اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

پرپل اور دھانی کلر کا بھاری کام کا غرارہ پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتی وہ شارق کے دل کی نگری میں عجب ہلچل مچا رہی تھی۔ آج سے پہلے بھی شارق نے اسے بہت بار دیکھا تھا، بچپن سے وہ نظروں کے سامنے رہی تھی لیکن آج کچھ خاص تھا جو وہ آنکھوں کے راستے سیدھا دل میں اُتر رہی تھی۔ سُنہری آنکھوں پر خوبصورت سا میک اپ اُسکے صبیح چہرے کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہا تھا۔ شارق کی گہری نگاہیںاُسکے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ اسکی پُر تپش نگاہوں کو محسوس کرکے عرشیہ نے بھی اسے پورے ذوق سے دیکھا تھا۔
کتنا اچھا لگ رہا تھا وہ۔۔
لائٹ براؤن کڑھائی والے کُرتے پاجامے میں۔۔
نفاست سے جمائے گئے بال اور اُس پر اُسکی ہنستی مسکراتی دو گہری براؤن آنکھیں۔۔
کتنا وجیہہ لگ رہاتھا وہ۔۔
آج دونوں کے دل ایک نئی لے پر دھڑک رہے تھے۔۔
آج کی شام اپنی تمام تر رعنائّیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ عرشیہ کو اسٹیج پر شارق کے برابر بِٹھا دیا گیا تھا۔
‘بیوٹی فُل آشی!’ شارق نے مسکراتی نظروں سے اُسے سراہا۔ عرشیہ بلش کر گئی اور مسکرانے لگی
‘ایسے کیا دیکھ رہے ہیں شارق بھائی؟پری لگ رہی ہے نا ہماری عرشیہ ؟’ وانیہ نے پُر جوش انداز میں پوچھا اور عرشیہ کے کان میں سرگوشی کی
‘دیکھا! میں نے کہا تھا نا دیکھتے رہ جا ئیںگے۔ اب دیکھو لگ رہا ہے جیسے اپنی آنکھیں تمھارے اوپر گِروی رکھوائی ہیں۔’ سرگوشی اتنی تیز تھی کہ شارق نے بخوبی سُنا اور اُسکا چھت پھاڑ قہقہہ فضاء میں گونج اُٹھا۔
‘ہاہاہاہا! پھر کیا خیال ہے وانیہ، نکاح بھی آج ہی پڑھوالوں؟’ عرشیہ نے اپنے چہرے کو مزید جُھکا لیا تھا ، آج پہلی بار اُسے شارق کے جُملے نروِس کر رہے تھے۔
‘ارے واہ نیک کام میں دیر کیسی؟ میں ابھی۔۔۔ ‘ اِس سے پہلے کہ وانیہ آگے کچھ بولتی عرشیہ نے اُسکی کمر پر چُٹکی لی
‘ چُپ ہو جاؤ ورنہ بہت پِٹوگی!’ اوراِس جُملے پر شارق کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مُشکل ہو گیا ، وہ عرشیہ کے اِس روپ پر دل و جان سے فِدا ہو گیا تھا۔
‘چلو اِس نیک کام کو کچھ عرصے کیلئے مُلتوی کردیتے ہیں، ابھی صرف منگنی کر لیتے ہیں۔’ شارق آج بہت شوخ ہورہا تھا ۔ اُسکا یہ انداز بالکل نیا تھا جو عرشیہ کو شرمانے اور جھینپنے پر مجبور کر رہا تھا۔ آج دونوں نے ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھی پہن کر اپنا آپ ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے کیلئے لکھ دیا تھا۔
*************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

الارم کی تیز آواز پر وہ ہڑبڑا کر اُٹھی ۔
‘اُف ! یونیورسٹی کا پہلا دِن اور اتنی دیر!’
وہ جلدی سے بیڈ سے اُتری اور وارڈروب سے پریس کئے کپڑے کھینچ کر باتھ روم کی طرف بھاگی۔ دس منٹ میں نہا کر وہ باہر آئی اور ساتھ ہی بال ڈرائیر سے خشک کرکے وہ ابایا اوراِ سٹول پہننے لگی جب دروازہ کھول کر شارق اندر آیا ۔
‘لڑکی! کتنی دیر لگا دی تم نے۔ آج ہمارا یونیورسٹی کا پہلا دن ہے اور ہم اچھے خاصے لیٹ ہو چکے ہیں۔ ‘
‘سو سوری! پتا نہیں کیسے آنکھ نہیں کُھلی۔ میں بس دو منٹ میں نیچے آرہی ہوں آپ جب تک گاڑی نکالیں۔’
شارق نیچے چلاگیا اور وہ بھی اسکے پیچھے بیگ اُٹھا کر تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی ۔
‘بیٹا ناشتا تو کرتی جاؤ’ زُنیرہ بیگم نے فکرمندی سے کہا۔ عرشیہ نے جلدی میں صرف جوس پیا تھا
‘ماما یونیورسٹی میں کچھ کھالونگی، آل ریڈی بہت لیٹ ہوگیا ہے۔ لو یو، بائے!’ زُنیرہ بیگم کا رُخسار چوم کر وہ باہر کی طرف بھاگی
‘پتا نہیں کیا بنے گا اِس لڑکی کا! ذرا جو اپنا خیال رکھتی ہو!’ انھوں نے مسکرا کر اُس پر دعائیں پڑھ کر پھونکی اور شارق کو کال کرکے اسکو کچھ کھلانے کا کہنا نہ بھولی تھیں۔
یونیورسٹی پہنچ کر شارق گاڑی پارک کرکے آنے کا کہہ کر گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ وہ تیزی سے اپنی کلاس کی طرف بھاگی اِتنے میں اُسکا فون بج اُٹھا۔ وانیہ کا نمبر اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔
‘کہاں ہو یار تم لوگ؟’
‘بس پہنچ گئے، تم کلاس سے باہر آؤ۔’ عرشیہ نے فون بند کرتے ہی دوڑ لگادی۔ وہ اپنی دُھن میں کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی جب بہت زور سے کسی سے ٹکرائی ۔
‘اُف! اندھے ہیں کیا آپ، دِکھائی نہیں دیتا؟’ عرشیہ نے بمشکل خود کو سنبھالا
‘آنکھیں تو آپ کے پاس بھی ہیں، میں نہیں دیکھ پایا تو آپ دیکھ لیتیں!’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ اُسے ایک لمحہ لگا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو پہچاننے میں۔
اِتنی شناسا آواز۔۔
عرشیہ نے تیزی سے نظریں اُٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا ۔۔
وہ روحیل تھا۔۔ روحیل سِکندر!
اُسکے کان میں چار سال پہلے کا جُملہ بازگشت کرنے لگا تھا۔۔ ‘اور میں دعا کرونگا کہ ہم دوبارہ ضرور ملیں!’۔۔
‘اُف۔۔’ وہ چکرا کر رہ گئی
‘کیا ہوا عرشیہ؟ تم ٹھیک تو ہو؟ ‘ وانیہ نے اُسے پکڑ کر قریب رکھی بینچ پر بِٹھادیا
‘یا وہشت! کون پیچھے لگ گیا تھا تمھارے جو تم دیوانہ وار بھاگ رہی تھیں؟’ شارق تیزی سے اُسکی طرف آیا اور خفگی سے اُسے گھورنے لگا۔ خیال آنے پر پیچھے کھڑے شخص سے معذرت کیلئے پلٹا۔
‘یار معاف کرنا یہ میری کزن۔۔۔ ارے! روحیل تو!’ ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ دونوں بغل گیر ہوئے ۔ جب تک عرشیہ اپنے آپکو سیٹ کرکے کلاس میں داخل ہوچکی تھی۔
‘کہاں تھا یار تو؟ تجھے پتا ہے ہم پورے چار سال بعد مِل رہے ہیں۔ کوئی خیر خبر نہیں تھی کہاں رہا اِتنا عرصہ؟’ شارق نے اُس سے شکوہ کیا
‘یہ عرشیہ تھی نا؟’ روحیل نے پوچھا
‘ہاں نا! کیا تو عرشیہ کو بھول گیا ہے؟ ‘ روحیل جو اپنی سوچوں میں گم تھا ۔اُس کے سوال پر چونک سا گیا
(عرشیہ! اُسے کیسے بھول سکتا ہوں ! چار سال دور رہ کر بھی ہر پل وہ میری آنکھوں کے سامنے رہی ہے ) روحیل کو لگا جیسے کسی نے اُسے تپتے صحرا سے لاکر ٹھنڈی چھاؤں میں کھڑا کردیا ہو۔ محبت کی ہلکی ہلکی پوھار پھر سے ہونے لگی تھی۔
‘بھول گیا کیا؟ سب سے زیادہ ڈانٹ تو نے ہی تو کھائی ہے اُس سے اسکول کے زمانے میں پھر بھی ذہن پہ زور ڈال رہا ہے۔ ‘ شارق نے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو روحیل کی بھی ہنسی نکل گئی۔
‘شارق بالکل نہیں بدلا تُو!’
‘ہا ہا ! نہیں یار اب تو کافی بدل گیا ہوں، تھوڑی سنجیدگی بھی لانی پڑی ہے اپنے اندر۔’ شارق کے ذہن میں عرشیہ کا سراپا لہرا گیا
‘وہ کیوں؟’ روحیل نے حیرانی سے پوچھا
‘وہ پھر کبھی بتاؤںگا ابھی کلاس میں چلتے ہیں’ وہ دونوں عرشیہ اور وانیہ کے پیچھے والی بینچ پر جاکر بیٹھ گئے تھے
‘اور بتا! تو غائب کدھر تھا اتنے عرصے سے؟’ شارق کو دلی خوشی ہوئی تھی اُس سے مِل کر
‘کچھ عرصہ پہلے ہی اِنگلینڈ سے گریجویشن کرکے لوٹا ہوں۔ چار سال وہیں رہا اور اب اِتنا بھی نا لائق نہیں رہا جتنا لوگ مجھے سمجھتے تھے۔’ ‘لوگ’ پر کافی زور دیا گیا تھا جس پر شارق ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا ، وہ اُسکا طنز سمجھ گیا تھا اور عرشیہ کو یہ سن کر شدید غصّہ آیا ۔ وہ یقیناً اُسے جلانے ہی کہہ رہا تھا۔ اِس سے پہلے کہ شارق کچھ لُقما لگاتا عرشیہ غصّے سے پلٹی۔
‘مسٹر شارق حیدر! اگر آپ اور آپکے یہ دوست اپنی زبان کو تھوڑا کنٹرول میں رکھیںگے تو ہمیں لیکچر سمجھنے میں آسانی ہوگی!’
‘جو حکم آپکا!’ شارق معصومیت سے بولا اور روحیل کی طرف جُھک کر سرگوشی کی
‘جب یہ بہت غصّے میں ہوتی ہے نا تب میرا پورا نام لیتی ہے۔’ عرشیہ نے پلٹ کر قہر برساتی نظروں سے اُسے گھورا تو شارق واقعی سٹپٹا گیا
‘اچھا سوری!’ شارق نے بات ختم کی
روحیل کی مسکراہٹ کچھ اور بھی گہری ہوگئی تھی (بالکل بھی نہیں بدلی۔۔)
**************************
رابیل کتابوں میں سر دئیے بیٹھی تھی جب باہر اُسے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔
‘رابی ! رابی! رابی!’ دھڑام سے دروازہ کھول کر روحیل اندر داخل ہوا
‘رابی!’ وہ تقریباً بھاگتا ہوا بیڈ تک پہنچا اور رابیل کو ہاتھوں سے تھام کر بیڈ سے نیچے اُتار دیا۔ وہ اُچھل پڑی
‘کیا کر رہے ہیں جانی بھائی، میں گِر جاؤنگی۔ آخر ہوا کیا ہے پتا تو چلے؟’
‘رابی! میری جان آج میں بہت خوش ہوں! بہت بہت خوش!’ روحیل کی حد درجہ خوشی پر وہ فدا ہی تو ہو گئی تھی۔ اُسے اپنا یہ اکلوتا بھائی جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔
‘ماشاء الّلہ! آپ ہمیشہ ایسے ہی مسکراتے رہیں اور آپکی خوشیوں کی عُمر دراز ہو۔’ ا س نے ہمیشہ اپنے بھائی کی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی
‘میری پیاری بہن! صرف تمھاری اور ممی کی دعاؤں کی وجہ سے آج میں یہ دن دیکھ پایا ہوں۔ آہ! چار سال کا طویل انتظار اب ختم ہوا ہے۔’
وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتا بیڈ پر نیم دراز ہوگیا۔ رابیل نا سمجھی کی کیفیت میں گھری تھی۔
‘اُٹھ کر بیٹھیں یہاں اور مجھے بتائیں کہ آخر چکّر کیا ہے؟ ایسا کیا دیکھ لیا آپ نے آج؟’
‘عرشیہ!!’ روحیل کا اتنا کہہ دینا کافی تھا اور وہ سب سمجھ گئی ۔ وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی اور اگلے ہی لمحے وہ خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے بولی
‘سچ؟ آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ میری بھابھی مل گئیں !’ روحیل کی ہنسی چھوٹ گئی
‘ہاہاہا! ابھی سے وہ تمھاری بھابھی کیسے ہو گئی؟ ابھی تو میں نے اُسے اپنے دل کی بات بتائی بھی نہیں ہے۔’ وہ کچھ سوچ کر بولا۔ اُسے چار سال پہلے کی رات آج بھی یاد تھی۔
‘ارے میرے بھائی کو دیکھ کر وہ اپنے آپ مان جائینگی۔ آپ دیکھئے گا وہ میری بھابھی ضرور بنیںگی۔ اچھا بتائیں نا اُن کو کہاں دیکھا، کیا کہا، اُف! میں تو اتنی ایکسائٹڈ ہورہی ہوں۔ میں کب مل پاؤنگی ان سے؟ اُن کو گھر کب لائیںگے؟ ‘ رابیل کے سوالات کی بوچھاڑ دیکھ کر وہ ہنس پڑا
‘ہائیں! پگلی ابھی کیسے گھرلے آؤں۔ ذرا دھیرج دھیرج!’ اُس نے مسکرا کر کہا اور آج کی ساری روداد رابیل کے گوش گزار کردی۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔
‘تم دعا کروگی نا میرے لئے گُڑیا؟’
‘ہاں ہاں کیوں نہیں! عرشیہ کو ہر صورت اِس گھر میں میری بھابھی بن کر آنا ہی پڑیگا۔ مجھے الّلہ پر پورا بھروسہ ہے!’
روحیل اپنی چھوٹی بہن کی بے شمار محبت پر نہال ہوگیا تھا۔ وہ رابیل کو ہنستا چھوڑ کر حرا بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ آخر اُنھیں بھی تو یہ خوشخبری سنانی تھی۔
**************************
مئی کی چِلچلاتی دھوپ ہر شے کو ایک تپش کا احساس دے رہی تھی۔یونیورسٹی میں موجودتقریباً سب ہی اِسٹوڈنٹس دھوپ کی تپش سے بچنے جگہ جگہ لگے گھنے درختوں کی گہری چھاؤں اورمختلف کوریڈورز میں بیٹھے تھے۔ وانیہ اور عرشیہ کلاس اٹینڈ کرکے نکلے اور ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے اپنی کتابیں اور بیگ رکھ کر بیٹھ گئے۔ شارق آج نہیں آیا تھا۔ کل رات سیڑھی پر پاؤں پھسلنے کی وجہ سے موچ آگئی تھی اور وہ دو تین دن کیلئے مکمل بیڈ ریسٹ پر تھا۔ اسی وجہ سے عرشیہ کا بھی یونیورسٹی میں آج دل نہیں لگ رہا تھا، اُسکا سارا دھیان شارق کی طرف تھا۔ اُس نے ساری کتابیں ایک طرف سِرکا دیں اور رجسٹر بند کرکے اُس پہ پین تقریباً پٹخا تھا۔ وانیہ نے چونک کر دیکھا۔
‘خیریت؟ کس کا غصّہ اس بیچارے پین پر اُتارا جارہا ہے؟’ عرشیہ نے زبردستی کی مسکراہٹ دی
‘سانو ایک پل چین نہ آوے!
سانو ایک پل چین نہ آوے!
سجنا تیرے بِنا!’
وہ بلند آواز میں گنگنارہی تھی ۔ عرشیہ نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے گھورا
‘یہی وجہ ہے نا آپکے اُداس ہونے کی؟’ وانیہ نے شرارت سے اُسے ٹہوکا دیا
‘جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔’
‘ہاں ہاں کہہ دو کہ گرمی کی وجہ سے دماغ گرم ہو رہا ہے’ وانیہ نے مصنوعی خفگی سے اُسے دیکھا
‘ہاں نا! چلو تم سمجھی تو!’ عرشیہ اُسے چڑانے کیلئے انجان بن کر بولی اور وہ واقعی چڑ گئی تھی
‘غضب خُدا کا! کبھی جو یہ لڑکی کُھل کر سامنے آئے۔ چلو بتاؤ شارق بھائی کیسے ہیں اب؟’
عرشیہ اُسکی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور جیسے ہی سامنے نظر پڑی روحیل مسکراتی نظروں سے کچھ فاصلے پر کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اُسکی ہنسی پل بھر میں غائب ہوئی تھی پھر وہ قدرے سنجیدگی سے بولی۔
‘زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ابھی ڈاکٹر نے اُنھیں مکمل بیڈ ریسٹ کا کہا ہے کچھ دن ۔’
‘اوئے اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ روحیل ہی ہے نا؟’ عرشیہ نے اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور رجسٹر کھول کر نوٹس بنانے لگی
‘اوہ! یہ ہینڈسم تو ہماری طرف ہی آرہا ہے!’ اُسکی بات پر عرشیہ نے چونک کر سر اُٹھایا ، وہ واقعی اِس طرف آرہا تھا۔ عرشیہ کا آج ویسے ہی کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ شارق کی طبیعت کی وجہ سے وہ پہلے ہی کافی پریشان تھی اور ایسے میں روحیل کو دیکھ کر اُسکا رہا سہا موڈ بھی غارت ہوگیا تھا جسے وانیہ نے بھی نوٹ کیا تھا۔
‘السّلامُ علیکُم!’ روحیل نے دونوں کے قریب پہنچ کر مؤدبانہ انداز میں سلام پیش کیا اور وہیں قریب پڑے پتھّر پر بیٹھ گیا
‘وعلیکُم السّلام!’ وانیہ نے خاصی گرمجوشی سے جواب دیا جبکہ عرشیہ خاموشی سے کتاب پر جُھکی رہی

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!