اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

رابیل نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی پیاری سی بھابھی کو گلے لگایا۔ اُسکی تو من پسند لڑکی اِس گھر میں اُسکی بھابھی بن کر آگئی تھی۔اُسکی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں اُسے اب مکمل یقین آگیا تھا۔ رابیل کے ساتھ اُسکی کزن پلوشہ بھی تھی۔ یہ اُنکی خالہ کی بیٹی تھی۔ رابیل نے اُسے پلوشہ سے مِلوایا۔ اُسکی نظروں میں ایک عجیب سی بات تھی جو عرشیہ کو اُس سے ملتے وقت محسوس ہوئی ۔وہ عرشیہ کے سراپے کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ آج اُسکا یہاں پہلا دن تھا، وہ حرا بیگم اور رابیل کے سوا یہاں ابھی کسی کو بھی نہیں جانتی تھی۔ رابیل کی نظروں کو خود پر مرکوز دیکھ کر وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔
‘ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟’ عرشیہ کی رابیل سے اچھی دوستی ہوگئی تھی، شادی طے ہونے کے بعد سے رابیل اکثر اُسکا ذہن بٹانے اُنکے گھر آجایا کرتی تھی۔
‘قُدرت کے حسن کو دیکھ رہی ہوں، جس نے کتنی فرصت سے بنایا ہے آپکو۔بغیر کسی بناوٹ کے بھی آپ دل میں اُتر جاتی ہیں۔’ رابیل کا انداز اِتنا شرارتی تھا کہ وہ جھینپنے پر مجبور ہوگئی ۔پھر وہ خود کو سنبھالتی ہوئی بولی۔
‘بھئی حسن تو یہاں بھی فرصت سے بنایا گیا ہے۔ رابی ڈئیر تم کسی سے کم ہو کیا!’ وہ رابیل کو آئینے کے سامنے کرتے ہوئے بولی اور دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔تبھی پلوشہ بولی۔
‘ہاں! رابیل بھی بلاشبہ حسین ہے لیکن اُسے ایسی ادائیں، میرا مطلب ہے کہ اسمیں اتنے گَٹس کہاں ہیں کہ کسی کو اپنے حسن کے جال میں پھنسا سکے۔ آپ لیکن اِتنی ہی خوبصورت ہیں کہ سامنے والے پر بجلیاں گِرانا جانتی ہیں۔’ تعریف کا یہ کونسا انداز تھا، عرشیہ کو اُسکی بات بے حد ناگوار گُزری اور حساب رکھنا وہ جانتی نہیں تھی لیکن اِس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی کمرے میں روحیل کی آواز گونجی۔ وہ ابھی ابھی باتھ لیکر آیا تھا۔
‘کچھ لوگ ہوتے ہی اِتنے اچھے ہیں کہ وہ بنا کسی بناوٹ کے بھی اپنی سادگی اور اچھی فطرت سے لوگوں کے دِلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گہرے رنگ و روغن اور تراش خراش میں بھی کسی کی توجّہ حاصل نہیں کر پاتے۔کیا کریں یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے نا پلوشہ ڈئیر۔’ اُسکا لہجہ دھیما تھا لیکن ایک تنبیہ تھی جس پر پلوشہ پہلو بدل کر رہ گئی۔یہ سچ تھا کہ پلوشہ بھی بہت خوبصورت تھی اور روحیل کو بہت چاہتی تھی لیکن وہ کبھی بھی روحیل کی توجہ حاصل نہ کر پائی تھی۔اور اِسکی وجہ تھی ‘عرشیہ ‘، جس کے ہوتے ہوئے روحیل کے دل پر کبھی کوئی اور حکومت نہ کر سکا ۔ وہ بڑی شان سے اُسکے دل کی دُنیا پر برّاجمان تھی۔
عرشیہ کو اپنے حسن پر ذرا بھی غرور نہ تھا۔ وہ سادہ رہنے کی عادی تھی۔ اِسوقت بھی بالوں کی چوٹی بنائے سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ گلے میں گولڈ کی باریک چین تھی جس میں ‘عرشیہ روحیل ‘ کا خوبصورت نام جگمگا رہا تھا، یہ چین اُسے روحیل نے منہ دکھائی میں دی تھی اور مجبوراً لوگوں کے سوالوں سے بچنے کیلئے اُسے یہ چین پہننی پڑی تھی۔ چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے پاک تھا اُسکے باوجود بھی اُسکی دودھیا رنگت کِھل کر سامنے آرہی تھی۔ اور یہ سب رہ رہ کر پلوشہ کو جیلسی میں مبتلا کر رہے تھے۔ روحیل رابیل کی طرف متوجہ ہوا۔
‘رابی! ناشتے کا کیا پروگرام ہے؟’ وہ بالوں میں برش پھیرنے لگا جب رابیل کچھ یاد آنے پرسر پر ہاتھ مار کر بولی
‘دیکھیں ذرا، کیا بولنے آئی تھی اور بھابھی کو دیکھ کر تو میں بھول ہی گئی۔ سچ بھابھی آپ تو اچھے اچھوں کے ہوش اُڑا دیتی ہیں۔’
‘بالکل! مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اِن کو دیکھ کر۔’ یہ روحیل تھا جو رابیل کی بات پر گھوما اور ایک پیار بھری نگاہ عرشیہ کے سراپے پر ڈالی۔ عرشیہ سب کی مو جودگی میں اُسے گھور بھی نہ سکی پر یہ باتیں اُسے بلاوجہ نروس کر رہی تھیں۔
‘میرا خیال ہے رابیل اگراب تعریفوں کا دور ختم ہوگیا ہو تو ہم ناشتہ کرنے چلیں؟ نیچے سب ہمارا انتظار کر رہے ہیں !’ پلوشہ بیزاری سے بولی۔
‘اوہ ہاں! بھائی بھابھی آپ دونوں نیچے آجائیں، بھابھی کے گھر والے بھی آئے بیٹھے ہیں۔’ رابیل اُن دونوں کو ناشتے کی دعوت دیتی تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی اور پلوشہ کے نکلنے سے پہلے ہی روحیل تیزی سے اُسکے قریب آیا۔
‘آئندہ زبان سنبھال کر بات کرنا۔ میں تمھیں آج کے بعد عرشیہ سے اِس انداز میں بات کرتا ہوا نہ د یکھوں۔ بلکہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا کہ تم میری بیوی سے مُخاطب ہو۔ سمجھیں!’ آواز کافی دھیمی تھی لیکن کچھ فاصلے پر کھڑی عرشیہ کو بخوبی سُنائی دی۔
‘چلیں عرشیہ؟’ پلوشہ غصے سے پاؤں پٹختے کمرے سے باہر نکل گئی اور روحیل بھی عرشیہ کی پیچھے کمرے سے باہر نکل گیا۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دن ایسے ہی مصروف گُزر رہے تھے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں روحیل اور عرشیہ کی دعوتوں کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔سب عزیزو اقارب اور دوست احباب اِس نئے جوڑے کو اپنے گھر مدعو کر رہے تھے۔ عرشیہ اِس روٹین سے بھی تنگ آگئی تھی۔ وہ تھکنے لگی تھی۔ ابھی بھی وہ کچھ دیر حرا بیگم کے پاس بیٹھنے کے اِرادے سے اُن کے کمرے میں آئی تھی جب انھوں نے اطلاع دی۔ روحیل پہلے سے وہا ں موجود تھا۔
‘عرشیہ بیٹا!’
‘جی آنٹی؟’ وہ چلتی ہوئی آکر اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ روحیل کی گہری نگاہیں اُسکے سراپے کا جائزہ لے رہی تھیں۔وہ اسوقت دھانی کلر کے پرنٹڈ اور ہلکے اِمبرائیڈرڈ لان کے سوٹ میں ملبوس تھی۔دوپٹہ سر پر جما ہوا تھا، اُسے سر پر دوپٹہ رکھنے کی عادت تھی۔ گلے میں وہی خوبصورت گولڈ کی چین لٹک رہی تھی جو اُسکی گردن کو اور چمکا رہی تھی۔کلائیاں بالکل خالی تھیں بس دائیں ہاتھ کی اُنگلی میں دو انگوٹھیاں پڑی تھیں جنھیں وہ ہر وقت ڈالے رکھتی تھی۔
‘عِفت نے آج تم دونوںکو ڈنر پر انوائٹ کیا ہے۔ ابھی اُسکا فون آیا تھا تم دونوں آٹھ بجے تک چلے جانااُسکی طرف۔’ حرا نے اپنی پیاری سی بہو کو دیکھا جو چند دِنوں میں ہی انھیں بے حد عزیز ہوگئی تھی آخر وہ اُنکے بیٹے کی خوشی جو تھی۔ عرشیہ اِسوقت کہیں جانا نہیں چاہتی تھی لیکن اتنے خلوص سے دی گئی دعوت پر وہ اِنکار نہ کرسکی۔
‘جی بہتر آنٹی! آپ لوگ بھی چلیں نا!’ اُس نے کن اکھیوں سے روحیل کو دیکھا جو اب بھی گہری نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ اُسکی بات پر روحیل اور حرا دونوں ہنس پڑے تو عرشیہ کچھ خجل سی ہوگئی۔
‘بیٹا ہم ضرور چلتے لیکن رابیل کا کل فائنل پیپر ہے ۔ تم دونوں جاؤ بچّوں اور اپنی لائف کو کھل کر انجوائے کرو۔یہی تو دن ہیں انجوائے کرنے کے۔’
‘ہاں مّمی! اگر کوئی اِن خوبصورت دِنوں کو انجوائے کرنا چاہے تو نا!’ روحیل نے شرارت سے آنکھ ماری اور عرشیہ اُسے ایسی نظروں سے گھورنے لگی جیسے ابھی کچّا چبا جائیگی۔
‘کیوں بھئی؟ کیا مطلب؟’ انھوں نے حیرت سے پوچھا اور اِس سے پہلے کہ روحیل مزید کچھ بول کر اُسے شرمندہ کرواتا وہ جلدی سے بول پڑی۔
‘ارے کچھ نہیں آنٹی، روحیل کی تو عادت ہے بس مذاق کرنے کی۔’
‘عرشیہ بیٹا! تم بھی مجھے ممی کہا کرو نا۔ روحیل بھی مجھے ممی ہی کہتا ہے۔تم بھی کہوگی تو مجھے اچھا لگے گا۔’ حرا نے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا اور پیار سے بولیں۔ عرشیہ انھیں دیکھنے لگی جو اُسکے سارے پچھلے حالات جانتے ہوئے بھی اُس سے اِتنی محبت کرتی تھیںاور اِتنی عزت دیتی تھیں۔ اِس بے لوث محبت پر وہ خُدا کی بہت شکر گُزار تھی اور اِسی وجہ سے اُسے اِس گھر میں سیٹ ہونے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ بس وہ ایک شخص تھا جسکا ساتھ وہ اِتنے دنوں میں بھی قبول نہ کر پائی تھی ۔۔یا۔۔ شاید کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
‘جی آنٹی، میرا مطلب ہے ممی۔’ وہ مسکرا کر بولی
‘اور یہ کیا؟ تمھارے ہاتھ تو بالکل خالی ہیں۔ بیٹا نئی نویلی دُلہن ہو، ایسے سونے ہاتھ نہیں ہونے چاہئیے اور تیار بھی ٹھیک سے نہیں ہوتی ہو۔ بھئی مانا کہ ہماری بہو سادگی میں بھی بہت پیاری لگتی ہے لیکن تھوڑا بہت سِنگھار تو کیا کرو لڑکی۔’ حرا نے اُسکی سونی کلائیوں کو تھام کر خفگی ظاہر کی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اور روحیل کو پورا کمرہ اِس خوبصورت اور کھنک دار ہنسی میں گنگناتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ اُسکے اِتنے پاس تھی پھر بھی اُسے بہت دور دکھائی دیتی تھی۔ لیکن روحیل کو اپنی محبت پر پورا بھروسہ تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور اِسکی طرف لوٹے گی کیونکہ سچی محبت کبھی نہ کبھی اپنا آپ منوا ہی لیتی ہے۔
‘ سچ ممی! آپ لوگ اِسطرح تعریف کرتے ہیں کہ بندہ جھینپ جائے۔ یہ آپ لوگوں کی نظر ہے بس جو مجھے اتنا خاص بنادیا ہے۔آپکا ہر حُکم سر آنکھوں پر۔جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا۔’ عرشیہ بڑوں کی بہت عزّت کرتی تھی اسلئے اُن کی کہی گئی بات کو ٹال نہیں سکتی تھی۔ وہ مسکرا کر اُن سے اجازت لیکر کمرے سے باہر نکل آئی۔ روحیل بھی اُسکے پیچھے لپکا ۔وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب روحیل نے اُسے آواز دی ۔ آواز پر مُڑنے کی غرض سے وہ جیسے ہی پلٹی اچانک اُسکا پاؤں لڑکھڑایا ، وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ پائی اور پیچھے کی جانب گرنے لگی۔
‘ارے ارے آرام سے!کیا چوٹ لگانے کا اِرادہ ہے؟’ روحیل نے تیر کی تیزی سے آگے بڑھ کر اُسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا ورنہ وہ منہ کے بل نیچے گِرتی۔عرشیہ ڈر ی ہوئی تھی اور ہونق بنی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اگر وہ اُسے وقت پر تھام نہ لیتا تو اُسے بہت بُری چوٹیں آنی تھیں۔
‘اب کیا گود میں اُٹھا کر کمرے تک بھی لے جاؤں یا آپ اپنے پاؤوں پر جانا پسند کریںگی؟’ روحیل نے اپنی شرٹ کی طرف اِشارہ کیا جسے مضبوطی سے عرشیہ نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا جیسے چھوڑتے ہی گِر جائیگی۔ اُسکی گہری سیاہ آنکھوں میں شرارت جھلملا رہی تھی، جذبوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔ عرشیہ کو لگا اگر وہ تھوڑی بھی اور دیر اِن آنکھوں میں دیکھتی رہی تو ضرور اِنکی گہرائی میں ڈوب جائیگی۔
‘اوہ! سوری!’ وہ تیزی سے اُسکی شرٹ چھوڑ کر سیدھی ہوئی اور اُسے دیکھنے سے گُریز کیا
‘اگر آپ چاہیں تو میں یہ سروسز بھی دے سکتا ہوں، آپکو اُٹھا کر کمرے تک لے جاسکتا ہوں۔’ روحیل یہ کہتا اُسکے بالکل قریب آگیا اور اُسکا نازُک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیاجسے وہ ایک جھٹکے سے چُھڑا کر دو قددم پیچھے ہٹی ۔
‘کیا ہے؟ کتنی دفع کہا ہے کہ میرے ساتھ یہ فضول حرکتیں مت کیا کرو۔’
‘پھر کس کے ساتھ کروں؟’ وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا ۔عرشیہ اُسے گھورنے لگی
‘شوہر ہوں تمھارا!’ روحیل کافی بے بسی سے بولا جس کو عرشیہ نے نظر انداز کردیا ۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد عرشیہ نے سوال کیا۔
‘کیوں آواز دی تھی مجھے؟’
‘کچھ بات کہنی تھی اِسلئے، لیکن تم سُنو تو نا!’ روحیل بولا تو عرشیہ کو ناچار اُسکی بات سنّنی پڑی۔
‘ہوں! بولو میں کانوں سے سُنتی ہوں۔’ وہ کچھ دیر خاموش رہا تو عرشیہ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ پھر وہ بولا
‘تم نے مّمی کی بات تو جھٹ مان لی، اب مجھے اپنا آپ کب سونپ رہی ہو؟’ روحیل کا انداز بہت دو ٹوک تھا۔اُسکی آنکھوں میںچاہت کا واضح مفہوم پڑھ کر وہ کچھ نروس سی ہوگئی اورکچھ جواب نہ دے پائی ۔ عرشیہ کے چہرے پرغصے و حیا کے عجیب رنگ پھیلے ہوئے تھے جسے روحیل نے بخوبی نوٹ کیا ۔ وہ کافی دیر اُسکی اِس حالت سے محظوظ ہوتا رہا جو بلاوجہ ہی اپنے ناخن کُھرچ رہی تھی۔ پھر وہ نرم لہجے میں بولا۔
‘جاؤ جاکر تیاری کرو کہیں دیر نہ ہوجا ئے۔’ وہ اُسکا گال بہت محبت سے چھوکر تیزی سے باہر نکل گیا اور وہ اُسکی جُرّت پر جلتی کُڑھتی رہ گئی، اگر اپنے کمرے سے نکلتی حرا بیگم کو وہ نہ دیکھ لیتی تو اِس سوال کا اچھا جواب دیتی ۔
************************
وہ دونوں ٹھیک وقت پر عفّت بیگم کے گھر پہنچ گئے تھے۔ سب نے اُنکا پُر تپاک اِستقبال کیا ۔ عِّفت بھی عرشیہ سے بہت محبت سے ملیں۔بس ایک پلوشہ تھی جو چاہ کر بھی اپنی بیزاری اُس سے چُھپا نہیں پائی تھی۔ اُن دونوں کو ڈرائنگ روم میں لے جاکر بٹھا دیا گیا اور سب باتوں میں مصروف ہوگئے۔عرشیہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ مسلسل کسی کی نظروں کے حصار میںہے۔ روحیل جو بظاہر فیروز صاحب سے باتوں میں مگن نظر آرہا تھا ،اُسکی بھرپور نِگاہیں عرشیہ کے صبیح چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔وہ اِسوقت اُسکے فیورٹ کلر نیوی بلو پر سلور کام کے گھیر دارپشواس اور چوڑیدار پاجامے میں روحیل کے این سامنے بیٹھی اُسکی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ حرا کی تنبیہ کارگر ثابت ہوئی تھی، آج اُسنے خود پر کافی وقت لگایا تھا۔
خوبصورت سُنہری آنکھوں پر باریک سا لائنر۔۔
ہونٹوں پر لگی گُلابی لِپ اِسٹک اُسکے چہرے کی تازگی میں اور نِکھار لارہی تھی۔۔
سوا دو گز کے دوپٹّے کواِ سٹول کی طرح سر پر باندھے۔۔
ایک ہاتھ میں سلورنگینوں کے کڑے اور دوسرے ہاتھ میں نیوی بلو چوڑیاں۔۔
پاؤں میں سِلور پازیب بھی ڈلی ہوئی تھیں۔۔۔ بِلاشبہ اُسکا پہننے اوڑھنے کا ذوق غضب کا مُتاثر کُن تھا۔۔
روحیل کتنی ہی دیر اُسے دیکھتا رہا اور آنکھوں کے راستے دل میں اُتارتا رہا۔روحیل نے اپنے آس پاس ہمیشہ لڑکیوں کو ننگے سر، چُست لباس اوربغیر دوپٹے دیکھا تھا۔ جس سوسائٹی سے وہ تعلق رکھتا تھا وہاں یہ سب عا م تھا لیکن اِسکے باوجود روحیل اُسکی شرم و حیا کا دیوانہ تھا۔پہلی بار عرشیہ کے اِسی محتاط انداز نے اُسے اپنا اسیر کیا تھا۔ پھر وہ اُسکی چاہ میں دیوانہ بنتا چلا گیا۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اِتنا گُم تھا کہ اُسے اندازہ بھی نہ ہوا کب فیروز صاحب اُس سے ایکسکیوز کرتے وہاں سے اُٹھ کر جاچکے تھے۔ کمرے میں اب صرف پلوشہ اور عرشیہ ہی موجود تھے۔ عرشیہ اُسے ہی گھور رہی تھی جو نجانے کب سے بِنا کسی کی پرواہ کئے اُسے دیکھے جارہا تھا۔ پلوشہ کی آواز نے اُسکی توجہ اپنی جانب کی۔
‘روحیل! ایسے کیا دیکھ رہے ہو بھابھی کو؟ کیا گھرمیں یہ تمھارے ہاتھ نہیں آتیں؟’ عرشیہ کو اُسکی بات سُن کر شدید طیش آیا۔ایک تو ویسے ہی اُسے روحیل پر غصہ آرہا تھااور پلوشہ کی بات نے تو سونے پر سہاگا کردیا۔
‘تمھیں کوئی تکلیف ہے ڈئیر؟ میری اپنی ملکیت ہے۔ جتنا اور جہاں چاہے دیکھوں۔اگر تمھیں کوئی پرابلم ہے تو تم یہاں سے اُٹھ کر جاسکتی ہو، تاکہ میں دوبارہ دیدار کرسکوں ۔ کم سے کم میرے سب سے اہم کام میں مداخلت نہیں ہوگی۔’ روحیل کا لہجہ چُبھتا ہوا تھا۔ پلوشہ کا چہرہ احساسِ تذلیل سے سُرخ پڑگیا۔عرشیہ کے سامنے اپنی اِتنی عزّت افزائی اُسے قتعاً قبول نہ تھی اسلئے بمشکل اپنا غصہ دباتی وہ نارمل لہجے میں بولی۔
‘ارے نہیں! میرا وہ مطلب نہیں تھا، تم خوامخواہ غلط سمجھ رہے ہو۔’
‘اب ایسی باتیں کروگی تو میں ہار پھول تو پہناؤنگا نہیں ۔ چلو جاؤ خالہ جانی کی ہیلپ کرو جاکر۔’ روحیل نے اطمینان سے کہا اور پلوشہ کو اُٹھنا پڑا۔
‘میں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں پلوشہ۔’ عرشیہ اُسکے ساتھ جانے کے اِرادے سے آگے بڑھی لیکن روحیل کے قریب پہنچتے ہی اُس نے اُسے پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔
‘تم تو یہیں بیٹھو۔’
‘مم۔۔۔ میں۔۔ وہ۔۔’ وہ پلوشہ کے سامنے روحیل کی اِس اچانک حرکت پر سٹپٹا گئی
‘میں وہ کچھ نہیں۔ تم مہمان ہو یہیں بیٹھی رہو میرے پاس!’ پلوشہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی اور عرشیہ بمشکل وہاں ٹِکی رہی۔ دوسروں کا گھر تھا ، یہاں وہ کوئی تماشا نہیں کرنا چاہتی تھی اِسلئے چُپ چاپ بیٹھ گئی تھی۔روحیل نے اُسکی چوڑیوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ ایک ترنگ میں بج اُٹھیں۔
‘بہت خوبصورت لگ رہی ہو آج تم۔ ایسے ہی تیار ہوکر رہا کرو نا، اچھی لگتی ہو۔ نیوی بلو میرا فیورٹ کلر ہے اور اِسوقت تم پہ اتنا جچ رہا ہے، دل چاہ رہا ہے کہ۔۔۔۔’

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!