اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار ہوگیا تھا۔ سورج کی کِرنیں اپنی روشنی ہر سو پھیلا رہی تھیں۔ دِسمبر کی سرد ہوائیں ایک خوبصورت احساس کی طرح ہر شے کو حسین اِمتزاج بخش رہی تھیں۔ لان میں لگے لہلہاتے پھول اور پتّے مسکراکر اپنے نکھرنے کی نوید دے رہے تھے۔
موسم میں خُنکی شامل ہو گئی تھی۔ کھوئی کھوئی سی عرشیہ اپنے ٹیرس پہ کھڑی کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔اپنے شانے پرکسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کرکے وہ چونکی۔
‘کہاں کھوئی ہوئی ہو کن سوچوں میں گم ہو؟’ وہ اُسکے چہرے کو بغور دیکھتا ہوا بولا
‘ارے آپ کب آئے ؟ ناشتا کرلیا کیا؟’ عرشیہ نے پردے برابر کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ ابھی ابھی جوگنگ کرکے واپس لوٹا تھا
‘ ہم ناشتا آپ کے بغیر کرلیتے؟’ اُس نے اُسکے بالوں کو نرمی سے چھوا
‘میں تو بس موسم کا جائزہ لینے یہاں آگئی تھی کتنا خوبصورت موسم ہورہا ہے نا !! ‘ کِھلی ہوئی مسکراہٹ عرشیہ کے چہرے سے ظاہر تھی۔ صبح کی مدھم روشنی، پھولوں کی دھیمی خوشبو اور گیت گاتے پنچھی اُسے اپنی کمزوری لگا کرتے تھے۔اُسے ہمیشہ سے ایسا موسم بہت دلکش لگتا تھا۔
‘تو کیا خیال ہے پھر؟ کیوں نہ ایسے خوبصورت موسم سے لُطف اُٹھائیں اور کہیں ایسی جگہ چلیں جہاں بس میں اور تم۔۔۔۔’
‘شارق۔۔!! میں آپکی شرارتیں خوب سمجھتی ہوں، موسم کا مزہ بھی لیںگے فالحال تو آپ ڈائننگ ٹیبل پر چلیںامّی ہمارا انتظار کررہی ہونگی، آپ نے مجھے بھی باتوں میں لگا لیا۔’
‘جو حُکم ملکئہِ عالیہ کا۔’ شارق نے سر کو ہلکا سا خم دیا اور محبت سے اُسکا ہاتھ تھام کر باہر کی جانب بڑھ گیا
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سُمیر یزدانی اور حیدر یزدانی دونوں بھائی تھے۔ دونوں ‘یزدانی پیلیس’ میں نیچے اوپر کے پورشنز میںرہتے تھے ۔ سُمیر یزدانی، حیدر کے بڑے بھائی تھے اور وہ اوپر والے پورشن میںاپنی بیوی زُنیرہ اور بیٹی عرشیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اُنکی تین ہی بیٹیاں تھیں جسمیں عرشیہ کا نمبر سب سے آخری تھا۔ وہ اُنکی سب سے چھوٹی اورلاڈلی بیٹی تھی۔ اُنکی بڑی دونوں بیٹیاں آئزہ اور مہوش شادیوں کے بعدکینیڈا میںمُقیم تھیں۔ جبکہ حیدر یزدانی نیچے والے پورشن میںاپنی بیوی انیلہ اور بیٹے شارق کے ساتھ رہتے تھے۔ شارق اُنکا اِکلوتاسپوت تھا۔ دونوں گھرانوں کے آپس میں بہت اچھے تعلُقات تھے۔ اِن سب نے اپنا آشیانہ بہت خوبصورتی اورڈھیر ساری مُحبتوں سے سجایا تھا۔اِنکا شُمار نہایت سُلجھے ہوئے گھرانوں میں ہوتا تھا۔
عرشیہ اور شارق ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔اُن دونوں کی مُحبت کسی سے چُھپی ہوئی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچپن سے ساتھ ساتھ ہی رہے تھے اور ہم عُمر ہونے کے باعث دونوں کی اسکولنگ بھی ایک ہی جگہ سے ہوئی تھی۔ دونوں نے ساتھ ہی ایم۔بی۔اے کیا تھا۔وہ دونوں زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوجے کے سنگ رہے تھے۔
شارق کے ایم۔بی۔اے کرنے کے دوران ایک دِن اچانک حیدرصاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جسے وہ برداشت نہ کر پائے اور اِس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی شارق اور عرشیہ کی منگنی کر گئے تھے۔ اُنکا سارا بزنس اب شارق بخوبی سنبھال رہا تھا۔ کُچھ عرصے بعد دونوں کی شادی کردی گئی اور اب اُنکی شادی کو ایک ماہ ہو چلا تھا۔ عرشیہ شارق کے ساتھ بہت خوش تھی، یہ زندگی کا وہ خواب تھا جو دونوں نے ساتھ مِل کر دیکھا تھا۔لیکن کبھی کبھی نجانے کونسی ایسی بات تھی جو عرشیہ کو ایک انجانی سی پریشانی میں مُبتلاکر دیتی تھی۔ شارق محسوس کرتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ عرشیہ خود اُسے اپنی پریشانی بتائے۔
************************
عرشیہ مُلازمہ سے سارے کام کرواکراپنے کمرے میں آگئی تھی۔آٹھ بجنے والے تھے، شارق کے آفس سے آنے کا ٹائم ہو رہا تھا۔ وہ تّیار ہو کر کپڑے طے کرنے کی غرض سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر میں دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا ۔ اُسے کام میں مصروف دیکھ کر شارق کو شرارت سوجھی۔ آج اُس نے شارق کا پسندیدہ لِباس زیب تن کیا تھا۔ سُرخ و سفید فراک اور پاجامے میں ہلکے کام کا سوٹ پہنے وہ پہلے سے بھی زیادہ نِکھری نِکھری اور دلکش لگ رہی تھی۔ بالوں کو پُشت پر کُھلا چھوڑ دیا تھا۔
‘السّلامُ علیکُم’ عرشیہ نے اُسے آتا دیکھ کر سلام میں پہل کی
‘وعلیکُم السّلام! کیسے مِزاج ہیں ہماری مِسز کے؟ اور یہ کیا کام لیکر بیٹھی ہوئی ہو، مُلازمہ ہے نا اِن سب کاموں کیلئے۔’ شارق نے اُسکے ہاتھ میں پکڑی شرٹ لیکر سائیڈ میں پھینک دی۔
‘ارے! کیا کرتے ہیں شارق میں نے ابھی طے کی تھی وہ شرٹ۔ مُجھے آپکے کام کرنا اچھا لگتا ہے اور اگر سب کام مُلازمہ ہی کریگی تو پھر میں کیا کرونگی؟’ عرشیہ نے سارے کپڑے سائیڈ پر کردئیے جانتی تھی کہ اب شارق اُسے کوئی کام نہیں کرنے دیگا۔
‘تُم صرف مجھے یاد کیا کرو جیسے ہر وقت میں تُمھیں کرتا ہوں۔’ شارق نے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر لبوں سے لگا لیا
‘ہیں! آپ مُجھے ہر وقت یاد کرتے ہیں آفس میں تو پھرکام کون کرتا ہے ؟’ عرشیہ نے اُسے چھیڑا۔ وہ اُسکی گود میں سر رکھ کر نیم دراز ہوگیا اور بولا
‘کام کون دیوانہ کرنا چاہتا ہے، ہم تو بس تُمھیں اور صرف تُمھیں یاد کرنا چاہتے ہیں۔’
‘پر اِن یادوں سے پیٹ تو نہیں بھرنے والا نا! چلیں مُجھے بہت بھوک لگی ہے۔آپ چینج کرلیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔ ‘ عرشیہ اُسکی شرارتیں سمجھ گئی تھی تبھی اُٹھتے ہوئے بولی۔
‘یار کبھی تو رومانٹِک ہونے دیا کرو’ اُسنے مُنہ بناکر کہا جس پر عرشیہ کِھلکِھلاکر ہنس پڑی
‘اُس کیلئے ساری عُمر پڑی ہے، چلیں چلیں۔ مُجھے پتا ہے آپکو کتنی بھوک لگی ہوئی ہے ۔ آج میں نے آپکی پسندیدہ ڈِشز بنائی ہیں بِریانی اور شامی کباب۔’ وہ جانتی تھی کہ شارق بھوک کا کتنا کچّا ہے اِس لئے اُسے کھانے کا لالچ دیکر بہلانا چاہا پر شارق پر کوئی اثر نہ ہوا اُلٹا وہ مُنہ بناتا ہوا بولا۔
‘ہونہہ!شامی کباب! مُجھے نہیں کھانے!’ اُسکا موڈ سخت آف ہو چُکا تھا
‘اچھا نا! اب ناراض تو نہ ہو پلیز۔ اِتنے دل سے بنایا ہے میں نے سب کُچھ آپ کیلئے۔’ عرشیہ نے دھیرے سے اُسکے بال بکھیرے اور وہ ہمیشہ کی طرح اُسکی اِس چھوٹی سی ادا پر مان گیا۔
وہ ایسا ہی تو تھا۔۔
عرشیہ کی ایک مُسکراہٹ پر مان جایا کرتا تھا۔وہ اُسے خود سے بھی بڑھ کر چاہتا تھا۔ اپنی زندگی میں شارق نے اگرکسی لڑکی کو بے اِنتہا اور بے حِساب چاہا تھا تو وہ عرشیہ سُمیر ہی تھی۔ اور عرشیہ کا حال بھی اُس سے کُچھ الگ نہ تھا۔ اُسے شارق کے بغیر اپنا آپ نا مکمّل سا لگتا تھا۔ دونوں کی جان بستی تھی ایک دوسرے میں۔
************************
کِھڑکی میں کھڑی گُم سُم اور گہری سوچ میں ڈوبی عرشیہ کو دیکھ کر شارق اُسکے قریب چلا آیا۔
‘آشی! کیا سوچ رہی ہو؟’ وہ اُسے اکثر آشی کہہ کر مُخاطب کرتا تھا۔ آج شارق نے سوچ رکھا تھا کہ اُسکی پریشانی کی وجہ جان کر رہے گا۔ وہ کبھی بیٹھے بیٹھے کھو جاتی ۔ اچانک گم سم ہو جایا کرتی۔ بظاہر سب کُچھ ٹھیک تھا، وہ اسکے ساتھ بہت خوش باش بھی تھی لیکن کوئی ایسی بات ضرور تھی جو وہ اپنے دل میں چُھپا کر بیٹھی تھی اورجو کہیں نہ کہیں اسے پریشان کر رہی تھی۔
‘نہیں کسی سوچ میں نہیں۔ میں تو بس یونہی کھڑی تھی۔’ وہ نظریں جُھکا کر بولی جانتی تھی کہ اُسے جھوٹ بولنا بالکل نہیں آتا تھا
‘اِدھر آؤ! یہاں بیٹھو!’ وہ اُسکا ہاتھ پکڑ کر بیڈ کے پاس لے آیا اور بیڈ پر بِٹھا کر خود اسکے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا
‘کیا بات ہے؟ میں بہت دن سے دیکھ رہا ہوں تم کچھ پریشان لگتی ہو۔ تم مجھ سے شئیر کرسکتی ہو۔ بتاؤ کیا اُلجھن ہے؟’
‘نہیں! نہیں تو! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔’ وہ اسکے ا ج اچانک پوچھ لینے پر کچھ گھبراگئی تھی
‘آشی! کیا تمھیں لگتا ہے کہ میں تمھاری پریشانی نہیں سمجھونگا؟ اگر ایسا ہے تو جب میں تمھیں اِس قابل لگنے لگوں تب مجھ سے اپنی پریشانی بانٹ لینا۔’ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھنے کو تھا جب عرشیہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔
‘نہیں پلیز! ایسا کچھ نہیں ہے شیری! میں بس ایک بات کی وجہ سے تھوڑی سی پریشان رہتی ہوں کہ کہیں اسکی مُجرم میں تو نہیں ہوں؟’
‘کس کی مجرم؟ کیا بتانا چاہ رہی ہو جان پلیز کُھل کر بتاؤ۔’ شارق سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
‘روحیل کی!’ عرشیہ نے اُسے آج سب بتانے کا تہےّا کر لیا تھا
‘روحیل ؟ یہ اپنا روحیل سکندر؟ دیکھو مجھے کُھل کر سب بتاؤ تبھی کچھ سمجھ پاؤنگا۔’ وہ اپنائیت سے بولا تو عرشیہ اسکے مقابل کھڑی ہوکر رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
‘آپ مجھے سمجھیں گے نا؟ میری بات کو غلط تو نہیں سمجھیں گے نا؟ میں نہیں چاہتی کہ کوئی چھوٹی سی بات بھی ہمارے اِس پیارے سے رشتے کو خراب کرے۔ میں آپکو کھونا نہیں چاہتی۔’ اُسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ وہ بہت حسّاس طبیعت کی لڑکی تھی۔
‘ارے میری جان! مجھ پر بھروسہ کرو اور کھل کر سب بتاؤ پلیز۔ ہو سکتا ہے میں تمھاری پریشانی دور کردوں۔’ عرشیہ کو اسطرح پریشان دیکھ کر وہ سچ میں کچھ گھبرا گیا تھا۔ شارق نے اسکے گِرد بازو حمائل کر کے اُسے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
عرشیہ کے ذہن کے پردے پر ماضی کے واقعات ایک فلم کی طرح گردش کرنے لگے۔۔۔
************************
عرشیہ اور شارق کی اسکولنگ ایک ہی اسکول سے ہو ئی تھی۔ ان ہی کی کلاس میں ایک روحیل سکندر بھی تھا۔
وہ بہت خوبرو اور اچھی شکل و صورت کا مالک تھا۔
نہایت گوری رنگت۔۔
سُرخی مائل ہونٹ۔۔
کُشادہ پیشانی۔۔
سیاہ روشن آنکھیں۔۔ اُس پرگھنی پلکیں۔۔
سیاہ گھنے بال۔۔
غرض کہ وہ سب لڑکوں میں سب سے اچھے قد کاٹ کا لڑکا تھا۔
روحیل اور اسکی ایک چھوٹی بہن رابیل تھی۔ یہ دو ہی بھائی بہن تھے۔ اُن کے والدسکندرصاحب کا لیدر گارمنٹس کا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا۔ انکا شمار کراچی کے امیر ترین صنعتکاروں میں ہوتا تھا۔ اپنے ماں باپ کا اکلوتابیٹا ہونے کی وجہ سے وہ کافی لا اُبالی اور لاپرواہ طبیعت کا مالک تھا۔ پڑھائی میں بھی خاص اچھا نہ تھا اور اسی وجہ سے وہ عرشیہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا ۔دوسری طرف وہ بہت ہی سلجھی ہوئی طبیعت کی ، اور ذہین ہونے کے باعث پڑھائی میں بھی بہت تیز تھی۔ہر ٹیچر کی آنکھ کا تارا۔ اِسی ذہانت اور قابلیت کی بدولت اسے ہر سال کلاس کا لیڈر بنادیا جاتا جسکی تمام تر ذمہ داریاں وہ بخوبی سنبھالتی تھی۔
عرشیہ کا مِزاج دھیما ضرور تھا لیکن وہ غصُے کی بہت تیز تھی۔ کسی کی غلط بات برداشت کرنا اُسنے سیکھا نہیں تھا۔ اُسکے غصُے کی وجہ سے ہی کسی بھی لڑکے کی اُس سے بات کرنے کی ہمُت نہیں ہوتی تھی۔اور خصوصاً روحیل سے تو اسے سخت چِڑ تھی، کیوں؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
نویں جماعت کے امتحانوں سے کچھ دن قبل عرشیہ شدید بیمار پڑگئی تھی۔ جب وہ کافی دن کی غیر حاضری کے بعد اسکول آئی تو سب ہی اسکے لئے فکرمند تھے اور اسکی خیریت دریافت کر رہے تھے۔ ایسے میں روحیل بھی اُسکے پاس چلا آیا۔
‘کیسی ہو تم؟ اب طبیعت کیسی ہے تمھاری؟’
‘ٹھیک ہوں!’ عرشیہ نے منہ موڑتے ہوئے ناگواری سے جواب دیا۔ اسوقت روحیل کی موجودگی اسے سخت زہر لگی تھی۔
‘اور تمھارا کام؟ وہ میں کردوں؟’ وہ اپنائیت سے پوچھ رہا تھا
‘جاؤ اپنا کام کرو۔ میرے کام کی فکر نہ کرو۔’
روحیل کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اُداس چہرہ لئے وہاں سے چلاگیا۔
***********************
اُنکی اسکول وین ‘روحیل وِلا’ کے آگے خراب ہوگئی تھی۔ وہ سب کو اپنے گھر کے اندر لے گیا کیونکہ وین ٹھیک ہونے میں ابھی کافی وقت لگنا تھا۔ سب خوشی خوشی اُسکے گھر کے اندر چل دئیے سوائے عرشیہ کے، وہ بار بار بولنے پر بھی اندر نہیں گئی تھی اور باہر ہی کھڑی ہو گئی ۔ اُسے اِسوقت شارق پر شدید تاؤ آرہا تھا جو اُسے باہر اکیلا چھوڑ کر خود اندر جاکر بیٹھ گیا تھا۔ ابھی عرشیہ دل ہی دل میں شارق کو گالیوں سے نواز رہی تھی کہ کسی نے چُٹکی بجا کر اُسے اپنی طرف متوجّہ کیا۔ وہ روحیل تھا۔ اُسے دیکھ کر عرشیہ کا غصّہ اور بڑھ گیا تھا۔
‘تم بھی چلو نا اندر، یہاں کیوں کھڑی ہو؟’
‘نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں!’ عرشیہ نے سپاٹ لہجے میں کہا
‘چلو پلیز کب تک یہاں کھڑی رہوگی، وین ٹھیک ہونے میں ٹائم لگ جائیگا۔’ روحیل نے اسے منانا چاہا
‘کہہ جو دیا کہ نہیں جانا بس، ہر بات میں بحث مت کیا کرو۔’ وہ غصّے سے بولی
‘اچھا ٹھیک ہے مت جاؤ ۔’ یہ کہہ کر وہ بھی اُس سے کچھ فاصلے پر ہی کھڑا ہوگیا
‘اب میرے سر پہ کیوں کھڑے ہو، جاؤ یہاں سے۔ اور پلیز اندر سے شارق کو بھیج دو بد تمیز مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر چلاگیا۔’ وہ اسکے ہٹ دھرمی سے وہیں کھڑے رہنے پر مزید غصّہ ہوئی تھی۔
‘میں۔۔۔۔’ روحیل کے اور کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ اُسے گھورتے ہوئے بولی
‘دفع ہوجاؤ یہاں سے ابھی اسی وقت!’ روحیل اپنی اِس بے عِزّتی پر دانت پیستا تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
***********************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مائے نی میں کنوں آکھاں — سمیہ صدف (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!