اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

‘سچ! بھابھی نے تو کچھ ہی دن میں اتنی مہارت سے اِس پورے گھر کو سنبھال لیا ہے کہ ممّی کی تو ساری پریشانیاں ہی دور کردی ہیں۔ورنہ وہ کتنی پریشان ہورہی تھیں کہ صرف بیس دِن میں شادی کے سب کام کیسے ہونگے، لیکن اب دیکھیں!نجانے کیا جادو ہے اِنکے پاس، جس کام میں ہاتھ ڈالتی ہیں وہ منٹوں میں پورا ہوجاتا ہے۔ کتنا خیال رکھتی ہیں نا ہم سب کا!’
‘ہاں! سوائے میرے!’ وہ آہستگی سے بڑبڑایا جسے رابیل ٹھیک سے سُن نہ پائی
‘جی بھائی؟ کچھ کہا آپ نے؟’ روحیل نے ہنس کر اُسکے سر پر ایک پیار بھری چپت لگائی اورشوخ لہجے میں بولا
‘میں یہ کہہ رہا ہوں بھابھی کی چمچی کہ میرا سر بھاری ہو رہا ہے۔ میں بھی بہت کام کرکے آیا ہوں اور اچھی سی چائے کی شدید طلب ہورہی ہے۔ مِل جائیگی؟’ اُسنے با آوازِ بُلند عرشیہ کو سُنانے کہا جو وہیں کچھ فاصلے پر کھڑی مُلازمہ سے ڈیکوریشن پیسز کی صفائی کروا رہی تھی۔ روحیل کی آواز پر وہ مُلازمہ کو ہدایت دیتی اِسی طرف آنے لگی۔
‘اوہ سوری بھائی! میں تو بالکل بھول ہی گئی۔ ابھی آپ کیلئے چائے۔۔۔’
‘تم رہنے دو رابی! جاکر کمرے میں بیٹھو۔ آج شام تمھارا ماےّوں ہے اور بہت تھکن ہونے والی ہے اِسلئے تم کچھ دیر آرام کرلو پھر تیاری بھی تو کرنی ہے نا۔ تم چلو، میں اِنکو چائے دیکر وہیں آتی ہوں۔’ عرشیہ نے اُسکا گال چھوا اور وہ اثبات میں سر ہِلاتی اپنے کمرے کی طرف چل دی۔روحیل اُسکا اپنائیت بھرا لہجہ دیکھ رہا تھا (مجھ سے بات کرتے ہوئے انگارے کیوں چباتی ہو ہروقت؟) وہ بس سوچ کر رہ گیا۔ کتنی اپنی اپنی سی لگی تھی وہ ، بِنا کسی بناوٹ کے کتنی اپنائیت سے بات کر رہی تھی رابیل سے۔ وہ رابیل کے جانے کے بعد اُسکی طرف گھومی۔
‘رابیل سے کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ دن میں اُسکی رخصتی ہے اور ایسے میں اُس سے کام کروانا اچھا نہیں لگتا نا۔’ وہ خلافِ توقع کافی شگُفتہ انداز میں اُس سے مُخاطب تھی اور اِس پر روحیل کی حیرانی بجا تھی۔
‘کمال ہے! سب کا کتنا خیال ہے نا تمھیں۔ کبھی میرے بارے میں بھی سوچ لیا کرو۔’
‘ہاں سب کے ساتھ تمھارا بھی ہے۔ مجھ سے کہا ہوتا چائے کیلئے۔’ کتنی اپنائیت سے بات کر رہی تھی وہ۔ آج تو وہ اُسے حیران کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ روحیل بے یقینی سے اُسے کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر شوخ لہجے میں بولا۔
‘میں جو بھی کہوںگا مانوگی تم؟’ وہ جانتا تھا عرشیہ اِس بات پر غصّے میں آئیگی لیکن آج تو حیرانیوں کا دن تھا۔وہ ہنوز اُسی انداز میں کھڑی رہی اور ہلکے سے تبسُم کے ساتھ بولی۔
‘میں اِسوقت صرف چائے کی بات کررہی ہوں۔’

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

‘ہاں! ضرور پیونگا اگر اپنی چاہ کے ساتھ پِلاؤگی تو!’ روحیل نے اُسکے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا لیکن کچھ دیر پہلے والی شائستگی اور اطمینان اب بھی قائم تھا۔پُر اعتماد تو وہ ہمیشہ سے تھی لیکن روحیل سے مُخاطب ہوتے وقت اُسکے چہرے پر ناگواری اور لہجے میں غصّہ ہوتا تھا۔ پر اِسوقت وہ جتنی اپنائیت سے بات کر رہی تھی روحیل کو اپنی سماعتوں پر شُبہ ہونے لگا۔
‘اوکے ابھی لیکر آتی ہوں۔ جب تک تم فریش ہوجاؤ۔’ وہ آگے بڑھنے کو تھی جب روحیل نے نہایت ہی حیرانی سے پوچھا
‘تمھیں۔۔ تمھیں میری بات پر غّصہ نہیں آیا؟’ اُسکی حیرانی فطری تھی اور اِس پر عرشیہ کو اپنی ہنسی روکنا مُحال ہوگیا جو روحیل کو اور بھی حیران کر گیا۔ وہ اُس سے بات کرتے ہوئے ہنس رہی تھی۔۔ شاید زندگی میں پہلی بار!
‘اوہو! میرے غُصّے کی اتنی عادت ہوگئی ہے کہ میں اِسطرح بالکل ہضم نہیں ہورہی تم سے؟ دیکھو رابیل کی خوشی میرے لئے سب سے قیمتی ہے اور میں اِسوقت کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ سمجھ رہے ہونا؟’ وہ اِتنے شائستہ انداز میں ایک ایک لفظ بول رہی تھی کہ روحیل تو بیہوش ہوتے ہوتے بچا۔
‘اب میں جاؤں؟ تاکہ تمھارے لئے چائے لا سکوں۔’ روحیل پر شادیِٔ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔ وہ کچھ بول ہی نہ پایا صرف اثبات میں سر ہِلا سکا۔ عرشیہ کچھ دیر ایسی ہی کھڑی رہی پھر تھوڑی سے بیزاری سے بولی۔
‘پورے کچن کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو، میں جاؤں کہاں سے؟ ہٹو نا! مجھے اور بھی بہت کام ہیں۔’
‘اوہ!’ روحیل فوراً سائیڈ پر ہوگیا اور وہ کچن میں داخل ہوگئی۔
وہ بہت سرشار اور مسرور سا اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔ہروقت کا غُصّہ اور طنز کے تیر کھا کھا کر اُسکی روح بھی اب گھائل ہوچُکی تھی۔ اِسلئے عرشیہ کا یہ تھوڑا سا مہربان التفات بھی اُسے بہت سُکون بخش رہا تھا۔عرشیہ کچھ ہی دیر میں چائے کے ساتھ بِسکٹس اور سر درد کی ٹیبلٹ بھی لے آئی تھی۔ کتنا خیال رکھ رہی تھی وہ سب کا۔ اور آج تو روحیل کا بھی خیال آگیا تھا اُسے۔ وہ اِس اچانک تبدیلی پر بہت خوش تھا۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ محض حالات سے سمجھوتا کرنے پر مجبور ہے۔ شارق کی یادوں نے آج تک بھی اُسکا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔اور روحیل کا ساتھ تو اُسے اب بھی قبول نہ تھا۔
************************
مایوں کے فنکشن کے سارے کام نمٹا کر، لاؤنج کا بھرپور جائزہ لیکر وہ رابیل کے پاس چلی آئی۔اور اُسے تیار کرکے پھر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ تھکن اِتنی تھی کہ کمرے میں آتے ہی دل چاہا سب چھوڑ چھاڑ کر اِس نرم گرم بیڈ پر گِر کر سوجائے۔پھر اپنے خیال کو جھٹکتی وہ باتھروم میں گُھس گئی۔ ٹھنڈے پانی سے نہا کر وہ تروتازہ ہوگئی تھی۔ ساری تھکن اپنے آپ ہی اُتر گئی تھی۔تیار ہوکر اُسنے آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ آج کیونکہ صرف لڑکیوں کا فنکشن تھا اِسلئے اُس نے اپنے بالوں کو پُشت پر کُھلا چھوڑ دیا تھا۔
جیسے ہی گھڑی پر نگاہ گئی وہ چونکی۔اُسے کمرے میں آئے کافی دیر ہوچُکی تھی ۔ وہ جلدی سے گجروں کی تھال اُٹھاتی بھاگتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی اور اندر داخل ہوتے شخص سے بُری طرح ٹکرائی تھی۔گجرے سمیت پوری تھال نیچے گِر گئی تھی اور اُسکا نازک سا وجود بھی بُری طرح لڑکھڑا گیا ، اگر وہ دروازے کو وقت پر تھام نہ لیتی تو زمین بوس ہوجاتی۔
‘یا خُدا! کون پیچھے لگا ہے تمھارے؟’ یہ روحیل تھا۔اُسے سہارا دے کر سیدھا کیا اور جُھک کر زمین پر بکھرے گجرے اُٹھانے لگا۔ وہ بھی نیچے بیٹھ کر گجرے سمیٹنے لگی۔ جب کھڑی ہوئی تو روحیل کو اپنی طرف دیکھتا پاکر کچھ کنفیوز سی ہوگئی۔
لمبے چمکدار بال اُسکی پوری پُشت پر بکھر گئے تھے۔۔ کچھ بال آگے کی طرف بھی جھول رہے تھے۔۔
کانوں میں موتیا کی سفید بالیاں۔۔
ہونٹوں پر ہلکی سی لِپ اِسٹک کے سِوا چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے بے نیاز تھا۔۔
پیلے اور لال کُرتے پاجامے میںاُسکا وجود بہت پُر کشش لگ رہا تھا۔۔
اُس پر گوٹا کِناری کا خوبصورت لال دوپٹہ اوڑھے۔۔
گیندے اور موتیا کے گجروں کی تھال ہاتھ میں لئے وہ خود بھی انہی پھولوں کی طرح دمک رہی تھی۔ روحیل کو اپنا آپ سنبھالنا مُشکل لگنے لگا۔وہ اپنی گہری چمکدار آنکھیں اُسکے دمکتے چہرے پر جمائے ہوئے تھا۔ کچھ دیر اُسکے ہٹنے کا انتظار کرتی رہی اور جب وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہِلا تب اُس نے پلکیں اُٹھا کر روحیل کو دیکھا اور بولی۔
‘مجھے باہر جانا ہے۔ نیچے سب میرا انتظار کر رہے ہونگے۔’ روحیل بِنا کچھ بولے اُسے ویسے ہی پُر شوق نظروں سے تکتا رہا۔ وہ سُرخ پڑتے چہرے کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔روحیل کا اتنی وارفتگی سے دیکھنا اُسے نروس اور کنفیوز ہونے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اُسکا شانہ ہِلا کر بولی۔
‘روحیل! ‘
‘ہوں!’ وہ اب ہوش میں آیا تھا
‘ہٹ جاؤ، مجھے باہر جانا ہے۔’ روحیل اُسکے چہرے پر آئی ہوئی شریر سی لٹ کو کھینچتا ہوا سرشار لہجے میں بولا
‘کچھ دیر تو جی بھر کر دیکھنے دو۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو تم۔ کچھ دیر تو سراب ہونے دو۔’ عرشیہ مرتی کیا نہ کرتی، چُپ چاپ کھڑی برداشت کرتی رہی۔ وہ سہی معنوں میں پریشان ہوگئی تھی۔صبح کی ذرا سی شائستگی نے اب اُسے بُری طرح پھنسا دیا تھا۔کچھ دیر کے بعد وہ بولی۔
‘مِل گئی ٹھنڈک؟ اب میں جاؤں؟ بہت دیر ہوگئی ہے۔ جانے دو نا پلیز۔’ وہ اِتنی معصومیت سے بولی کہ روحیل کو اُس پر ترس سا آگیا، فوراً سائیڈ پہ ہوکر اُسکو جگہ دی اور اِس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی، روحیل نے لپک کر تھال میں سے ایک گجرہ اُٹھایا اور اُسکی کلائی میں ڈال کر وہاں سے بھاگ نِکلا۔ وہ اپنے ہاتھ میں پڑے گجرے کو دیکھ کر بے ساختہ مسکرا اُٹھی تھی۔
************************
سب لڑکیاں لاؤنج میں بیٹھی خوب ہنگامہ مچا رہی تھیں۔ زور و شور سے ڈھول بجائے اور گانے گائے جارہے تھے۔ عرشیہ بھی رابیل کے برابر بیٹھی پوری طرح سے اِن ہنگاموں میں بڑھ چڑھ کر حِصّہ لے رہی تھی۔ گانوں میں وہ بھی پیش پیش تھی۔ رابیل پیلے کُرتے پاجامے میں خوبصورتی کا شاہکار لگ رہی تھی۔وہ بِلاشبہ بہت حسین نین نقش کی مالک تھی۔ بہت نور چڑھا تھا اُسکے گُلابی چہرے پر۔ حرا بیگم نے اُسے پیار کیا اور اُسکے برابر بیٹھی عرشیہ کو دانستہ دیکھنے سے گُریز کیا۔ آج وہ نظر لگ جانے کی حد تک پُر کشش لگ رہی تھی۔ اُنھوں نے اپنی بیٹی اور بہو کی دل ہی دل میں نظر اُتاری اور باقی کے اِنتظامات دیکھنے باہر کی طرف چل دیں۔ سب لڑکیوں سمیت عرشیہ بھی بھرپور انداز میں گانا گا رہی تھی۔
‘مہندی لگانے کی رات آگئی، مہندی لگانے کی رات،
مِلنے مِلانے کی رات آگئی، ملنے ملانے کی رات،
پیارے سے مُکھڑے پہ میں واری جاؤں،
اِن کیلئے میں تو سب کچھ بُھلاؤں۔۔’
لڑکیاں زوردار آواز میں گا رہی تھیں جب عرشیہ کی پُشت پر گونجتی مردانہ آواز نے اُن سب کی آوازوں کو بریک لگا دئیے۔ وہ گا رہا تھا۔
‘خوشبو لُٹاتے گُلوں کی لڑی کی،
کب سے تھی چاہت ہمیں اِس گھڑی کی،
یہ سُندر سا مُکھڑا چوم کے،
گانے بجانے کی رات آگئی ، گانے بجانے کی رات’
وہ ہاتھوں میں رابیل کا چہرہ تھامے ہوئے تھا لیکن مُسکراتی نظریں عرشیہ کے چہرے پر جمی تھیں جسے رابیل نے بھی نوٹ کیا تھا۔ عرشیہ بھی جانتی تھی کہ وہ یہ سب اُسے سُنانے کیلئے گارہا تھا۔ وہ کچھ نروس سی ہونے لگی۔ روحیل کمال ڈھٹائی سے آکر عرشیہ اور رابیل کے بیچ براجمان ہوگیا۔ جگہ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ وہاں گُھس کر بیٹھ گیا تھا۔اِس حرکت پر عرشہ نے اُسے گھور کر دیکھا ۔ وہ مُسکرائے جا رہا تھا جب ایک کزن بولی۔
‘واہ واہ! روحیل بھائی کیا مست گایا ہے۔ آپ نے تو ہمیں بھی پیچھے چھوڑ دیا۔’ ایک اور کزن نے ہانک لگائی
‘ہاں ہاں کافی موڈ میں لگ رہے ہیں روحیل بھائی، ونس مور ونس مور(Once more,,,once more…)۔’ اور پھر پورا کمرہ ونس مور ونس مور کی آواز سے گونجنے لگا۔ روحیل نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی اور بے زاری کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
‘نہیں بابا! میرا کوئی موڈ نہیں ہے۔ وہ تو بس ویسے ہی۔۔۔’
‘گا دیجئے نا جانی بھائی!’ رابیل نے اِلتجائی انداز میں کہا تو وہ کچھ سوچ کر بولا
‘ٹھیک ہے۔ لیکن ایک شرط پر۔’ ایک لمحے کو رُکا پھر کن اکھیوں سے اپنے برابر بیٹھی عرشیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
‘اگر کوئی چاہنے والا کہہ دے تو۔’ عرشیہ نے اُسے قہر برساتی نظروں سے گھورا۔ یہ کہنے کی دیر تھی سب کزنز اُسکا اِشارہ سمجھ گئیں۔ سب نے بھرپور ہوٹنگ (hooting) شروع کردی اور عرشیہ کو اِشارہ کرکے بولنے لگے۔
‘بھابھی کہہ دیں نا۔ کہہ دیں نا!’ عرشیہ پھنس چُکی تھی۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ روحیل کی اِس جُرّت پر غصے سے بے قابو ہوجاتی لیکن اِسوقت اِتنے لوگوں کے بیچ میں بیٹھے وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی اِسلئے اپنے آپکو نارمل رکھتے ہوئی بولی۔
‘اچھا اچھا! کہتی ہوں۔۔۔ گا دیجئے پلیز!’ عرشیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ ‘ہائے’ کی آواز سے پورا لاؤنج گونج اُٹھا۔روحیل کے آجانے سے محفل میں اور جان پڑگئی تھی۔ وہ ہنستا ہوا پلوشہ کو مُخاطب کرکے بولا۔
‘جاؤ پلوشہ میرا گِٹار تو لیکر آؤ۔’ اور پلوشہ کے گِٹار لاتے ہی وہ آنکھیں موند کر اُسکے تار بجانے لگا
‘پڑھنے لگی ہیں نظریں ہماری،
خاموشیوں کی زُباں،
ایک دوسرے کے جذبات سے ہم،
ہونے لگے آشنا،
کس موڑ پہ لے آیا، یہ دیوانہ پن،
آپ سے جو ملی یہ نظر، ہوگئیں دھڑکنیں بے صبر،
خواب جگنے لگا، دل کو لگنے لگا،
دُنیا میں نہ کوئی آپس سا!’

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!