اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

جب سے الوینہ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ روحیل عرشیہ کو پسند کرنے لگا ہے تب سے اُسکی نفرت بڑھتی جارہی تھی۔ اُسے وہ شخص ناقابلِ برداشت لگنے لگا تھا جو زبردستی اُسکی پُر سکون زندگی میںداخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ اُسے اکثر نظر انداز کردیتی اور کبھی کھری کھری سنا دیتی ۔ پر عجیب شخص تھا وہ، عرشیہ کی کسی بھی بات کا بُرا نہیں مانتا تھا۔ اسکی ہر کڑوی کسیلی بات کو مسکرا کر سن لیتا اور اُسکا یہی انداز عرشیہ کو اور آگ لگادیا کرتا تھا۔
وقت اپنی رفتار سے چل رہا تھا یہاں تک کہ انکے اسکول کے آخری ایاّم بھی آگئے۔ میٹرک کے امتحانات سے فراغت کے بعد سب فئیروِل کی تےّاریوں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ اور پھر فئیروِل کا آخری دن بھی آپہنچا۔
پورے اسکول کی عمارت جدید برقی قمقموں سے جگمگا رہی تھی۔ گراؤنڈ کو بھی نہایت خوبصورتی اور نفاست سے سجایاگیاتھا ۔ گراؤنڈ کے بیچ و بیچ بڑا سا اسٹیج بڑی مہارت سے بنایا گیا تھا جس کی ڈیکوریشن سے اُس جگہ کی خوبصورتی اور کُھل کر سامنے آرہی تھی۔
بلیک جینز پر آف وائٹ فُل سلیوز کی شرٹ پہنے روحیل کا سراپا قابلِ ستائش لگ رہا تھا۔ سلیقے سے سجائے گئے گھنے بال اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔ لیکن جس وجود کی روحیل کی آنکھوں کو تلاش تھی وہ دشمنِ جاناں ابھی تک سامنے نہ آئی تھی۔ وہ یونہی انتظار میں ٹہل رہا تھا جب الوینہ نے اسکے شانے پردھموکہ دیا۔
‘کیا بات ہے ہینڈسم اتنی عُجلت میں کیوں ہو؟’
‘یار وہ ابھی تک نہیں آئی۔’ روحیل نے بے خیالی میں کہہ ڈالا اور پھر خجل سا ہو گیا
‘کون؟ کس کی بات کر رہے ہو؟ میں سمجھی نہیں!’ الوینہ نے شرارت سے اسے دیکھا
‘بکو مت! سب کچھ جاننے کے بعد بھی انجان بننے کا کیا مطلب ہے؟ ‘ روحیل اسے گھورتا ہوا بولا۔ الوینہ اور وہ کلاس فیلوز ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے دوست بھی تھے۔ دونوں کے گھر بھی ایک دوسرے کے برابر برابر ہی تھے۔
‘ہا ہا ہا ہا۔۔ ارے میرے اچھے دوست میں تو مذاق کررہی تھی۔ ویسے تم نے کافی مشکل لڑکی پسند کرلی ہے پھر بھی میں دعا گو رہونگی کہ الّلہ ہمیشہ تمھارا ساتھ دے۔ اور میری ابھی نشاء سے بات ہوئی تھی وہ بس پہنچنے ہی والی ہوگی۔’ اور یہ کہتے ہی الوینہ نے گیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شرارت سے کہا
‘لو! آگئی تمھاری بد تمیز سی عرشیہ۔’ روحیل نے اسے گھور ا اور پوری طرح سے گیٹ کی طرف گھوم گیا
سیاہ رنگ کا چوڑی دار پاجامہ اور فراک۔۔
کان میں چھوٹے سے چمکتے ہوئے جُھمکے۔۔
چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے بے نیاز۔۔ انتہائی سادہ حسن۔۔
کمر تک آتے لمبے بالوں کی نفاست سے چوٹی بنائے وہ کوئی اپسرہ لگ رہی تھی۔۔
کچھ شریر لٹیں اُسکے چہرے پر جھول رہی تھیں جن سے الجھتے ہوئے وہ بار بار انکو کان کے پیچھے اُڑس رہی تھی۔ سر پر دوپٹّہ ہونے کے باوجود لٹیں بار بار اُسکے خوبصورت چہرے کا احاطہ کر رہی تھیں۔ روحیل نے نوٹ کیا تھا اسکے سر پر ہمیشہ دوپٹّہ رہتا تھا۔
ایسا کیا تھا عرشیہ میں؟ روحیل نے اپنی سترہ سالہ زندگی میں اپنے آس پاس اس سے کہیں زیادہ حسن دیکھا تھا۔ جس کلاس سے وہ تعلق رکھتا تھا وہاں حسن ایک عام سی بات تھی، اُسکے اپنے خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود تھی۔لیکن کوئی خاص بات تو تھی عرشیہ میں جو وہ اسکے معصوم حسن سے گھائل ہوا تھا۔ شاید سادگی حسن کو اور خوبصورت بنا دیتی ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا جب عرشیہ کی زوردار آواز سے وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا۔
‘کہاں ہے وہ؟ شارق کے بچّے۔۔۔ ‘ وہ گلا پھاڑ کر چیخی اور اسکی چیخ سن کر سب اسکے قریب آگئے تھے۔ روحیل بھی اسکی جانب بڑھا تھا۔
‘کیا ہوا؟ کیوں چیخی تم؟’ نشاء نے فکرمندی سے پوچھا۔ سب حیران کھڑے تھے۔
‘کہاں ہے شارق؟ آج میں اُسے چھوڑونگی نہیں۔۔’
‘ارے ہوا کیا ہے کچھ تو بتاؤ لڑکی؟’ نشاء نے اسے گھورا
‘یار میں قریب ہی بیکری پر چاکلیٹس لینے اُتری اور شارق سے کہا کہ انتظار کرو میں بس ابھی ا ئی ۔وہ مجھے وہاں اکیلا چھوڑ کر خود یہاں بھاگ آیا۔ اگر مجھے راستے میں سجل نہ ملتی تو میں کیسے آتی یہاں وہ بھی اتنی تیاری کے ساتھ۔’ وہ پریشانی سے کہتے ہوئے وہیں قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گئی
‘سوری یار معاف کردو’ شارق نجانے کہاں سے نمودار ہوا
‘دفع ہو جاؤ بد تمیز بات مت کرو مجھ سے۔ گھر چلو چاچا سے خوب ڈانٹ پڑواؤنگی تمھیں۔’ وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولی
‘یار بابا کو بیچ میں کیوں لا رہی ہو، غلطی ہوگئی نا اب بلیک میل تو مت کرو بابا کے نام پر۔ آئی ایم سوری نا!’ وہ اتنی معصومیت سے بولا کہ عرشیہ کو ہنسی آگئی لیکن وہ اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی۔
‘بہت ستاتے ہو تم! میں ڈر گئی تھی اگر کچھ ہو جاتا تو؟’
‘ارے ایسے ہی کچھ ہونے دے دیتا میں تمھیں۔ یار میں وہیں تھا بس تمھیں تنگ کرنے ادھر اُدھر ہوگیا تھا وہ تو سجل نے این ٹائم پر آکر سارا کھیل خراب کردیا۔’ عرشیہ اسکی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی اورکچھ فاصلے پر کھڑے روحیل کو لگا جیسے کسی نے اس کے آس پاس پھول ہی پھول بکھیر دئیے ہوں۔ روحیل کی پُر تپش نگاہوں کو محسوس کرکے اسنے اپنا چہرہ اٹھا کر سامنے دیکھا اور کچھ لمحے دیکھتی رہ گئی۔
‘کیا بلا کاحسن ہے اس بندے میں۔’ اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی سوچ پر لاحول پڑھتی اٹھ کھڑی ہوئی
سب گراؤنڈ کی طرف چلے گئے تھے۔ عرشیہ بھی گراؤنڈ کی جانب بڑھنے لگی جب روحیل اسکی راہ میں آگیا۔
‘یہ کیا بد تمیزی ہے؟’ وہ غصّے سے بولے
‘تم آج بہت اچھی لگ رہی ہو ۔’ وہ اپنائیت سے کہہ رہا تھا۔ آنکھوں میں چمک در آئی تھی۔
‘معلوم ہے مجھے۔ آپکو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔’
‘کبھی تو پیار سے بات کرلیا کرو۔’ وہ افسوس سے کہہ رہا تھا جس پر عرشیہ دبی دبی آواز میں چیخی
‘شٹ اپ! اپنی اوقات مت بھول جایا کرو۔ تم ہو کون جس سے میں پیار سے بات کروں۔ اینڈ فار گاڈ سیک آج میرا موڈ خراب مت کرو۔’
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی ۔ روحیل اسے بے بسی سے جاتا دیکھتا رہا۔نجانے وہ کیوں اتنا بے بس ہو جاتا تھا اُسکے سامنے۔
(اتنی نفرت۔۔ کیوں عرشیہ؟) وہ بس سوچ کر رہ گیا۔
***********************
فئیرول کی تقریب رات تک اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔
جہاں سب نے اس ایونٹ کو انجوائے کیا تھا وہیں سب کے چہروں پر افسردگی بھی تھی۔ نجانے کس کی قسمت کہاں لے جاتی۔ آج اُنکے ساتھ کا آخری دن تھا اور وہ سب یہاں سے بہت اچھی یادیں سمیٹ کر لے جارہے تھے۔ جہاں سب افسردہ تھے وہاں روحیل سب سے زیادہ گم سم اور اُداس تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکی نہایت ہی قیمتی چیز اس سے دور جا رہی ہو۔ وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں عرشیہ کو دیکھے جارہا تھا جیسے اس منظر کو ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا ہو۔ عرشیہ اور شارق سب سے ملکر نکلنے لگے تھے لیکن عرشیہ نے ایک نگاہِ غلط بھی روحیل پر نہ ڈالی۔ وہ اُس سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن عرشیہ نے اُس سے ملنا تک گوارہ نہ کیا ۔ اِس عزّت افزائی پر روحیل بیچ و تاب کھا کر رہ گیا لیکن بول کچھ نہ سکا، دل کے ہاتھوں مجبور جو تھا۔ وہ عرشیہ کے سامنے خود کو ہمیشہ ایسے ہی بے بس اور کمزور محسوس کرتا تھا۔
‘تم یہاں رکو میں ڈرائیور کو دیکھ کر آتا ہوں، پتا نہیں گاڑی لیکر کہاں کھڑا ہے وہ!’ شارق نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
‘نہیں شیری اتنے اندھیرے میں مجھے ڈر لگے گا، دیکھو تو کتنا سنسان ہورہا ہے۔’ اسنے جھرجھری لی
‘اوہو یار! تم اتنا ڈرتی کیوں ہو؟ پتا نہیں بعد میں میرا کیا ہونے والا ہے’ شارق نے شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر عرشیہ جھینپ سی گئی۔ ابھی شارق کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ روحیل گیٹ سے باہر آتا دکھائی دیا۔ اسنے وہیں سے ہانک لگائی۔
‘اوئے روحیل سُن!’
اسے دیکھتے ہی عرشیہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی اور ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں(اسکو بھی ابھی آنا تھا)
‘ارے تم لوگ ابھی تک یہیں ہو؟’ روحیل اُنکے پاس چلا آیا
‘ ہاں یار میں ذرا ڈرائیور کو دیکھ کر آتا ہوں، تم عرشیہ کے پاس رُکو اصل میں اِن محترمہ کو ڈر بہت لگتا ہے اندھیرے سے۔’ وہ شرارتی انداز میں بولتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا اور عرشیہ دانت پیس کر رُخ موڑ گئی (اسے بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے) روحیل نے چونک کر عرشیہ کو دیکھا تھا (بظاہر اِتنی مضبوط نظر آنے والی لڑکی اندر سے اتنی ڈرپوک ہے) اور اس سوچ کے ساتھ ہی روحیل کے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ اُمڈ آئی۔
‘عرشیہ!’ روحیل نے آواز دی جسے وہ نظر انداز کر گئی
‘عرشیہ!’ روحیل اِس بار تیز آواز میں بولا تھا اِسلئے جواب دئیے بِنا چارا نہ تھا۔ اسنے سپاٹ لہجے میں پوچھا
‘جی فرمائیے؟’
‘تم مجھے اتنا بُرا انسان کیوں سمجھتی ہو کہ کبھی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتی؟ ایسا کیا کردیا ہے میں نے جو تم کبھی بھی پیار سے بات کرنے کے قابل نہیں سمجھتی مجھے؟’
‘اوہ پلیز روحیل! کیا ہر وقت پیار کا راگ الاپتے رہتے ہو، اسکے علاوہ بھی کوئی کام ہے تمھیں؟’ وہ ناگواری سے بولی
‘ہاں نہیں ہے کوئی اور کام! کسی کو پسند کرنا کوئی غلط نہیں ہے اور تم نے کبھی مجھے کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ کبھی سنا ہی نہیں کہ میرا دل کیا چاہتا ہے۔ میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔’
‘کیا مطلب ہے تمھارا؟ میں کوئی راہ چلتی گری پڑی لڑکی ہوں جو تمھیں موقع فراہم کرونگی!’ اسنے ایک ایک لفظ چبا کر بولا
‘ نہیں نہیں! میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔ تم غلط سمجھ رہی ہو۔ میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ۔۔۔’
‘بس بس! مجھے کچھ نہیں سُننا۔ اور آئندہ مجھ سے کوئی فضول بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سمجھے تم!’ اس بات پر روحیل کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی
‘مطلب تمھیں اُمید ہے کہ آئندہ بھی ہم ضرور ملیں گے؟’ روحیل کے جملے میں چھپا طنز وہ بخوبی سمجھ گئی تھی
‘خدا کرے ہم کبھی نہ ملیں روحیل سکندر! مجھے تم جیسے نا قابلِ برداشت اور قابلِ نفرت شخص کو اپنی زندگی میں دوبارہ کبھی نہ دیکھنا پڑے!’
‘اور میں دعا کرونگا کہ ہم دوبارہ ضرور ملیں!’ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا اور اسکی یہ مسکراہٹ عرشیہ کو آگ ہی لگا گئی تھی
‘ہونہہ! تم جیسوں کی تو دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔’ الفاظ تھے یا نشتر۔۔ اُسکا چہرہ تذلیل کے احساس سے سُرخ پڑگیا
‘تم! تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو؟’
‘میں جو بھی سمجھتی ہوں وہ تمھیں بتانا ضروری نہیں ۔ اب میرا خیال ہے کہ تمھیں یہ آخری ملاقات ہمیشہ یاد رہے گی۔ خدا حافظ!’
یہ کہہ کر وہ رُکی نہیں تھی، شارق بھی گاڑی لیکر وہاں پہنچ چکا تھا۔ روحیل پیر پٹختا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔وہ تینوں ہی نہیں جانتے تھے کہ آگے آنے والے کچھ سالوں میں قسمت ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔ کیونکہ ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو انسان سوچتا ہے، جو اِنسان چاہتا ہے بلکہ کبھی کبھی انسان قسمت کے ہاتھوں مات کھا جاتا ہے پھر وہ دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں جن کا قبول ہوناہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
************************
زندگی کے چار سال بے حد مصروف لیکن مزے میں گزرے تھے۔ عرشیہ اور شارق نے حال ہی میں شاندار نمبروں سے گریجویشن مکمل کیا تھا۔ گریجویشن مکمل ہونے کے ساتھ ہی دونوں کی منگنی کی رسم طے پائی تھی۔
‘اُف اُف! ! شارق بھائی کی تو خیر نہیں آج!’ وانیہ عرشیہ کو دیکھتے ہی اسکے گلے لگی تھی۔ اِن دونوں کی دوستی کالج میں ہوئی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی تھی۔
‘کہو پھر کیسی لگ رہی ہے ہماری عرشیہ؟’ عرشیہ کی بڑی بہن آئزہ نے اُسکو پچکارتے ہوئے پوچھا۔ آئزہ اور مہوش دونوں منگنی میں شرکت کیلئے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔
‘ہائے آپی کیا بتاؤں! میں نے تو ہمیشہ عرشیہ کو اتنا سادہ دیکھا ہے کہ آج اس روپ میںدیکھ کر سچ میں شارق بھائی سے جیلسی ہورہی ہے۔’
عرشیہ نے حیران ہوکر اُسے دیکھا۔
‘کیوں؟ اُن سے جیلسی کیوں؟’
‘کہ کاش میں لڑکا ہوتی تو کبھی تمھیں اُنکا نہ ہونے دیتی’ وانیہ ایسی آنکھیں پٹپٹا کر بولی کہ سب کی ہنسی نکل گئی۔ آئزہ اُسکا گال تھپتھپا کر عرشیہ کو باہر لانے کا اِشارہ کرکے چلی گئیں اور اُنکے جاتے ہی عرشیہ نے اُسکے شانے پر ایک مکّا رسید کیا۔
‘اوئی ماں! کتنی زور کا مارا ہے ظالم۔ بعد میں شارق بھائی کا بھی یہی حال کروگی کیا؟’
‘وہ تمھاری جیسی باتیں نہیں کرتے!’ عرشیہ نے ہنستے ہوئے کہا
‘پھر کیسی باتیں کرتے ہیں وہ جناب؟’ وانیہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئی جس پر عرشیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ محبت وہ خوبصورت احساس ہے جس کے مِلتے ہی اُس رِشتے سے جُڑے لوگوں کے ساتھ گُزرا ہر پل پُر اثر اور پُر رونق ہوجاتا ہے۔یہی حال عرشیہ کا بھی تھا۔ شارق سے جُڑی اُسکی محبت بہت خالص تھی۔وہ آج بہت زیادہ خوش تھی اور یہ خوشی اُس کے گُلاب رنگ چہرے سے صاف ظاہر تھی۔ وہ اسے سہارا دیتے ہوئے باہر لان میں لے آئی جہاں اسٹیج بنایا گیا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!