روحیل ایک ہفتے کے ٹرپ کے بعد امریکہ سے واپس آچُکا تھا اور صبح سے عرشیہ سے بات کرنے کی کوششوں میں تھا لیکن وہ تھی کہ اُسکے سامنے ہی نہیں آرہی تھی۔صبح سے اب رات ہوچُکی تھی۔وہ رات کا کھانا کھا کر جلدی اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ اُسکے جواب کا مُنتظر تھا۔اُسکا فیصلہ جلد سے جلد سُننا چاہتاتھا۔ کچھ دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرہ نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ آنکھیں موندے لیٹا تھا جب کسی کی آہٹ پر چونکا ۔
‘کون ہے؟’
‘میں آپکے لئے چائے لائی ہوں’ کمرے کی ساری لائیٹس کھول دیں اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔عرشیہ نے چائے کا کپ اُسکی طرف بڑھایا تو وہ اُٹھ بیٹھا اور طنزیہ لہجے میں بولا۔
‘تمھیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کمرہ ناک کرکے آتے ہیں؟’
‘دروازہ کُھلا ہوا تھا اِسلئے میں اندر آگئی۔’ وہ مسکرا کر بولی
‘غلط فہمی ہے تمھاری! دروازہ پہلے کُھلا تھا اب بند ہوچُکا ہے۔’ وہ ذومعنی بولا اور عرشیہ کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی۔ وہ اُفسردگی سے پلٹ کر واپس جانے لگی جب روحیل نے آواز دے کر اُسے روکا۔
‘سُنو!’
‘جی؟’ وہ پلٹی تھی
‘پھر کیا فیصلہ کیا تم نے؟؟’ روحیل اطمینان سے اُس سے پوچھ رہا تھا اور وہ ہونق بنی اُسے دیکھ رہی تھی۔ عرشیہ کو غصہ آنے لگا جو اُسکی آنکھوں میں چھپے چاہت کے مفہوم کو سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔ وہ پلٹ کر جانے لگی جب روحیل اُسکے سامنے آگیا۔
‘میں تم سے بات کرنا چاہ رہا ہوں اور تم بھاگ رہی ہو؟’
‘مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔’ عرشیہ کی آواز میں دُکھ تھا۔ چہرہ سُرخ ہورہا تھا۔ روحیل اُسکے چہرے کے اُتار چڑھاؤ کو بغور دیکھ رہا تھا
‘تمھارے ہی فائدے کی بات ہے!’
‘میرا فائدہ؟ میرا تو نُقصان ہی نُقصان ہے۔’ عرشیہ تیزی سے پلٹی۔ روحیل نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے جانے سے روکا
‘روحیل چھوڑو مجھے! جانے دو!’ روحیل اُسکی بات پر گہری سانس کھینچ کر بولا
ُ’یہ تمھارا آخری فیصلہ ہے؟ میں جانتا تھا۔۔ ٹھیک ہے اگر تم ایسا چاہتی ہو تو میں کل ہی لائر(lawyer) سے مِل کر ڈائیورس پیپرز۔۔۔’
‘چُپ ہوجاؤ! خُدا کیلئے چُپ ہوجاؤ۔۔ بالکل چُپ۔۔ کچھ تو بھرم رہنے دو میرا۔میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی سُنا تم نے؟؟ مجھے تم دھکّے دے کر بھی نِکالوگے تب بھی تمھیں چھوڑ کر اب کہیں نہیں جاؤنگی۔’ وہ اپنا ہاتھ چُھڑا کر باہر بھاگی اور روحیل بے یقینی سے اُسے دیکھتا رہ گیا۔ اُس پر شادیِٔ مرگ کی کیفیت طاری تھی۔ وہ عرشیہ کے جُملوں میں اٹک کر رہ گیا۔ کچھ لمحے ساکت کھڑے رہنے کے بعد خود بخود اُسکے خوبصورت لب مُسکرا اُٹھے اور وہ سرشار سا بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔اُسکے لبوں پر گُنگناہٹ تھی۔۔ لیکن۔۔ وہ اب بھی عرشیہ سے ناراض تھا۔۔ وہ اب مکمل اظہار چاہتا تھا۔۔ لفظوں کا اظہار۔۔ محبت کے یقینی ہونے کا احساس۔۔۔
************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ناشتے کے بعد روحیل آفس جاچُکا تھا اور جاتے وقت حرا بیگم کو بھی رابیل کے گھر ڈراپ کرگیا تھا۔ اُسکی طبیعت کچھ خراب تھی اِسلئے وہ اپنی بیٹی کے گھر اُسکی عیادت کیلئے گئی تھیں۔آج دونوں کُک بھی چُھٹی پر تھے اور عظیم بھی چند دِن کی چُھٹی لیکر انیکسی میں اپنے اِمتحانوں کی تیاری میں مصروف تھا۔وہ مُلازمہ سے کام کروا کر اوپروالے لاؤنج میںچلی آئی ۔سردیوں کی چمکیلی صبح تھی وہ ابھی نہا کر نکلی تھی۔ گیلے بال پُشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ اُس نے ڈارک سی گرین چُندری کا ڈریس پہن رکھا تھا۔گھر میں اِسوقت وہ اکیلی تھی اِسلئے صوفے پر بیٹھ کر میگزین پڑھنے میں مگن ہوگئی۔میگزین پڑھتے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی جب اُسے اپنی پُشت پر کسی کی آہٹ کا احساس ہوا۔ وہ پلٹی اور علی کو دیکھ کر چونک سی گئی۔علی روحیل کا کزن اور پلوشہ کا بھائی تھا۔اُسکی اِسوقت آمدکچھ حیرانی کا باعث تھی کیونکہ عرشیہ نے شادی کے بعد سے اب تک بمشکل اُسے صرف دعوتوں میں ہی دیکھا تھا وہ ویسے اِنکے گھر بہت ہی کم آتا تھا اور سب جانتے تھے کہ روحیل اِس ٹائم پر آفس میں ہوتا تھا۔اُسکا اچانک آنا کچھ تشویشناک تھا۔ وہ عجیب نظروں سے اُسکے دِلکش سراپے کا جائزہ لے رہا تھا۔عرشیہ کو لگا جیسے اُسکی نظریں نہیں کوئی ایکسرے مشین ہوں جو عرشیہ کو اپنے وجود کے آر پار ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔ اُسنے جلدی سے اپنا دوپٹہ کھینچ کر سر پر لپیٹ لیا اور بولی۔
‘ارے علی بھائی آپ اِسوقت؟’ علی جو وقتی طور پر اُسکے بے پناہ حسن کو دیکھ کر دُنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوگیا تھا اُسکی آواز پر چونکا
‘کیوں میں اِسوقت نہیں آسکتا؟’ وہ اُلٹا اُسی سے سوال پوچھ بیٹھا اور چلتا ہوا اُسکے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔وہ فوراً کھڑی ہوگئی
‘بالکل آسکتے ہیں! میرا یہ مطلب تھا کہ روحیل ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آفس کیلئے نکلے ہیں اور اِتفاق سے آج ممی بھی رابیل کی طرف گئی ہوئی ہیں۔’
‘یہ تو اور بھی اچھی بات ہے!’ وہ ذومعنی بولا اور عرشیہ کو ایک دم اپنی کم عقلی پر ماتم کرنے کو جی چاہا جو بے دھیانی میں یہ بتا گئی تھی کہ وہ اِسوقت گھر میں بالکل اکیلی ہے۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھی ہے کوئی باہر نہیں جو ڈرے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ علی آج کسی اچھے اِرادے سے نہیں آیا تھا۔
‘آپ بیٹھیں، میں آپکے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔’ وہ اُسکو بیٹھنے کا کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی جب علی کی آواز نے اُسے چونکنے پر مجبور کردیا۔وہ اُسے عرشیہ کہہ کر بُلا رہا تھا۔آج تک روحیل کے سب کزنز نے اُسے ہمیشہ بھابھی کہہ کر ہی بُلایا تھا۔
‘کتنا خوبصورت نام ہے نا تمھارا بالکل تمھاری طرح!’
‘شکریہ۔’ وہ صرف روحیل کی وجہ سے اُسے برداشت کر رہی تھی ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ اُسکی اِس بے تکلفی پر اُسکا منہ توڑدے اور اُسے دھکّے دے کر گھر سے باہر نکلوا دے۔وہ اپنے طیش کو دبا کر نارمل لہجے میں بولی۔
‘میں آپکے لئے چائے۔۔۔’
‘ارے چائے چھوڑو! تم تو اپنی چاہ بھی دے دو تو ہم سراب ہوجائینگے۔’
‘وہاٹ؟ وہاٹ ڈِڈیو سے(What did u say)؟’ وہ ایک جھٹکے سے پلٹی اور اُسے اپنے اِتنے پاس کھڑا دیکھ کر سہم گئی۔ وہ اُس سے صرف دو قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا یہاں تک کہ اُسکے پوئزن پرفیوم کی خوشبو عرشیہ کادِماغ ماؤف کرنے لگی۔
‘ہا ں جانِ من! تمھار ا یہ روپ ، یہ سادگی ، یہ دِلکشی کسی کو بھی پاگل کردینے کیلئے کافی ہے۔ اور پھر روحیل کا کزن ہونے کی ناطے کچھ حق تو ہمارا بھی بنتا ہے تم پر، اِسلئے۔۔۔’ آگے کا جُملہ اُسکے منہ میں ہی رہ گیا ، عرشیہ کا زوردار طمانچہ اُسکے بائیں گال پر پڑا تھا۔ وہ تیز آواز میں چِلائی۔
‘بکواس بند کرو اپنی بے شرم اِنسان! دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ صرف ممی اور روحیل کی وجہ سے اب تک تمھیں برداشت کر رہی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں تمھارا منہ تھپڑوں سے لال کردوں نِکل جاؤ میرے گھر سے ابھی اور اِسی وقت!’
‘میرا گھر؟’ وہ ایک کمینی ہنسی ہنس دیا
‘یہ گھر تمھارا ہے؟ ٹھیک کہتی ہے پلوشہ!تم جیسی دو ٹکے کی لڑکیوں کو بہت غرور ہوتا ہے اپنی ذات پر۔ تمھیں اپنے اِس روپ اور حسن پر بڑا ناز ہے نا۔ اپنے پاکیزہ کِردار پر بہت اکڑتی ہو تم۔آج میں دیکھتا ہوں جب اِس کردار پر داغ لگے گا تو کیسے روحیل تم سے محبت کرتا ہے۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے کِردار کو داغدار ہونے سے کیسے بچاتی ہو۔’ اِتنی ذِلّت کے بعد علی وحشی بن گیا اور اُسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں دبوچا۔ وہ جی جان سے کانپ گئی تھی ۔
‘چھوڑو! چھوڑو مجھے! بے شرم، کمینے!’ وہ اپنی گرفت مزید سخت کرتا جارہا تھا ۔شیطانیت میں وہ اِتنا اندھا ہوگیا تھا کہ اُسے کسی رشتے کی پرواہ نہیں رہی تھی۔ عرشیہ اُسکی گرفت میں فقط پھڑپھڑا کر رہ گئی۔اُسے اپنا دم گُھٹتا ہوا محسوس ہوا ۔اُسے آج حقیقت میںپتا چل گیا تھا کہ ہوس کیا ہوتی ہے۔ وہ جو روحیل کے پاک اور سچے جذبوں پریہ اِلزام لگا بیٹھی تھی آج اُسکی بے پناہ محبت اور مضبوط کردار کا یقین آگیا تھا۔ وہ دِن رات روحیل کے پاس اُسکے ساتھ موجود ہوتی تھی لیکن روحیل نے کبھی اُسکی ذات کا غرور توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اپنی رُکتی سانسوں کے ساتھ دعا کرنے لگی۔
‘یا الّلہ! میری عزت اب تیرے ہاتھ میں ہے اُسکی حفاظت فرما۔ مجھے ہمیشہ سُرخرو رکھنا میرے خُدا۔ مجھے داغدار ہونے سے بچا لے!’ وہ شاید ہوش و خِرد سے بیگانہ ہونے لگی تھی۔ اُسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ اِس صدمے سے ہی بیہوش ہونے والی تھی جب روحیل کی پاٹ دار آواز نے اُسکی بند ہوتی آنکھوں اور رُکتی سانسوں کو پورے کا پورے بحال کردیا ۔
‘علی!!’
وہ حلق کے بل دھاڑا اور علی نے گھبرا کر عرشیہ کو چھوڑدیا تھا۔ وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔روحیل کے آنے سے جتنی خوشی اُسے مِلی تھی ساتھ ہی شرمندگی سے وہ کٹ کر رہ گئی۔ اُسکا دِل چاہا زمین پھٹے اور وہ اُسمیں سما جائے۔ علی فوراً سنبھل کر بولا۔
‘آؤ آؤ روحیل! یہی سب دِکھانا چاہتا تھا میں تمھیں! بہت ناز ہے نا تمھیں اِس لڑکی کے کردار پر تو دیکھو! آج تنہائی پاکر اِس نے مجھے خود فون کرکے بُلایا۔ اور اب دیکھو تنہائی کا فائدہ اُٹھا کر یہ میرے ساتھ۔۔۔۔۔’ آگے کا جملہ وہ پورا نہ کرسکا، روحیل کا بھاری ہاتھ اُسکے چودہ طبق روشن کرگیاتھا۔ وہ چکرا کر رہ گیا اور اُسے بے یقینی سے دیکھنے لگا۔
‘دفع ہوجاؤ یہاں سے ورنہ میرے ہاتھوں تمھارا قتل ہوجائیگا۔ گیٹ لوسٹ(Get lost)!’ وہ خونخوار نظروں سے دیکھتا آگے بڑھا اور اُسکا گریبان پکڑ کر سیڑھیوں کی طرف دھکیلا۔ وہ سیڑھیوں پرسے اُسے گھسیٹتا ہوا لایا اور مُلازموں کو آواز دینے لگا۔ گھر سے باہر لاتے ہی اُسے ایک جھٹکے سے پھینکا ۔ علی کا سر جاکر قریب رکھی سنگِ مر مر کی بینچ پر لگا اور سر پھٹ کر خون بہنے لگا۔اُسکا غصہ اِسوقت آسمان کو چھو رہا تھا۔ اُس نے چِلا کر گارڈز کو بُلایا اور اُسے زمین سے اُٹھا کر اُنکی طرف دھکیلتا ہوا زہرخند لہجے میں بولا۔
‘اِسے اُٹھا کر باہر پھینک آؤ۔ اور اِسکی شکل اپنے ذہنوں میں اچھی طرح سے بِٹھالو، اگر آج کے بعد یہ شخص روحیل وِلا کے آس پاس بھی دِکھائی دیا تو بِنا پوچھے اِسے گولی ماردینا۔ سُنا تم لوگوں نے! لے جاؤ اِسے!’ وہ دھاڑ رہا تھا اور تمام گارڈز اُسکے حکم کی پیروی کرتے جلد ہی اُسے کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔
سارے مُلازم اُسکی ایک آواز پر ہی وہاں آگئے تھے اور اُس سے کچھ فاصلے پر سر جُھکائے کھڑے تھے۔ وہ پھر اُنکی طرف گھوما اور دھاڑا۔
‘کِدھر مرے ہوئے تھے تم سب؟ دفع ہوجاؤ سب میرے سامنے سے!’ سارے مُلازم سر جُھکائے خاموشی سے اُسکے سامنے سے ہٹ گئے تھے۔ روحیل کبھی بھی اِس انداز میں اپنے مُلازموں سے بات نہیں کرتا تھا وہ تو بہت حلاوت سے بات کرنے والا بندہ تھا یقیناً آج کچھ بڑا ہوا تھا لیکن کسی بھی مُلازم کی اُس سے کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہیں تھی اِسلئے وہ سب وہاں سے چپ چاپ چلے گئے تھے۔
روحیل اپنا سر پکڑ کر وہیں بینچ پر بیٹھ گیا۔ اُسکا دِماغ پھٹ رہا تھا۔ اُس نے اپنے بال مُٹھی میں جکڑ لئے، آج اگر وہ وقت پر نہ پہنچتا تو کیا کچھ ہوجاتا۔۔ سب کچھ تباہ و برباد ہوجاتا۔۔ میرا عرشیہ کو ہمیشہ تحفظ دینے کا وعدہ ٹوٹ جاتا۔۔ وہ اپنی ایک اہم فائل گھر پر ہی بھول گیا تھا اِسلئے آدھے راستے سے اُسنے گاڑی واپس گھر کی طرف موڑلی۔ پورچ میں کھڑی علی کی گاڑی دیکھ کر وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا ۔ اور یہ خیال آتے ہی کہ اِسوقت عرشیہ گھر میں اکیلی ہے وہ بجلی کی تیزی سے اندر کی طرف بھاگا، لاؤنج خالی پڑا تھا اور اوپر کے پورشن سے آتی آواز سُن کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھا اور جو کچھ اُسکے کانوں نے سُنا اور آنکھوں نے دیکھا وہ اُسکا سُکون غارت کرنے کیلئے کافی تھا۔اُسکی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔یہی باتیں سوچتے ہوئے اُسے ایک دم عرشیہ کا خیال آیا، وہ بینچ سے اُٹھا اور اندر بھاگا۔ عرشیہ کی حالت دیکھ کر وہ لمحے بھر کو مبہوت رہ گیا۔ سردی میں بھی اُسکے چہرے پر بے حد پسینہ تھا۔وہ تھر تھر کانپتی لٹھے کی طرح سفید ہورہی تھی اور بُت بنی دیوار سے لگی بیٹھی تھی۔روحیل نے اُسے آواز دی تب وہ ہوش کی دُنیا میں آئی اور دیوانہ وار بھاگتی ہوئی اُسکے پیروں میں آگِری۔
‘روحیل میرا یقین کرو وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔’ روتے ہوئے اُسکی آواز میں سسکیاں شامل ہوگئیں۔آنسوؤں کا گولا حلق میں پھنس گیا۔ وہ ہچکیاں لے رہی تھی جب روحیل نے اُسے بازوؤں سے تھام کر اُٹھایا۔
‘عرشیہ پلیز! کیا کر رہی ہو اُٹھو یہاں سے۔’ لیکن وہ وہیں جم گئی تھی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ تمھاری جگہ تو یہاں اِس دل میں ہے پرا ِسوقت عرشیہ کی حالت کافی غیر ہورہی تھی۔وہ اپنے حواسوں میں نہیں رہی تھی۔ بات ہی ایسی تھی۔ بار بار ایک ہی بات دہرا رہی تھی۔
‘میرا یقین کرو میں نے کچھ نہیں کیا! میرا کِردار آج بھی۔۔۔’
‘ہش۔۔!’ روحیل نے اُسکے سفید پڑتے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر اُسے مزید کچھ بھی کہنے سے باز رکھا اور زبردستی اُسے وہاں سے اُٹھا کر کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔وہ روحیل سے کسی چھوٹے سے بچے کی طرح چِمٹی ہوئی تھی، اُسکی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑرکھا تھا۔
‘روحیل تم تو میرا یقین کرو گے نا؟ میں۔۔۔ میں۔۔۔’ اُس سے ٹھیک سے بات تک نہ کی جارہی تھی۔ وہ بُری طرح سے کانپ رہی تھی۔ شدید شاک کے عالم میں تھی۔اِس معصومیت پر روحیل کو ڈھیروں پیار آیا اِسلئے وہ اپنائیت بھرے لہجے میں بولا۔
‘عاشی! تمھارے مضبوط کردار کا گواہ میں خود ہوں پلیز تم خود کو سنبھالو۔ میں ہوں نا تمھارے پاس۔ تم پر کوئی اُنگلی بھی نہیں اُٹھا سکتا۔’ وہ اُسکے آنسو اپنی اُنگلیوں کی پوروں سے صاف کرتا سیدھا عرشیہ کے دل میں اُتر گیا۔ وہ اُسے اِسوقت دُنیا کا سب سے معتبر اور بہترین اِنسان لگا۔۔ بس ایک لمحہ! فقط ایک لمحہ لگا تھا عرشیہ کو وہ فیصلہ کرنے میں جو وہ اِتنے دِنوں سے کر نہیں پارہی تھی۔۔
‘تو تم نے مجھے اپنا اسیر بنا ہی لیا روحیل۔ کیوں ہو تم اِتنے اچھے کہ میںتم سے محبت کرنے پر مجبور ہوگئی ہوں۔۔ہاں! آج میں یہ اعتراف کرتی ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہونے لگی ہے!!’ وہ دِل میں یہ اعتراف کر رہی تھی اور روحیل اُسکی دلی خواہشات سے بے خبر اُسے ساتھ لئے کمرے میں آگیا اور اُسے بیڈ پر بِٹھاتے ہوئے بولا۔
‘تم یہاں بیٹھو ۔ میں تمھارے لئے جوش منگواتا ہوں۔۔ تمھیں پی کر اچھا لگے گا۔’ وہ جانے کیلئے مُڑا تو عرشیہ اُسکا ہاتھ تھام کر اِلتجائی انداز میں بولی۔
‘مجھے چھوڑ کر کہیں مت جاؤ پلیز!’ وہ اِسوقت بہت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ روحیل پچھلے دِنوں کی ناراضگی کو اِسوقت بالکل پسِ پُشت ڈال کر دوستانہ انداز میں بولا۔
‘کہیں نہیں جارہا، بس تمھارے لئے جوس۔۔’
‘نہیں پلیز! تم یہیں رہو میرے پاس۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔’ عرشیہ کی نِگاہوں میں کچھ دیر پہلے کا بھیانک منظر گھوم گیا اور اُسنے خوف سے جُھرجُھری لی۔ وہ واقعی اِتنی خوفزدہ لگ رہی تھی کہ روحیل اپنا جانا ترک کرکے وہیں بیڈ پر اُسکے ساتھ بیٹھ گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});