اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

رابیل کی شادی سے فارغ ہوتے ہی وہ سب ثناء کی شادی میں شرکت کرنے میر پور کی طرف نکل گئے تھے۔ عرشیہ پہلی بار شہر سے باہر جارہی تھی وہ بہت خوش اور ایکسائٹڈتھی۔رابیل کی شادی کے دوران سب کزنز سے بھی اُسکی اچھی دوستی ہوگئی تھی ، عرشیہ سب کو بہت پسند آئی تھی۔
حُذیفہ اور رابیل بھی اِنکے ساتھ ہی روانہ ہوئے تھے ۔حرا بیگم پہلے ہی اپنی بہن اور بہنوئی کے ہمراہ دو دن پہلے جاچُکی تھیں۔ وہاں پہنچ کر شادی کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ دونوں شادی شُدہ جوڑے پہلی دفع اُنکے گھر آئے تھے، استقبال بہت شاندار کیا گیا تھا۔دِن بھرسب بازاروں کے چکّراور دوسرے اہم کاموں میں مصروف رہتے ۔ اور رات کے کھانے سے فارغ ہوکر سب محفل جما کر بیٹھ جاتے ۔پھر دیر رات تک ڈھولکی ، باتیں اورہنسی مذاق ہوتا رہتا۔ روحیل نے نوٹ کیا تھا عرشیہ بہت حاضر جواب اور خوش مزاج تھی، کچھ ہی دِن میں وہ یہاں بھی سب کے ساتھ اچھے سے گھل مل گئی تھی۔ اِسی طرح دِن گزرتے رہے ۔شادی بھی خیرو عافیت سے نمٹ گئی تھی۔ رابیل اور حذیفہ شادی سے فارغ ہوتے ہی شُمالی علاقہ جات کی سیر کیلئے روانہ ہوچکے تھے۔ حرا بیگم کو بہت مان اور چاہ سے اُن کی بہن نے کچھ اور دن کیلئے یہیں روک لیا تھا۔ روحیل اور عرشیہ کو اگلے دِن صبح کراچی کیلئے روانہ ہونا تھا لیکن موسم کے خطرناک تیور دیکھ کر وہ آج ہی وہاں سے نکل آئے تھے۔ اُنھیں میرپورخاص سے کراچی تک ٢٨٠ کلومیٹر، اور کم از کم چار گھنٹے کا سفر طے کرنا تھا۔عرشیہ موسم کی خرابی دیکھ کر سفر کرنے راضی نہیں تھی پر روحیل کی زبردستی کے آگے اُسے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ابھی وہ شہر کی حدود میں موجود تھے۔ روحیل کافی تیز ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ عرشیہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی وِنڈ سکرین سے باہرتیزی سے گزرتے روشن اور جھلملاتے سائن بورڈز دیکھ رہی تھی جب گاڑی میں روحیل کی بھاری آواز گونجی۔
‘ناراض ہو؟ ‘ وہ دانستہ خاموش رہی
‘کچھ پوچھ رہا ہوں!’ روحیل نے اپنا سوال دہرایا
‘بات مت کرو مجھ سے۔’ وہ اپنا رُخ موڑ کر کھڑکی سے باہردیکھنے لگی
‘آئی ایم سوری پر ہمارا وہاں سے ابھی نکلنا بہت ضروری تھا۔ کل تک کا انتظار ہم نہیں کرسکتے تھے۔کل موسم نے بہت خطرناک حد تک خراب ہوجانا تھا اور ہم بُری طرح پھنس جاتے یہاں۔’ اُسنے صفائی دی
‘ابھی تو جیسے ہم بہت مزے میں سفر کر رہے ہیں۔ جسٹ لُک ایٹ دا ویدر(Just look at the weather!!)’ عرشیہ نے گرجتے بادلوں کی آواز سُن کر جھرجھری لی۔ اُسے سخت غصہ آرہا تھا۔ رات کے سائے ہر سو پھیلنا شروع ہوگئے تھے۔ بادلوں کے گرجنے اور بجلی کڑکنے کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی۔ وہ اب شہر سے کچھ دور نکل آئے تھے۔ یہ جگہ شہر کے مُقابلے بالکل سُنسان تھی۔ گہرے سنّاٹے میں ڈوبی سڑک، بادلوں کی گھن گرج اور جنگلی جانوروں کی آوازیں اُسے مزید ڈرا رہی تھیں۔
‘ڈونٹ وری(Don’t worry)، میں ہوں نا پھر ڈر کس بات کا ہے؟’ وہ مسکرا کر بولا تو عرشیہ بس اُسے گھور کر رہ گئی۔ راستہ کافی خراب تھا۔ گاڑی چھوٹے چھوٹے کھڈّوں سے ہوتی ہوئی اونچی نیچی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولا۔
‘ ویسے محترمہ کو کیا ڈر لگ رہا ہے؟’ روحیل کی دبی دبی ہنسی پر عرشیہ نے خونخوار نظروں سے اُسے دیکھا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

‘نہیں نہیں! بہت مزہ آرہا ہے۔ دل کر رہا ہے گاڑی سے اُتر کر یہیں کیمپ لگا لوں۔’ وہ جل کر بولی اور روحیل کا قہقہہ گاڑی میں گونج اُٹھا
‘ہائے! کیا رات ہوگی وہ۔ ویسے آئیڈیا بُرا نہیں ہے۔’ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا تو عرشیہ کو پتنگے لگ گئے
‘چپ چاپ گاڑی چلاؤ ورنہ تمھارا سر پھاڑنے میں ایک منٹ نہیں لگاؤنگی میں!’ اُسکا تیر بالکل نشانے پر لگا تھا، عرشیہ اپنا ڈر بھول کر اُس سے لڑنے میں مصروف ہوگئی تھی۔
‘پھاڑ دیجئے جناب! آپکا اپنا سر ہے، بلکہ سر کیا سب کچھ ہی آپکا ہے۔’ وہ شرارت سے باز نہیں آیا
‘تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ اچھا ہوتا میں بھی ممی کے ساتھ وہیں رُک جاتی۔ایک تو یہ خطرناک موسم اور اُس پر تمھاری باتیں۔۔!’ وہ اُسے گھور کر خاموش ہوگئی اور گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی ۔اُس نے عرشیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔ ماحول میں محسوس ہوتی خاموشی کو توڑنے روحیل نے گُنگنانا شروع کردیا۔
‘ریشم سی ہیں یہ ہوائیں صنم،
آؤ ذرا پاس آئیں صنم،
جاگے جاگے ارماں ہیں،
جاگے جاگے ہم۔۔’
‘کیا مُصیبت ہے؟ عرشیہ کی آواز نے اُسکے گانے کو بریک لگادئیے
‘تمھیں چین نہیں ہے؟ سر میں درد ہورہا ہے میرے۔’ وہ غصّے سے بولی
‘دبا دوں؟’ روحیل نے فکرمندی سے پوچھا
‘گلا دبادو میرا’ وہ بیزاری سے بولی تو روحیل دونوں ہاتھوں کو اِسٹئیرنگ سے ہٹا کر اُسکی طرف جُھکا
‘لاؤ دبادوں’ اُسکی اچانک جُرّت پر وہ سہم کر گاڑی کے دروازے سے جا لگی
‘ہا ہا ہا ہا ‘ اُسکی سہمی ہوئی حالت سے خط اُٹھاتا روحیل کا چھت پھاڑ قہقہہ عرشیہ کے کانوں میں سُنائی دیا
‘اِتنی نازک مزاج ہیں ہماری بیگم اور باتیں اِتنی بڑی بڑی کرتی ہیں’ روحیل نے چوٹ کی اور عرشیہ کا بس نہ چلا کہ وہ سب جلا کر راکھ کردے۔ اگر وہ اِسوقت روحیل کے رحم و کرم پر نہ ہوتی تو اُسکی باتوں کا اچھے سے جواب دیتی۔
بارش زور پکڑتی جارہی تھی۔ راستہ بہت سُنسان اور خراب تھا۔ روڈ پر گاڑی کی لائیٹس کے سِوا اور کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔ عرشیہ کی تو جان نکلی ہوئی تھی۔ اُسے بارش بہت پسند تھی لیکن اندھیرے سے ہمیشہ سے بہت ڈر لگتا تھا۔روحیل یہ بات جانتا تھا اِسلئے اُسکو تسلّی دیتے ہوئے بولا۔
‘ریلیکس! میں ہوں نا تمھارے ساتھ۔ ہم خیریت سے گھر پہنچ جائیںگے۔’ اُسنے اپنا بھاری ہاتھ عرشیہ کی گود میں دھرے ہاتھ پر رکھا جِسے فوراً عرشیہ نے ہٹا دیا۔ اُسکی حرکت پر وہ بس ایک سانس کھینچ کر رہ گیا۔
باہر موسلادھار بارش شروع ہوچکی تھی اور اُسکے ساتھ ساتھ روحیل کی گاڑی کی رفتار بھی بڑھتی جارہی تھی۔ اُسے اب سچ میںپریشانی شروع ہوگئی تھی۔ سُنسان اور انجان راستے اور عرشیہ کا ساتھ۔موسم خراب سے خراب تر ہوتا جارہا تھا اور ابھی وہ کراچی سے پورے دو گھنٹے کی دوری پر تھے۔ حیدرآباد سے کچھ آگے جامشورو پہنچ کر روحیل نے گاڑی کی رفتار کچھ دھیمی کردی۔ سڑک کنسٹرکشن(construction) کے باعث بالکل ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ بڑی مہارت سے اِن اونچے نیچے راستوں پر گاڑی چلا رہا تھا۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ عرشیہ سیٹ کی بیک سے سر ٹکائے بیٹھی تھی، شاید اُسکی آنکھ لگ گئی تھی۔ روحیل نے شُکر ادا کیا کہ وہ اپنا ڈر بھول کر کچھ دیر کیلئے پُر سُکون نیند سوگئی تھی۔ اُسے محسوس ہوا کہ عرشیہ کو سردی لگ رہی تھی، وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے اپنے بازو رگڑ رہی تھی۔ روحیل نے اے۔سی کی کولنگ کم کردی اور خاموشی سے اپنی شال اُتار کر اُسکے اطراف لپیٹ دی۔ اِس کام میں مصروف ہوکر وہ دیکھ نہ سکا اور گاڑی بہت زور سے کسی چیز سے ٹکرائی۔ عرشیہ کا سر ڈیش بورڈ سے جاکر ٹکرایا تو وہ چیخ مار کر نیند سے جاگی۔
‘اوہ شِٹ!’ روحیل پریشانی سے وِنڈاِ سکرین کے پار دیکھ رہا تھا جہاں تیز بارش کی وجہ سے کچھ بھی ٹھیک سے دِکھائی نہ دے رہا تھا۔ سڑک پر پڑے بڑے بڑے پتھر تھے جن سے ٹکرا کر گاڑی ایک جھٹکا کھا کر بند ہوگئی تھی۔
‘کیا ہوا؟’ عرشیہ کے سوال پر وہ مُڑا اور اُسے دیکھتے ہی اُسکی جان نکل گئی ۔ اُسکے ماتھے پر ننھے ننھے خون کے خطرے نمودار ہورہے تھے اور چھونے سے اُسکے ہاتھ پر بھی خون لگ گیا تھا۔
‘گاڈ! تمھارے ماتھے سے تو خون بہہ رہا ہے۔’ وہ فکرمندی سے اِدھے اُدھر دیکھنے لگا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو
‘ہاں ایک دم گاڑی کو جھٹکا لگا تو ڈیش بورڈ سے سر ٹکرا گیا’ عرشیہ نے نارمل انداز میں بتایا۔ زخم اتنا زیادہ نہیں تھا بس خون کے کچھ قطرے نکلے تھے پر روحیل کے تو جیسے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے تھے۔ وہ تیزی سے اُسکے قریب ہوا۔ گاڑی اور موسم کا مسئلہ چھوڑ کر اُسے اِسوقت صرف عرشیہ کی فکر تھی۔ وہ اُسکے لئے پریشان تھا۔
‘اِدھر دکھاؤ مجھے’ روحیل نے اُسکا چہرہ اپنی طرف کیا
‘زیادہ نہیں لگا ہے روحیل۔ آئے ایم اوکے (I am ok)’ عرشیہ کو اُسکی پریشانی دیکھ کر کہنا پڑا جبکہ حقیقت میں اُسے اب زخم کی جگہ پر چُبھن محسوس ہورہی تھی۔
‘ نو! یو آر ناٹ (No, you are not!) کیا کروں میں۔ گاڑی میں تو کوئی ایڈ باکس بھی نہیں ہے۔ کسی ہاسپٹل کا بھی نہیں پتا یہاں تو’ وہ اپنے آپ میں نجانے کیا کیا بول رہا تھا۔ وہ واقعی بہت فکرمند لگ رہا تھا۔ عرشیہ کو حیرانی ہوئی کہ وہ اُسکی اتنی معمولی سی چوٹ پر اتنا پریشان ہوگیا تھا اِسلئے وہ مسکرا کر بولی۔
‘ابھی تو گلا دبانے ک موڈ میں تھے اور اب اِس چھوٹی سی چوٹ پر اِتنے پریشان کیوں ہوگئے ہو؟’ روحیل نے اُسے گھورا
‘جس سے آپ محبت کرتے ہیں نا، اُسکو کسی چھوٹی سی مُشکل میں دیکھنا بھی سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ درد ہورہا ہے؟’ وہ سنجیدگی سے اُسکے ماتھے پر لگے زخم کے اطراف کی جگہ کو ہلکے ہلکے سے اپنی اُنگلیوں سے دبا رہا تھا تاکہ درد کا اندازہ ہوسکے۔
‘ میں بالکل ٹھیک ہوں۔’ عرشیہ نے اُسکا ہاتھ دھیرے سے ہٹا دیا۔ اُسے روحیل کا اپنے اِتنے پاس ہونا گھبراہٹ میں مُبتلا کر رہا تھا۔ اِتنے میں روحیل نے اپنی شال اُٹھائی اور اُسکا کونا پھاڑ کر عرشیہ کے ماتھے پر باندھنے لگا۔
‘یہ کیا کر رہے ہو؟’ وہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔ اُسے یاد تھا یہ روحیل کی پسندیدہ ترین شال تھی جسے اُسنے ایک لمحے میں پھاڑ دیا تھا
‘ہِلو مت!’ روحیل نے اُسکا چہرہ سیدھا کرکے اپنی طرف کیا اور کچھ برہمی سے بولا
‘یہ کپڑا باندھ دینے سے خون جلدی رُک جائیگا۔’ اُسنے ٹائیٹ سے کپڑا اُسکے سر پر باندھ دیا اور اِس سے پہلے کے وہ دونوں کوئی اور بات کرتے، شیشے کے پار سے آتی تیز ٹورچ کی روشنی کے ساتھ ہی کسی نے زور سے روحیل کی سائیڈ کا دروازہ بجایا ۔ عرشیہ نے ڈر کے مارے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخ کو ہاتھ رکھ کر روکا۔۔ اِتنی سُنسان سڑک اور انجان راستہ۔۔بادلوں کی گرج اور حد درجہ طوفانی بارش میں اِسوقت کون ہوسکتا تھا۔ روحیل جیسے ہی سیدھا ہوکر دروازہ کھولنے لگا عرشیہ نے اُسے ٹوک دیا۔
‘روحیل پلیز! ڈونٹ اوپن دا ڈور(Don’t open the door)’ وہ اُسکی بات کو اِگنور کرتا دوبارہ دروازہ کھولنے مُڑا ہی تھا کہ عرشیہ نے تیزی سے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
‘پلیز مت کھولو دروازہ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے’ عرشیہ کے چہرے پر ایک انجان سا ڈر منڈلا رہا تھا۔ اُن سُنہری آنکھوں میں خوف ہچکولے لے رہا تھا۔ روحیل اُسکے ذہنی حالت کو سمجھتے ہوئے بولا۔
‘میں ہوں نا! کچھ نہیں ہوگا۔ دیکھنے تو دو باہر ہے کون۔ ہم کب تک گاڑی میں اسطرح بیٹھے رہیںگے۔ تمھیں چوٹ بھی لگی ہوئی ہے۔ تم ڈور اندر سے لاک کرلو میں دیکھتا ہوں۔’ وہ اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا ہوا بولا
‘مم۔۔ میں اکیلی نہیں بیٹھوںگی یہاں ہرگز بھی۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔’ اُسے غصہ آنے لگا روحیل اُسکی بات سمجھ ہی نہیں رہا تھا
‘ارے پگلی! میں یہیں ہوں بالکل گاڑی کے پاس بس نیچے اُتر رہا ہوں۔’
‘نہیں۔۔ میں بھی اُترونگی ساتھ ہی، مجھے نہیں بیٹھنا گاڑی میں اکیلے!’ وہ منہ بناتے ہوئے بولی
‘چپ کرکے یہیں بیٹھی رہو۔ خبردار جو گاڑی سے ایک قدم بھی باہر نکالا تو۔ آلریڈی چوٹ لگی ہوئی ہے اب اور کتنا زخمی ہونا ہے؟’ وہ اُسے گھورتا ہوا بولا
‘پر روحیل۔۔۔’
‘شش۔شش۔۔’ روحیل نے اُسکی بات کاٹ دی
‘اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمھیں اپنے ہاتھوں میں اُٹھالوں ، تو شوق سے اُتر جاؤ گاڑی سے۔۔ چلو آؤ۔۔’ وہ اُسے اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا تو وہ اُسے دھکّا دیتی ایک دم سے پیچھے ہٹ گئی ۔ روحیل کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
‘ڈور لاک کرلو۔ میں یہیں ہوں’ وہ اپنی مسکراہٹ دباتا گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اُتر آیا اور اُسکے نیچے اُترتے ہی عرشیہ نے تیزی سے ڈور لاک کردیا۔ اُسے جتنے دُعائیں یاد تھیں وہ آج ساری پڑھ چُکی تھی۔ ڈر کے مارے اُسکے ہاتھ سخت ٹھنڈے ہورہے تھے اور روحیل کو ایسے موقع پر بھی اُسے تنگ کرنے کی سوجھ رہی تھی۔ روحیل کو گئی کافی دیر ہوگئی تھی۔اُسکا ڈر کے مارے بُرا حال تھا۔ وہ دعائیں پڑھنے میں مصروف تھی جب روحیل نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
‘عرشیہ یہاں پاس میں ہی ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے ہمیں وہاں کچھ دیر رُکنا پڑیگا۔ گاڑی کا پتھروں سے ٹکرانے کے باعث سارا پٹرول بہہ گیا ہے اور آگے کے دونوں ٹائرز بھی برسٹ ہوگئے ہیں۔ یہاں کے کچھ مقامی لوگ مل گئے وقت پروہ مکینک کا اِنتظام کر رہے ہیں جب تک ہمیں انتظار کرنا پڑیگا۔ اِنکا کہنا ہے کہ بارش کا زور بھی کچھ دیر میں ٹوٹ جائیگا پھر ہم آرام سے گھر جا سکیںگے۔’ روحیل کو دیکھ کر اُسکی جان میں جان آئی تھی۔
‘ٹھیک ہے۔’ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔ اُسے ویسے ہی اِس جگہ سے بہت ڈر لگ رہا تھا
‘آجاؤ پھر۔’ روحیل اپنی طرف کا دروازہ لاک کرتا اُسکی طرف آگیا اور دروازہ کھول کر اُسے نیچے اُترنے میں مدد دینے لگا۔
‘آرام سے دیکھ کر اُترو یہاں پتھر ہیں۔’
سڑک پوری گیلی ہورہی تھی اور جگہ جگہ پانی پڑا تھا۔ گاڑی سے تھوڑی دور کھڑا ایک ادھیڑ عمر شخص ٹورچ کی تیز روشنی میں اِن دونوں کو چلنے میں مدد دے رہا تھا۔ روحیل ایک ہاتھ سے چھتری اور دوسرے ہاتھ سے عرشیہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔ وہ اُسے اب زرا سی بھی چوٹ آنے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا اسلئے عرشیہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ اُسے پکڑے ہوئے تھا۔ آج وہ بُرا پھنسی تھی۔ روحیل کی باتیں ماننے کے سوا اُسکے پاس اور کوئی چارا نہ تھا۔ ابھی نجانے کتنی اور دیر گھر سے دور رہنا تھا۔ وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی۔وہ دونوں پیدل چلتے چلتے ہوٹل تک پہنچ چُکے تھے۔ ایک نو عمربچّے نے جلدی سے اُنکو اندر کا راستہ دکھایا اور دو کُرسیاں لاکر اُن دونوں کو وہاں بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔ کچھ دیر کے بعد وہی ادھیڑ عمر شخص فرسٹ ایڈ باکس لئے وہاں آیا اور روحیل کو دیتے ہوئے اُس بچے کو اِشارہ کیا۔
‘یہ لو روحیل صاحب! اور جا عظیم جلدی سے اِن دونوں کیلئے چائے شائے اور کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر۔ پتا نہیں کب سے سفر میں ہیں۔’
‘ارے نہیں! اِس تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم بس گاڑی ٹھیک ہو تو گھر جائیںگے۔’ روحیل اُنکو تکلفات میں پڑتا دیکھ کر جلدی سے کھڑا ہوگیا۔
‘تکلف کیسا صاحب۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ اچانک ہی سہی لیکن ہمارے غریب خانے پر پہلی دفع آئے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ آپکی خدمت کریں۔ آپ پلیز منع مت کریں۔’ اُنکے خلوص کے سامنے روحیل کو ہار ماننے پڑی اور وہ راضی ہوگیا۔ ویسے بھی یہاں اِنتظار تو کرنا ہے تھا اور وہ کافی دیر پہلے کے نکلے ہوئے تھے بھوک تواب واقعی لگ رہی تھی۔ اُسکے ہامی بھرتے ہی بچہ تیزی سے اندر بھاگا اور وہ ادھیڑ عمر شخص خود بھی اُسکے پیچھے پیچھے چل دیا۔ روحیل فرسٹ ایڈ باکس سے پایوڈین، کاٹن اور سنی پلاسٹ(pyodine, cotton or saniplast) نکال کر کُرسی گھسیٹتا اُسکے قریب آگیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!