اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

‘سانس تو لے لو بہن ۔اوہ! میں تو بھول گئی کہ شارق بھائی کا نام آتے ہی آپکی سانسیں قابو میں کہاں رہتی ہیں۔’ وانیہ نے اُسے چھیڑا
‘وانیہ کی بچّی! ‘ عرشیہ نے دانت پیس کرٹیبل پر رکھا کانٹا اُٹھا لیا جسے فوراً ہی وانیہ نے چھین لیا
‘کیوں اپنے ہاتھوں سے میرا خون کر رہی ہو؟ شادی سے پہلے جیل چلی جاؤگی!’ وانیہ نے آنکھیں مٹکائیں تو عرشیہ کی ہنسی چھوٹ گئی
‘ہا ہا ہا! بہت فضول بولتی ہے یہ لڑکی!’ ویٹر کھانا لیکر آچکا تھا ۔ دونوں نے چائنیز ڈِشز آرڈر کی تھیں۔ عرشیہ نے تھوڑا ہی کھایا تھا شاید طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باعث اُسکی غذا کچھ کم ہوگئی تھی پر وانیہ نے کھانے کے ساتھ پورا انصاف کیا تھا۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آئسکریم سرو کی گئی۔ اِسی دوران وانیہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
‘عرشیہ تمھیں کیا پریشانی ہے، کس بات کا اِتنا سٹریس لیا ہے تم نے پچھلے دِنوں؟’
‘نہیں تو! کچھ بھی تو نہیں!میرا خیال ہے اب ہمیں چلنا چاہئیے ، کافی لیٹ ہوگیا ہے۔’ عرشیہ یہ کہتی کھڑی ہی ہوئی تھی کہ وانیہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر واپس اُسے کرسی پر بٹھادیا۔
‘بیٹھ جاؤ! جب تک تم اپنی پریشانی مجھ سے کہہ نہیں لیتیں تب تک ہم کہیں نہیں جا ئیںگے۔ معلوم بھی ہے سب پچھلے دِنوں تمھیں لیکر کتنا پریشان رہے ہیں اور اِسپیشلی شارق بھائی۔
لاکھ پردوں میں رہو،
بھید دل کے کھولتی ہے،
شاعری سچ بولتی ہے! ‘
وانیہ نے شعر پڑھا۔ عرشیہ بھی اِتنے دن سے اپنی اُلجھنیںاکیلے سنبھالتے سنبھالتے شاید تھک چکی تھی اسلئے سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے تھک کر کرسی کی پُشت سے ٹیک لگا ئی اور آنکھیں موند لیں۔بچپن سے لیکر آج تک ہونے والے تمام واقعات اور پچھلے دِنوں روحیل کے ساتھ گُزرے دِن کا سارا احوال اُس نے وانیہ کے گوش گُزار کردیا۔ وانیہ کے سر پر گویا بم پھٹا تھا وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی جس نے اِتنا عرصہ چُپ چاپ سب کچھ برداشت کیاتھا ۔
‘اکیلے ہی سب کچھ سہتی رہیں؟ مجھ سے تو کہا ہوتا کبھی!’ وانیہ کو افسوس ہو ا۔ عرشیہ نے افسردہ سی مسکراہٹ دی ، دو انمول موتی اُسکی آنکھ سے ٹپکے اور شال میں جذب ہوگئے۔ اچانک سے ماحول میں ایک عجیب سی خاموشی طاری ہوگئی تھی۔سب کچھ سُننے کے بعد چند لمحے تو وانیہ بھی کچھ بول نہ پائی تھی پھر ماحول کی افسردگی کو کم کرنے وہ شوخ لہجے میں بولی۔
‘اوہ! تو میڈم اور کتنے شیدائی ہیں آپکے؟ جہاں جاتی ہو اچھے اچھوں کے ہوش اُڑادیتی ہو۔’
‘ہائیں! کیا مطلب؟’ عرشیہ نے ہنستے ہوئے پوچھا
‘مطلب یہ کہ اب روحیل بھی آگیا اور شارق بھائی تو پہلے سے ہی تمھارے دیوانے پروانے ہیں۔’ عرشیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ وہ اب اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ وانیہ نے بھی اُسکی ہنسی پر سُکھ کا سانس لیا جب عرشیہ بولی
‘اُس شخص کی تو میں بھی دیوانی ہوں۔۔’
‘ہائے! کون نہ مر جائے آپکی اِس ادا پر۔ ابھی شارق بھائی یہاں ہوتے تو نکاح دو ہفتے بعد کے بجائے ابھی پڑھوالیتے اور رخصتی بھی ابھی کروانے پر تُل جاتے اور کمرہ بھی یہیں اِسی جگہ بُک کروالیتے!’ وہ یہ کہتے ساتھ ہی بِل کے پیسے مینیو کارڈ میں رکھ کر باہر کی طرف بھاگی
‘وانیہ کی بچّی۔ ٹھہرو ابھی بتاتی ہوں تمھیں۔۔’ وہ بھی اُسکے پیچھے بھاگی تھی
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شدید سردی کے دن تھے۔ پچھلے دِنوں موسمِ سرما کی بارشوں نے موسم میں اچھی خاصی خُنکی اور ٹھنڈ پیدا کردی تھی۔ سڑک بالکل سُنسان تھی۔ ٹھنڈی ہوا اور سڑک پر بکھرے کاوے انجلی کے پتّوں کی سرسراہٹ نے ماحول کو کچھ اور سرد بنادیا تھا۔ گاڑی تک پہنچنے میں کچھ منٹوں کا راستہ طے کرنا باقی تھا، وہ دونوں پیدل ہی چل پڑیں۔ دونوں ہلکی پُھلکی گپ شپ کے ساتھ راستہ طے کر رہی تھیں۔
ایک بہت ہی مانوس سی خوشبو اچانک عرشیہ کو اپنے وجود میں اُترتی محسوس ہوئی۔ خاص پرفیوم کی مہک نے اُسے چونکا دیا تھا۔ اُسے اپنے قریب وہی مخصوص خوشبو محسوس ہو رہی تھی جو روحیل کے پاس آنے پر محسوس ہوتی تھی۔
اِتنی نفرت کیوں کرتی ہو مجھ سے۔۔
کیا کمی نظر آتی ہے تمھیں مجھ میں۔۔
محبت کا جواب محبت سے کیوں نہیں دیتیں۔۔
میں چاہوں تو تمھارے اس ہتک آمیز روّیے کا اچھا سبق سکھا سکتا ہوں ۔۔
عرشیہ کے کان میں ماضی کے کئی سوالات باز گشت کرنے لگے ،اُسے وہ خوفناک رات آج بھی یاد تھی۔ وہ کچھ سہم کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے کسی کو تلاش کر رہی ہو۔ پر یہاں تو دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہ دے رہی تھی۔ وہ پوری تسلّی کرکے کچھ پُر سکون ہوگئی اور آگے قدم بڑھانے لگی۔
‘کاش کہ مِل جائے محبت تیری آج یا کل،
اِن ہی سوچوں میں سارے کٹ جاتے ہیں پل،
مُقدر پڑھنا ہوتا گر مُمکن سہی،
تیرا نام لِکھ دیتا ہر سطر پہ وہیں،
بچھڑ کر وجود تجھ سے یہ کہاں جائیگا؟
جہاں ہی چھوڑ دے تو پھر کون اپنائیگا،
خواہش اپنے دل کی اب ہے مُرجھاگئی،
ٹوٹے سپنوں کو اِن پلکوں پہ ہے سجاگئی،
انجانے خوف میںاب تنہا بھٹک رہا ہوں میں،
پل پل تیری یادوں میں اب رو رہا ہوں میں،
دوریوں سے جو خود کو تڑپارہا ہوں میں،
زندگی سے بے نِشاں ہوا جارہا ہوں میں!’
رات کے اندھیرے کی مُقدس خاموشی میں اِس آواز نے ایک خوفناک سا اِرتعاش پیدا کیا تھا۔ اِس آواز کو تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔ عرشیہ کے بڑھتے قدم وہیں رُک گئے، گویا آگے بڑھنے سے اُسکے پاؤں اِنکاری ہو گئے تھے۔ وانیہ کے ہاتھ پر اُسکی گرفت غیر معمولی مضبوط ہوئی تھی۔ اُس نے چونک کر دیکھا۔ چہرہ خوف سے سفید پڑ رہا تھا۔ اِسوقت اُسکی حالت قابلِ رحم لگ رہی تھی۔
‘عرشیہ سُمیر، رائٹ؟’ آواز اسکی پُشت پہ کافی قریب سے سُنائی دی ۔ وہ پتّھر کی بن گئی تھی۔ اُسکے لئے یہ وقت ایک سخت آزمائش ثابت ہوا۔ جس کی پرچھائی سے بھی وہ دور بھاگتی تھی، اُسکی آواز اِس ُسنسان سڑک پر اُسے پّتھر کا بُت بنانے کیلئے کافی تھی۔ وہ بِنا رُخ موڑے اور اِس انجان شخص کو دیکھے تیزی سے قدم آگے بڑھانے لگی کہ روحیل نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسکے آگے بڑھنے کی ساری راہیں روک دیں۔
‘رکو پلیز!’ وہ تیزی سے اُسکے سامنے آگیا۔ عرشیہ کو چند لمحے لگے تھے اُسے پہچاننے میں
وہ یقیناً روحیل ہی تھا۔۔ پر۔۔
بِکھرے بال۔۔
بڑھی ہوئی شیو۔۔
خو بصورت آنکھوں کے گِرد گہرے سیاہ حلقے۔۔
آنکھوں سے بے پناہ سُرخی جھلک رہی تھی جیسے صدیوں کا جاگا ہوا ہو۔۔
شِکن آلود کپڑے۔۔
ایسا تو نہ تھا وہ۔۔
ہر وقت اپنے آپکو خوبصورتی اور نفاست سے تیار کرکے رکھنے والے شخص کا یہ کونسا روپ تھا؟ وہ سمجھ نہ پائی اور ناسمجھی سے اُسے کچھ دیر دیکھتی رہی۔ چند لمحے اِسی طرح سِرک گئے تھے۔
‘کہاں کہاں چُھپوگے تم آنکھوں سے،
کبھی چُھپا ہے چاند بھی سِتاروں سے!’
وہ عرشیہ کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ عرشیہ پر یہ لمحہ بھاری ثابت ہوا، اُسکا غصّہ حد سے سوا ہوگیاتھا۔ دل چاہا روحیل کا یہ خوبصورت منہ نوچ ڈالے۔اِس سے پہلے کہ عرشیہ غصے سے بے قابو ہوتی وانیہ بول پڑی۔
‘روحیل صاحب! اچھے گھرانوں کے لڑکوں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا کہ وہ اکیلی لڑکی دیکھ کر اُسے تنگ کریں۔ آپ پلیز عرشیہ کا ہاتھ چھوڑ دیں، ابھی اُس میں اتنا ظرف باقی ہے کہ وہ آپکی بات سُن سکے۔’ عرشیہ نے اَسکی بات پر غصے سے اُسے دیکھا جب وانیہ نے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر یہ اِشارہ دیا کہ روحیل کی بات سُن لینی چاہئیے۔
‘اوہ سوری! ‘ روحیل کو اپنی غلطی کا احساس ہوااور اس نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیا
‘کیسی ہو؟’ روحیل نے طویل خاموشی کے بعد سوال کیا، وہ اسے کچھ کمزور سی لگ رہی تھی۔ عرشیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی شال کو مزید اچھی طرح اپنے اطراف لپیٹ لیا۔
‘عرشیہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم میرے بارے میںایک بار دل سے سوچو؟ میں نے بہت کوشش کی ہے کہ تم سے کبھی نہ ملوں، تمھارے پاس نہ آؤں اور تمھیں بھول جاؤں۔۔ لیکن۔۔ ابھی بھی تمھیں دیکھتے ہی یہ دل بے قرار ہوگیا۔ یونیورسٹی کیا ختم ہوئی ایسا لگتا ہے جیسے میری زندگی کی سانسیں بھی کوئی چھین رہا ہو مجھ سے۔ دیکھو میں کیا سے کیا ہوگیا ہوں۔۔ ٹوٹ گیا ہوں۔۔ بکھر گیا ہوں۔۔ تم کیا دور ہوئیں میرا پورا وجود ختم ہوگیا ہے۔ ۔ جو چیز مجھے پسند آجائے میں اُسے حاصل کرکے رہتا ہوں پھر تم میری دسترس سے اتنی دور کیوں ہو عرشیہ؟’
وہ اب بھی کچھ نہ بولی لیکن اُسکے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ ضبط کے آخری مراحل پرہے۔اُسکا چہرہ اس بات کا غماز تھا کہ اُسے کتنا ناگوار گُزر رہا ہے یہ وقت۔
‘کچھ بولو عرشیہ! پلیز کچھ تو بولو! میں تمھاری آواز تک سُننے کیلئے ترس گیا ہوں۔اب مزید ضبط نہیں ہوتا مجھ سے، پلیز بات کرو مجھ سے۔’
یہ کہہ کر وہ دو قدم آگے آیا، اُسکی چال میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
‘جذبات کا رشتہ دل سے ہوتا ہے روحیل اور میرے دل کا رشتہ شارق کے ساتھ جُڑ چکُا ہے!’ عرشیہ نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا ۔ روحیل کی آنکھوں کی سُرخی کچھ مزید بڑھ گئی اور وہ غصے سے چلّایا۔
‘کیوں؟ ایسا کیا ہے شارق میں جو مجھ میں نہیں ہے؟ میرے پاس شارق سے کہیں زیادہ پیسہ،بینک بیلنس ہے۔ شکل و صورت میں بھی اُس سے کہیں زیادہ ہوں۔ تمھیں اُس سے زیادہ چاہتا ہوں اور اس سے کہیں زیادہ خوش رکھ سکتا ہوں۔میرا اسٹیٹس اُس سے بہت اونچا ہے۔ بولو!ایسا کیا کروں میں؟ کتنے روپے کتنا پیسہ تمھارے قدموں میں ڈھیر کروں کہ تم شارق کو دل سے نکال سکو۔ اُس سے منگنی توڑ کر۔۔۔۔۔۔’
‘بس۔۔۔! ‘ اُس کا باقی کا جملہ اُس کے منہ میں ہی رہ گیا تھا، عرشیہ نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ اُسکے منہ پر دے مارا
‘بہت سن لی تمھاری بکواس۔ اگر اس سے آگے ایک لفظ بھی اور بولا تو یہ خوبصورت چہرہ جس پر تمھیں بہت ناز ہے تھپڑوں سے لال کردوںگی۔ اِسوقت جوتمھارا یہ غرور اور پیسے کا نشہ بول رہا ہے اِسے جاکر اپنی جیسی لڑکیوں پر خرچ کرو۔ میں لعنت بھیجتی ہوںتم پر اور تمھارے اِس پیسے پر۔مجھے تو تمھاری شکل سے بھی نفرت ہے۔ شارق میں اور تم میں یہی فرق ہے کہ میرا دل اُسکے پاس ہے اور تم اُسکے پاؤں کی دھول بھی نہیں بن سکتے۔میں مر تو سکتی ہوں لیکن شارق سے کبھی الگ ہونے کا تصور بھی نہیںکر سکتی۔وہ میرے دل میں بستا ہے۔ تمھیں تمھارے سارے سوالوں کا جواب مل گیا ہے، اسلئے دوبارہ کبھی میری راہ میں حائل ہونے کی کوشش بھی مت کرنا!’
یہ کہہ کر وہ پلٹی تھی اور بہت زور کی آواز کے ساتھ کوئی وجود زمین بوس ہوا تھا۔وہ گرنے کی آواز پر گھبرا کر پلٹی، روحیل زمین پر اوندھے منہ بے ہوش پڑا تھا۔ وہ دونوں ابھی کچھ سمجھنے کی کوششوں میں ہی تھیں کہ قریب کھڑی گاڑی سے اُتر کر ایک بوڑھا شخص بھاگتا ہوا روحیل کے قریب آیا ۔ وہ حلیے سے کوئی ملازم لگ رہا تھا۔
‘روحیل بابا! روحیل بابا!’ اُس شخص نے اُسے پورا جھنجھوڑ ڈالا
‘کک۔۔ کیا ہواِ نھیں؟’ وانیہ اُسکے قریب دوزانو ہو کر بیٹھ گئی
‘آپ لوگ کون ہو بیٹا؟’ بوڑھے نے اُن دونوں سے سوال کیا۔ عرشیہ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی، وہ کچھ بھی بول پانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اسلئے وانیہ بول پڑی۔
‘ہم روحیل کے کلاس فیلوز ہیں لیکن اِنکو ہوا کیا اچانک؟’ اب وہ بوڑھا آدمی ڈرائیورکے ساتھ سہارا دے کر روحیل کو گاڑی میں ڈال رہا تھا
‘بس بیٹا!ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے انکو چلنے پھرنے سے۔ ِانکا پچھلے دِنوں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اِسلئے ڈاکٹر نے بیڈ ریسٹ کہا تھا۔پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ہمارے روحیل بابا کو۔ وہ ایسے تو نہ تھے۔کچھ دنوں سے اپنا آپ بھلائے بیٹھے ہیں۔ نہ کھانے پینے کا ہوش رہا ہے نہ گھر والوں کا۔ سارا سارا دن اپنے کمرے میں پڑے سگریٹ پھونکتے رہتے ہیں یا اُٹھ کر سڑکوں کی خاک چھاننے اِدھر اُدھر نکل جاتے ہیں۔بابا کو کونسا دکھ کھائے جارہا ہے، نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے ہمارے ہنستے کھیلتے روحیل بابا کو۔بیگم صاحبہ اور چھوٹی بی بی بھی بہت پریشان رہتی ہیں انکے لئے۔ اچھا بیٹا چلتا ہوں!’ بوڑھے شخص نے ٹھنڈی آہ بھر ی اور گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو چلنے کا اِشارہ کیا ۔ ڈرائیور نے آگے بڑھا دی۔
وانیہ نے واپسی کیلئے جیسے ہی عرشیہ کا ہاتھ تھاما ، اُسکے پورے وجود میں کرنٹ دوڑ گیا ۔اُس کا ہاتھ یخ بستہ برف کی مانند ٹھنڈا ہورہا تھا اور شدید سردی کے باوجود بھی اُسکی پیشانی پر جا بجا پسینے کے قطرے موجود تھے۔وانیہ کو اِس لمحے اُسکی حالت پر ترس آیا ۔ وہ ابھی طویل بیماری سے اُٹھی تھی ، ابھی اُسکی طبیعت تھوڑی سنبھلی تھی اور ایسے میں کسی بھی قسم کا رِسک اُس کیلئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا تھا۔وہ سمجھ سکتی تھی کہ ِاسوقت عرشیہ کن مراحل سے گُزر رہی ہے اسلئے وہ اُسے ساتھ لیے گاڑی کی طرف بڑھنے لگی پر وہ تو جیسے وہیں جم سی گئی تھی۔
‘پلیز عرشیہ چلو تھوڑی ہمّت کرو، سب ٹھیک ہے!’ وہ اُسے زبردستی کھینچتی ہوئی گاڑی کی طرف لے آئی اورجیسے ہی وہ عرشیہ کو گاڑی میں بٹھا کر دوسری طرف سے آکر اُسکے برابر بیٹھی وہ اپنا ضبط کھو بیٹھی اور وانیہ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔وانیہ نے اُسے روکا نہیں کیونکہ اِسوقت اُسکے دل کا غبار نکلنا بہت ضروری تھا۔کافی دیر رونے کے بعد وہ بمشکل بولی۔
‘کیوں ہورہا ہے میرے ساتھ ایسا؟’

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!