اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

‘سلام کا جواب دینا ہر کسی پر فرض ہے غالباً!’ اُسکی بات پر عرشیہ نے سر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے نظریں جُھکا گئی۔ کیسی والہانہ چمک تھی اُسکی روشن آنکھوں میں کہ وہ پل بھر بھی نظر نہ ملا سکی ۔ وہ کچھ دیر اُسکے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر بولا۔
‘شارق کیسا ہے اب؟’ عرشیہ نے اِس سوال کو بھی سُنی ان سنُی کردیا
‘کیا آپکی دوست کے منہ میں زبان نہیں ہے ؟’ روحیل نے شوخی سے وانیہ سے دریافت کیا۔ وہ بھی عرشیہ کی اِس ہٹ دھرمی پر کافی شرمندہ ہوئی تھی تبھی اُسکے کان میں سرگوشی کی۔
‘جواب تو دو کیا بد تمیزی ہے یہ؟’
‘نمبر ہے نا آپکے پاس فون کرکے خود ہی پوچھ لیں!’ عرشیہ تُنک کر بولی اور جلدی جلدی کتابیں سمیٹ کر ابایا جھاڑتے ہوئے کھڑی ہو گئی
‘وانیہ تمھیں آنا ہے تو آجاؤ، میں گھر جا رہی ہوں۔’
‘تُم ذرا بھی نہیں بدلیں اور میں نے کہا تھا نا کہ ہم دوبارہ ضرور ملیںگے، اب دیکھ لو ہم ایک دوسرے کے سامنے ہیں’ وہ پلٹی تھی جب وہ اُسکے پاس سے گزرتا ہوا ایک بھرپور مسکراہٹ دے کر وہاں سے چلا گیا اور عرشیہ اسکی پُشت کو گھورتی رہ گئی۔
***************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ایک بھرپور انگڑائی کے ساتھ وہ کافی دیر کی پُر سکون نیند لیکر بیدار ہوئی۔ آج سنڈے تھا تبھی وہ سب کل رات گئے تک لاؤنج میں بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوںمیں مصروف رہے تھے اِسلئے آج وہ دیر سے سو کر اُٹھی تھی۔ شارق کی طبیعت بھی اب پہلے سے بہت بہتر تھی اسلئے وہ بھی ہلکی پھلکی ہوگئی تھی۔ وارڈروب سے کپڑے نکال کر وہ باتھ روم میں گھس گئی۔ ٹھنڈے پانی سے شاور لیکر وہ خود کو بہت تروتازہ اور فریش محسوس کر رہی تھی۔ لائٹ پِنک کلر کے لان کے سوٹ میں وہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ دوپٹّہ نفاست سے دونوں شانوں پر پھیلاتی وہ کمرے سے باہر آگئی۔اُسکا رُخ شارق کے کمرے کی طرف تھا، آج اُسکا شارق کے ساتھ ناشتہ کرنے کا موڈ تھا۔ دروازے پر دستک دینے کی اُسے کبھی سے بھی عادت نہیں تھی۔ وہ اُسکے کمرے میں ہمیشہ بلاجھجک آتی تھی سو ابھی بھی ناشتے کے لوازمات سے بھری ٹرالی گھسیٹتی وہ دروازاہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔
‘صبح بخیر! کیسی طبیعت ہے اب؟ آپ نے بھی ابھی تک ناشتہ نہیں کیا ہوگا، چلیں ساتھ ہی کرتے ہیں۔ میں ناشتہ۔۔۔’ یہ کہتے ہی اُس نے بیڈ پر دیکھا وہ خالی تھا۔ غیر اِرادی طور پر اُسکی نگاہ سائیڈ میں رکھے صوفے پر گئی جہاں بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی ۔آگے کا جُملہ اُسکے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔ وہاں روحیل بڑی شان سے براجمان تھا اور محبت پاش نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اِس سادھے سے حُلیے میں بھی وہ روحیل کو بہت پیاری لگ رہی تھی۔ کمر سے نیچے تک آتے لمبے بال اُسکی پُشت پر جھول رہے تھے جِنکی پوروں سے پانی کے ننھے قطرے ابھی بھی ٹپک رہے تھے۔ عرشیہ گڑبڑا کردو قدم پیچھے ہٹی اور اپنا دوپٹّہ کھینچ کر سر پر ڈال لیا (یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟)
اُسکا تقریباً آدھا چہرہ دوپٹّے کی اوٹھ میں چُھپ گیا تھا پھر بھی دوپٹّے کے ہالے سے اُسکا سُرخ سُرخ چہرہ اور تنے ہوئے نقوش صاف نظر آرہے تھے۔
‘السّلامُ علیکُم’ روحیل نے مسکراتے ہوئے ہمیشہ کی طرح سلام میں پہل کی
‘ وعلیکُم السّلام! شارق کہاں ہے؟’ مصلحتاً سلام کا جواب دیتے وہ رُخ موڑ گئی
‘میں کھا گیا اُسے!’ روحیل نے ہنس کر چوٹ کی جس پر عرشیہ نے نہایت برہمی سے اُسے گھورا
‘مذاق کررہا ہوں! ‘ روحیل اُسکی خفگی دیکھ کر بولا
‘میرا اور آپکا مذاق کا کوئی رشتہ نہیں ہے!’
‘رشتہ بن بھی تو سکتا ہے۔’ روحیل اپنی جگہ سے اُٹھا اور چلتا ہوا اُسکے سامنے آ کھڑا ہوا
‘دِماغ ٹھیک ہے ؟ کیا مطلب؟’ وہ نا سمجھی سے اُسے دیکھنے لگی
‘مطلب تو صاف ہے۔ البتہ اگر تم اور کُھل کر وضاحت چاہتی ہو تو یہاں نہیں! کسی اچھی سی جگہ بیٹھ کر میں تمھیں سارے مطلب سمجھا دوںگا۔’
‘مائنڈ یور لینگویج مسٹر! لگتا ہے چار سال پہلے کی آخری مُلاقات تم بھول گئے ہو۔ میں آج بھی وہی عرشیہ ہوں اور اسوقت جہاں تم کھڑے ہو نا، یہ گھر میرا ہے۔ چاہوں تو دو منٹ میں تمھاری عزّت دو کوڑی کی کردوں لیکن تم جیسوں سے تو بات کرنا بھی میں اپنی توہین سمجھتی ہوں ۔ ہٹو میرے راستے سے اور ہاں یاد رہے ! آئندہ اگر ایسی فضول باتیں دوبارہ میرے ساتھ کیں تو میں سارا لحاظ بالائے طاق رکھ کرسامنے آؤںگی۔ بہت برداشت کرلیا میں نے، یہ لاسٹ وارننگ ہے تمھاری!’ وہ اُسکی طرف اُنگلی سے اِشارہ کرتے ہوئے بولی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ روحیل نے شدّتِ غم سے آنکھیں بند کرلیں۔
وہ تقریباً بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب شارق نے اُسے آواز دے کر روکا۔
‘آشی! روحیل آیا ہوا ہے، میری عیادت کو آیا ہے خاص طور سے ۔وہ ناشتہ میرے ساتھ ہی کریگا۔ تم ذرا چائے کے ساتھ ناشتہ میرے کمرے میں بھجوادو پلیز۔’ یہ بات سُنتے ہی عرشیہ کا غصّہ عود کر آیا تھا
‘بھاڑ میں جائیں آپ اور آپکا دوست!’ وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی
‘ہیں! اِسے کیا ہوا؟’ وہ کندھے اُچکاتا کچن کی جانب بڑھ گیا
***************************
برقی قُمقموں سے سجی یہ بڑی سی خوبصورت کوٹھی تھی۔ سُرخ و سفید اینٹوں سے بنی یہ محل نُما کوٹھی اندر رہنے والے مکینوں کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی۔اِس کوٹھی کے در و دیوار کے این وسط میں ‘روحیل وِلا ‘ کا نام جگمگا رہا تھا۔وہ شارق کے ہمراہ اُسکی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ بڑا سا براؤن گیٹ ہارن کی آواز پر کُھلا اور شارق گاڑی لیکر پورچ میں داخل ہوگیا۔ خوبصورت لان کی جگمگاہٹ آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ وہ سرائے بِنا نہ رہ سکی۔ وہ پہلی مرتبہ روحیل کے گھر آئی تھی اسلئے شارق کی موجودگی کے باوجود کافی نروس ہو رہی تھی۔ روحیل کے انداز اُس سے چُھپے ہوئے نہیں تھے۔
‘اوہ شِٹ! میں اپنا موبائل گھر پر ہی بھول آیا۔ ایک بہت ضروری کال آنی تھی۔’ شارق نے جھنجھلا کر کہا
‘اوہ! تو موڑ لو گاڑی۔’
‘بہت دیر ہوجائے گی اچھا نہیں لگے گا، تم ایسا کرو تم اندر جاؤ ، میں بس یوں گیا اور یوں واپس آیا’ شارق نے تیزی سے حل پیش کیا
‘ہرگز نہیں! میں اکیلی اندر نہیں جاؤنگی۔’ عرشیہ منہ بنا کر بولی اور سیٹ پر جم کر بیٹھ گئی
‘اوہو! چلو میں تمھیں اندر تک چھوڑ آؤں، اب چلو بھی!’ شارق نے زبردستی اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا اور وہ نہ نہ کرتی رہ گئی۔
روحیل کسی سے باتوں میں مصروف تھا ۔ جونہی نگاہ شارق کے برابر چلتی عرشیہ پر پڑی وہ بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگا۔ اُسے بالکل اُمید نہیں تھی کہ وہ اُسکے بُلانے پر آبھی جائیگی۔ رابیل نے شاندار نمبروں سے میڈیکل کالج کاایڈمیشن ٹیسٹ پاس کیا تھا اور یہ دعوت اِسی خوشی میں تھی۔ روحیل جانتا تھا کہ عرشیہ کبھی نہیں آئے گی لیکن رابیل کے بے حد اِصرار پر وہ اُن دونوں کو بُلانے پر مجبور ہوا تھا۔ رابیل اُس سے ملنا چاہتی تھی، اُس سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتی تھی۔روحیل باقی سب سے ایکسکیوز کرتا اُن دونوں کی طرف آیا ۔
‘سو گُڈ ٹو سی یو یار!’ روحیل گرمجوشی سے شارق سے ملا
‘کیسے نہ آتے یار، تو نے جو بُلایا تھا۔ بس یہ محترمہ تھوڑے نخرے دکھا رہی تھیں پر میری تو اِنھیں پھر ماننی ہی پڑتی ہے آخر رِشتہ ہی کچھ ایسا ہے۔ بس میں زبردستی کھینچ لایا۔’ شارق نے شوخی سے اُسے دیکھا
‘کچھ خُدا کا خوف کر لو شیری، سب کچھ کھول کر غیروں کو بتانا ضروری ہے؟’ غیروں پر کافی زور دیا گیا تھا جس پر شارق قہقہہ لگا کر ہنس پڑا
‘ہاہاہا! روحیل بھی کوئی غیر ہے بھلا؟ یہ تو اپنا جگری یار ہے۔ اچھا یار تم ذرا اِس کو اپنے گھر والوں سے ملواؤ میں اپنا فون گھر بھول آیا ہوں بس وہ لیکر آتا ہوں’ روحیل نے اثبات میں سر ہلادیا۔ شارق نے جاتے جاتے ایک بھرپور نگاہ عرشیہ پر ڈالی اور روحیل کو اپنی طرف کھینچ کر بولا
‘اِسکا خاص خیال رکھنا یار یہ میری منگیتر اور تیری ہونے والی بھابھی ہے، جلد ہماری شادی ہونے والی ہے۔’
اطلاع تھی یا بم تھا کہ روحیل کو اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔۔
دل میں شدید توڑ پھوڑ شروع ہوچُکی تھی۔۔
ایسا الگ رہا تھا جیسے کسی نے تیز دھار آلے سے اُسکے دل کے ٹکڑے کردئیے ہوں۔۔
جیسے آس پاس کی ہر شے اُسے منہ چِڑا رہی ہو۔۔ اُسکا مذاق اُڑا رہی ہو۔۔
وہ بے یقینی سے شارق اور اُسکے برابر کھڑی عرشیہ کو دیکھ رہا تھا جسکی آنکھوں میں شارق کیلئے ایسی لؤ دیتی چمک تھی کہ روحیل کو اپنا پورا وجود اُس میں جلتا ہوا محسوس ہوا۔یہ وہ مخصوص چمک تھی جو وہ اپنے لئے دیکھنا چاہتا تھا لیکن آج وہ اپنی آنکھوں کے سارے خواب کسی اور کیلئے سجائے بیٹھی تھی۔اُسکی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں۔
‘روحیل!’ کتنی دیر بعد وہ خیالوں کی دُنیا سے لوٹا جب شارق نے اُسکا شانہ ہلایا
‘ہوں!’ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا
‘یار مجھے پتا ہے تم خفا ہوگے کہ میں نے اتنی بڑی بات پہلے کیوں نہیں بتائی، بس موقع نہیں ملا۔ ابھی میں آجاؤں تو شوق سے لڑ لینا مجھ سے۔اب اسے لیکر اندر جاؤ میں بس آیا’ وہ اور بھی پتا نہیں کیا کیا کہہ رہا تھا پر روحیل تو جیسے کچھ سُن ہی نہیں رہا تھا، وہ یک ٹک اُسے دیکھے جارہا تھا۔ اُسکی محویت کو عرشیہ کی آواز نے توڑا۔
‘پلیز شیری جلدی آنا مجھے عادت نہیں ہے زیادہ دیراجنبیوں میں رہنے کی!’
‘ہاں سوئٹی بس جلدی آیا’ شارق پورچ کی جانب بڑھ گیا جہاں اُسکی گاڑی کھڑی تھی
روحیل کے پاؤں من من بھر کے ہو گئے تھے۔ یہ چار قدم کا فاصلہ اُسے میلوں کا فاصلہ لگ رہا تھا۔ عرشیہ اچانک ہی اُسے دور۔۔ بہت دور کھڑی محسوس ہوئی ۔پھر بھی وہ اپنا وجود گھسیٹتا ہوا اُسکے پاس چلا آیا۔
‘عرشیہ آپ نے کبھی بتایا نہیں کہ آپ کی منگنی ہو چکی ہے شارق سے؟’ عرشیہ نے اِس بات پر کافی اچھنبے سے اُسے دیکھا
‘میں نے آپ کو پہلے اپنے بارے میں ایسا کیا کیا بتا رکھا ہے ؟’ وہ اب بھی طنز سے باز نہیں آئی تھی۔ روحیل نے ہنکارا بھرا
‘اگر تم مجھے بتا دیتی تو میں۔۔۔’ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا عرشیہ نے اُسکی بات کاٹ دی
‘اب مجھے کسی سے ملواؤگے بھی یا میں شارق کے آنے تک یہیں کھڑی رہوں؟’ وہ چِڑ کر بولی
‘چلو!’ وہ آگے بڑھ گیا اور اُسکے پیچھے پیچھے وہ بھی اندر لاؤنج کی طرف چل گئی
‘رابیل!’ ایک لڑکی کونے میں کھڑی اپنی دوستوں سے باتوں میں مصروف تھی جب روحیل نے اُسے آواز دی۔ اُسکی آواز پروہ پلٹی تھی اور اپنے بھائی کے ساتھ کھڑی لڑکی کو پہچاننے میں ایک لمحہ لگا تھا اُسے۔وہ سمجھ گئی تھی کہ ابائے میں کھڑی یہ لڑکی کوئی اور نہیں عرشیہ ہے کیونکہ جس سوسائٹی سے وہ تعلق رکھتی تھی وہاں ابایا ایک معےّوب چیز سمجھی جاتی تھی۔ وہ تیزی سے اُن دونوں کے قریب آئی ۔
‘آپ! آپ عرشیہ ہیں نا؟’
‘جی! آپ؟’ عرشیہ نے حیرانی سے اُس نٹ کھٹ سی لڑکی کو دیکھا جسے وہ جانتی تک نہ تھی لیکن وہ اُسکا نام لیکر اُسے مُخاطب کر رہی تھی۔ مہرون اور مہندی کلر کے خوبصورت کام کا پیپلم پہنے ، دوپٹّہ گلے میں ڈالے۔ چہرے پر ہلکا سا میک اپ اُس لڑکی کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہا تھا۔ وہ گہری سیاہ آنکھوں میں اُسکے لئے بے پناہ اپنائیت لئے کھڑی تھی۔ وہ روحیل سے کافی مُشابہت رکھتی تھی۔
‘یہ رابیل ہے!’ روحیل نے اُسکا تعارف کروایا جب وہ آگے لقمہ لگاتے ہوئے بولی
‘روحیل بھائی کی اکلوتی اور لاڈلی بہن ‘ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اُسنے عرشیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے عرشیہ نے بھی مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ روحیل اُسے چھوڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ عرشیہ نے اُسکے جاتے ہی ایک سکون بھری سانس لیکر ماحول کی خوشگواریت کو اپنے اندر اُتارا۔
‘آئیے میں آپکو ممّی سے ملواتی ہوں۔ ہم کب سے آپکی راہ دیکھ رہے تھے بھابھی ۔’
‘بھابھی؟’ عرشیہ نے چونک کر اُسے دیکھا جو اپنے آپ میں مگن اُسے ساتھ لئے آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی
وہ اُسے لیکر جس ہال میں داخل ہوئی وہ کافی بڑا اور خوبصورت تھا۔ جدید طرز کے صوفے اور کاؤچ سے وہ ہال آراستہ تھا۔ سائٹ ٹیبلز پر رکھے ڈیکوریشن پیسزاپنی قیمت خود بتا رہے تھے۔ نئے طرز کے حسین اور بیش قیمت پردے کھڑکیوں پر جھول رہے تھے۔ غرض کہ ہر چیز اپنی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ ہال میں اے سی کی کولنگ نے ماحول کو اور پُر اثر بنا دیا تھا۔ یہاں پر موجود تمام خواتین جدید تراش خراش اور بے حد ماڈرن کپڑوں میں ملبوس تھیں۔ کچھ کے توآستین اور دوپٹّے سِرے سے ہی غائب تھے۔ اُن میں سے کئی خواتین کی نظریں عرشیہ پر اُٹھیں اور حیران رہ گئیں ، وہ کہیں سے بھی اِس ماحول کا حصّہ نہیں لگ رہی تھی۔ وہ امیر لیکن دیندار گھرانے سے تھی اور یہاں وہ روحیل کے ماحول سے بالکل بھی میل نہیں کھاتی تھی۔ (میں نے یہاں آکر غلطی کردی!) ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ رابیل کی چہکتی ہوئی آواز نے اُسکی سوچوں کا تسلسل توڑا
‘ممّی ان سے ملئیے اور پہچانیں کہ یہ کون ہے؟’
‘عرشیہ ہو نا تم؟’ ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ اُنہوں نے عرشیہ کے گال چھوئے ۔ بلیک شیفون کی خوبصورت ساڑھی پہنے، لائٹ سا میک اپ کئے ، بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے وہ بہت خوبرو خاتون تھیں۔رابیل اور روحیل ہو بہو اُن ہی کی کاپی تھے۔
‘السّلامُ علےُکم’ عرشیہ نے سر اثبات میں ہلا کر اُن کو سلام کیا جسکا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اُسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور دعا دی
‘خوش رہو ہمیشہ!’
‘ممّی آپ نے انہیں کیسے پہچان لیا؟’ رابیل نے حرا بیگم سے پوچھا
‘پہچانوںگی کیوں نہیں، روز جو اپنے بیٹے کی آنکھوںمیں دیکھتی ہوں!’ حرا بیگم نے مسکراتے ہو ئے اُسے اپنے قریب کیا جس پر رابیل کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
‘سچ ممّی! میں نے بھی فوراً پہچان لیا تھا بھا بھی کو’ رابیل کیا بول رہی تھی اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اُسکا ذہن تو بس حرا بیگم کی بات میںاٹکا ہوا تھا (کیا مطلب تھا انکی اِس بات کا؟ روحیل نے میرے بارے میں سب کو یہاں کیا بتایا ہوا ہے ۔ اُف! یہ سب کیا ہے؟) اِس کے ساتھ ہی اُسکی ذہنی سوچیں منتشر ہونے لگیں۔
‘ہیلو بھابھی کدھر گم ہیں؟ آئیے میں آپکو اپنا گھر دکھاتی ہوں’ رابیل نے اُسکا کندھا ہلایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!