اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

‘اپنی زبان کو لگام دو روحیل۔۔’ عرشیہ نے اُسکی بات بیچ سے کاٹ دی
‘کیوں؟ ایسا کیا غلط کہا میں نے؟ شوہر ہوں تمھارا، کوئی راہ چلتا عاشق نہیں ہوں۔ اتنا تو حق بنتا ہے میرا۔’
‘تمھیں سارے حق باہر ہی کیوں یاد آتے ہیں؟’ اِس بات پر روحیل قہقہہ لگا کرہنسا اور عرشیہ کا مرمریں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا۔ اُسکی تو اِس عمل سے ہمیشہ سے جان جاتی تھی اِسلئے وہ اپنے ہاتھ کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
‘چھوڑو میرا ہاتھ۔’ روحیل نے گرفت مزید سخت کردی اورآنکھیں موند کر اُسے چِڑانے کو بولا
‘ہر وقت تو تمھاری بات نہیں مانوں گا۔’
‘پلیز چھوڑدو۔ دیکھو کوئی آجائیگا۔’ اُسے یہی فکر لاحق ہوگئی تھی
‘تو آجائے۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ بیوی ہو تم میری سب کو پتا ہے۔’ وہ کچھ دیر اُسے بے بسی سے دیکھتی رہی پھر اُسکی ڈِھٹائی پر ماتم کرتی نرم لہجے میں بولی۔
‘پلیز ابھی چھوڑدو ہاتھ۔ اگر کوئی آگیا تو بہت بُرا لگے گا۔’
‘ٹھیک ہے اب اِتنے پیار سے کہہ رہی ہو تو چھوڑ دیتا ہوں لیکن صرف ابھی کیلئے۔’ ‘ابھی’ پر کافی زور دیا گیا تھا۔ اُس نے ہاتھ چھوڑ دیا اور عرشیہ سکون میں آگئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ روحیل نے اُسکے کہنے پر ہاتھ چھوڑا ہے جبکہ روحیل نے کچن سے نکلتی اپنی خالہ کو دیکھ کر جلدی سے اُسکا ہاتھ چھوڑ دیااور اپنی ساری توجّہ ٹی وی کی جانب لگادی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دعوت سے واپسی پر کافی دیر ہوگئی تھی۔روڈ پر ٹریفک کم تھا اور گلیاں بالکل سُنسان پڑی تھیں۔اِسوقت بلیک سوک ڈیفنس کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ اے سی کی کولنگ سے گاڑی کے اندر کا ماحول سرد ہورہا تھا۔عرشیہ سیٹ کی بیک سے ٹیک لگائے باہر دیکھ رہی تھی۔روحیل نے وِنڈ سکرین پر نظریں جمائے اُسے مُخاطب کیا۔
‘عاشی!’ عرشیہ اِس لفظ پر چونک کرپلٹی۔ ‘عاشی ‘ اُسے صرف شارق ہی بُلایا کرتا تھا۔اُسے حیرانی سے اپنی طرف دیکھتا پا کر روحیل نے سوال کیا۔
‘کیا ہوا؟’ عرشیہ نے ایک گہری سانس کھینچ کر سر نفی میں ہلادیا
‘عرشیہ! تم جو یہ حجاب کرتی ہو، یہ کیوں کرتی ہو؟’ روحیل نے اُسے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ عرشیہ سیدھی ہو بیٹھی اور سپاٹ لہجے میں بولی۔
‘اب تم کہوگے کہ میں یہ نہ کیا کروں اور اِسے اُتاردوں! کیونکہ جس سوسائٹی سے تم تعلق رکھتے ہو وہاں یہ سب چیزیں بہت دقیانوسی اور معیوب سمجھی جاتی ہیں۔ پر میں کسی کیلئے بھی اپنا آپ نہیں بدل سکتی کیونکہ میں خود کو ڈھانپ کر ایسے بہت محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اب چاہے تمھیں کتنا بھی بُرا لگے میں یہ حجاب کرنا نہیں چھوڑسکتی۔’
‘میں نے یہ تو نہیں کہا اور نہ مجھے ایسا کچھ بھی کہنا تھا۔’ وہ افسردگی سے بولا
‘پھر؟؟’ عرشیہ نے اُسکے چہرے پر آئی افسردگی محسوس کی
‘میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ سب مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔میں اِس سوسائٹی سے تعلق رکھتا ضرور ہوں لیکن اِسکا یہ مطلب نہیں کہ یہاں موجود ہر رِواج مجھے پسند بھی ہو۔میں تمھیں کبھی نہیں کہوںگا کہ تم اپنا آپ بدلو کوز آئی لو یو دا وے یو آر(because I love you the way you are)’
روحیل نے اپنی بات ختم کی تو عرشیہ کو کچھ شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ وہ ہمیشہ اُسکے بارے میں اُلٹے اندازے لگاتی آئی تھی اور وہ ہر بار اُسکے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا تھا۔
‘سوری! میںتمھارا سوال نہیں سمجھ پائی تھی۔’
‘یہی توسارا مسئلہ ہے سوئیٹ ہارٹ کہ تم مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں پاتیں!’ یہ کہہ کر وہ جیسے ہی تھوڑا قریب ہوا عرشیہ سمجھ گئی کہ وہ پٹری سے اُترنے والا ہے اسلئے فوراً اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کرلئے۔ اُسکی اِس اچانک حرکت پر روحیل ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا۔
‘ڈر گئیں؟’ روحیل نے شوخی سے سُنہری آنکھوں میں جھانکا تو وہ اپنی خفت مِٹانے رخ موڑ کر بس اِتنا بولی
‘ہونہہ! ابھی مجھے ڈرانے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔’
‘اچھ۔۔چھا؟؟ ایسی بات ہے کیا؟؟’ روحیل نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔ گھر آچُکا تھا اور گاڑی رُکتے ہی وہ جلدی سے فرنٹ ڈور کھول کر اندر کی طرف بھاگی۔ اُسے اپنی پُشت پر روحیل کا ایک اور جاندار قہقہہ سُنائی دیا۔
‘مسز روحیل! ایک نہ ایک دن آپ کو اپنا بنا کر رہونگا، یہ وعدہ رہا۔’ روحیل نے مسکرا کر خود کلامی کی اور گاڑی لاک کرکے اندر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔
************************
آج موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہلکی بونداباندی کے بعد سب کچھ نکھر گیا تھا۔عرشیہ کے کمرے میں موجودٹیرس میں کُھلتی کھڑکی سے باہر لان کا خوبصورت منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ہلکی بارش کے بعد ہر چیز شفاف ہوگئی تھی۔ لان میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور کیاریوں میں لگے پھول چار سوُ اپنی خوشبو بکھرا رہے تھے۔اُسکی کھڑکی پر آتی بوگن ویلیا کی گھنی بیل پرلہلہاتے بے شمار پھول اورپتّے تھے۔اُس نے آگے بڑھ کر کچھ پھول اپنی مُٹھی میں بھر لئے۔ شبنم کے قطرے اُن پھولوں کو اور بھی تازگی بخش رہے تھے۔ روحیل آفس جاچُکا تھا۔ وہ بھی ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آگئی تھی اور اب کھڑکی میں کھڑی موسم کا مزہ لے رہی تھی۔ہلکی سی دستک کے ساتھ دروازہ کُھلا اوررابیل کا چہرہ نمودار ہوا۔
‘بھابھی اندر آجاؤں؟’
‘ارے آؤ نا! اسمیں پوچھنے والی کونسی بات ہے۔ آؤ بیٹھو!’ وہ مسکراتی ہوئی بیڈ کی طرف آگئی
‘کیا کر رہی تھیں؟’ رابیل نے اُسے اپنے برابر بٹھا لیا
‘بس یونہی موسم کا مزہ لے رہی تھی۔’
‘آپکو ایسا موسم پسند ہے؟’ رابیل نے دلچسپی سے سوال کیا
‘ہاں بہت! میں تو ہمیشہ سے اِس موسم کی دیوانی رہی ہوں۔’ عرشیہ نے بھی ایکسائیٹڈ ہوکر جواب دیا تو رابیل لہک کر بولی
‘ارے واہ! جانی بھائی اور مجھے بھی ایسا موسم بہت پسند ہے۔بھائی کہتے ہیں کہ اِس بھیگے بھیگے موسم کا لُطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہم اُنھیں بھی کال کرکے بُلالیں اور سب ساتھ مل کر یہ موسم انجوائے کریں۔’ یہ کہتے ہی رابیل اُسے فون کرنے اُٹھنے لگی جب عرشیہ نے سٹپٹا کر اُسکا بازو پکڑا ۔
‘نہیں نہیں رابیل!’
‘کیوں؟’ رابیل نے حیرانی سے پوچھا
‘میرا مطلب تھا کہ وہ ابھی گئے ہیں آفس اور یہ کہہ کر گئے ہیں کہ آج اُنکی ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔ اسلئے اُنکو فون کرکے بُلانا بیکار ہے نا وہ نہیں آ پائیںگے۔’ عرشیہ کو اُسے روکنے کا ایک یہی بہانہ ملا۔ وہ اب روحیل سے کترانے لگی تھی۔ پہلے جیسی بدتمیزی اور برہمی میں بھی کچھ کمی آگئی تھی۔ شاید وہ واقعی اِتنا بُرا نہیں تھا جتنا عرشیہ اُسے سمجھتی آئی تھی اسلئے اب فضول کا غصہ اورمنفی سوچوں کو وہ بھی جھٹکنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔زندگی اِسی کا نام ہے۔ کبھی کبھی وہ ہمارے ساتھ ایسے کھیل کھیلتی ہے کہ ہمیں قدرت کے فیصلوں کے آگے جُھکنا ہی پڑتا ہے۔ عرشیہ نے دیکھا رابیل کا موڈ سخت آف ہوچکا تھا، وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر بولی۔
‘کیوں نہ ہم لان میں چلیں اور وہاں جاکر مزے کریں؟ تمھیں پتا ہے میں ایسے موسم میں بالکل بچی بن جاتی ہوں۔ آؤ چلیں۔’ وہ رابیل کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لان کی طرف چل دی۔ لان میں پہنچ کر دونوں نے ایک ساتھ گہری سانس لیکر گیلی مّٹی کی بھینی بھینی خوشبو کو اپنی سانسوں میںاُتارااور ایک دوسرے کو دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے روپ میں بہت اچھی دوستیں مل گئی تھیں۔مالی بابا وہیں کچھ فاصلے پر کھڑے پودوں کو پانی دے رہے تھے اور اُنکے برابر ہی ایک بڑا سا پانی کا پائپ پڑا تھا۔ عرشیہ نے وہ پائپ اُٹھاتے ہوئے اُن کو جانے کا اِشارہ کیا اور خود پودوں کو پانی دینے لگی۔کچھ لمحے بعد اُسکو شرارت سوجھی اور وہ رابیل کی طرف پلٹی جو اپنی دُھن میں آنکھیں بندکئے لان میں گھوم رہی تھی۔ عرشیہ نے پائپ کا رُخ رابیل کی جانب کردیا، ایک تیز پانی کا فوّارہ نکلا اور اُسے بھگوگیا۔رابیل منہ کھولے ہونق بنی پہلے تو اُسے دیکھتی رہی پھر اُسکی شرارت سمجھتے ہی اُسکے پیچھے لپکی۔
‘بھابھی! ادھر آئیں آپکو بتاتی ہوں۔ چھوڑونگی نہیں!’ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ مست تھیں۔دونوں بُری طرح بھیگ چُکی تھیں۔ اپنی دُھن میں وہ دیکھ ہی نہ پائیں کہ روحیل نجانے کب سے پورچ میں کھڑا گاڑی سے ٹیک لگائے اُنکی مستیوں کو انجوائے کر رہا تھا۔کسی بات پر عرشیہ کھلکھلا کر ہنسی اور روحیل کا شدت سے دل کیا کہ وہ اُسے ہنستا ہوا دیکھے۔وہ دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتا این عرشیہ کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔
‘آؤ پھولوں سے جھولیاں بھر لیں،
لوگ ہنستے ہیں بار بار کہاں!’
اُسکی آواز میںمحبت کی ایسی چاشنی گُھلی تھی کہ عرشیہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ آواز بہت پاس سے سُنائی دی تھی۔ اُس نے پلکیں اُٹھا کر سامنے کھڑی رابیل کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی اور کن اکھیوں سے روحیل کے آنے کا اِشارہ دے رہی تھی۔ عرشیہ کے ہاتھ میں پائپ موجود تھا اور وہ جیسے ہی پلٹی ایک تیز پانی کا فوّارہ نِکلا اور روحیل کو بھی بھگوگیا۔
‘ارے۔۔رے۔۔رے۔۔’ روحیل نے اپنے بچاؤ کیلئے منہ پر ہاتھ رکھ لیا لیکن وہ پھر بھی اوپر سے نیچے تک پورا بھیگ چُکا تھا۔ عرشیہ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔ وہ نا سمجھی کی کیفیت میں تھی جب رابیل نے اُسے ہوش دلایا۔
‘بھابھی پائپ چھوڑیں۔ جانی بھائی بُری طرح بھیگ چُکے ہیں۔’
‘اوہ سوری!’ عرشیہ نے ایک جھٹکے سے پائپ نیچے پھینکا اوربھاگتی ہوئی لان عبور کرتی گھر میں گُھس گئی۔رابیل کی آواز پر بھی وہ رُکی نہ تھی۔ دونوں کو اپنی ہنسی روکنا مُحال ہوگیا تھا۔ رابیل نے ہنستے ہنستے پوچھا۔
‘آج تو آپکی میٹنگ تھی نا؟ پھر آپ اِتنی جلدی کیسے آگئے؟’
تمھیں کیسے پتا؟’ وہ اُلٹا اُس سے سوال کرنے لگا۔ روحیل کو نہیں یاد پڑتا تھا کہ آج اُسکی کوئی میٹنگ بھی تھی ( رابیل کس میٹنگ کی بات کر رہی ہے؟)
‘بھابھی نے بتایا۔ میں نے کہا تھا کہ اتنے پیارے موسم میں آپکو بھی بُلا لیا جائے تو انھوں نے کہا کہ آپ کسی ضروری میٹنگ میں مصروف ہیں۔’ رابیل کپڑے جھاڑتے ہوئے بولی
‘ہاں وہ کینسل ہوگئی تھی اِسلئے میں جلدی آگیا۔ چلو گُڑیا تم کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہوجاؤگی۔ میں بھی کپڑے بدل کر آتا ہوں۔’ رابیل اثبات میں سر ہِلاتی اُسی کے ساتھ اندر آگئی اور دونوں اپنے اپنے کمروں کی جانب چل دئیے۔
عرشیہ نے کمرے میں آکر اپنی رُکی ہوئی سانسیں بحال کیں اور اپنی حد درجہ احمقانہ حرکت پر خود کو کوستے ہوئے وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگی۔ وہ پوری پانی سے بھیگ چُکی تھی اور بال بھی بُری طرح سے تر تھے۔وارڈروب بند کرکے اُسکی نظر جیسے ہی سامنے اُٹھی روحیل کا مسکراتا چہرہ اُسکا استقبال کر رہا تھا۔اُن سیاہ آنکھوں میں ایسی رمق تھی کہ عرشیہ کٹ کر رہ گئی۔وہ ایسے حُلیے میں تھی کہ اُسے سخت شرمندگی ہونے لگی۔وہ باتھروم کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی جب روحیل نے سامنے ہاتھ لاکر اُسے جانے سے روک دیا۔اُسکی گردن مزید جُھک گئی اور وہ بے وجہ ہی اپنا دوپٹہ دُرست کرنے لگی۔
‘ذرا چہرہ تو دکھاؤ، اور تھوڑا سا مسکراؤ!’ روحیل اُسے چِڑانے ترنگ میں گنگنایا اور وہ واقعی چِڑ کر بولی
‘ہٹو میرے راستے سے۔’ لیکن وہ کمال ڈھٹائی سے وہیں جما رہا اور اُسکا چہرہ اوپر کرکے بولا
‘یہ بِنا بارش کے آپ نے ہمیں بھگودیا، کیوں؟’
‘پلیز ہٹ جاؤسامنے سے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔’ وہ دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بولی
‘اِسے لئے تو کہتا ہوں، میرے پاس آجاؤ۔۔ ساری سردی۔۔’
‘روحیل پلیز!’ عرشیہ نے ہاتھ اُٹھا کر اُسکی بات کاٹ دی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا
‘اچھا یہ بتاؤ کہ میری آج کونسی میٹنگ تھی جسکا صرف تمھیں پتا تھا؟’ روحیل کے انداز میں شرارت تھی۔ عرشیہ کے چہرے کا رنگ بدلا۔وہ اپنی جگہ چور سی بن گئی۔وہ اُسکے چہرے کے اُتار چڑھاؤ بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
‘بتاؤ نا؟ مجھ سے کترانے کیوں لگی ہو؟’ روحیل نے اپنا سوال دہرایا تو عرشیہ اُسے پیچھے دھکیلتی ہوئی سائیڈ سے نکلی اور باتھروم میں گُھس گئی جہاں اُس نے روحیل کی پیچھے سے آتی آواز بخوبی سُنی تھی۔
‘کب تک بھاگتی رہوگی مجھ سے؟ تمھیں میری طرف ہی لوٹنا ہے مائی ڈئیر وائف(My dear wife)! ‘ ایک کپ کپی کی لہر عرشیہ کو اپنے وجود پہ طاری ہوتی محسوس ہوئی۔
************************
شادی کوآٹھ ماہ کا عرصہ گزر چُکا تھا۔ عرشیہ پوری طرح سے اِن لوگوں میں گُھل مل گئی تھی۔بس ایک روحیل تھا جسکا ساتھ وہ چاہ کر بھی قبول نہیں کر پا رہی تھی۔اُسے یاد تھا کہ وہ شارق کی ڈیتھ کے بعد بہت مشکلوں سے اِس فیصلے پر راضی ہوئی تھی۔شارق کی قسم اور اُسکے چہیتے پاپا سُمیرصاحب کے جُڑے ہوئے ہاتھوں نے اُسے اِس کٹھن فیصلے پر سر جُھکانے پر مجبور کردیا تھا۔ پر کبھی کبھی اِنسان قدرت کے فیصلوں کو اپنانے میں ناکام ہوجاتا ہے اور یہی کچھ اُسکے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔وہ روحیل کی موجودگی کو اپنے آس پاس محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
دن سبک روی سے گزر رہے تھے۔ اِنہی دنوں میں رابیل کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ رابیل کا ساتھ اُسکے لئے بالکل چھوٹی بہنوں جیسا تھا۔ تاریخ کیا طے ہوئی ہر کوئی مصروف ہوگیا۔ خصوصاً عرشیہ کی ذمّہ داری مزید بڑھ گئی تھی۔روحیل وِلا کے مکینوں کیلئے ایونٹ پلینرز کو بُلانا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن رابیل کی شادی کا ہر کام عرشیہ اپنی پسند اور خوشی سے کرنا چاہتی تھی۔ بازاروں کے ڈھیر چکّر۔۔ لینے دینے کے اِنتظامات۔۔ گھر کی نئے سِرے سے صفائےّاں اور ڈیکوریشن۔۔ غرض کہ کاموں کا ایک انبار تھا۔
روحیل اُسے یہاں سے وہاں پُھرتی سے کام کرتا دیکھ رہا تھا۔وہ اِس گھر کے رنگ میں رچ بس گئی تھی۔وہ عرشیہ میں اِتنا گُم تھا کہ رابیل کب اُسکے پاس آکر کھڑی ہوگئی اُسے محسوس بھی نہ ہوا۔ رابیل نے اُسکی آنکھوں کے سامنے چُٹکی بجا کر اُسکی توجہ اپنی جانب مبذ ول کی۔
‘کیا دیکھ رہے ہیں جانی بھائی؟’ روحیل نے مسکرا کر اُسکی سمت دیکھا
‘کچھ نہیں گُڑیا! بس تمھاری بھابھی کو دیکھ رہا ہوں۔ کتنی ذمّہ داری سے اِسنے سب کام اپنے ذمّے لے لئے ہیں۔’ وہ پوری سچائی کے ساتھ اُسکی اچھائیوں کو سرا رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!