صبح عرشیہ کے اُٹھنے سے پہلے وہ آفس جاچکا تھا۔عرشیہ معمول کے مُطابق چھوٹے موٹے کام کرنے لگی۔ حرا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اُس نے اپنے ہاتھوں سے روحیل کی من پسند چائنیز ڈشز تیار کیں اور شام تک تمام کاموں سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں تیار ہونے چل دی۔ آج اُسکے انگ انگ میں سر مستی پھوٹ رہی تھی۔ آج وہ روحیل سے اپنی ساری غلطیوں کی معافی مانگنا چاہتی تھی۔ اور وہ اعتراف کرنا چاہتی تھی جسے سُننے کیلئے روحیل آج تک اِتنا بے قرار رہا تھا۔ اُسنے وارڈروب سے روحیل کا من پسند نیوی بلو کلر کا ایک خوبصورت کشمیری امبرائیڈری کا ڈریس نکالا اور باتھروم میں گُھس گئی۔ نہا کر باہر نکلی۔آج اُسکا حسن اور بھی نکھر گیا تھا۔ اِتنے دنوں کی بیماری کے بعد آج وہ بہت فریش فیل کر رہی تھی۔کانوں میں چھوٹے سے کُندن کے ٹاپس پہن کر اُس نے بالوں کو پیچھے کُھلا چھوڑدیا۔ وہ جانتی تھی کہ روحیل کو اُسکے بال بہت پسند ہیں۔ ابھی وہ ہلکی سی لِپ اِسٹک لگا کر اپنے سراپے کا جائزہ لے رہی تھی کہ روحیل کی گاڑی کا ہارن بجا۔ اُسکا دل معمول سے کچھ ہٹ کر دھڑکا۔وہ مسکراتی ہوئی باہر آگئی۔روحیل لاؤنج میں بیٹھا حرا سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ پانی کا گلاس لئے وہیں چلی آئی۔اُس نے بے رُخی سے اُسکے سلام کا جواب دیااور اُسکے ہاتھ سے گلاس لے لیا۔
‘ارے ماشاء الّلہ! آج تو میری بیٹی بہت ہی پیاری لگ رہی ہے۔ الّلہ نظر نہ لگائے اِسے!’ حرا نے اُسکی نظر اُتاری پر روحیل کچھ بھی نہ بولا سوائے ‘آمین’ کے۔عرشیہ کے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن ابھی اُسے یہ سب برداشت کرنا تھا۔ اُس نے ٹیبل پر بھی تھوڑا سا کھانا کھایا اوروہاں سے اُٹھ گیا جبکہ اُسکی پسند کی ہر ڈش وہاں موجود تھی۔وہ اُسکی اِس حرکت پر بہت افسردہ ہوئی لیکن پھر بھی ہار نہیں مانی، کتنی محنت سے اُسنے پورا دن لگا کر کھا نا بنایا تھا اور روحیل نے ٹھیک سے کھایا تک نہ تھا۔وہ اُسکے پیچھے ہی کمرے میں آئی جب وہ کمرے کے این وسط میں کھڑا نجانے کیا سوچ رہا تھا۔عرشیہ نے دروازہ لاک کیا تو وہ چونک کر مُڑا اور عرشیہ کو سامنے دیکھتے ہی وہ اُسے نظر انداز کرتا بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا۔اب جبکہ وہ ہتھیار ڈال چکی تھی تو اُسے پیش قدمی کرنے میں کوئی آر محسوس نہ ہوئی۔ ایک طویل عرصہ وہ اُسکی بد مِزاجی و تیوروں کی زد میں رہ چکا تھا۔ اُسکی ہر ذیادتی اور بد تمیزی کو خندہ پیشانی سے ہنس کر سہا تھا۔ ۔اب باری اُسکی تھی۔۔ اُسے بھی اب سب کچھ برداشت کرنا تھا۔ اور اُسے منانا تھا۔عرشیہ کے لبوں پر ایک دِلفریب مسکراہٹ آگئی ، وہ آگے بڑھی اور روحیل کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گئی۔
‘تم ناراض ہو مجھ سے؟’ سامنے بالکل خاموشی تھی
‘مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے؟؟ ‘ روحیل اب بھی اُسے نظر انداز کر رہا تھا
‘تم غصے میں بالکل اچھے نہیں لگتے۔’ جواب ندارد
‘روحیل آئی ایم سوری! تمھارے اتنی دیر تک نہ آنے پر میں بہت پریشان ہوگئی تھی اِسلئے۔۔۔’
‘چُپ! بالکل خاموش ہوجاؤ۔ یہ قدم اُٹھانے سے پہلے تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا کہ اگر تمھیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا ہوگا؟ پر تمھیں میری کیا فِکر!کیا پرواہ ہے! میں تم سے سخت ناراض تھا پر تم نے ایک بار بھی مجھے منانے کی کوشش نہیں کی۔تمھیں میری ناراضگی سے کیافرق پڑتا ہے؟ یہی اہمیت ہے تمھاری زندگی میں میری؟ تو اب تم دیکھو!’ وہ سانس لینے کو رُکا پھر بیڈ سے اُٹھ کر اپنا رُخ موڑتا ہوا بولا
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
‘میں بتاؤنگا تمھیں کہ جب کسی کے سچے اور پاکیزہ جذبوں کواِتنی بے دردی سے روندھا جاتا ہے نا تو کیا ہوتا ہے۔بہت خوار ہوا ہوں میں تمھارے پیچھے۔ اب تم اِس روےّے کی عادت ڈال لو۔’ وہ رُخ موڑ کر عرشیہ کو سُنائے جارہا تھا یہ جانے بِنا کہ اُسکے دل پر اِسوقت کیا گُزر رہی ہے
‘اور ہاں ! جتنا میں بھاگا ہوں تمھارے پیچھے اب اُتنا ہی تمھیں بھاگنا ہے ۔بہت آزمایا ہے تم نے مجھے، اب تمھاری باری ہے! سمجھ رہی ہو نا میری بات ؟’ وہ رُخ موڑے ہی بات کر رہا تھا۔ عرشیہ بالکل خاموش تھی۔اُسکی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگیں اور وہ بے آواز رونے لگی۔ اُسکے اِتنی دیر کچھ نہ بولنے پر وہ جھنجھلا کر بولا۔
‘سُن رہی ہو تم؟’ وہ جیسے ہی پیچھے پلٹا عرشیہ کا چہرہ دیکھ کر سناٹے میں آگیا۔ اُسکا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر ہورہا تھا اور وہ اثبات میں سر ہِلا رہی تھی۔
‘اوہ شِٹ! یہ تم۔۔ تم رو کیوں رہی ہو یار؟’ یہ سُنتے ہی وہ اور شِدت سے رونے لگی۔ روحیل نے آگے بڑھ کر فوراً اُسکے آنسو صاف کئے اور اپنائیت سے بولا۔
‘آئی ایم سوری! میں مذاق کر رہا تھا یار۔ تم نے جو اِتنا ستایا ہے مجھے کیا میرا اتنا سا ستانے کا بھی حق نہیں بنتا؟’ وہ کہیں سے بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے والابدمزاج روحیل نہیں لگ رہا تھا ۔ عرشیہ نے پلکیں اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ بلیک جینز پر وائٹ اور فان کلر کی حالف سلیوز کی ٹی۔شرٹ پہنے وہ عرشیہ کے دل کی دھڑکن بڑھا رہا تھا ۔
‘یہ مذاق تھا؟’
‘ہاں مسز یہ سو فیصد مذاق تھا۔’ وہ مسز کہنے پر چونکی پھر مسکرا کر اُسے دیکھنے لگی۔ روحیل نے بغور اُسے دیکھا۔آج وہ ہمیشہ سے زیادہ دل کے قریب لگی۔ حسین چہرے پر دلکشی اور شگفتگی لوٹ آئی تھی۔ کمرے کی فینسی لائیٹس کی روشنی میں اُسکا حسن دمک رہا تھا۔۔
خوبصورت سُنہری آنکھوں میں اب بھی نمی تھی۔۔
سُرخ عارضوں پر جُھکی لرزاں دراز پلکوں کے خم۔۔
ستواں ناک میںڈائمنڈ کی چمکتی لونگ۔۔
وہ اُسے کتنے ہی پل دیکھتا رہا اور اُس پر ٹوٹ کر پیار آنے لگا۔۔ کیوں تھی وہ اتنی پیاری کہ دل اُس سے کچھ پل بھی ناراض نہ رہ سکا تھا۔وہ گوشیانہ انداز میں گُنگُنایا۔
‘چُنا ہے تم کو دیوانے دل نے، اِسے نہ تڑپاؤ،
جوان موسم گُزر نہ جائے، قریب آجاؤ!’
عرشیہ شرما کر سر جُھکا گئی۔ یہ پہلی بار تھا جب اُسے روحیل سے شرم محسوس ہورہی تھی۔اُسکے رُخصار روحیل کی گہری نِگاہوں سے تپ اُٹھے جبھی وہ وہاں سے جانے لگی۔روحیل نے اُسکے آگے ہاتھ لاکر اُسے کہیں بھی جانے سے روک دیا۔
‘ارے کدھر؟ مجھ سے بھاگ بھاگ کر تھکی نہیں ہو جو ابھی بھی کوششیں جاری ہیں؟’ وہ بلش کر گئی۔ روحیل نے اُسکے گُلابی ہاتھ اپنے ہاتھوhttps://alifkitab.com/wp-admin/edit.php?post_type=elementor-hfں میں لئے۔اُسکے ہاتھوں کی لرزش روحیل کو بخوبی محسوس ہوئی۔ وہ اِتنی کانفیڈینٹ ہونے کے باوجود بھی کنفیوز ہورہی تھی۔روحیل اُسکی انہی سادہ اور معصوم اداؤں کا تو اسیر تھا۔ کچھ دیر اُسکی حالت کو انجوائے کرتا ہوا بولا۔
‘کچھ کہوگی نہیں؟’
‘آئی ایم ویری سوری روحیل! میں نے تمھیں بہت تنگ۔۔۔۔’
‘اوہو! یہ کیا کہہ رہی ہو؟ اب بھی وہ نہیں کہوگی جس کو سُننے کیلئے میرے کان ترس گئے ہیں؟ پچھلے کئی سالوں سے جس اظہار کو سُننے کیلئے میں بے قرار ہوں!’ وہ اُسکی معافی والی بات کو کاٹتا ہوا شرارت سے اُسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ وہ اطمینان سے روحیل کے دلکش چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی۔
‘محبت کے اظہار کو لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی!’
‘ہوتی ہے۔ بالکل ہوتی ہے! کم سے کم جب تک میں تمھارے منہ سے سُن کر یقین نہ کرلوں مجھے چین نہیں پڑیگا۔’ وہ فوراً نظریں جُھکا گئی۔وہ لمحے بھر کو رُک کر دوباہ بولا۔
‘پلیز کہو کہ تم بھی مجھے چاہتی ہو۔ ایک بار میری طرف دیکھ کر کہہ دو نا پلیز۔ اچھا ایک نظر دیکھو تو!’ وہ جذبے لُٹاتے لہجے میں بولا تو عرشیہ کا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔
‘اگر تم نے مجھے تنگ کیا نا تو میں۔۔۔’
‘ہاں تو کیا؟؟
‘تو میں ممی کو بتادونگی۔’
‘اچھ۔۔۔چھا! جاؤ جاؤ شوق سے بتاؤ۔۔ ویسے کیا بتاؤگی؟’ وہ اُسکے ہاتھ چھوڑ کر سینے پر بازو لپیٹے وہیں اُسکی راہ میں حائل ہوکر پھیل کر کھڑا ہوگیا۔پُرشوق نظریں عرشیہ کے چہرے پر تھیں۔ وہ کچھ دیر بعد بولی۔
‘روحیل!’
‘جی فرمائیے! آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟’ وہ اپنی طرف اُنگلی کا اِشارہ کرتے ہوئے بولا اور عرشیہ نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی
‘مذاق مت کرو نا، سُنو تو’
‘جی جی سُنائیے نا! میں ہمہ تن گوش ہوں’ وہ پوری سعادتمندی سے سر کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے دِل پر ہاتھ رکھ کر بولا اور اُسے یقین تھا کہ عرشیہ اب اِظہارِ محبت کریگی۔ وہ اُسے ہی تک رہا تھا۔
‘مجھے تنگ مت کرو!’
‘وہاٹ۔۔۔۔؟’ وہ اُچھل پڑا۔عرشیہ اُسے شاک کے عالم میں دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اپنا دِفع کرنے بھاگ کر بیڈ کی دوسری طرف جاکر کھڑی ہوگئی اور تکیہ اُٹھا کر اپنے سامنے کرلیا۔روحیل اُسکی شرارت کو سمجھتے ہوئے خوفناک تیوروں سے اُسکی جانب بڑھا اور پھر اُسکے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر تکیہ کھینچ کر سائیڈ میں پھینکا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔
‘لڑکی! بہت تنگ کیا ہے تم نے مجھے۔ بہت تڑپایا ہے۔ بہت ستایا ہے۔ بہت آزمایا ہے۔ اب ختم کرو میری یہ سزا۔’ عرشیہ کو اِسوقت وہ بہت معصوم لگا۔ جب سے محبت نے اپنا در وا کیا تھا تب سے عرشیہ کو یہ زندگی اور بھی خوبصورت لگنے لگی تھی۔آج وہ اِتنا بھلا لگ رہا تھا تبھی وہ اُسے مزید چِڑانے کا اِرادہ ترک کرکے،اپنے کمرے کی کھڑکی میں آتی بوگن ویلیا کی بیل سے ایک سُرخ پھول توڑ کر آگے بڑھی اور روحیل کے کالر میں لگادیا۔ بہت ہی سادہ اور معصوم انداز تھا اِظہارِمحبت کا ۔ روحیل تو اُسکے اِس انداز پر دل و جان سے فِدا ہی ہوگیا۔ اُسکا اِظہارِمحبت کا انداز بھی اُسکی طرح سب سے مُنفرد اور انوکھا تھا۔
‘مجھے تم سے محبت ہے روحیل! مجھے تم سے شدید محبت ہے!’ روحیل کے چہرے پر آئے محبت کے رنگ بہت ہی خوبصورت تھے ۔ وہ اُسے نرمی سے اپنے برابر بِٹھا تے ہوئے اُسکے چہرے پر جھولتی لٹ کو کھینچ کر بولا۔
‘تھینک یو عاشی! تھینک کیو سو مچ۔ آج تم نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔ آج میں بہت بہت خوش ہوں مائی لو(My LOVE)۔’
‘آپ اب بھی ناراض ہیں مجھ سے؟؟’ وہ اپنی سنہری آنکھوں میں بے حد اپنائیت اور محبت لئے پوچھ رہی تھی
روحیل کا دل باغ باغ ہوگیا۔یہی تو وہ چاہت تھی جسے پانے کیلئے وہ صدیوں کا سفر طے کرکے آج یہاں تک پہنچا تھا۔یہی تو وہ کِرن تھی جس کی تلاش میں وہ کئی بار اندھیر نگریوں میں بھٹکا تھا۔زرد رُتوں کا سویر١ اب طلوع ہونے کو تھا۔ محبت کا یقین آنے پر وہ سرشار لہجے میں بولا۔
‘ہائے یہ آدابِ محبت کے تقاضے ساغر،
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا!’
وہ سر نفی میں ہلاتا ہوا پورے جذب سے کہہ رہا تھا۔ عرشیہ نے مسکرا کر اُسکے کُشادہ کندھوں پر اپنا سر ٹِکادیا۔روحیل نے اُسکے گِر د بازو حمائل کئے اور اُسکے ماتھے پر آئیں شریر لٹیں ہٹا کر اپنا سر بھی اُسکی پیشانی سے ٹِکا دیا۔
پچھلے دِنوں گُزرا بس وہ ایک لمحہ تھا جس کے بعد عرشیہ اُس سے محبت کرنے پر مجبور ہوگئی تھی اور روحیل کے تمام اشکِ وفا بارگاہِ اِلٰہی میں قبول کرلئے گئے تھے ۔ وہ دونوں ایک دوجے کے سنگ آنے والے خوبصورت وقت کے بارے میں سوچنے لگے جہاں بے شُمار خوشیاں بانہیں کھولے اُن کا اِستقبال کر رہی تھیں۔اور اب اُنکو ہر موسم کی اُتری شاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔۔۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});