اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

‘جی؟ کچھ کہا ؟ سوری میں نے سُنا نہیں۔’ عرشیہ کو رابیل کافی پسند آئی تھی۔ اُسے ہمیشہ ایسی نٹ کھٹ لڑکیاں بہت بھاتی تھیں۔ وہ روحیل کی بہن تھی صرف اِس بِنا پر وہ اسے ناپسند نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اُسے لئے سیڑھیاں چڑھی اور پھر اُسے ساتھ لئے ایک کمرے میں داخل ہو گئی۔
‘اب آپ اپنا ابایا اُتار دیں اور ایزی ہوجائیں، یہاں کوئی بھی نہیں آئے گابھابھی۔’ عرشیہ نے سر اثبات میں ہلایا اور پوچھا
‘یہ بار بارآپ مجھے بھابھی کیوں کہہ رہی ہیں؟’ وہ اسٹریٹ فاروڈ (straight forward) تو ہمیشہ سے تھی اسلیئے جو سوال اُسکی اُلجھن بڑھا رہا تھا وہ پوچھ بیٹھی جس پر رابیل ہنسی۔
‘بھابھی کو بھابھی نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟’
‘لیکن میں آپکی بھابھی کیسے ہوئی؟’ اب کی بار عرشیہ کے لہجے میں تھوڑی بیزاری در آئی تھی ۔ حرا بیگم کے جُملے اور اس پر رابیل کی ذومعنی باتیں اُسکی سمجھ سے باہر تھیں۔ پہلی ہی مُلاقات میں اِتنی بے تکلفی اُسے کھٹک رہی تھی۔
‘اب اتنی انجان بھی نہ بنیں میری سوئیٹ سی بھابھی، چُپکے چُپکے میرے ہینڈسم بھائی کا دل چُرا لیا تو اب روحیل بھائی کے ناطے سے آپ میری بھابھی ہی ہوئیں نا؟’ رابیل نے لہک کر کہا جس پر عرشیہ کا دوپٹّہ ٹھیک کرتا ہاتھ وہیں رُک گیا
‘واؤ! آپ کتنی زیادہ پیاری ہیں یار۔ اور آپ کے بال، اُف اتنے لمبے! جیسا سُنا تھا اُس سے بڑھ کرحسین پایا ہے آپ کو۔ ایسے ہی تو میرے بھائی فدا نہیں ہوئے تھے آپ پر!’
‘کک۔ کیا مطلب ہے تمھارا؟’ غصّے کی شدت سے عرشیہ کی آواز لڑکھڑا گئی تھی ۔ رابیل نے اُسکے گرد بازو حمائل کیا اور اِس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی اُسکی کزن نے اندر جھانک کر اُسے حرا بیگم کا پیغام دیا ، وہ اسے ایک ضروری کام کیلئے نیچے بُلا رہی تھیں۔
‘آپ یہیں آرام سے بیٹھ جائیں میں بس ممّی کی بات سن کر دو منٹ میں واپس آئی’ وہ بھاگی تھی
رابیل کے جانے کے بعد اُس نے کمرے پر غور کیا ۔ کمرہ ایک خوابگاہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔وہاں پر موجود ہر چیز بلو کامبینیشن کی تھی۔ سامنے ٹیرس کی کھڑکی پر لگے نیوی بلو پردوں سے باہر کے در و دیوار پر لگے برقی قمقموں کی جگمگاہٹیں چھن چھن کر اندرآرہی تھیں۔ سائیڈ پر رکھی ٹیبل پر ایک خوبصورت سا ٹیبل لیمپ اور کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ٹیبل سے کچھ فاصلے پرایک چھوٹا دروازہ تھا اور اُس سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بڑا سا ریک بنا ہوا تھا جس میںڈی وی ڈی پلئیر، کچھ ڈی وی ڈیز ، گٹِار اور نیچے کے پورشن میں باڈی بلڈنگ کا کچھ سامان رکھا تھا۔ عرشیہ کو شک گُزرا کہیں یہ کمرہ روحیل کا تو نہیں ہے؟ اور اسکے ساتھ ہی اُس نے گردن موڑ کر بیڈ کی طرف دیکھا۔ بیڈ کمرے کے این وسط میں رکھا تھا اور پیچھے کی دیوارپر روحیل کی مسکراتی ہوئی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔وہ کچھ قدم آگے بڑھی اور اُس تصویر کو غور سے دیکھا جس میں روحیل نے ہاتھ میں گِٹار پکڑا ہوا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا اور ساتھ ہی اُسکی آنکھیں بھی مُسکرا رہی تھیں۔ بلِا شبہ اُسکی مسکراہٹ میں ایک عجیب سا سحر تھا۔عرشیہ نے آج سے پہلے کبھی اُس کے چہرے پر غور نہ کیا تھا۔
‘کیا دیکھ رہی ہو؟ ‘ عرشیہ کی محویت کو پیچھے سے آتی روحیل کی آواز نے توڑا۔ وہ مُڑی تھی اور روحیل کی نظروں نے ہٹنے سے اِنکار کردیا تھا۔
بلو اور وائٹ کلر کے کُرتے پاجامے میں وہ بھی اسی خواب نگر کا حصّہ لگ رہی تھی ۔ ۔
میک اپ کے نام پرہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک ۔۔
لمبے بالوں کی ڈھیلی سی پونی بنائے ۔۔
چھوٹی چھوٹی سی لٹیں اُسکے چہرے کے گرد لِپٹی ہوئی تھیں۔۔
نازک کلی کی طرح کِھلا گُلابی چہرہ اُسے دیکھ کر مزید سُرخ ہو گیا تھا۔۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

روحیل کا دل چاہا یہ لمحے یہیں رُک جائیں اور وہ اُسے دیکھتا رہے۔اُسکی موجودگی کو اپنے آس پاس محسوس کرتا رہے۔ لیکن یہ اُسکے اختیار میں تھا ہی کب! اب تو کچھ بھی اختیار میں نہیں رہا تھا۔ عرشیہ تیزی سے باہر نکلنے کے غرض سے جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھی روحیل اُسکی راہ میں حائل ہو گیا۔
‘میری ہر نظر تیری مُنتظر،
تیری ہر نظر کسی اور کی’
میری زندگی تیری بندگی،
تیری زندگی کسی اور کی،
کبھی وقت جو ملے تجھے،
ذرا آ کے دیکھ میرے حال کو،
میری ہر گھڑی تیرے لئے،
تیری ہر گھڑی کسی اور کی،
مجھے صرف تیری طلب تھی پر،
نجانے تو کیوں ملا نہیں،
تو اُسے مِلا میرے صنم،
جسے تھی طلب کسی اور کی!’ روحیل نے غزل پڑھی
‘یہ کیا حرکت ہے؟ ہٹومیرے راستے سے!’ عرشیہ نے اپنے غصّے کو بمشکل دبایا۔ اُسے اندازہ ہورہا تھا کہ اُس نے یہاں آکر غلطی کردی ہے
‘ہٹ جاؤںگا لیکن پہلے آپ کو میری بات سُنّنی پڑیگی’ وہ بہت پرُسکون انداز میں دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا
‘مجھے تمھاری کوئی بات نہیں سنّنی! ہٹ جاؤ جانے دو مجھے پلیز!’ وہ حقیقتاً ڈر گئی تھی وہ یہاںبالکل اکیلی تھی
‘میں بس تمھیں تھینکس کرنا چا ہتا ہوں’ روحیل تھکے ہوئے لہجے میں بولا لیکن عرشیہ کوکچھ بولتادیکھ کر وہ اُسے ٹوک کر دوبارہ گویا ہوا
‘اوہوں! ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی ہے! تم اِس دعوت میں آئیں مجھے بہت اچھا لگا، میں اُمید نہیں کر رہا تھا کہ تم میرے بُلانے پر۔۔۔’
‘کسی خوش فہمی میں مت رہنا روحیل! میں تمھارے بُلانے پر ہرگز نہیں آئی ہوں۔صرف شارق کے مجبور کرنے اور اُنکے اصرار پر آئی ہوں ورنہ تمھارے گھر تو کیا، تمھاری شکل برداشت کرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے مجھ میں!’
‘اتنی نفرت کیوں کرتی ہو مجھ سے؟ کیا کمی نظر آتی ہے مجھ میں؟’ وہ دو قدم آگے بڑھا تھا اور عرشیہ لرز کر پیچھے ہوئی تھی
‘دیکھو روحیل پلیز! مجھے جانے دو، میرے صبر کا اِمتحان مت لو ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گی۔’
‘مثلاً کیا کروگی تم؟’ روحیل اُسی اطمینان سے بولا اور اُسکا یہ انداز عرشیہ کو سُلگا گیا ۔ وہ دبی دبی آواز میں چیخی
‘منہ توڑ دوںگی تمھارا! شرم نہیں آتی تمھیں، اپنے گھر والوں کو میرے بارے میں نجانے کیا کیا بتا رکھا ہے جو وہ ایسی عجیب اور ذومعنی باتیں کر رہے تھے۔تم نے اُنھیں اُسی وقت بتایا کیوں نہیں کہ میں شارق کی منگیتر ہوں؟ ہونہہ! پر تم کیوں بتاؤگے تمھارے اپنے دل میں جو چور ہے۔تم نے مجھے بھی اُن لڑکیوں جیسا سمجھ رکھا ہے جو ایک کے ساتھ منسوب ہوکر بھی دوسروں سے چکر چلائیں اور تمھاری گھٹیا باتوں میں آکر پگھل جائیں۔ یاد رکھنا میں اُن لڑکیوں میں سے ہرگز نہیں ہوں جو تمھاری جھوٹی پیار بھری باتوں میں آجاؤں۔ سمجھے!’
‘اوہ! یو شٹ اپ(Oh you shut up)!’ وہ پوری قوّت سے دھاڑا اور عرشیہ سہم گئی تھی۔ اُسکا سارا غصّہ اور تیز طراری پل بھر میں ہوا ہوگئی تھی۔ وہ اپنے آپ میں سِمٹ سی گئی۔
‘تم!تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو ہاں؟’ غصّے کی شدت سے اُسکاچہرہ سُرخ ہوگیا تھا۔ اُسنے تیزی سے باہر نکلتی عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر رُخ اپنی جانب کیا۔
‘جا کہاں رہی ہو، بات سُنو میری!’
‘چھوڑو! چھوڑو میرا ہاتھ گھٹیا انسان!’ عرشیہ کیلئے اُسکا یہ انداز بالکل غیر متوقع تھا اسلئے وہ پوری جی جان سے کانپ گئی تھی
‘اور اگر نہ چھوڑوں تو؟ اگر میں چاہوں تو تمھارے اس ہتک آمیز روّیے کا اچھا سبق سکھا سکتا ہوں ۔ بہت برداشت کیا ہے میں نے، اب اِتنی آسانی سے جانے نہیںدوںگا تمھیں۔’
‘میں کہہ رہی ہوں فوراً چھوڑو میرا ہاتھ! بدتمیز، گھٹیا انسان تمھاری ہمّت۔۔۔’
‘ہش!!!!!! اب آگے ایک لفظ نہیں!’ عرشیہ کے ہاتھ پر اُسکی گرفت کچھ اورسخت ہوئی تھی
‘بتاؤ مجھے کیا گھٹیاپن دیکھ لیاتم نے میرے اندر؟ بچپن سے لیکر آج تک تم صرف میری تذلیل کرتی آئی ہو اورمیں تمھارے نفرت میں ڈوبے ہر ہر کانٹے کو پھول سمجھ کر چُنتا رہا ہوں۔ ایسا کونسا گُناہ کیا ہے میں نے، بولو؟’
‘دیکھو اگر تم نے میرا ہاتھ نہ چھوڑا تو میں چیخ چِلّا کر سب کو اِکٹھا کرلونگی۔’ عرشیہ نے بے چارگی سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ آج وہ بُرا پھنسی تھی اور زندگی میں پہلی بار اُسے روحیل سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل اپنا ہاتھ چُھڑانے کی کوششوں میں تھی لیکن ناکام رہی۔ روحیل کی گرفت مضبوط تھی۔
‘اچھ۔چھا!! تو پھر چیخو چِلّاؤ، پر یہ مت بھولو کہ اسوقت جہاں تم کھڑی ہو یہ میرا کمرہ ہے۔ نُقصان تمھارا ہی ہوگا، اور میں کبھی تمھارا نقصان نہیں چاہوںگا اسلئے بس وجہ بتادو مجھ سے نفرت کی؟ بِنا کسی وجہ کے اتنی شدید نفرت کسی سے نہیں ہو سکتی۔’ عرشیہ نے سہم کر اُسے دیکھا پھر روتے ہوئے بولی
‘ مجھے جانے دو۔ میں تم سے تمھارے تصّور سے بھی زیادہ نفرت کرتی ہوں۔ پلیز مجھے جانے دو۔ میری زندگی، میرا دل، میری روح، میری سانسیں صرف شارق کی امانت ہیں۔ میں شارق کے بغیر نہیں رہ سکتی بہت محبت کرتی ہوں میں اُن سے۔ مجھ پر رحم کرو روحیل اور چلے جاؤ ہماری زندگیوں سے۔ میں تمھاری صورت بھی اپنے آس پاس دیکھنا نہیں چاہتی۔ میری ہنستی مسکراتی زندگی میں زہر مت گھولو۔ جسٹ گو اوے پلیز (just Go away plz)’
الفاظ تھے یا نشتر جس سے روحیل کا پورا وجود بکھر گیاتھا اور اُس کے خوابوں کی دھجّیاں اُڑا گیا تھا (یہ لہجہ، ایسی نفرت و حقارت۔ اُف!) عرشیہ کے ہاتھ پر اُسکی گرفت ڈھیلی پڑگئی ،وہ اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ سے آزاد کراتی دیوانہ وار باہر کی طرف بھاگی اور یہ دیکھنے سے قاصر رہی کہ دروازے کی اوٹ میںچُھپی رابیل سب کچھ سُن چکی تھی۔وہ اپنے جان سے پیارے بھائی کے کرب کا اندازہ بخوبی لگا سکتی تھی۔ رابیل کے اندر بھی کہیں بہت کچھ ٹوٹا تھا لیکن اب اُسے اپنے بھائی کو سنبھالنا تھا۔
************************
چار دن تک وہ شدید بخار میں پُھنکتی رہی تھی۔ شارق سمیت سب ہی اُس کیلئے بہت پریشان تھے جو اچانک اِتنی بیمار پڑ گئی تھی۔نیم بے ہوشی اُس پر طاری رہتی ۔ ڈاکٹرکے مُطابق وہ کسی اِسٹریس میں تھی جس کی وجہ سے اُسکی طبیعت اِتنی خراب ہوگئی تھی اور اُسے ٹھیک ہونے میں کچھ عرصہ لگنا تھا۔شارق نے کسی کو بھی اُس سے کچھ بھی پوچھنے سے منع کردیا تھا، ابھی کسی بھی طرح کا اِسٹریس اُس کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اب وہ آہستہ آہستہ سنبھل رہی تھی۔ سب بڑوں نے اُسکی ذہنی کیفیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے شارق کا فیصلہ مان لیااور کچھ ہی دنوں بعد اُن دونوں کی شادی طے کردی گئی۔
اُسکی نیند کا تسلسل دروازہ کُھلنے کی گرجدار آواز نے توڑا ۔ وہ ہڑہڑا کر اُٹھ بیٹھی۔ نائٹ بلب کی ملگجی روشنی میں اُسے وانیہ کا تپا تپا چہرہ نظر آیا تو وہ اپنی ہنسی دباتی دوبارہ بیڈ پر نیم دراز ہو گئی۔ وانیہ نے ہاتھ بڑھا کر سارے بٹن آن کردئیے، پورا کمرہ دودھیا روشنی میں نہا گیا۔
‘اب اُٹھ بھی جاؤ، کتنے سالوں کی نیند پوری کر رہی ہو؟’ وانیہ دھپ سے بیڈ پر چڑھ کر اُسکے سامنے بیٹھ گئی۔ عرشیہ نے کوئی جواب نہ دیا، کچھ دیر وہ اُسکے جواب کی منتظر رہی پھر تیزی سے اُسکی کلائی پکڑ کر اُسے کھینچ لیا۔
‘ہائے الّلہ !ہاتھ توڑ دیا میرا۔’ وہ اپنا ہاتھ سہلانے لگی۔ وانیہ اُسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی
‘کیا ہے؟ ایسے کیا ٹُکر ٹُکر دیکھ رہی ہو؟
‘یہ تمھارے خوابوں کے گھوڑوں کی شاہی سواری کہاں رواں دواں تھی جو نیند ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی؟’ وانیہ کو اب وہ پہلے سے کافی بہتر اور فریش لگ رہی تھی ورنہ پچھلے دنوں بخار کی شدت سے وہ بالکل پیلی پڑگئی تھی۔
‘اب اِتنا بھی نہیں سوئی!’
‘اچھا! رات کے آٹھ بجنے والے ہیں اور کتنا سونا تھا؟’
‘ہائیں! آٹھ۔۔’ وہ اُچھل پڑی (میں اتنی دیر کیسے سو گئی) اسے یاد تھا وہ دوپہر کو تین بجے شارق کو سی ا ف کرکے آکر لیٹی تھی اور اب واقعی گھڑی آٹھ بجا رہی تھی۔
‘چلو اُٹھو یار کیا بور کرتی ہو مجھے بھی۔ جب سے یونیورسٹی ختم ہوئی ہے اِتنے مہینوں سے ہم کہیں باہر نہیں گئے۔ ابھی تم کچھ دن میں شادی کرکے اپنے پیا کو پیاری ہوجاؤگی پھر کہاں ہاتھ آؤگی ۔ شارق بھائی نے چھوڑنا نہیں ہے تمھیں ایک لمحے کیلئے بھی اِسلئے بس ہم آج ہی ڈِنرپر چل رہے ہیں اور وہ میری طرف سے ہوگا۔’ وانیہ نے اُسے چلنے کا الٹی میٹم دیا
‘بلّے بلّے ! کس خوشی میں؟ کہیں کوئی اپنا نصیب خراب تو نہیں کر بیٹھا؟ ‘ اُس نے شرارت کی
‘اوئے! کیا مطلب؟’ وانیہ نے اسے گھورا
‘میرا مطلب کہ کوئی دیوانہ عاشق تمھارے پیچھے تو نہیں پڑگیا جس کی خوشی میں آج ڈنر کروا رہی ہو؟’ وہ ہنستے ہوئے بولی
‘بدتمیز بکو مت! چلو فوراً تیار ہوجاؤ۔’
وہ سر اثبات میں ہلاتی بیڈ سے اُتری، وارڈروب سے کپڑے نکالے اور تیار ہونے چل دی۔
************************
گاڑی ایک خوبصورت ریسٹورانٹ کے سامنے رُکی تھی۔
‘ چھوٹی بی بی یہاں پارکنگ ملنا بہت مشکل ہے’ ڈرائیور نے گاڑی روک دی
‘اوہ! کوئی بات نہیں آپ گاڑی آگے پارک کرلیں، ہم واپسی پر پیدل آجائیںگے وہاں تک!’ وہ دونوں گاڑی سے اُتر کر ریسٹورانٹ میں داخل ہوگئیں۔ دونوں نے کونے کی ٹیبل بُک کروائی تھی جہاں رش قدرے کم تھا۔ عرشیہ نے سیاہ شال اوڑھ رکھی تھی جس پر سفید رنگ کے دھاگے سے نفیس اِمبرائیڈری (embroidery) تھی۔ ویٹر آرڈر لیکر جا چُکا تھا اور اب وہ دونوں خوش گپّیوں میں مصروف تھیں۔
‘یہ بتاؤ شارق بھائی کہاں تھے؟ آج گھر پر نظر نہیں آئے۔’ وانیہ نے نیپکن جھٹک کر بچھا دیا
‘ہاں وہ کراچی میں نہیں ہیں۔اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ایک بہت ضروری ڈیلیگیشن آرہا تھا۔وہ بھی میرے زبردستی کرنے پر گئے ہیں ورنہ میری طبیعت کی وجہ سے کب سے ٹال رہے تھے، اب طبیعت بہتر ہوئی تو گئے ہیں۔’ عرشیہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ ڈالا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!