اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

‘اچھا اب تم سونے کی کوشش کرو۔اِسوقت تمھیں آرام کی سخت ضرورت ہے۔’
‘نہیں میں سونگی تو تم چلے جاؤگے مجھے چھوڑ کر۔’ اُسکی بات پر روحیل بے ساختہ مسکرا دیا
‘ارے بابا میں کہیں نہیں جارہا پرامس! تم سو کر اُٹھوگی میں تب بھی یہیں ہونگا تمھارے پاس! چلو شاپاش اب آنکھیں بند کرو اور سوؤ’ وہ نہ نہ کرتی رہ گئی لیکن روحیل نے اُسے زبردستی لِٹا دیا اور اُسکے ریشمی بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگا۔ اگلے چند ہی لمحوں میں وہ گہری نیند کے آغوش میں تھی۔ وہ سوتے میں بھی مضبوطی سے روحیل کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی جِسے دیکھ کو وہ مُسکرا اُٹھا اور آہستہ سے اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ سے نِکال کر آفس فون مِلانے لگا۔ اُسنے آج کی ساری میٹنگز کینسل کروادی تھیں، اِسوقت اُسکے لئے عرشیہ سے بڑھ کر اور کچھ بھی اہم نہیں تھا۔ وہ واپس بیڈ پر آکر اُسکے برابر نیم دراز ہوگیا۔۔شام تک عرشیہ شدید بُخار میں پُھنک رہی تھی۔روحیل نے ڈاکٹر کو بُلا لیا اور اُنھوں نے شدید شاک کا اثر بتایا تھا۔کچھ میڈیسنز دی تھیں اور ڈرپ بھی لگا گئے تھے۔ روحیل نے فون کرکے حرا بیگم کو واپس بُلالیا اور ساری بات تفصیل سے اُنکو بتادی تھی۔کتنی دیر تو وہ کچھ بول ہی نہ پائیں، سر پکڑ کر عرشیہ کے برابر بیٹھی رہ گئیں۔اُنھیں بھی اپنے بھانجے کی اِس گِری ہوئی حرکت پر سخت غصہ آیا تھا۔ عرشیہ کو پیار سے دیکھتے ہوئے اُسکاماتھا چوم لیا۔وہ دوا کے زیرِاثر نیم بے ہوش تھی اور سوتے میں بھی ہچکیاں لے رہی تھی۔عرشیہ کی ایسی حالت دیکھ کر روحیل ایک بار پھر غصے سے پاگل ہوگیاتھا۔وہ اُسے اِتنی شدتوں سے چاہتا تھا کہ اُسکی ایسی حالت پر وہ بالکل ہی دیوانہ بن گیا تھا تبھی آنکھوں میں خون لئے وہ اپنی خالہ کے گھر کی طرف نِکل گیا۔حرا نے بھی اُسے روکا نہ تھا۔ اِتنے بڑے گُناہ کی کچھ نہ کچھ سزا تو علی کو مِلنی ہی چاہئیے تھی، باقی اُنھیں اپنے بیٹے پر یقین تھا کہ وہ کوئی جذباتی قدم نہیں اُٹھائیگا۔
وہ عرشیہ کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھیں اور اُسے شفقت سے دیکھے جارہی تھیں جو کچھ ہی عرصے میں اُنکو رابیل کی طرح بے حد عزیز ہوگئی تھی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ پورچ میں گاڑی کھڑی کرکے تیزی سے اندر کی جانب آیا جہاں لاؤنج میں علی،اُسکے خالو فیروز صاحب اورخالہ عِفت بیگم بیٹھے تھے۔
علی کے ماتھے پر پٹّی بندھی ہوئی تھی اور وہ موبائل میں مصروف تھا جب روحیل کی تیز آواز پر وہ بوکھلا یا اور موبائل اُسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔اُسکے اِتنی زور سے چِلّانے پر فیروز صاحب سمیت عفت بھی پریشانی سے اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔روحیل بہت نرم اور خوش مزاج لڑکا تھا۔ اُسکا اِسطرح سے چیخنا اُن دونوں کو حیرت میں مُبتلا کر رہا تھا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر روحیل کی جانب بڑھے۔
‘کیا ہوا بیٹا سب خیریت تو ہے؟ تم اِسطرح اِتنے غصے میں کیوں ہو؟ ‘ عفت نے پریشانی سے پوچھا تو روحیل کو حیرت ہوئی کہ وہ کچھ جانتی نہ تھیں یا جانتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کا گُناہ چُھپانے انجان بن رہی تھیں۔ وہ سمجھ نہ پایا تبھی طنز سے بولا۔
‘اِتنا کچھ ہونے کے بعد بھی آپ کہہ رہی ہیں کہ میں غصہ نہ کروں؟’
‘پر ہوا کیا ہے بیٹا؟ کچھ تو بتاؤ پلیز! کیا علی سے کوئی غلطی ہوگئی ہے؟’ اُنکا دل اب اُسکی باتوں سے ہول رہا تھا۔ وہ بے حد پریشان ہوگئی تھیں۔
‘خالہ جانی کیا آپ واقعی کچھ نہیں جانتیں؟’ روحیل نے حیرت سے پہلے عفت بیگم کو دیکھا پھر فیروز صاحب کو جو سوالیہ نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔اُنکا صبیح چہرہ اِس بات کا غماز تھا کہ علی نے یہ ات اُن دونوں سے چُھپائی ہے ۔ شاید وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ روحیل خود ہی اِس معاملے کو دبا دیگا لیکن وہ تو اِس گھٹیا حرکت کا حساب مانگنے گھر تک چلا آیا۔ اُسنے ایک قہرآلود نظر علی پر ڈالی اور آگے آکر اُسکے سر سے پٹی کھینچ کر نفرت سے بولا۔
‘پوچھیں ا،س سے کہ یہ ماتھے پر چوٹ کا نِشان کیسا ہے؟ بتاؤ علی! بلکہ تم کیا بتاؤگے میں خود بتاتا ہوں۔ یہ گھاؤ میں نے دِیا ہے اِسے اور میرا بس چلتا تو اُسی وقت میں اِسے زندہ دفن کردیتا پر خالہ جانی صرف آپکی وجہ سے میں اِس عمل سے باز رہا۔ ‘ اُسکی آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیںاور چہرہ غصے سے لال انگارہ بن گیا تھا۔فیروز صاحب خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔ عفت آگے آئیں اور رُندھی ہوئی آواز میں بولیں ۔
‘خُدا کے واسطے روحیل بتاؤ مجھے کیا کیا ہے اِسنے؟ میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔ بولو کیا ہوا ہے؟’ روحیل نے آج کا سارا واقعہ من وعن اُنکے گوش گُزار کردیا۔ ضبط سے اُسکی آواز اُسکا ساتھ نہیں دے پارہی تھی ۔اُسکی نِگاہوں میں عرشیہ کا روتا، سِسکتا، گِڑگڑاتا خوفزدہ وجود اور اُسکی آنسو بہاتی سنہری آنکھیں گھوم گئیں۔ وہ اُسے ابھی جس حال میں چھوڑ کر آیا تھا وہ بیان کرتے وقت اُسکی شریانیں غصے سے پھٹنے کو تھیں۔کمرے کی خاموش فضاء میں کھڑے سارے نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اُنھیں اِس بات کا یقین تو تھا کہ روحیل کبھی اِتنی گِری ہوئی اور اِتنی بڑی بات بغیر کسی ثبوت کے نہیںکرسکتا لیکن اپنے ہی بیٹے کی اِس گھٹیا حرکت پر وہ دونوں ششدر رہ گئے۔کچھ دیر بعد جب فیروز کچھ بولنے کی قابل ہوئے تو آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کے سامنے آئے اور چبھتے لہجے میں پوچھا۔
‘روحیل جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے؟’ علی سر جُھکائے کھڑا تھا۔ وہ اپنے باپ سے نظریں نہیں ملا سکتا تھا۔ اِتنی پستی میں گِر کر وہ کیسے اُنکے سامنے سر اُٹھا تھا۔ اُسکی خاموشی سے دہل کر وہ دھاڑے۔
‘ہم تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں علی، بتاؤ کیا یہ سب سچ ہے؟’
‘جج۔۔۔ جی!’ پوری قوت سے فیروز کا اُلٹا ہاتھ اُسکے منہ پر پڑا تھا۔عفت منہ پر ہاتھ رکھے وہیں صوفے پر ڈھ گئیں تھیں۔ اُنھوں نے ہاتھ اُٹھا کر پھر روکا نہیں تھا۔۔ پہلا۔۔دوسرا۔۔ اور پھر تیسرا تھپڑ بھی اُسکے منہ پر رسید کیا تھا۔۔ علی بے یقینی سے اُنھیں دیکھ رہا تھا جنھوں نے زندگی میں پہلی بار آج اُس پر ہاتھ اُٹھایا تھا۔
‘میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اِتنا بھی گِر سکتے ہو! کیا کمی رہ گئی تھی ہماری تربیت میں، ہمارے پیار میں جو تم نے ہمیں جیتے جی آج مار ڈالا۔ شرم آرہی ہے تمھیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے۔ دور ہوجامیری نظروں سے ناہجاز!’ اُنھوں نے علی کو دھکّا دیا اور اگلے لمحے وہ اُنکے پیروں میں گِر گیا۔اُسے اب اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا کہ وہ ایک نا قابلِ معافی گناہ کرنے جارہا تھا صرف پلوشہ کی باتوں میں آکر۔۔آج اُسنے اپنے باپ کو ناراض کردیا تھا۔۔اپنے کزن کی عزت کو آج داغدار کرنے چلا تھا ۔۔وہ اُنکے پیروں میں گِرا اپنی غلطی کا اعتراف کر رہا تھا۔
‘ڈیڈی پلیز مجھے معاف کردیں! میں اندھا ہوگیا تھا۔ مجھے اندازہ ہی نہ ہوا کہ میں کیا کرنے جارہا ہوں۔صرف ایک کمزور لمحے کے زیرِاثر مجھ پر شیطانیت طاری ہوگئی تھی۔میں تو اُس لمحے کو کوس رہا ہوںجب میں پلوشہ کی باتوں میں آکر یہ قدم اُٹھا بیٹھا۔’ پلوشہ کے نام پر سب ہی چونکے تھے۔ فیروز صاحب کے سر پر تو گویا بم بلاسٹ ہی ہوگیا تھا۔ اپنی چہیتی بیٹی کیلئے یہ سب سُن کر اُنکا تو ضبط جواب دے گیا اور وہ لڑکھڑا گئے۔ اگر روحیل آگے بڑھ کر اُنکو سہارا نہ دیتا تو وہ نیچے گِرپڑتے۔
‘پلوشہ روحیل کو اِس حد تک چاہتی تھی کہ اُس سے اپنی بے عزتی کا بدلا لینے اُسنے نجانے بھابھی کے بارے میں ایسا کیا کیا کہا کہ میں بھی اُسکی باتوں میں آکر بھابھی کو غلط سمجھ بیٹھا۔’ ایک کے بعد ایک درد ناک اِنکشافات پر فیروز اور عفت شرمندگی سے زمین میں گڑتے چلے جارہے تھے۔ اولاد بھی کبھی کبھی کتنا رُسوا کرواتی ہے۔ فیروز صاحب نے دھاڑ کر پلوشہ کو آواز دی اور وہ، جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی ڈرائنگ روم سے آتا شور سُن کر اپنے کمرے سے نِکل کر یہاں آئی تھی سب کچھ سُن کر دم سادھے کھڑی تھی۔ فیروز صاحب کی دوسری آواز اِتنی تیز تھی کہ وہ لاؤنج کے باہر کھڑی کانپ گئی ۔اُسنے انجام کیا سوچا تھا اور یہ سب کیا ہورہا تھا۔وہ مرے مرے قدموں سے خود کو گھسیٹتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی اور اُسکو دیکھتے ہی فیروز تیزی سے اُسکے سر پر پہنچے۔
‘ہم نے جو کچھ سُنا ہے وہ سچ ہے؟ جواب صرف ہاں یا نہ میں ہونا چاہئیے!’ اِسوقت پلوشہ نے نظر اُٹھا کر روحیل کو دیکھا جو آنکھوں میں نفرت اور خون لئے اُسے گھور رہا تھا گویا اُسکے انجام پر ہنس رہا ہو!
‘ڈیڈی میں۔۔۔’
‘ہاں یا نہ؟’ وہ ایسے انداز میں بولے کہ پلوشہ کواپنا پورا وجود جلتا ہوا محسوس ہوا۔ اُنکا ضبط ٹوٹ رہا تھا، وہ برداشت کے آخری مراحل پر تھے۔ اپنی چہیتی بیٹی کے بارے میں یہ خوفناک اِنکشاف اُنکا خون خُشک کئے دے رہا تھا۔
‘ہاں۔۔’ وہ بس اِتنا ہی بولی اور فیروزکا ہاتھ گھوما اور اُسکے دائیں رُخصار پر نِشان چھوڑ گیا۔ وہ اوندھے منہ نیچے گِری تھی۔ سائیڈ ٹیبل کا کونا لگنے سے اُسکا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔اُسمیں سے خون نکلنے لگا تھا لیکن فیروز اُسے بے دردی سے اُٹھاتے ہوئے چیخے۔ اُنکی آواز میں سانپوں جیسی پھنکار تھی۔
‘بے غیرت! بے حیا! تو ایک لڑکی ہوکر دوسری لڑکی کی عزت سے کھلواڑ کرنے چلی تھی۔اپنی نفرت کی آگ میںکسی کا گھر اُجاڑنے چلی تھی۔ عرشیہ جیسی اِتنی پیاری اور نیک بچی کے بارے میں تو نے ایسا سوچا بھی کیسے۔یہ سوچ ذہن میں آئی بھی کیسے؟ ذرا شرم نہیں آئی تجھے! ‘ وہ اور بھی بولتے جب روحیل آگے آیا اور اُنھیں سائیڈ پر کرتا ہوا سپاٹ لہجے میں بولا۔
‘ہٹیے انکل! یہ میری مجرم ہے اور اِسے سزا بھی میں ہی دونگا’ روحیل نے بھی ایک زوردار تھپڑ اُسکے چہرے پر دے مارا اور دھاڑا
‘میں نے تمھیں منع کیا تھا نا کہ عرشیہ کے خلاف ایک لفظ مت بولنا اور آج تو تم نے میری پاک دامن بیوی کو بدنام کرنا چاہا۔ میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑونگا۔’ روحیل دونوں ہاتھوں سے اُسکا گلا دبانے لگا اُسکی اُنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ عفت جو اِتنی دیر سے بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی تھیں تیر کی تیزی سے اُسکی طرف آئیں اور اُسکے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولیں۔
‘میرے بچے تم کیوں اِسکے خون سے اپنے ہاتھ گندے کر رہے ہو۔ اِسے تو کوئی بہت بڑی سزا ملنی چاہئیے۔’ اُسنے تڑپ کر اپنی ماں کو دیکھا جن کے لہجے میں اُسکے لئے نفرت ہی نفرت تھی۔اور فیروز صاحب کے لفظوں نے تو جیسے اُسے سُن ہی کر ڈالا تھا۔
‘اِسکی سزا کا تعَےّن ہم کرچکے ہیں۔ عفت اِسکو اِسکے کمرے میں لے جاؤ اور بند کردو۔اِسکا تینوں وقت کا کھانا اِسکے کمرے میں پہنچا دیا جائے۔آج کے بعد اِسکا باہر آنا جانا بالکل بند۔ اور کسی کو بھی اِس سے ملنے کی اِجازت نہیں ہوگی۔ یہ ہمیں اب گھر میں ہماری نظروں کے سامنے نظر نہ آئے !’ چند قدم آگے بڑھ کر دوبارہ بولے۔
‘اور ہاں! مسز فاروق کو آج ہی فون کرو اور جِس رشتے کو میں اِس نالائق، بے حیا کی وجہ سے دو ماہ سے ٹال رہا تھا اُنھیں ہاں کہہ دو۔ اُنھیں جتنا جہیزجتنا روپیہ چاہئیے ہم دینگے۔ بس شادی پندرہ دن کے اندر اندر ہوجانی چاہئیے۔ اب میں جلد سے جلد اِس بوجھ کو اپنے سر سے اُتارنا چاہتا ہوں۔’ اپنی بات ختم کرکے وہ روحیل کی طرف مُڑے اور ہاتھ جوڑ دئیے۔
‘بیٹا یہ مجھ بوڑھے کے ہاتھ جُڑے ہوئے ہیں، اِس گُناہ کی کوئی معافی نہیں ہے لیکن تم پھر بھی ہمیں معاف کردو۔مجھے اور عفت کو معاف کردو!’ وہ یہ کہتے کہتے ڈھ جانے کو تھے کہ روحیل نے فوراً اُنکے جُڑے ہاتھ کھول دئیے اور اپنائیت سے بولا۔
‘انکل پلیز مجھے شرمندہ مت کریں۔آپکا اِن سب میں کوئی قصور نہیں۔آپ اور خالہ جانی آج بھی میرے لئے اُتنے ہی محترم ہیں۔’ فیروز صاحب اُسکی بات سُنتے ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔ اِتنی ذلت کے بعد اُنکا وہاں کھڑا رہنا اور روحیل سے نظریں مِلانا مشکل ہوگیا تھا۔ پلوشہ کو لگا کسی نے اُسے گہرے پاتال میں پھینک دیا ہو۔ وہ پتھرائی ہوئی نظروں سے اپنے ڈیڈی کو جاتا دیکھ رہی تھی، جنھوں نے آج تک کبھی اُس سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی تھی آج اُسے اپنے سر کا بوجھ بناگئے تھے۔اُسکی ہر جائز ناجائز ضد کو پورا کرنے والے باپ کو آج کیا ہوگیا تھا۔آج وہ کتنے لا تعلق اور اجنبی بن گئے تھے۔ وہ یہی سوچے جا رہی تھی جب روحیل کی آواز پر چونکی۔
‘جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں وہ خود اُسمیں کبھی نہ کبھی ضرور گِرتے ہیں۔ اور آج تم منہ کے بل گِری ہو پلوشہ۔ دیکھو میری عرشیہ تو آج بھی سُرخرو ہے!’ و ہ اپنے لفظوں کے تیر اُسکے دل میں پیوست کرکے آگے بڑھ گیا۔ کتنا نفرت بھرا اور حقارت آمیز لہجہ تھا اُسکا۔ روحیل کمرے سے نکلنے کو تھا جب علی نے اُسے روک لیا۔
‘مجھے معاف کردو پلیز! میری آخری غلطی سمجھ کر معاف کردو، میں بہک گیا تھا۔۔۔’ وہ آگے اور کیا کہتا روحیل کو اُس سے کوئی غرض نہیں تھی تبھی وہ ہاتھ اُٹھا کر بولا۔
‘دوسروں پر اُنگلی اُٹھاتے وقت لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہی اُنگلیاں ایک دِن اُنکے اپنے گھر پربھی اُٹھ سکتی ہیں۔اکثردوسروں کی جھوٹی کردارکشی کرنے والے کا اپنا کِردار ہی مشکوک ٹھہرتا ہے۔ ۔خالہ جانی اور انکل کا عزت و احترام سر آنکھوں پر لیکن اُنکی اولاد سے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر تم میرے یا میرے گھر کے آس پاس نظر بھی آئے تو میں بھول جاؤنگا کہ تم سے میراکیا رِشتہ ہے۔’ وہ اپنی بات کہہ کر رُکا نہیں تھا اور علی بے بسی سے اُسے جاتا دیکھتا رہا۔پلوشہ کے بات پر وہ غصے سے پلٹا جو اب بھی کہہ رہی تھی۔
‘پلیز ممّا! ڈیڈی کو روکیں۔ پلیز میرے ساتھ ایسا مت کریں۔ میں روحیل کے بغیر۔۔۔’ آگے کا جُملہ پورا ہونے سے پہلے ہی علی نے ایک تھپڑ اُسکے منہ پر رسید کیا۔ آج سے پہلے پلوشہ نے اپنی پوری زندگی میں اِتنے تھپڑ نہیں کھائے تھے۔آج اُسکی زندگی کا سب سے اذیت ناک دِن تھا۔
‘بے شرم!مت لو اپنی گندی زبان سے روحیل کا نام۔ تم نے حسد اور جلن کی آگ میں سب کچھ جلا کر راکھ کردیا۔اُس شریف اورباکِردار لڑکی کے ساتھ ایسا گِھناؤنا کھیل کھیلنا چاہا۔ تمھارے ساتھ ساتھ میں بھی اِتنی پستی میں گِر گیا کہ اب دل چاہتا ہے خود کو آگ لگا لوں۔ تمھارے حسد نے ہم دونوں کی زندگی برباد کردی پلوشہ! تم نے اپنے ساتھ مجھے بھی زِندہ درگور کردیا جِس کیلئے میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرونگا۔ اور معاف تو میں اپنے آپکو بھی شاید اب کبھی نہ کرسکوں۔’ وہ عفت کی طرف مُڑا جو پتھر کی بنی اب تک وہیں کھڑی تھیں۔ وہ اُنکے شانے پر ہاتھ رکھ کر کچھ کہنا چاہتا تھا جب وہ اُسکا ہاتھ جھٹک کر غصے سے بپھریں۔
‘مت ہاتھ لگاؤ مجھے! گِھن آرہی ہے مجھے تم سے۔ ایسی اولاد دینے سے بہتر تھا کہ خُدا مجھے بے اولاد ہی رکھتا۔ کم سے کم اِس عُمر میں تمھارے باپ کا جُھکا ہوا سر اور یہ ذِلّت تو نہ دیکھ رہی ہوتی۔ جتنی عزت کمائی تھی و ہ تم دونوں نامُرادوں نے آج نیلام کردی اور ہم دونوں کو کہیں منہ دِکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ ۔کِس منہ سے جاؤنگی میں اپنی بہن کے سامنے؟ پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہ گئے تم دونوں؟آج سے تم اور پلوشہ مر گئے میرے لئے۔ سُنا تم نے؟ مر گئے تم دونوں!!’ وہ یہ کہتے ہی کمرے سے باہر نکل گئیںاور وہ دونوں بے بسی کی تصویر بنے وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں نا کہ اِنسان ہونا ہمارا اِنتخاب نہیں، قُدرت کی عطا ہے لیکن، اپنے اندر اِنسانیت بنائے رکھنا ہمارا اِنتخاب ضرور ہے اور آج وہ دونوں ہی اِنسانیت کے درجے سے نیچے گِر چُکے تھے!!
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Read Next

تائی ایسری — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!