اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

‘دکھاؤ زخم’ وہ منہ جُھکا کر بیٹھی تھی جب روحیل نے اُسکا چہرہ اوپر کیا اور اُسکے ماتھے پر بندھی پٹّی کھونے لگا
‘اب ٹھیک ہے روحیل’ عرشیہ نے اُسے روکنا چاہا لیکن وہ اُسکی بات کو اِگنور کرتا پٹّی کھول چُکا تھا
اُسنے زخم کا جائزہ لیا۔ خون نکلنا بند ہوچکا تھا لیکن خون جمنے کی وجہ سے ٹھیک سے زخم کی گہرائی نظر نہیں آرہی تھی۔ پھر وہ کاٹن پر پایوڈین لگا کر اُسکا زخم صاف کرنے لگا۔ عرشیہ کو لگا جیسے کسی نے تیز دھار چُھری اُسکے تازہ زخم میں اُتار دی ہو۔
‘سس۔۔۔’ وہ کراہ کر رہ گئی
‘سوری! تھوڑی چُبھن تو ہوگی، پر اِس سے زخم جلدی ٹھیک ہوجائیگا۔ تھوڑا برداشت کرو۔’ وہ مسکرا کر بولا اور اُسکی مسکراہٹ عرشیہ کو آگ ہی لگا گئی۔
‘برداشت ہی کر رہی ہوں۔ آج تو تم سمیت اور بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔’ وہ چِڑ کر بولی تو روحیل کو ہنسی آنے لگی۔ اُسکا غُصّہ ہمیشہ سوا نیزے پر رہتا تھا۔
‘ہاں تو کس نے کہا تھا کہ دل سے اِتنی شدید خواہش کرو میرے ساتھ کیمپ لگانے کی۔ اب دیکھ لو لگ گیا نا کیمپ۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ آئیڈیا بُرا نہیں ہے۔’ روحیل نے اُسے شرارت سے آنکھ ماری
‘ہونہہ!!!’ وہ اور کچھ نہ بولی جانتی تھی کہ روحیل کو اُسکو تنگ کرکے مزہ آتا تھا اور اِسوقت وہ کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھی اسلئے بحالتِ مجبوری چپ چاپ بیٹھی رہی۔
روحیل نے اُسکا زخم اچھی طرح کاٹن سے صاف کیا اور اُسپر سنی پلاسٹ لگا کر باقی چیزیں باکس میں واپس رکھنے لگا۔ پھر وہ اُٹھا اور جاکر راہداری میں کھڑا ہوگیا، جہاں سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ بارش اب کچھ ہلکی ہوچکی تھی لیکن بادلوں کی گھن گرج ابھی بھی جاری تھی۔ تیز ہوا سے لہلہاتے پتوں کی آواز بہت تیز تھی۔ وہاں موجود ہر چیز نیم تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ہوٹل کے سامنے لگے ایک واحد چھوٹے بلب کی پیلی روشنی کے باقی سڑک پر حدِنظر موجود ہر شے گہرے اندھیرے میں تھی۔
‘عرشیہ! تمھیں ایسا موسم پسند ہے؟ جسمیں اپنے اندر کا شور اِتنا ہو کہ باہرکا کوئی شور بھی سُنائی نہ دے۔ جہاں ہر شے اپنے ہونے کا احساس دِلانے کے باوجود بھی گہری تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہو۔جہاں بس ایک پھوٹتی ہوئی روشنی کی کرن کا اِنتظار ہو اور وہ کِرن کہیںدکھائی نہ دے۔ آپکی پہنچ سے بہت دور ہو اور آپ اُسکی تلاش میں اندھیر بستیوں میں بھٹکتے رہیں۔’ عرشیہ اُسکو نا سمجھی سے دیکھ رہی تھی وہ کیا کہہ رہا تھا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ پھر وہ بھی چلتی ہوئی اُس سے کچھ فاصلے پر آکرستون کے پاس کھڑی ہوگئی۔
‘میںنے بہت کوشش کی ہے اُس کِرن کو تلاش کرنے کی، بہت بھٹکا ہوں اُسکی تلاش میں لیکن جب جب میںاُسکے قریب پہنچتا ہوںوہ مجھ سے دور سے دور ہوتی جاتی ہے۔اور اب تک میں اُسکی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔’ وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں بول رہا تھا۔ عرشیہ نے اُسے دیکھا اور بولی۔
‘پتا نہیں کس کِرن کی بات کررہے ہو تم۔ مجھے توبہت ڈر لگتا ہے ایسے موسم سے۔ میری تو جان نکلتی ہے اندھیرے سے۔’ عرشیہ نے سامنے تاریک سڑک کو دیکھ کرکپ کپی لی۔ اُسنے روحیل کی شال کو اچھی طرح اپنے گِرد لپیٹ رکھا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

‘ہم۔۔ممم’ وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہوگیا۔ وہ جانتا تھا عرشیہ کبھی اُسکے جذبات نہیں سمجھتی ۔
اِس سے پہلے کہ وہ دونوں کوئی اور بات کرتے اُس ادھیڑ عمر شخص کی پیچھے سے آواز سُنائی دی۔
‘آجاؤ روحیل صاحب۔ آجاؤ بیٹی کھانا کھالو ٹھنڈا ہوجائیگا یہاں ٹھنڈ کافی ہے۔’ وہ ٹیبل پر پلیٹس رکھتا ہوا بولا۔دونوں چلتے ہوئے ٹیبل کے پاس آگئے اور کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ ایک پلیٹ میں فرائی کی ہوئی دال تھی اور دوسری پلیٹ میںمُرغ انڈے کا سالن تھا جسمیں سے دھواں نکل رہا تھا۔ اُسکے برابر رکھی چنگیر میں گرم گرم نان رکھے ہوئے تھے ۔
‘صاحب! آپ لوگوں کے شایانِ شان تو یہ کھانا نہیں ہے لیکن اس غریب خانے پر یہی کچھ ملتا ہے۔’ وہ بچہ مسکراتے ہوئے بولا تو روحیل سے پہلے عرشیہ بول پڑی۔
‘نہیں بیٹا! بھوک کے وقت تو جو مل جائے وہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ اور یہ سب تم نے بنایا ہے؟’ بچے نے جوش سے اثبات میں سر ہِلایا
‘واہ بھئی! تمھارے ہاتھ میں تو بہت ذائقہ ہے۔’ عرشیہ نے اُسکی تعریف کی۔ کھانا واقعی بہت لزیز تھا
‘میری بیگم بالکل سچ کہہ رہی ہیں، کھانا واقعی بہت مزیدار ہے۔۔ تم پڑھتے ہو؟’ روحیل اُس بچے کو اپنے قریب کرتا ہوا بولا تو وہ ایک اُداس مسکراہٹ دے کر سنجیدہ ہوگیا۔
‘اِسے پڑھنے کا بہت شوق ہے صاحب۔ لیکن امارے پاس اِتنا پیسہ نہیں کہ ہم اِسے مزید پڑھا سکیں۔ یہ پانچ جماعتیں پاس ہے پر اب ڈیڑھ سال سے یہ میرے ساتھ دھابے پر بیٹھتا ہے ۔ دھابے کا کام بھی بالکل بیٹھا ہوا ہے کوئی آتا جاتا نہیں یہاں۔اور کیا کریگا اِس غریب کو یہی تو کرنا ہے اب۔’ اُس ادھیڑ عُمر شخص نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تفصیل بتائی۔ روحیل کو افسوس ہوا تبھی وہ کچھ سوچ کر بولا۔
‘آگے پڑھنا چاہتے ہو؟’ پڑھائی کا نام سُنتے ہی اُس بچے کے چہرے پر جو رنگ اُترے تھے وہ روحیل سمیت عرشیہ نے بھی نوٹ کئے تھے۔
‘جی صاحب۔’
‘ٹھیک ہے بابا آپ اِسے جب موسم تھوڑا بہتر ہوجائے تو ایک دو دِن بعد کراچی لیکر آئیں۔ میں اِسکے اسکول میں داخلے کا بندوبست کرتا ہوں۔ یہ میرے ہی گھر میں سرونٹ کوارٹرز میں رہیگا۔اِسکی ضروریات پوری ہوجائینگی۔ صبح اسکول جائیگا اور شام میں یہ کھانا بنایا کریگا۔میرے گھر میں دو کک اور ہیں اُنکے ساتھ مل کر یہ کام کریگا اور جو مہینے کی اِسکی تنخواہ ہوگی وہ میں آپکو ہر مہینے اپنے ڈرائیور کے ہاتھ بھجوادیا کرونگا۔۔’ یہ بات سُنتے ہی بچے کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔اُسے اپنا پڑھنے لکھنے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ روحیل نے اپنے آفس کا کارڈ ، اپنے گھر کا مکمل پتا اور فون نمبر ایک پرچی پر لکھ کر اُنکو دے دیا اور وہ نہ نہ کرتے رہ گئے لیکن روحیل نے اُنکے ہاتھ پر چند ہزار رُوپے رکھے اور جانے کی اِجازت مانگی۔ گاڑی بھی ٹھیک ہوچُکی تھی۔ اُس ادھیڑ عمر شخص نے اپنی ڈھیروں دُعاؤں میں اُن دونوں کو رُخصت کیا۔ گاڑی میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد عرشیہ بولی۔
‘تم نے بہت اچھا کیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کتنا خوش ہوگیا تھا نا وہ بچہ!’ وہ مُسکرا کر روحیل کی اچھائی کو سرا رہی تھی۔اُسے آج یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ روحیل کتنا نرم اور خوبصورت دل رکھتا ہے۔وہ کچھ بھی نہ بولا بس ونڈ اِسکرین سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھا اور مسکرا دیا۔ سارا راستہ پھر وہ خاموش رہا ۔ عرشیہ سوگئی تھی اور اُسکی آنکھ تب کُھلی جب گاڑی پورچ میں آکر رکی ۔ روحیل نے گاڑی بند کی اور اُسے دیکھا، وہ اُٹھ چُکی تھی لیکن سُنہری آنکھوں میں نیند کا خُمار اب بھی باقی تھا۔ وہ بِنا کچھ بولے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کرگاڑی سے اُترا اور مُلازم جو گاڑی رُکتے ہی اُسکے قریب آگیا تھا اُس سے بولا۔
‘گاڑی سے سامان اُتار لو۔’ اور یہ کہتا اندر کی جانب بڑھ گیا
عرشیہ حیران تھی (اِسے کیا ہوا اچانک اِتنی خاموشی سے اندر چلا گیا) وہ کندھے اُچکاتی اُتری اور خود بھی اندر کی طرف بڑھ گئی۔سامان صحیح جگہ پر رکھوانے کے کچھ دیر بعد جب وہ کمرے میں آئی تو روحیل بیڈپر اُنہی کپڑوںمیں پڑا بے خبر سورہا تھا۔اُسنے کپڑے تک نہیں اُتارے تھے شاید ڈرائیو کرتے کرتے بہت تھک گیا تھا۔ سفر بھی تو اِتنا لمبا اور کٹھن تھا۔ عرشیہ نے آہستگی سے اُسکے اوپر کمفرٹر (Comforter )ڈالا اور کمرے کی لائٹس آف کرتی باتھروم میں کپڑے چینج کرنے چل دی۔
************************
رابیل اور ثنا ء کی شادی کے ہنگامے بھی سرد پڑ گئے تھے ۔زندگی دوبارہ اپنے معمول پر آگئی تھی۔ کتنے دِنوں کی تھکن تھی جو عرشیہ کو اب اپنے وجود میں اُٹھتی محسوس ہورہی تھی۔ آج اُسکی طبیعت بھی کافی بوجھل تھی لیکن اِسکی وجہ تھکن نہیں کچھ اور تھی ۔ آج صبح سے وہ کچھ اُداس سی تھی۔ شاید بہت دِن سے اپنے مما پاپا سے نہیں ملی تھی اورانیلہ چاچی کو دیکھے ہوئے بھی کتنے دن ہوگئے تھے۔ رابیل کی شادی کے بعد سے اُن سے مُلاقات نہیں ہوئی تھی۔ حالات سے سمجھوتا کرکے عرشیہ تو پھر بھی سنبھل گئی تھی لیکن اُنکی تو کُل کائنات ہی اُنکا بیٹا شارق تھا اور وہی اُن سے ہمیشہ کیلئے دور ہوگیا تھا۔۔ چِھن گیا تھا۔۔ اتنے دن سے شادی کے جھمیلوں میں اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ کتنے دن سے وہ اپنے گھر والوں کو بُھلائے بیٹھی ہے۔ خصوصاً انیلہ تو اب عرشیہ میں ہی اپنی خوشی تلاشتی تھیں اور وہ حقیقتاً اُسے بیٹیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ یہ سب سوچ کر اُسے شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔ وہ آج روحیل سے گھر جانے کی بات کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے پردستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو مُلازمہ کھڑی تھی۔
‘چھوٹی بی بی! روحیل صاحب آپکو ڈرائنگ روم میں بُلا رہے ہیں۔ کہلوایا ہے کہ کوئی جاننے والے آئے ہیں اور اُن سے آپکو مِلوانا ہے تو آپ آجائیں۔’ عرشیہ اِسوقت کسی سے ملنے کے موڈ میں نہیں تھی لیکن ناچار اُسے ملنا تو تھا
‘ٹھیک ہے تم چلو۔ اور ہاں عظیم سے کہو کہ چائے پانی کا اِنتظام کرے۔ٹرالی سیٹ کرے۔ میں چینج کرکے وہیں آرہی ہوں۔’ مُلازمہ حکم کی تعمیل کرتی نیچے اُتر گئی۔ عرشیہ جلدی سے کپڑے تبدیل کرکے کچن میں چلی آئی جہاں عظیم مُلازمہ کے ساتھ ٹرالی سیٹ کروارہا تھا۔ اُس نے ٹرالی میں جلدی جلدی کباب ، سموسے اور نمکو کی پلیٹس سجائی اور اُسے لئے عرشیہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
‘گُڈورک عظیم’ وہ خوش ہوکر بولی۔عظیم کو جامشورو سے یہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ گزر چُکا تھا اور اُسکا داخلہ بھی اسکول میں ہوچکا تھا۔ روحیل نے اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا تھا۔ وہ ٹرالی لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔ ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ اُسنے صوفے پر براجمان سوٹڈ بوٹڈ خوبرو نوجوان کو دیکھا ۔ وہ دانش تھا۔ اِن سب کے بچپن کا دوست ۔ شارق کا سب سے جگری یار تھا وہ لیکن اُسکی منگنی کے فوراً بعد ہی اچانک نجانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔ وہ اُسے کئی سالوں بعد دیکھ رہی تھی۔ جلدی سے ٹرالی چھوڑ کر آگے بڑھی اور اپنائیت بھری مسکراہٹ دیتے ہوئے بولی۔
‘ارے زہے نصیب! دانش کیسے ہو تم؟ کتنے عرصے بعد شکل دکھائی ہے تم نے؟’ دانش عرشیہ کو یہاں دیکھ کر حیرت سے کنگ رہ گیا۔ وہ جو روحیل کی بیوی سے مِلنا چاہتا تھا عرشیہ کو یہاں کھڑا دیکھ کرکچھ سمجھ نہ پایا۔ وہ روحیل کے گھر میں کیا کر رہی تھی(کہیں یہی تو روحیل کی بیوی۔۔ نہیں!ایسا کیسے ہوسکتا ہے) پھراپنی سوچوں کو رد کرتا خوشگوار لہجے میں بولا۔
‘ارے عرشیہ تم یہاں اِسوقت کیسے؟ شارق بھی تمھارے ساتھ آیا ہے؟ کہاں ہے وہ؟ ‘ اُسکے پے در پے سوالوں سے عرشیہ کے چہرے کا رنگ ایک دم اُڑ گیا۔ وہ مسکراتے لب بھی پل بھر میں سُکڑ گئے تھے۔ آنکھیں اچانک ویران سی لگنے لگیں۔ وہ بُجھتی آنکھوں سے روحیل کی سمت دیکھنے لگی تو وہ نظریں چُرا گیا۔ ماحول میں چھائی یاسیت کو ختم کرنے وہ شوق لہجے میں بولا۔
‘اِن سے ملو۔ یہی ہیں مسز روحیل!’ دانش اُسکی بات پر جھٹکا کھا کر بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا
‘کک۔۔ کیا؟؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو شارق کی بیوی۔۔۔’ شدید شاک کے عالم میں اُس سے جملہ پورا کرنا بھی مشکل ہورہا تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ کتنا لگاؤ تھا اُسے شارق سے اور کتنا خوش تھا وہ اِن دونوں کی منگنی پر۔ اُسکی اُلجھن کو سمجھتے ہوئے روحیل چند قدم آگے آیا جبکہ عرشیہ ابھی تک بُت بنی وہیں کھڑی تھی۔ گویا برف کی بن گئی ہو۔
‘دانش! شیری اب ہم میں نہیں رہا’ روحیل کی آنکھیں سُرخ تھیں۔عرشیہ کے آنسو فراوانی سے بہنے لگے۔ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلی، بالکل پتھر کی بن گئی تھی۔ اور پتھر تو دانش بھی ہوگیا تھا۔۔ اطلاع تھی یا بم تھا۔۔اُسے اپنے ہر دل عزیز دوست کے بارے میں یہ سُن کر جو دکھ ہوا تھا وہ بے یقینی سے روحیل کو کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر شدتِ غم سے چِلا اُٹھا۔
‘وہاٹ۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔ کچھ سال پہلے تو میںاُسے اچھا خاصا چھوڑ کر گیا تھا پھر یہ اچانک۔۔۔’ شارق کی موت کا ذکر دانش کیلئے شدید تکلیف کا باعث تھا۔ روحیل بھی رنج میں گرفتار ہوگیا۔ شارق تو اُسکا بھی بہت اچھا دوست تھا اور جاتے جاتے وہ کیسا عظیم احسان کر گیا تھا اُس کی ذات پر۔ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ‘عرشیہ ‘ اُسے سونپ دی تھی۔ اُسے عرشیہ کی فکر تھی۔اُس نے عرشیہ کی طرف دیکھا جسکے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔ روحیل نے فکرمندی سے اُسکی جانب قدم بڑھائے اور اُسکے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ ہوش کی دُنیا میں واپس لوٹی اور تیزی سے پیچھے ہوتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ روحیل ایک گہری سانس کھینچ کر وہیں رُک گیا۔ وہ دانستہ اُسکے پیچھے نہیں گیا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ اب عرشیہ بے حساب روئیگی اور تنہائی مانگے گی۔ روحیل کو ہمیشہ اُسکے آنسو بہت تکلیف میں مُبتلا کردیتے تھے۔
‘بیٹھو دانش! پلیز ہمت سے کام لو۔ ہم سب پر بھی بہت مشکل گھڑی تھی۔ خصوصاً عرشیہ کو سنبھالنا بہت ہی مشکل ہوگیا تھا۔ بہت مشکل سے سنبھلی ہے وہ۔’ اُس نے شارق کی موت اور اُسکے بعد اِن دونوں کی شادی کا سارا حوال من و عن دانش کے گوش گُزار کردیا۔ وہ کتنے ہی پل خاموشی کی تصویر بنا رہا۔ اُس نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی اور بولا۔
‘مجھے کسی نے بتایا تک نہیں۔ میرا جگری دوست اِسطرح اتنی خاموشی سے چلا گیا۔’
‘تم کب اپنا کوئی سُراغ چھوڑ کر گئے تھے۔ یوکے جاکر ایسا بھولے کہ کوئی خبر ہی نہ لی یہاں کی۔’ دانش کو اب خود پر شدید غصہ آنے لگا جو جلد بازی میں بنا کسی کو بتائے یوکے اپنے پاپا کے پاس چلا گیا تھا اور اب جب سالوں بعد واپس آیا تو کتنا کچھ بدل چُکا تھا۔۔ اُسکا دوست اُس سے بچھڑ گیا تھا۔
ٹرالی میںرکھی چیزیں ٹھنڈی ہوچکی تھیں۔ وہ ایسے ہی اُٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔ روحیل اُسے گیٹ تک چھوڑ کر واپس مُڑا، اُسکا رُخ اپنے کمرے کی جانب تھا۔ روحیل کو کمرے میں پہنچ کر شاک لگا۔۔وہ کھڑکی کے پاس زمین پر بیٹھی دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چُھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ آج ویسے ہی اُسکی طبیعت کچھ بوجھل سی تھی۔ اُسے صبح سے گھر والے یاد آ رہے تھے اور اُس پر شارق کی یادوں نے اُسے بُری طرح توڑ کر رکھ دیا تھا۔ روحیل تیزی سے اُس تک پہنچا۔
‘عرشیہ! پلیز خود کو سنبھالو۔ بہت یاد آرہا ہے شارق؟’ وہ اُسکا غم بانٹنا چاہتا تھا۔ اُسکی بات سُن کر وہ اور شدت سے رونے لگی۔آنسو تیزی سے بہنے لگے اور روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ روحیل نے تڑپ کر اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اُسکے آنسوؤں کو اپنی اُنگلی کی پوروں پر چُنتے ہوئے اپنائیت سے بولا۔
‘عرشیہ پلیز ! اسطرح مت رو پلیز! تمھارے آنسو مجھے بہت تکلیف دے رہے ہیں میری جان۔ تم تو بہت ہمت والی ہو یار’ وہ اُسکے گرد بازو حمائل کرکے اُسے خود سے قریب کرنے لگا جب عرشیہ نے لمحے میں اپنا آپ چُھڑایا اور آنسو صاف کرتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔وہ اِس شخص کے سامنے بالکل کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی اسلئے اپنے کرب کو سینے میں دفن کرتی ہوئی بیڈ کی جانب بڑھ گئی۔ وہ اُسے نا سمجھی سے کچھ لمحے دیکھتا رہا پھر خود بھی اُٹھ کر اُسکے پاس آگیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!