اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

موسلا دھار بارش اور بادلوں کی گرجدار آواز سے وہ ہڑبڑا کر اُٹھی۔اُسکا سر بہت بھاری ہورہا تھا۔ اُسنے اپنا سر تھام کر کمرے میں اطراف کا جائزہ لیا۔کمرے میں اُسکے علاوہ اور کوئی موجود نہ تھا۔حرا شاید کہیں باہر گئی تھیں اور روحیل بھی موجود نہ تھا۔نجانے کیوں لیکن آج ایک عجیب سا ڈر اور بے چینی وہ اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔اُس واقعے کے دو دن بعد وہ ٹھیک طرح سے ہوش میں آئی تھی۔حرا ہر وقت اُسکے پاس رہتیں اور روحیل بھی بہت ضروری کام کے علاوہ گھر پر ہی موجود رہتا تھا۔ روحیل کا خیال آتے ہی وہ تیزی سے بیڈ سے اُٹھی۔وہ کئی گھنٹوں سے دوا کے زیرِاثر سو رہی تھی اور اُسنے صبح کے بعد سے روحیل کو دیکھا نہ تھا۔وہ اُسے ڈھونڈتی ہوئی نیچے اُتر آئی۔پورے گھر میں ڈھونڈنے کے بعد بھی وہ ناکام رہی روحیل اُسے کہیں بھی دِکھائی نہ دیا، مُلازمہ کو بُلا کر پوچھا۔
‘سُنو! روحیل صاحب کہا ں ہیں؟’
‘پتا نہیں چھوٹی بی بی۔ بڑی بیگم کو پتا ہوگا آپ اُن سے پوچھ لیں۔ آپ کیلئے کچھ لاؤں؟؟’
‘ہوں! نہیں ٹھیک ہے تم جاؤ ابھی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے’ وہ حرا بیگم کے کمرے میں آگئی۔ وہ جانماز طے کر رہی تھیں عرشیہ کو دیکھ کر بولیں۔
‘ارے بیٹا تم یہاں کیوں آگئیں؟ کچھ چاہئیے تھا تو کسی سے کہہ دیا ہوتا۔ چندا تمھاری طبیعت ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوئی ہے۔’
‘ممی! روحیل کہاں ہیں؟ نظر نہیں آرہے۔’ وہ اُنکی باتوں کے جواب میں بس مُسکرا سکی
‘ہاں بیٹا! پتا نہیں کچھ بتا کر بھی نہیں گیا۔ دوپہر کا نِکلا ہوا ہے بس کہہ کر گیا تھا کہ کسی ضروری کام سے جارہا ہوں۔ باہر موسم بھی اِتنا خراب ہورہا ہے مجھے تو اب ٹینشن ہورہی ہے۔ ذرا تم فون کرکے پتا کرو اُس سے کہ کہاں ہے۔’ عرشیہ اثبات میں سر ہلاتی باہر گئی اور مُلازمہ کو بھیج کر کمرے سے اپنا فون منگوایا ۔اُسے اکیلے میں آج بہت ڈر لگ رہا تھااِسلئے وہ فون لیکر حرا بیگم کے کمرے میں ہی چلی آئی۔ وہ عجیب سی وحشت اور خوف کا شِکار ہورہی تھی۔کچھ طبیعت کی خرابی بھی اِسکی وجہ تھی اور اب روحیل کو نہ پاکر وہ پریشان ہوگئی تھی۔
وہ روحیل سے مُسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اُسکا موبائل آف جارہا تھا۔ عرشیہ کو غصہ آنے لگا (یہ کوئی وقت ہے اِسطرح موبائل بند کردینے کا) پھر اُسنے آفس کے لینڈلائن پر کال مِلا دی۔ اور ریسیپشنِسٹ (receptionist) نے جو کچھ بتایا وہ اُسے بے تہاشا پریشانی میں مُبتلا کرچُکا تھا۔وہ کال بند کرتے ہی حرا سے بولی۔
‘ممی! وہ تو کہہ رہی ہے کہ اُنھیں آفس سے نکلے دو گھنٹے ہوچُکے ہیں تو اب تک پہنچے کیوں نہیں گھر؟’
‘اوہ! بس بیٹا پھر آنے والا ہی ہوگا۔ موسم بھی تو خراب ہورہا ہے نا تو راستے بھی خراب ہونگے۔ تم پریشان مت ہو۔ آؤ یہاں بیٹھو!’ وہ اُسے اپنے ساتھ لئے بیڈ پر آگئیں۔ لیکن وہ زیادہ دیر بیٹھ بھی نہ سکی۔ کچھ دیر بعد دوبارہ اُٹھ کر ٹہلنے لگی۔حرا اُسکی پریشانی دیکھتے ہوئے اپنائیت سے بولیں۔
‘عرشیہ میری جان! کب تک یونہی ٹہلتی رہوگی؟ طبیعت نہیں ٹھیک تمھاری، ابھی آجائیگا روحیل۔ بیٹھ جاؤ آکر!’ لیکن اُسکا اِنتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا۔ رات کے سات سے آٹھ ، آٹھ سے نو اور یہاں تک کہ گیارہ بج گئے تھے پر روحیل کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ اب تو حرا بھی سخت پریشان ہوگئی تھیں۔وہ بار باراُسکا موبائل مِلا رہی تھی لیکن اُسکا موبائل مسلسل آف جارہا تھا۔ اُسنے آفس فون مِلایا تو وہاں بھی بیل جاتی رہی،کسی نے فون نہ اُٹھایا۔روحیل کے نمبر پر دوبارہ کال لگائی اور فون بند دیکھ کر اُسنے جھنجھلا کر اپنا موبائل دیوار پر دے مارا۔ وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔اب اُسکی پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ بارش زوروں سے ہورہی تھی اور روحیل کا اِتنے گھنٹے گُزر جانے کے بعد بھی کچھ پتا نہ تھا۔اُن دونوں نے تقریباً اُسکے ہر دوست کو کال کرکے پوچھ لیا تھا پر کسی کو کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ اُسے طرح طرح کے وہم اور بُرے خدشات اب ستانے لگے تھے۔وہ مزید گھر میں بیٹھی نہیں رہ سکتی تھی اِسلئے ممی سے بولی۔
‘میں جارہی ہوں ممی!’

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
‘کہاں جارہی ہو؟ باہر موسم بہت خراب ہے بیٹا!’ حرا اِس بات پر حیران ہوئیں
‘بس ممی! اب مجھ سے اور صبر نہیں ہوگا۔ میں روحیل کو ڈھونڈنے جارہی ہوں۔’
‘عرشیہ پاگل مت بنو! اِسوقت ڈرائیور بھی نہیں ہے، اتنی تیز بارش میں کہاں جاؤگی تم؟’
‘کہیں بھی جاؤنگی کیسے بھی ڈھونڈونگی ممی لیکن اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہاں بیٹھی نہیں رہ سکتی۔ آپ بالکل پریشان مت ہوں مجھے ڈرائیونگ آتی ہے۔’ وہ کوریڈور میں بھاگتی ہوئی بولی۔
‘پر بیٹا۔۔۔۔’
‘ممی پلیز! مجھے جانا ہوگا۔ مت روکیں مجھے!’ وہ اپنے کمرے سے چادر اوڑھ کر باہر نکل آئی
‘اچھا رکو پھر میں بھی چلتی ہوں تمھارے ساتھ۔’ حرااُسے اکیلے بھیجنے پر راضی نہیں تھیں
‘نہیں ممی! روحیل اگر گھر آگئے تو ہم میں سے کسی کو بھی نہ دیکھ کر پریشان ہوجائیں گے اِسلئے آپ گھر پر ہی رُکیں ‘ وہ تیزی سے سِلورسِوک نِکال کر گیٹ سے باہر لے گئی اور حرا بیگم اُسے روکتی رہ گئیں۔اب تو اُسے بھی جاکر ایک گھنٹہ ہونے والا تھا۔ اُنکا دِل دہل رہا تھا۔ وہ باہر کوریڈور میں کھڑی اُن دونوں کا اِنتظار کرتی یہاں سے وہاں ٹہلنے لگیں اور اطمینان تب ہوا جب گیٹ سے اندر آتی بلیک سِٹی پورچ میں داخل ہوئی لیکن یہ اطمینان بھی لمحہ بھرکا ثابت ہوا جب اُنھوں نے روحیل کو اکیلے گاڑی سے اُترتے دیکھا۔وہ گاڑی بند کرکے وہیں چلا آیا۔
‘روحیل کہاں تھے تم؟ جانتے ہو ہم کتنے زیادہ پریشان ہوگئے تھے!’
‘سوری ممی! موسم اتنا خراب تھا اور اوپر سے موبائل کے سِگنلز آنا بند ہوگئے تھے اِسی لئے میں کوئی رابطہ نہ کرسکا۔’
‘بتا تو دیتے بیٹا! تمھارے آفس فون کیا تو پتا چلا کہ تم پانچ بجے ہی نکل چُکے ہو۔’ حرا اب عرشیہ کیلئے سخت فکرمند ہورہی تھیں( پتا نہیں وہ اِسوقت کہاں ہوگی موبائل بھی لیکر نہیں گئی)
‘ہاں ممی! میں نے آپریٹر کو اپنے نکلنے کی اطلاع دے دی تھی لیکن اچانک اتنی تیز بارش شروع ہوگئی کہ میں نکل نہیں سکا۔ خیراب تو آگیا ہوں نا۔ اور آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں؟ عرشیہ کیسی ہے؟ اُسکی طبیعت آج کیسی رہی؟’ وہ اُنھیں ساتھ لئے آگے بڑھا جب وہ بولیں۔
‘بیٹا وہ عرشیہ۔۔!’
‘کیا ہوا ممی؟ وہ ٹھیک تو ہے نا؟’ روحیل اُنکی طرف پلٹا تو وہ فکرمندی سے بولیں
‘بیٹا وہ اتنی زیادہ پریشان ہوگئی تھی کہ جب اِتنے گھنٹون تک تم نہ آئے وہ گاڑی لیکر تمھیں ڈھونڈنے نکل گئی اور اب تو اُسے جاکر بھی گھنٹے سے اوپر ہوگیا ہے۔’
‘وہاٹ؟’ روحیل کے اندر سنسناہٹ دوڑ گئی۔ وہ باہر کا حال دیکھ کر آرہا تھا۔ راستوں کا بُرا حشر تھا جگہ جگہ پانی کھڑا تھا۔ اتنی خوفناک بارش اور سُنسان رات میں وہ اکیلی گاڑی لئے نکل گئی۔ روحیل کو اُس پر بے پناہ غصہ آیا۔
‘میں نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی پر وہ بہت پریشان ہوگئی تھی بیٹا!’
‘اوہ شِٹ! آپ اندر جائیں ممی میں دیکھتا ہوں۔ انتہائی بیوقوف لڑکی ہے وہ اُسکی طبیعت بھی اتنی خراب تھی اور اندھیرے میں اکیلے بہت ڈرتی ہے وہ!’ وہ اندر سے چھتری لے آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگا لے گیا۔قریب آدھے گھنٹے تک اُسے ڈھونڈنے اور خوار ہونے کو بعد گھر سے کچھ فاصلے پر بنی ایک کچّی سڑک پر اُسکی نِگاہ گئی جہاں درخت سے لگی سِلور سِوک کھڑی تھی۔ جسکی ہیڈ لائیٹس آن تھیں۔اندھیرے کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن وہ گاڑی درخت سے ٹکرائی تھی۔ وہ انتہائی رف ڈرائیونگ کرتا ہوا اپنی گاڑی اُسکے برابر لے گیا اور فرنٹ ڈور کھولتے ہی تقریباً بھاگتا ہوا دوسری گاڑی تک پہنچا۔گاڑی کا دروازہ کُھلا ہوا تھا ۔اُسنے جیسے ہی اندر جھانکا کچھ لمحوں کیلئے وہ ساکت رہ گیا۔عرشیہ کا سر اِسٹئیرنگ پر رکھا ہوا تھا ۔اُسنے اُسکا سر پیچھے کیا اور چکرا کر رہ گیا۔اُسکے ماتھے اور ناک سے خون رِس رہا تھا۔ سردی کی وجہ سے اُسکے ہونٹ بالکل نیلے پڑ گئے تھے۔ وہ پتا نہیں کب سے اِس حال میں یہاں تھی۔ روحیل نے تڑپ کر اُسکا گال تھپتھپایا ۔عرشیہ نے بمشکل تھوڑی سی آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا اور مسکرائی۔
‘روحیل تم آگئے! میں نے تم سے کہا تھا نا کہ مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا!’ اُسکی آنکھیں بند ہوگئی تھیں اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر سیٹ پر ہی جھول گئی۔
‘عاشی! پلیز آنکھیں کھولو۔ اوہ گاڈ!’ روحیل نے لمحہ ضائع کئے بِنا اُسے اپنے مضبوط بازوؤں میں اُٹھایا اور اپنی گاڑی کی بیک سیٹ پر لِٹا دیا۔ دوسری گاڑی لاک کرکے اُسنے اُپنی گاڑی اِسٹارٹ کردی۔ وہ بے حد تیز ڈرائیونگ کر تا حُذیفہ کے اسپتال پہنچا ۔ روحیل اُسے گود میں ہی اُٹھائے ایمرجنسی وارڈ کی طرف بڑھ رہا تھا جب پیچھے سے اُسے حُذیفہ کی آواز آئی۔
‘روحیل بھائی آپ اِسوقت یہاں؟’ وہ سامنے آیا تو عرشیہ کو اُسکے ہاتھوں میں اِس حالت میں دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا
‘اوہ نو! کیا ہوا بھابھی کو؟ یہ اِنکی حالت ایسی کیوں ہورہی ہے؟’
‘حُذیفہ پلیز جلدی کرو۔اِسے اِسوقت ٹریٹمنٹ کی سخت ضرورت ہے۔’ پریشانی اور بدحواسی میں اُس سے بات بھی نہیں کی جارہی تھی۔ اُسے ایمرجنسی وارڈ میں شِفٹ کردیا گیا۔ حّذیفہ نے گھر فون کرکے رابیل کو بلا لیا تھا ۔اسوقت روحیل کو کسی کے بھرپور ساتھ اور ہمت کی ضرورت تھی۔ دس منٹ میں رابیل اسپتال آگئی تھی، اُسکا سسرال یہاں سے بہت قریب تھا اور اب بارش کا زور بھی ٹوٹ چُکا تھا۔وہ تیر کی تیزی سے راہداری میں چل رہی تھی جہاں روحیل اُسے سامنے بے قراری سے ٹہلتا نظر آیا۔
‘جانی بھائی کیا ہوا بھابھی کو؟ اتنی طبیعت کیسے بِگڑ گئی اِنکی؟’ وہ بجائے کوئی بات کرنے کے ایسے ہی ٹہلتا رہا۔ اُسکا چہرہ دُکھ اور تکلیف کا عکاس تھا۔ وہ کتنے ضبط سے کام لے رہا تھا رابیل اچھے سے جانتی تھی تبھی اُسے زبردستی بینچ پر بِٹھاتے ہوئے نرمی سے بولی۔
‘بھائی! بھابھی بالکل ٹھیک ہوجائینگی۔ آپ اتنا پریشان کیوں ہورہے ہیں؟’
‘رابی! رابی! یہ لڑکی مجھے کبھی سکون سے نہیں رہنے دیتی۔ ہمیشہ مجھے بے چین رکھتی ہے!’ رابیل کو وہ اسوقت بہت ٹوٹا بکھرا لگا جیسے سا تھک گیا ہو اپنے حالات سے۔
‘جانی بھائی پلیز سنبھالیں خود کو۔ کچھ نہیں ہوگا بھابھی کو جب تک آپ اُنکے ساتھ ہیں۔’
‘ہاں روحیل بھائی! رابی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ آپکے ہوتے ہوئے بھابھی کو کبھی کچھ ہوسکتا ہے؟ باکل بے فکر ہوجائیں۔ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔سردی کی وجہ سے اُنکی حالت اچانک بِگڑ گئی تھی لیکن فوری طور پر ٹریٹمنٹ مل جانے سے اب وہ ٹھیک ہیں۔ میں نے اُنھیں نیند کا اِنجکشن دیا ہے۔ ابھی سورہی ہیں۔ایک دو گھنٹے بعد آپ اُنھیں گھر لے جا سکتے ہیں۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے!’ وہ اُسکے شانے پر ہاتھ رکھے مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ روحیل کو اپنے اندر ایک سکون اُترتا محسوس ہوا۔
‘تم سچ کہہ رہے ہو نا؟ یا الّلہ تیرا شُکر ہے!’
‘جی میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ آپ اُن سے ایک گھنٹے میں مل سکتے ہیں۔’ وہ خوشدلی سے بتا رہا تھا۔ رابیل اور روحیل دونوں اُسکو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ایک گھنٹے بعد وہ نیند سے جاگی تھی۔ تبھی حُذیفہ اُن دونوں کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ وہ اُن تینوں کو دیکھ کر ہلکا سا مُسکرائی۔ وہ کچھ کمزور لگ رہی تھی لیکن اب اُسکی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی۔ وہ تکیوں کے سہارے اُٹھنے لگی جب حُذیفہ بولا۔
‘ارے۔۔ رے۔۔ بھابھی! لیٹی رہیں کچھ دیر۔ آپکو آرام کی ضرورت ہے۔ کیسا فیل کر رہی ہیں اب آپ؟’
‘ بہت بہتر!’ وہ مختصر جواب دے کر خاموش ہوگئی۔وہ نوٹ کر رہی تھی کہ روحیل نے آکر اُسکی خیریت تک معلوم نہیں کی تھی بلکہ دور صوفے پر بیٹھ گیا تھا اور اُسے مکمل نظر انداز کر رہا تھا۔
‘یس! بِکوز یو ہیو آ ویری لونگ اینڈ کئیرنگ ہزبینڈ(yes! Because u have a very loving and caring husband)!
رابیل چہکی تو عرشیہ روحیل کو دیکھ کر مسکرا دی۔ وہ بہت ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ اُسکی لائیٹ پرپل شرٹ پر خون کے قطرے تھے جو عرشیہ کے ماتھے سے لگے تھے۔
‘ہم گھر کب جائینگے؟’ وہ حُذیفہ سے پوچھ رہی تھی۔ اُسے روحیل کی خاموشی سے اُلجھن ہورہی تھی اِسلئے وہ جلد سے جلد گھر جانا چاہتی تھی۔
‘اب آپ گھر جاسکتی ہیں۔ روحیل بھائی! کچھ پیپرز پر آپکے سائن چاہئیے۔ اِٹس جسٹ آ فارمیلیٹی(Its just a formality) آئیے!!’ وہ صوفے سے اُٹھ کر چپ چاپ اُسکے ساتھ باہر کو چل دیا اور اُسکے جانے کے بعد رابیل نے اُسے سب بتادیا کہ روحیل اُسکے لئے کتنا زیادہ پریشان اور فکرمند ہوگیا تھا۔ جب تک اُسے ہوش نہ آیا وہ بے چینی سے ٹہلتا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے گھر کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ وہ وِنڈ اِسکرین پر نظریں جمائے خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ عرشیہ اُسی کو دیکھ رہی تھی، کچھ دیر بعد اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔
‘روحیل۔۔ آئی ایم سوری۔۔ میں!’
‘چپ! بالکل چپ! مجھے تم سے اِسوقت کوئی بات نہیں کرنی۔ پلیز خاموشی سے بیٹھی رہو!’ اُسنے ایسی لا تعلقی ظاہر کی کہ عرشیہ کچھ بھی اور نہ کہہ سکی۔گھر واپس آتے ہی وہ نائٹ سوٹ بدل کر فوراً ہی لیٹ گیا اور عرشیہ کے کمرے میں آنے تک وہ نیند کی آغوش میں تھا۔ وہ گہری نیند سورہا تھا۔ تھک بھی تو اِتنا گیا تھا وہ۔آج کی مسلسل بھاگ دوڑ کے بعد وہ اِتنا تھک گیا تھا کہ بیڈ پر گِرتے ہی سوگیا۔ عرشیہ اُسے خاموش نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں یہ شخص اُسے دل و جاں سے عزیز ہوگیا تھا۔ پر وہ عرشیہ سے ناراض تھا۔۔ اُسے ہر حال میں منانا تھا،پر کیسے؟؟ یہ عرشیہ اچھے سے جانتی تھی۔وہ مسکراتی ہوئی لائیٹس آف کرکے خود بھی لیٹ گئی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Read Next

تائی ایسری — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!