اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

‘عرشیہ! آر یو اوکے؟ تم اسطرح۔۔۔۔’
‘میں ٹھیک ہوں۔’ عرشیہ نے اُسکی بات کاٹ دی اور بولی
‘میں کچھ دنوں کیلئے گھر جانا چاہتی ہوں۔’
‘کیوں؟؟’ روحیل کے منہ سے بے اختیار نکلا اور بدلے میں جن نظروں سے عرشیہ نے اُسے دیکھا وہ یہ احساس دلانے کیلئے کافی تھا کہ وہ کتنا غلط سوال کرچکا ہے۔ کچھ تؤقف کے بعد وہ بولا۔
‘ٹھیک ہے کل صبح تیار رہنا آفس جاتے وقت ڈراپ کردوںگا۔’ وہ اُسکی بات سُن کر اِسٹڈی روم میں غائب ہوگئی۔ وہ رات اُس نے آنکھوں میں کاٹی تھی۔ شدید تنہائی کا احساس اُسے مارے دے رہا تھا۔ وہ روئے جارہی تھی یہ جانے بغیر کہ روحیل کو اُسکے یہ آنسو کتنی تکلیف دے رہے ہیں۔ بظاہر سوئے ہوئے روحیل کی ساری حسیات عرشہ کی طرف لگی تھیں۔ وہ بھی ساری رات سو نہیں سکا تھا۔ صبح ہوتے ہی عرشیہ نے کچھ سامان بیگ میں جمایا اور ناشتے کی ٹیبل پر آگئی۔ حرا نے اُسے دیکھ کر فکرمندی سے سوال کیا۔
‘عرشیہ بیٹا! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ یہ کیا حال ہورہا ہے تمھارا؟ بچی بے چاری بہت تھک گئی ہے نا سب کام سنبھالتے سنبھالتے۔اور یہ تمھاری آنکھیں اتنی سُرخ کیوں ہورہی ہیں؟ وہ بمشکل مسکرائی
‘ممی! میں بالکل ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔ بس رات میں طبیعت کچھ بے چین رہی ٹھیک سے سو نہیں پائی شاید تھکن کی وجہ سے اور ماما پاپا بھی بہت یاد آرہے ہیں۔ میں کچھ دِنوں کیلئے گھر چلی جاؤں اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو؟’
‘ارے بیٹا! مجھے بھلا کیوں اعتراض ہوگا۔ اچھا ہے کچھ دن رہ آؤ اپنی ماما کی طرف، فریش ہوجاؤگی۔ روحیل تم اسے چھوڑتے ہوئے جانا، مجھے اِسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی اسلئے اکیلے ڈرائیور کے ساتھ نہیں بھیجونگی ۔’ حرا نے محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھا جسکی رنگت کچھ زرد پڑ گئی تھی۔
‘جی ممی! اوکے پھر ہم نکلتے ہیں۔ آجاؤ عرشیہ!’ وہ چائے ختم کرکے اُٹھا ،گاڑی کی چابیاں اور والٹ ٹیبل سے اُٹھاتا باہر نکل گیا
‘اوکے ممی اپنا بہت خیال رکھئے گا۔ دوائیں ٹائم پر لیجئے گا ، کھانا ٹھیک سے کھائیے گا، میں روز کال کرکے پوچھونگی اچھا؟ اور میں بس کچھ دنوں میں آجاؤنگی۔’
‘ارے میرا بیٹا جتنے دن چاہو رہ لینا، اتنے عرصے بعد تو تم جارہی ہو اپنے میکے۔ میری فکر مت کرو روحیل ہے نا میں اکیلی تھوڑی ہوں اور پھر جو جو تم نے کہا ہے میں پورا خیال رکھونگی۔اپنے والدین کو میرا سلام کہنا اور ہاں! اپنا خاص خیال رکھنا بہت لاپرواہ ہو تم اپنے معاملے میں۔’
حرا نے اُسکی پیشانی پر بوسہ دیا اور الودائی کلمات ادا کرتے ہوئے اُسے رُخصت کیا۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وانیہ کچھ دیر لاؤنج میں بیٹھ کر اُسکے کمرے میں آگئی۔ عرشیہ کو یہاں آئے ہوئے تین دن ہوگئے تھے اور وہ اُسی کمرے میں رہ رہی تھی جہاں شارق کے ساتھ زندگی کے خوبصورت ترین دن گُزارے تھے۔ وانیہ کو پتا چلا کہ وہ میکے آئی ہوئی ہے تو وہ اُس سے ملنے چلی آئی۔ اسوقت عرشیہ کو شدت سے کسی ہمدرد اور مہربان کاندھے کی ضرورت تھی۔ وہ دروازہ کھٹکھٹائے بغیر ہی کمرے میں داخل ہوگئی ۔ کمرے میں ملگجا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے لیکن کمرے میں بھاری پردوں کی وجہ سے سورج کی کرنیں دکھائی نہ دے رہی تھیں۔ اُس نے سب سے پہلے کھڑکی کے پردے ہٹائے جس سے پورے کمرے میں روشنی پھیل گئی۔پردے ہٹانے تک عرشیہ بھی تکیوں کے سہارے بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی۔وہ جیسے ہی پلٹی عرشیہ کو دیکھ کر کچھ لمحے کیلئے حیران رہ گئی۔ کیا حال ہورہا تھا اُسکا۔
بکھرے بال۔۔
من من بھر کی سوجھی ہوئی آنکھیں۔۔ رو رو کر سُرخ ہورہی تھیں۔۔
شکن زدہ لباس جو اُس نے شاید پچھلے تین دن سے چڑھا رکھا تھا۔۔
وانیہ کو دیکھ کر اُسکے چہرے پر جو مُسکراہٹ آئی تھی وہ کتنی خالی سی تھی۔سفید دودھیا گُلابی رنگت مُرجھا کر رہ گئی تھی۔ وہ تین دنوں میں عرصے کی بیمار لگ رہی تھی۔
‘وہاں کیوں کھڑی ہو وانی؟ یہاں آؤ نا!’ وہ چلتی ہوئی اُسکی طرف آگئی
‘یہ تم نے کیا حُلیا بنا رکھا ہے اپنا؟ ہو کیا گیا ہے تمھیں؟ کہیں سے لگ رہا ہے کہ تم چند ماہ کی نئی نویلی دُلہن۔۔۔ ‘
‘پلیز۔۔۔ کیا ہم کوئی اور بات نہیں کر سکتے؟ مجھے اِس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی’ وہ بے زار لہجے میں بولی
‘کیوں عرشیہ کیا ہوا ہے؟ تم خوش نہیں ہو وہاں؟ کیا وہ لوگ اچھے نہیں ہیں؟ یا روحیل بھائی تمھارا خیال نہیں رکھتے؟’
‘ایسی کوئی بات نہیں ہے وانی! وہاں سب بہت اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ مجھے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ میں اپنے گھر سے دور ہوں۔ ممی اور رابیل بہت اچھے ہیں سچ میں۔’
‘اور روحیل بھائی؟؟’ وانیہ نے اُسکی آنکھوں میں دیکھا تو وہ دانستہ اُسکی بات کو نظر انداز کر گئی
‘یار میں بھی کتنی پاگل ہوں۔ تم کب سے آئی بیٹھی ہو اور میں نے چائے تک کا نہیں پوچھا۔ تم بیٹھو میں بس ابھی لیکر آتی ہوں۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں اکھٹّے کھانا۔۔۔’
‘تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔’ وہ ہنوز سنجیدہ تھی ۔ عرشیہ اُسکی سنجیدگی سے خائف ہوکر تھوڑی تلخی سے بولی
‘میں روحیل کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی پلیز مجھ سے ابھی کچھ مت پوچھو۔’
‘کیوں؟ کیوں نہ پوچھوں؟ اِسکا مطلب تمھیں ابھی تک عقل نہیں آئی۔ میں تمھیں پہلے بھی سمجھا چکی ہوں، کیوں آزمارہی ہو اُس شخص کو اتنا؟ آخر اُنکا قصور کیا ہے صرف اتنا کہ وہ تمھیں بے پناہ چاہتے ہیں؟’
‘وانی پلیز! بند کرو یہ ٹاپک۔ تم میری ذہنی کشمکش کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔ اِسوقت میں جس اذیت سے گزر رہی ہوں وہ صرف میں ہی جانتی ہوں۔میں دو کشتیوں میں سوار نہیں ہونا چاہتی پر مجھے نہیں سمجھ آتاکہ میں کیا کروں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ بُرا ہے۔ شاید وہ واقعی بہت اچھا ہے تبھی میری ہر تلخ سے تلخ بات بھی ہنس کر سہہ جاتا ہے لیکن میں اِس دل کاکیا کروں جو شارق کے علاوہ کسی کا ہونا ہی نہیں چاہتا۔ میں بہت تکلیف میں ہوں یار! میں ہنسنا چاہتی ہوں، خوش رہنا چاہتی ہوں لیکن شارق کی یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔ میں اُسے نہیں بُھلاسکتی۔۔ مجھے اندازہ ہے میں اُس شخص کے ساتھ زیادتی کررہی ہوں جس نے مجھے اپنا نام اور اِتنا مان دیا ہے۔وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے لیکن میں پھر بھی اُسکو قبول نہیں کر پارہی۔۔ میری مدد کرو پلیز۔۔ مجھے نکالو اِس تکلیف سے۔ میں بُری طرح ٹوٹ گئی ہوں۔ بکھر گئی ہوں۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔۔’ عرشیہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چُھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ وانیہ کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی ۔
کتنا مشکل ہوتا ہے نا اچانک کسی بھی ایسے شخص کا ساتھ قبول کرنا آپکی زندگی میں جِس کی کوئی جگہ نہ ہو۔۔ آپکا دل جس ایک شخص کے نام پردھڑکتا ہو، آپکی سانسوں کی روانی بس اُسی ایک شخص کے ساتھ جُڑی ہو۔ اور اُس دل کو یہ کہہ دیا جائے کہ اُس شخص کے نام پر دھڑکنا چھوڑ دے اور کسی نئے انسان کو اپنالے! اُن سانسوں کی روانی پر کیسے بندھ باندھا جائے۔ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب ایک ان چاہے شخص کا ساتھ آپکو قبول کرنا پڑے۔ وانیہ اُسکا موڈ سیٹ کرنے اُسے لان میں لے آئی جہاں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ وہاں دونوں نے لنچ ساتھ کیا۔ وہ اب خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی، وانیہ سے ڈھیر ساری باتیں کرکے اُسکا دل اب کچھ ہلکا ہوگیا تھا۔ شام کے سائے ڈھلنے لگے تو وانیہ اپنے گھر واپسی کیلئے اُٹھ کھڑی ہوئی لیکن جاتے وقت وہ روحیل کو کال کرنا نہیں بھولی تھی۔ اب وہی تھا جو اُسکے بکھرتے وجود کو سمیٹ سکتا تھا۔ وانیہ اُسے کال کرکے پُرسکون ہوگئی تھی کیونکہ وہ عرشیہ کو آج رات ہی لینے آرہا تھا۔
************************
جتنی تھیں خوشیاں سب کھوچکی ہیں،
بس ایک غم ہے کہ جاتا نہیں،
سمجھا کے دیکھا، بہلا کے دیکھا،
دل ہے کہ چین اِسکو آتا نہیں،
آنسو ہیں یا ہیں انگارے،
آگ ہے اب آنکھوں سے بہنا۔۔!
روحیل سی۔ڈی پلئیرکا بٹن آف کرکے اُسکی طرف آیا جو کھڑکی میں کھڑی اپنے خیالوں مین اتنی گُم تھی کہ روحیل کی آمد کا اُسے احساس تک نہ ہوا۔
‘خوشیاں ڈھونڈنے سے ملتی ہیں عرشیہ’ روحیل نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے کہا تو وہ چونک گئی۔ وہ نجانے کب وہاں آگیا تھا اور اب مزید کہہ رہا تھا۔
‘خوشیاں تمھارے آس پاس بکھری پڑی ہیں بس اُنھیں ہاتھ بڑھا کر مُٹھی میں لینے کی دیر ہے۔’ وہ مسکرا رہا تھا۔ عرشیہ کا حال دیکھ کر روحیل کا دل کسی نے مُٹھی میں لیا۔ وہ آہستگی سے بیڈ کی طرف بڑھ گئی۔
‘تم کب آئے؟’
‘بس ابھی۔ جب تم گہری سوچوں میں گُم تھیں۔’ روحیل اُسکے سامنے کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور اُسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھنے لگا جو اپنی اُنگلیوں کو توڑ مروڑ رہی تھی۔
‘گھر میں سب کیسے ہیں؟’
‘سب ٹھیک ہیں اور تمھیں بہت یاد کر رہے ہیں۔ رابیل بھی ٹرپ سے واپس آگئی ہے۔’ روحیل کچھ دیر اُسکے بولنے کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ بالکل خاموش تھی۔کچھ دیر بعد وہ دوبارہ بولا۔
‘جو سامان رکھنا ہے وہ رکھ لو، میں تمھیں لینے آیا ہوں۔’
‘لیکن کیوں؟’ عرشیہ اُسکی اچانک آمد پر حیران تو ہوئی تھی اور اب تو وہ اُسے لے جانے کی بات کررہا تھا۔ روحیل کے کچھ بولنے سے پہلے وہ پھر بول پڑی۔
‘میں کہہ کر تو آئی تھی کہ کچھ دن رکونگی یہاں اور تمھیں کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔’
‘ہاں بالکل نہیں تھا لیکن اب تمھاری حالت دیکھ کر اپنا اِرادہ بدل دیا ہے میں نے۔’ روحیل یہ کہہ کر کرسی سے کھڑا ہوگیا تو وہ بھی اُسکے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
‘کیوں کیا ہوا ہے میری حالت کو؟ ٹھیک تو ہے! اور تمھیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی۔’ وہ تلخی سے بولی۔ روحیل نے اُسے گھور کر دیکھا۔
‘میں تم سے پوچھ نہیں رہا بلکہ حکم دے رہا ہوں کہ تمھیں چلنا ہی ہے میرے ساتھ۔ اور ہاں! اگر میں تمھاری فکر نہیں کروںگا تو اور کون کریگا۔’ وہ اُسکے بے حد قریب آگیا۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی اور چِلائی۔
‘دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔’
‘میں زبردستی کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ صرف دس منٹ ہیں تمھارے پاس اگر تم خود نیچے نہ آئیں تو میں اُٹھا کر لے جاؤنگا تمھیں اور کوئی مجھے روک نہیں سکے گا۔’
‘کیا بکواس ہے یہ۔۔ تم۔۔ تم۔۔۔’ غصے سے اُسکا چہرہ لال ہوگیا ۔ اُسکی آواز اُسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔اُسے روحیل سے اِس درجہ جرّت کی قتعاً اُمید نہ تھی۔ وہ دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے رُکا اور پلٹ کر بولا۔
‘صرف دس منٹ سوئیٹ ہارٹ۔ تم خود آجاؤ ورنہ مجبوراً مجھے اُٹھا کر لے جانا پڑیگا۔’ وہ یہ کہہ کر سیڑھیاں پھلانگ گیا۔ عرشیہ نے اُس کرسی کو ٹھوکر ماری جہاں کچھ دیر پہلے تک روحیل برّاجمان تھا۔اُسکی دھمکی کارگر ثابت ہوئی ۔ دس منٹ میں وہ بیگ سمیت نیچے موجود تھی۔سُمیر اور زُنیرہ سے مل کر وہ انیلہ کے کمرے میں آئی۔
‘جارہی ہو بیٹا۔ میں تو چاہ رہی تھی کہ کچھ دن اور رُک جاتی لیکن چلو روحیل اتنے خیال سے تمھیں لینے آیا ہے۔ بڑا ہی اچھا بچہ ہے وہ۔ اکثر یہاں آتا ہے اور گھنٹوں ہمارے ساتھ گُزارتا ہے۔ اتنا سعادت مند اور سیدھا سادھا ، کہ لگتا ہی نہیں کسی کروڑ پتی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔اور باتیں تو اتنی پیاری کرتا ہے کہ کبھی کبھی تو اُسمیں اپنا شارق نظر آتا ہے مجھے۔’ اُنکی آنکھوں میں نمی اُترنے لگی ، اور عرشیہ اِس بات پرشدید حیران تھی کہ وہ یہاں کب کب آتا تھا اُسنے کبھی بتایا نہیں تھا۔ عرشیہ نے آگے بڑھ کر اُنھیں گلے لگا لیا اور بولی۔
‘امّی اگر آپ کہیں تو میں نہ جاؤں، کچھ دن اور۔۔۔’
‘ارے نہیں بیٹا! بس تمھیں دیکھ لیا دل کو ٹھنڈک مل گئی۔ اب تو تم دونوںبچے ہی میرے جینے کی وجہ ہو۔ اب یہ رونا دھونا بند۔ خوشی خوشی گھر جاؤ روحیل تمھارا انتظار کر رہا ہوگا۔ اور اُسکا خیال تو رکھتی ہو نا؟ بہت اچھا لڑکا ہے اور تمھیں بہت چاہتا ہے، اُسے ہمیشہ بہت خوش رکھنا بیٹی!’ عرشیہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلادیا اور خدا حافظ کہہ کر پورچ میں چلی آئی۔ روحیل کو بلیک کرولا میں بیٹھا دیکھ کر عرشیہ کا غصہ عود کر آیا تھا۔ وہ گاڑی تک آئی اور بیک ڈور کھولنے لگی۔ روحیل تیزی سے بولا۔
‘میں تمھارا شوہر ہوں، کوئی شوفر نہیں ہوں جو آگے اکیلے بیٹھ کر ڈرائیو کروں۔ چلو آگے آؤ۔’ لیکن وہ بھی کمال ڈھٹائی سے اُسکی بات کو سُنی ان سنی کرتی بیک ڈور کھول کر بیٹھنے ہی لگی تھی جب روحیل اپنی طرف کا دروازہ کھول کر تیزی سے باہر نکلا اور برہمی سے بولا۔
‘تمھیں سُنائی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہا ہوں؟’ وہ اِتنے خطرناک تیور لئے کھڑا تھا کہ عرشیہ کو ناچار فرنٹ سیٹ پر آنا پڑا۔ جب تک روحیل بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چُکا تھا۔ عرشیہ نے بیٹھتے کے ساتھ ہی ایک دھماکے سے دروازہ بند کیا کہ اگر کوئی چھوٹی گاڑی ہوتی تو ہل کر رہ جاتی۔وہ اپنے غصے کا اظہار اِسی طرح کرسکتی تھی کیونکہ روحیل کے خطرناک تیو ر اُسے کچھ بھی بولنے سے بازرکھے ہوئے تھے۔
‘یا اِلٰہی! خیر فرمانا مجھ پر۔’ روحیل ڈرنے کی ایکٹنگ کرکے بڑبڑایا
‘مجھ سے کیا گلہ ہے تم کو؟
آخر اتنے بد گمان کیوں ہو؟
میں نے تم کو چاہا ہے،
تم سے تو کچھ نہیں چاہا!!’
اُسنے با آوازِبلند یہ شعر پڑھا۔ وہ اپنے سابقہ موڈ میں واپس آچکا تھا ۔ عرشیہ کا بس نہ چلا کہ اُسے کچّا چبا جائے۔
‘ایسے کیا گھور رہی ہو؟ نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا؟’
‘کیا اِتنے ہی حسین ہو تم؟’ سوال اتنا جل کر کیا گیا تھا کہ روحیل کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی
‘بالکل جناب! اتنا خوبرو، بے شمار حسن کا مالک اور ہینڈسم بندہ آپکے پہلو میں بیٹھا ہے۔ آپکو کوئی شک ہے کیا؟’
‘بات نہ کرو مجھ سے!’ عرشیہ رخ موڑ گئی۔ روحیل بھی کندھے اُچکا کر خاموش ہوگیا اور نظریں ونڈ اسکرین پر مرکوز کردیں۔ سی۔ڈی پلئیر آن کیا تو ایک مشہور گانے کے بول چل رہے تھے۔
‘یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار،
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں۔۔!’
روحیل بھی گانے کے ساتھ کنگنا رہا تھا۔ شاید یہ گانا وہ پہلے بھی کئی بار سُن چکا تھا، ایک ایک لفظ ازبر تھا اُسے۔اُسکی آواز میں بے شک ایک عجیب سا سحر تھا لیکن عرشیہ کو اِسوقت یہ سحر کسی سر درد سے کم نہ لگ رہا تھا، اُسنے ہاتھ بڑھا کر سی۔ڈی پلئیر آف کردیا۔ روحیل نے اچنبے سے اُسے دیکھا۔
‘کیا ہوا؟ یہ کیوں بند کردیا۔’
‘میرے سر میں درد ہورہا ہے اسلئے پلیز!’ روحیل نے اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھا پھر شوخ لہجے میں بولا
‘ہم۔۔م۔۔ ٹھیک ہے! گھر چلو آج تمھارے سارے درد سمیٹ لونگا۔ بس بہت ہوگئیں ہمارے درمیان یہ دوریاں۔۔’ عرشیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔اُسکی نظریں روحیل کی نظروںسے ملیں تو وہ نگاہیں جُھکا گئی۔ایسی والہانہ اور لو دیتی چمک تھی اُن آنکھوں میں کہ وہ نظریں نہ ملا پائی اور کانوں کی لوؤں تک سُرخ پڑ گئی۔وہ اندر ہی اندر بہت ڈر گئی تھی۔ آج روحیل کے تیور اُسے آنے والی گڑبڑ کاپتا دے رہے تھے۔ وہ اُسے زبردستی اپنے ساتھ لے آیا تھا اور اب ایسی ذومعنی باتیں۔ عرشیہ کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔ گھر کا راستہ کب طے ہوا اُسے اندازہ ہی نہ ہوا۔ جب گاڑی پورچ میں آکر رُکی تب وہ چونکی۔ تیزی سے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر اندر کی طرف بھاگی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!