بالکل ٹھیک رہی ہے۔ عاشی! تم جیسی با کردار، باحیا اور ایسی پیاری لڑکی یقیناً کسی کی بھی خواہش ہو سکتی ہے۔ اور میں خدا کا کتنا شُکر ادا کروں کہ اُس نے تم جیسا ہیرا میری جھولی میں ڈال دیا۔’
شارق نے اُس کی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کی تھی۔ عرشیہ نے سر اُٹھا کر دیکھا ، وہ کتنا خوش اور مطمئن لگ رہا تھا۔ اُسکی رگ و پے میں ایک سکون سرائےّت کر گیا۔کتنے دِنوں کا بوجھ تھا جو اب اُتر گیا تھا۔ وہ ہلکی پُھلکی ہوگئی تھی۔
************************
فون کی تیز گھنٹی پر وہ کچن سے تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ سانس اِتنا پھولا ہوا تھا کہ وہ بحال بھی نہ کر پائی اور فون اُٹھالیا۔
‘وعلیکم السّلام! یا وحشت کون پیچھے پڑا ہے تمھارے جو تم اِسطرح بھاگتے ہوئے آئی ہو؟’ دوسری طرف شارق تھا۔ ایک پل کو عرشیہ نے فون کان سے ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھا جیسے وہ یہیں کہیں کھڑا ہو اور اُسے بھاگتا ہوا دیکھ چُکا ہو۔
‘آپ کو کیسے پتا کہ میں بھاگتی ہوئی آئی ہوں؟’
‘ہم بھی شاہین کی نظر رکھتے ہیں۔’ پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا
‘جس طرح ہانپتی کانپتی آواز میں تم نے سلام کیا تھا اُسی سے پتا چل گیا تھا کہ تم دوڑ دوڑ کر آئی ہو۔’
‘اوہ!’ عرشیہ کے اب سمجھ آیا تھا
‘کیسے فون کیا؟’ وہ پوچھ رہی تھی۔ شارق ایک ٹھنڈی سانس بھر کر گنگنانے لگا
‘آ تجھے اِن بانہوں میں بھر کے،
اور بھی کرلوں میں قریب،
تو جُدا ہو، تو لگے ہے،
آتا جاتا ہر پل عجیب،
اِس جہاں میں ہے اور نہ ہوگا،
مجھ سا کوئی بھی خوش نصیب،
تو نے مجھ کو دل دیا ہے،
میں ہوں تیرے سب سے قریب،
میں ہی تو تیرے دل میں ہوں،
میں ہی تو سانسوں میں بسوں،
تیرے دل کی دھڑکنوں میں،
میں ہی ہوں، میں ہی ہوں!!
مینی مینی ہیپّی رٹرنز آف دا ڈے سوئیٹ ہارٹ(Many many happy returns of the day sweetheart)!’ اتنی خوبصورت آواز تھی کہ عرشیہ اُسکی آواز میں چُھپے سچّے جذبوں میں کھو سی گئی۔ جب وہ رُکا تو عرشیہ سرشار لہجے میں بولی۔
‘واہ! آج تو بڑے موڈ میں لگ رہے ہیں اور کتنی اچھی آواز ہے آپکی ، کتنا پیارا گاتے ہیں میں نے تو کبھی غور ہی نہیں کیا!’
‘ہائے!’ پھر ایک آہ بھر کر مزید بولا
‘ابھی تو آپ نے ہمیں ٹھیک سے دیکھا ہی کہاں ہیں۔ ابھی ہم میں کتنے شاہکار چُھپے ہیں جو بروئے کار لانے ہیں۔’ وہ ایک طویل سانس کھینچ کر ذومعنی بولا۔ اُسکا لہجہ جذبوں سے پُر تھا۔
‘میرا خیال ہے میں اے سی بند کردیتی ہوں، آج آپکی آہوں سے ہی کافی ٹھنڈ ہورہی ہے یہاں۔’ شارق کا چھت پھاڑ قہقہہ ریسیور (receiver) میں گونج اُٹھا۔
‘اچھا سا تیار ہوجاؤ فٹافٹ، میں بس مندرہ منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ لونگ ڈرائیو پر چلیں گے اور ڈنرآج باہر کریںگے۔’
‘مندرہ منٹ میں؟ پر آپ کے آفس کا راستہ کم سے کم پینتالیس منٹ کا ہے۔’ عرشیہ کو حیرت ہوئی
‘ارے تمھارے پاس تو ہم اُڑھ کر پہنچ جائیں لیکن ابھی ہمارے پروں کی سروس معطل ہے۔’ عرشیہ زور سے ہنسی تھی اور فون بند کرتے وقت وہ اُسے احتیاط سے گاڑی ڈرائیو کرنے کا کہنا نہیں بھولی تھی۔
اُسے تیار ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی دوبارہ بج اُٹھی۔ وہ مسکرا کر فون کی طرف بڑھی (یقیناً شارق ہی ہونگے) لیکن ایک اجنبی آواز سُن کر وہ محتاط ہوگئی۔
‘ہیلو!’ آواز کافی بھاری اور خوبصورت تھی
‘جی کون؟’ عرشیہ نے پوچھا ۔
‘یہ شارق حیدر کا گھر ہے؟’ اُسے یہ گمان گزرا کہ وہ اِس آواز کو پہلے بھی کئی دفع سُن چُکی ہے
‘جی یہ شارق کا ہی گھر ہے اور میں اُنکی مسز ہوں، پر آپ کون ہیں؟’ کچھ لمحے دوسری طرف گہری خاموشی چھائی رہی۔۔
اور اُسکے بعد جو کچھ عرشیہ کے کانوں نے سُنا وہ اُسکے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لینے کیلئے کافی تھا۔۔
ریسیور اُسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔
‘نہیں! نہیں شارق۔۔ خُدا کیلئے۔۔ ایسا۔۔ پلیز۔۔ ایسا مت کرنا۔۔ امّی۔۔پاپا۔۔ ماما۔۔
انیلہ بیگم کے آکر اُسے تھامنے تک وہ زمین بوس ہوچُکی تھی۔ پورے گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔ شارق کا ہائیوے پر بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اُسکی گاڑی ایک تیز رفتاردیو ہیکل گاڑی کے نیچے تقریباً کُچلی گئی تھی۔شارق کو بہت گہرے زخم آئے تھے۔ وہ آئی سی یو(ICU) میں تھا اور ڈاکٹرز نے اُسکے بچنے کی بہت کم اُمید دِلائی تھی۔اب صرف دعائیں ہی تھیں جو اُسے بچا سکتی تھیں۔ عرشیہ پورے دو گھنٹے بعد ہوش میں آئی تھی اور ہوش میں آتے ہی بِنا کسی کی بات سُنے وہ اسپتال بھاگی تھی۔
************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});