اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

عرشیہ سکتے کی کیفیت میں اُسے دیکھے جارہی تھی۔لیکن وہ دُنیا سے بیگانہ ہوا پلکیں جُھکائے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبُسم سجائے بھاری آواز میں گُنگنا رہا تھا۔ کیسا سحر تھا اُسکی آواز میں۔ سارا ماحول اُس سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔اُسکی آواز اچھی تو ہمیشہ سے تھی لیکن وہ اِتنا خوبصورت گا بھی سکتا ہے اِسکا عرشیہ کو بالکل اندازہ نہیںتھا۔اُسکے گانے کے بولوں میں ہزاروں شوریدہ جذبے پھوٹ رہے تھے۔ عرشیہ کتنی ہی دیر اُسکی آواز کے سحر میں کھوئی رہی۔ اِسوقت اُسے شارق کی شدت سے یاد آئی تھی۔اُسکی آواز میں ایسا سحر نہ تھا لیکن عرشیہ کیلئے تو کُل کائنات وہی آواز تھی جسے سُننے کیلئے اب اُسکے کان ترس گئے تھے۔ اُسکی آنکھوں کے گوشوں میں اچانک نمی اُترنے لگی جِسے چُھپانے کی خاطر وہ فوری کام کا بہانہ کرکے وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔کسی نے غور نہ کیا لیکن روحیل سے اُسکی آنکھوں کی نمی چُھپی نہ رہ سکی تھی۔ ایک عجیب سی چُبھن اُسے اپنے اندر اُترتی محسوس ہوئی۔ روحیل نے ہر ممکن کوشش کی تھی اُسکی آنکھوں میں آئی اچانک نمی کی وجہ پوچھنے کی لیکن وہ ایک بار پھر پہلے کی طرح اُکھڑ اور برہم ہوگئی تھی۔ روحیل وجہ جانتا تھا لیکن وہ اُسکے منہ سے سُننا چاہتا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ عرشیہ اُس سے اپنے تمام دُکھ درد بانٹ لے۔لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ عرشیہ کو اِسوقت سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ خوشی تو دور وہ تو اپنے دُکھوں میں بھی اُسکو شامل کرنے راضی نہیں تھی۔ اُس نے بارہا پوچھ کرآخر کار عرشیہ کو اُسکے حال پر چھوڑدیا اور یہ سوچ کر مُطمئن ہوگیا۔
‘رابیل اور ثنا کی شادی سے فارغ ہوجاؤں پھر آپ سے اچھی طرح نمٹوںگا عرشیہ صاحبہ! اب بس، بہت ہوئی میری آزمائش۔’
رابیل کی شادی کے فوراً بعد روحیل کی بڑی خالہ زاد بہن ثناء کی شادی کی تاریخ ٹھہری تھی۔حرا کی بڑی بہن ویسے تو پاکستان سے باہر لندن میں ہوتی تھیں لیکن رابیل اور ثناء کی شادی کے سلسلے میں وہ پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ثناء کی شادی میرپورخاص میں ہونا طے پائی تھی۔ روحیل کے خالو اصفر میر کے خاندان کا شُمار سندھ کے مشہور لینڈلارڈز میں ہوتا تھا، اُنکی شاندار کوٹھی اُنکے آبائی شہر میرپورخاص میں تھی اور وہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے آبائی شہر سے ہی کرنا چاہتے تھے۔ رابیل کی شادی سے فارغ ہوتے ہی اِن سب کا وہاں جانے کا پروگرام طے پاگیا تھا۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بارات کیلئے عرشیہ نے بلیک شِفون پر سِلور بھاری کام کی ساڑھی سلیکٹ کی تھی۔ ساڑھی باندھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ اُس نے شادی کے بعد پہلی بار ساڑھی پہنی تھی۔آج وہ خود بھی اپنے آپ کو دیکھ کر کچھ لمحوں کیلئے کنگ رہ گئی تھی۔ کتنا روپ چڑھا تھا آج اُس پر۔ ساڑھی میں اُسکا قد اور فِگر بہت پُر کشش اور مُکمل لگ رہا تھا۔ رابیل تو اُس پر فِدا ہوئے جا رہی تھی۔
‘کہتے ہیں کہ کسی کے شدید پیار کا رنگ آپکو پہلے سے بھی زیادہ حسین اور پُرکشش بنا دیتا ہے۔ بھابھی لگتا ہے بھائی کے پیار کا رنگ پوری طرح سے آپ پر چڑھ چُکا ہے تبھی آپ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتی جارہی ہیں۔’ رابیل نے آنکھ ماری اور عرشیہ یہ سب سچ نہ ہونے کے باوجود بھی بُری طرح جھینپ گئی تھی۔
آئینے میں اپنا سراپا دیکھ کراُسنے جلدی سے اِسٹول کو سر پر جما کر رکھا ہی تھا کہ روحیل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
‘عرشیہ! تمھیں ممُی بُلا رہی ہیں۔’ روحیل کچھ لمحے اُسے یونہی دیکھتا رہا۔ وہ ہمیشہ سے زیادہ آج خوبصورت لگ رہی تھی۔
چہرے پر نفاست سے میک اپ کئے ۔ ۔
کھڑی ناک میں چمکتی ہیرے کی لونگ اُسکے صبیح چہرے کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی۔۔
ہاتھوں میں سِلور نگوں کے چم چم کرتے کنگن پہنے وہ روحیل کے دل کی دھڑکن بڑھا گئی۔۔
وہ اُسے دیکھتا رہا پھر کچھ یاد آنے پرعرشیہ سے نظریں ہٹا کر دوسری جانب دیکھنے لگا۔
‘بس ابھی آئی۔ یہ اِسٹول پِن اپ کرلوں۔’ وہ سر کو ہلکا سا خم دے کر واپس مُڑنے لگا جب عرشیہ نے اُسے آواز دی
‘روحیل! پلیز دو منٹ رکو نا۔ میں بھی تمھارے ساتھ ہی چلونگی۔’ روحیل اُسکی طرف گھوما جب تک وہ بھی اِسٹول پن اپ کرکے اُسکی طرف آچُکی تھی۔
‘چلیں؟’ روحیل نے اُسکو قریب آتا دیکھ کر سوال کیا۔ وہ کچھ اُلجھی ہوئی لگ رہی تھی جیسے کچھ پوچھنا چاہتی ہو
‘کیا ہوا؟ کچھ کہنا چاہتی ہو؟’
‘وہ۔۔ میں۔۔ یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ۔۔’ وہ خاموش ہوگئی
‘ہاں بولو نا؟ میں سُن رہا ہوں۔ جو پوچھنا چاہتی ہو پوچھو۔’ وہ اُسکی اُلجھن دور کرنے وہیں دروازے سے ٹیک لگا کر سینے پر بازو لپیٹے کھڑا ہوگیا۔وہ ہنوز خاموش رہی تو روحیل نے فکرمندی سے پوچھا۔
‘کیا بات ہے عرشیہ؟ سب خیریت ہے؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟’
‘ہاں سب ٹھیک ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ میرے اِسطرح سر کور(cover ) کرنے سے ممی یا آپکی فیملی میں کسی کو بھی کوئی اعتراض تو نہیں ہوگانا؟ اصل میں یہاں آنے کے بعدمیں پہلی بار کوئی اِتنی پڑی پارٹی اٹیند کر رہی ہوں اسلئے تھوڑی سی پزلڈ (puzzled)ہوں۔’ روحیل نے نظر اُٹھا کر بغور اُسکا چہرہ دیکھا جہاں اعتماد کے ساتھ حیا بھی تھی۔پھر مسکرا کر بولا۔
‘تم میری بیوی ہو، روحیل سکندر کی! اور آج تک میری کسی بھی چیز پر کسی کو اعتراض کرنے یا اُنگلی اُٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی ہے۔تم جیسی ہو، ہم سب کو ایسے ہی پسند ہو۔ کسی کیلئے اپنے اِس روپ کو کبھی مت بدلنا۔’ روحیل نے اُسی کا جملہ دہرایا جو کچھ عرصہ پہلے عرشیہ نے گاڑی میں اُس سے کہا تھا۔ وہ اُسکی اِس عادت سے خوش تھا۔ عرشیہ کو ڈھیروں اطمینان ہوا۔ اُسنے روحیل کو بغور دیکھا۔ کتنا خوبرو لگ رہا تھا وہ۔آف وائٹ کلر کی شیروانی اور کُھسّے پہنے اُسکا سراپا قابلِ ستائش لگ رہا تھا۔عرشیہ نے اُسے ہر وقت ہی فارمل ڈریسنگ یا جینز ٹی شرٹ میں دیکھا تھا لیکن آج یہ مشرقی لباس پہنے وہ نہایت ہی وجیہہ لگ رہا تھا۔اُسکے بال بھی بہت گھنے اور چمکدار تھے جو سائیڈ کی مانگ کے ساتھ پف کی صورت میں اُسکی پیشانی پر پڑے ہوئے تھے۔ عرشیہ آج پہلی بار اُسے اتنے غور سے دیکھ رہی تھی۔ ایک عجیب سا سحر تھا اُسکی شخصیت میں، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔یہ دوسری بار تھا جب عرشیہ اُسکے سحر میں چند لمحوں کیلئے گرفتار ہوئی تھی۔ پھر عرشیہ نے جلد ہی خود پر قابو پالیا اور دل سے اُسکی تعریف کی۔
‘روحیل! یو آر لوکنگ سو ہینڈسم ٹوڈے(Rohail! You are looking so handsome today)’
‘تھینکس۔ اب چلیں؟’ خلوص کے ساتھ مسکراتے ہوئے روحیل نے واپسی کیلئے قدم بڑھا ئے اور عرشیہ کو مکمل طور پر نظر اندار کردیا جس پر دل ہی دل میںوہ خائف ہوئی (کیاجاتا اگر میری بھی تعریف کردیتا تو۔ شاید مجھے تعریف سُننے کی عادت ہوگئی ہے۔۔ توبہ یہ میں کیا سوچے جارہی ہوں) وہ اپنی ہی سوچ پر قدرے حیران ہوکر مسکرا دی اور اُسکے ساتھ باہر کی طرف چل پڑی۔
************************
رابیل کو اِسٹیج پر حُذیفہ کے برابر بِٹھا دیا گیا تھا۔ اُسکا سُرخ راجستانی غرارہ اُسکے سُسرال سے آیا تھا۔وہ آج اِس عروسی لباس میں بہت ہی حسین اور کوئی نازُک سی گُڑیا لگ رہی تھی۔شہر کے مشہور پارلر سے تیار ہوکر وہ کوئی اپسرہ دِکھائی دے رہی تھی۔حُذیفہ بھی اُسی کے جوڑ کا تھا۔ گو کہ وہ تھوڑی سانولی رنگت کا تھا لیکن چہرے پر تیکھے نقوش کے ساتھ بلا کی معصومیت تھی۔وہ کالی شیروانی میں رابیل کے برابر بیٹھا بہت اچھا اور گریس فُل لگ رہا تھا۔حُذیفہ ایک ڈاکٹر فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔اِنکے والدبھی ڈاکٹر تھے اور سالوں سے اپنا کا میاب اسپتال چلا رہے تھے۔ اِنکااسپتال شہر کے پُر آسائش علاقے میں تھا جسے اب حُذیفہ نے سنبھالنا شُروع کیا تھا۔ وہ رابیل سے تین سال سینئیر (senior) تھااور اُسی کے میڈیکل کالج سے پڑھا تھا۔اُسے پہلی نظر میں ہی یہ موہنی سی لڑکی بہت پسند آئی تھی اور اُسنے فوراً ہی رشتہ بھیج کراپنے نام کی انگوٹھی رابیل کے ہاتھ میں پہنا دی تھی۔ اب تین سال بعد اِن دونوں کی شادی طے پائی تھی۔عرشیہ نے صرف اُسکا غائبانہ ذکر سُن رکھا تھا۔اِنکے گھر کی گئی دعوت میںبھی حذیفہ موجود نہ تھا، وہ اُن دنوں کسی کورس کے سلسلے میں مُلک سے باہر تھا۔حذیفہ اِسٹیج پر روحیل کے ساتھ آتی اُس لڑکی کو دیکھ کر فوری پہچان گیا تھا۔ وہ اُسکے ساتھ خراماں خراماں چلی آرہی تھی۔ اُسکی چال میں بھی خود اعتمادی تھی اور چہرے پر ہلکی سی مُسکان سجائے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔وہ اور روحیل سب سے ملتے مِلاتے اِسٹیج پر آگئے تھے۔ اِس سے پہلے کہ روحیل اُسکا تعارف کرواتا، حذیفہ مؤدبانہ انداز میں خود اپنی جگہ سے اُٹھ کراُن سے ملنے آگیا اور چہکتی آواز میں بولا۔
‘اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ عرشیہ بھابھی ہیں، رائٹ؟’ اُسکے لہجے اور آنکھوں میں عرشیہ کیلئے بے پناہ عقیدت اور عزّت دکھائی دے رہی تھی۔دونوں نے چونک کر اُسکو دیکھا ۔ عرشیہ نے اثبات میں سر ہلایا اورخوشگوار موڈ میں بولی۔
‘جی بالکل سہی پہچانا آپ نے، میں ہی عرشیہ ہوں۔’ حذیفہ نے احترام سے اُسے سلام کیا اور شوخ لہجے میں بولا
‘واہ جانی بھائی! مان گئے آپکی پسند کو۔’ حذیفہ نے کہنے کے ساتھ ہی آنکھوں کے اِشارے سے اُسکی پسند کو سراہا جس پر روحیل زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور عرشیہ بُری طرح جھینپ گئی ۔وہ اپنے گالوں کی سُرخی چھپانے جلدی سے اُن دونوں کی سائیڈ سے نکل کر رابیل کی طرف بڑھ گئی اور وہ دونوں ایک بار پھر ہنستے ہوئے اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے ۔
باقی کے اِنتظامات دیکھنے عرشیہ لان کے پچھلے حصّے میں چلی آئی ۔ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کس سمت جائے کہ پلوشہ اچانک بوتل کے جن کی طرح اُسکے سامنے آگئی۔وہ گہرے میک اپ اوربھاری جیولری پہنے ہوئے تھی۔گہرے گلے کا نہایت ہی تنگ اور چُست لباس زیب تن کئے ہوئے تھی۔ٹخنوں سے اوپر جاتے کپریز اور دوپٹے کے نام پر کچھ بھی نہ تھا۔۔اِتنا چُست لباس اور اُس پر اُسکی یہ شانِ بے نیازی۔۔ عرشیہ کو اُسکی بولڈنیس دیکھ کر کچھ عجیب لگا پر یہاں پر شریک بہت سے لوگ ایسے ہی چُست اور تنگ لباسوں میں ملبوس تھے۔پلوشہ نے بھی آج بلیک کلر پہنا ہوا تھا لیکن عرشیہ جیسا سحر اُسکی شخصیت میں پھر بھی نہ آپایا تھا۔ وہ اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
‘ہائے بھابھی! کیسی ہیں آپ؟’ لہجہ بظاہر ہشاش بشاش تھا
‘میں ٹھیک ہوں پلوشہ۔ تم کیسی ہو؟’ وہ مسکرا کر بولی
‘کیسی لگ رہی ہوں؟’ پلوشہ نے تُنک کر گردن اونچی کرکے پوچھا
‘ہمیشہ کی طرح بہت پیاری۔’ وہ اُسکا گال تھپتھپا کر بولی
‘ہونہہ! بھابھی کتنی بھی پیاری لگ جاؤں آ پ سے زیادہ پیاری تو نہیں لگ سکتی نا!’ اُسکے لہجے میں ایک عجیب سی حسرت تھی۔ عرشیہ نے چونک کر اُسے دیکھا (تمھارا اور میرا بھلا کیا مُقابلہ؟) پھر وہ بولی۔
‘تم بہت پیاری ہو پلوشہ سچ میں۔’ اِسمیں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بھی بِلاشبہ بہت پیاری تھی
‘اگر میں اِتنی ہی پیاری ہوتی نا، تو آج آپکی جگہ میں کھڑی ہوتی!’ پلوشہ نے افسردگی سے کہا اور عرشیہ عجیب کشمکش میں گِھر گئی تھی۔ کیسی حسرت و یاس تھی اُسکے لہجے میں۔ وہ نا سمجھی سے اُسے دیکھتے ہوئے بولی۔
‘کیا مطلب ہے تمھارا؟’
‘مطلب تو آپ بھی خوب سمجھتی ہیں انجان بنیں وہ اور بات ہے۔ خیر چھوڑیں! اور آپ نے یہ سر پر کیا پہن رکھا ہے؟’ پلوشہ نے ناگواری سے پوچھا۔
‘اِسے اِسٹول کہتے ہیں۔ میں بال کور کرتی ہو ں نا اِسلئے۔ کیوں اچھا نہیں لگ رہا؟’ پلوشہ کی بہ نسبت عرشیہ اُس سے کافی اپنائیت سے بات کر رہی تھی۔پلوشہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
‘اوہ کم آن بھابھی! اب تو یہ ڈرامہ بند کریں۔میرا مطلب ہے کہ جو آپ کو چاہئیے تھا وہ تو آپکو مل گیا پھر اب یہ پاکبازی اور حیاداری کا جھوٹا چرچہ اور مذہبی بننے کے ڈھونگ کیوں کرتی رہتی ہیں آپ؟ چلیں اُتاریں اِسے!’
‘مائنڈ یور لینگویج پلوشہ(Mind your language Palwasha)! یہ مت بھولو کہ تم اِسوقت کس سے بات کر رہی ہو اور میں کسی کی بھی غلط بات ہرگز برداشت نہیں کرتی!’ اُسے ایسی گھٹیا باتوں پر بہت غصہ آیا تھا اسلئے وہ برہمی سے بولی۔ یہ گوشہ مہمانوں سے خالی تھا۔ یہاں کھانے کا اِنتظام ہونا تھا اِسلئے کوئی اُسکی آواز سُن نہیں سکتا تھا سوائے روحیل کے، جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی یہاں سے گزرتے ہوئے اُن دونوں کو بات کرتا دیکھ کر وہیں رُک گیا تھا۔اور اب عرشیہ کی برہم آواز سے اُس نے بخوبی اندازہ لگالیا تھا کہ پلوشہ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی ہے اور کوئی سخت بات کہہ گئی ہے ورنہ بلاوجہ عرشیہ کسی سے اُلجھتی نہیں تھی۔ وہ تو بہت نرم مزاج کی تھی۔ وہ تیزی سے اُن دونوں کی جانب بڑھا۔
‘کیا ہورہا ہے یہاں؟’ اِسوقت عرشیہ کو شدت سے روحیل کے ساتھ کی ضرورت تھی اور وہ موقع پر پہنچ کر اُسکو پُر سکون کر گیا ۔ جبکہ پلوشہ اُسکی اچانک آمد پر کچھ گڑپڑا سی گئی ۔عرشیہ خاموش تھی وہ مزید بات بڑھا نا نہیں چاہتی تھی۔
‘میں تو بھابھی سے کہہ رہی تھی کہ یہ اِسٹول سر سے اُتار کر بال کھولیں تو محفل کی جان لگیں گی، شی ہیز سچ پریٹی ہئیر(She has such pretty hair) ‘ کتنی آسانی سے وہ اصل بات گول کر گئی تھی۔ عرشیہ اُسکی شاطرانہ مسکراہٹ پر حیران رہ گئی ۔
‘یہ میری جان ہے اور مجھے ہر روپ میں ہی بھاتی ہے۔ خصوصاً اِس طرح تو سب سے زیادہ۔ کم سے کم اِسکا روپ صرف اُسی حد تک محدود ہے جو اُس پر حق رکھتاہے۔ ہر کسی کو نُمائش نہیں کرواتی۔ عرشیہ تم جاؤ۔ رابیل تمھارا پوچھ رہی تھی۔ یہاں کے انتظامات میں سنبھال لونگا۔’
وہ اثبات میں سر ہلاتی چپ چاپ وہاں سے ہٹ گئی اور اُسکے جاتے ہی وہ پلوشہ پر دھاڑا۔
‘میں نے منع کیا تھا نا تمھیں عرشیہ سے اِس انداز میں بات کرنے سے۔ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھا کرو۔’
‘ہونہہ! مجھے بھاؤ مت دکھاؤ۔ کیا جھوٹ بولا ہے میں نے؟ ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو اِس حیا اور پاکیزگی کا جھوٹا سہارا لیکر تم جیسے کمزور اور بے وقوف مردوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اور فکر مت کرو، اِسکے کِردار کی اصلیت بھی بہت جلد تم پر آشکار۔۔۔۔۔’ آگے کا جملہ اُسکے منہ میں ہی رہ گیا تھا۔ روحیل کا بھاری ہاتھ اُسکے گال پر پڑا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے روحیل کو دیکھتی رہ گئی۔
‘بکواس بند کرو اپنی! آج کے بعد عرشیہ کے کردار پر اگر غلطی سے بھی ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو تمھاری یہ قینچی کی طرح چلتی زبان کو کاٹ کر ہاتھ میں دے دوںگا۔ سمجھیں تم؟’ روحیل بہت طیش کے عالم میں بول رہا تھا اور اپنے آپکو کسی بھی انتہائی قدم سے باز رکھ رہا تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ ایسی گھٹیا باتوں پر اُسے یہاں سے اُٹھا کر باہر پھینک دے۔پلوشہ ساکت کھڑی بے یقینی سے اُسے دیکھتی رہی جس نے آج ایک غیر لڑکی کیلئے اُسپر ہاتھ اُٹھایا تھا۔ جب وہ بولنے کے قابل ہوئی تو طنز سے بولی۔
‘تم نے۔۔۔ تم نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا وہ بھی ایک غیر لڑکی کیلئے؟ ایسا کیا ہے عرشیہ میں جو اُسکی اِتنی سائیڈ لے رہے ہو؟ ابھی جانتے ہی کیا ہو اُسکے بارے میں، چند ماہ ہی تو ہوئے ہیں شادی کو۔ ایسا کیا ہے اُسمیں جو مجھ میں نہیں ہے؟ بولو!’
‘وہ کوئی غیر نہیں میری بیوی ہے۔ اور تم اُسکے پاؤں کی دھول بھی نہیں ہوسکتیں۔ وہ جتنی باکردار اور باحیا ہے اُسے جاننے کیلئے چند ماہ نہیں بلکہ کچھ لمحے ہی کافی ہیں۔ تم میںاور اُسمیں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر اُسکے جیسی بننا چاہتی ہو نا تو رہنے کا ڈھنگ سیکھو۔ ایک مسلمان لڑکی کو کیسے رہنا چاہئیے یہ سیکھو اُس سے۔ اور اگر کچھ بھی نہ سیکھ سکو تو کم از کم کپڑے پہننے کی تمیز اور دوپٹہ اوڑھنے کا سلیقہ ہی سیکھ لو۔میری زندگی میں اگر عرشیہ نہ بھی ہوتی تب بھی تم میرا اِنتخاب کبھی نہ ہوتیں۔ ایسی بے حیائی کا لِبادہ اوڑھ کر تم میرے سامنے مت آیا کرو۔’ وہ اُسکے وجود پر اُنگلی اُٹھا رہا تھا اور اسوقت اُسکا حُلیا ایسا ہی تھا کہ وہ روحیل کو زہر لگ رہی تھی۔ وہ یہ کہہ کر رُکا نہیں تھا ، لمبے لمبے قدم اُٹھاتا لان کی اگلی سائیڈ چلاگیا۔ دیوار کی اوٹ میں کھڑی عرشیہ سب سُن چکی تھی اور اِسوقت روحیل سے حد درجہ اپنائیت کا احساس ہوا ۔اُسے یہ سب سُن کر اپنے سابقہ روےّے پر کچھ شرمندگی ہونے لگی کہ وہ اب تک اُسے صرف ذلیل کرتی آئی تھی اور وہ آج اُسے بھرپور تحفظ فراہم کر رہا تھا۔ عرشیہ بے وجہ ہی مسکرا تی آگے بڑھ گئی لیکن پیچھے آتی پلوشہ کو نہ دیکھ پائی جسکا پورا وجود انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔ روحیل کے کاٹ دار جُملے اور اُسپر عرشیہ کا سب کچھ سُن لینا۔۔ اُف۔۔ اتنی تذلیل وہ بھی پلوشہ فیروز کی۔۔اُسکی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ایک شاطرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اُسنے عرشیہ کے پُشت کو گھورا ۔
‘اِس تھپڑ کی قیمت تم چُکاؤگی عرشیہ۔ اب میں تمھیں بتاؤنگی روحیل کہ یہ لڑکی کتنی با کردار ہے۔’ عرشیہ کیلئے اُسکے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی۔ وہ اِنتقام کی آگ میں جل رہی تھی جب علی نے اُسکا شانہ ہِلایا۔
‘ہیلو سسٹر! کس کو گھور رہی ہو؟’ پلوشہ نے اپنے بھائی کو دیکھا
‘اوہ اچھا! عرشیہ بھابھی کو۔ ویسے یار روحیل بڑا ہی لکی ہے ایسی لڑکی ملی ہے اُسے۔ میرے لئے بھی ڈھونڈدونا ایسی کوئی شعلہ جوالہ۔قسم سے چلتی پھرتی قیامت ہے۔’ عجیب گُستاخانہ اور چھچھورا طرزِگفتگو تھا جس پر پلوشہ کی شاطرانہ مسکراہٹ کچھ اور بھی گہری ہوگئی تھی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!