اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

گھر آکر روحیل سیدھا کمرے میں گیا تھا جبکہ رابیل اور عرشیہ ممی کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں پر عرشیہ جلد ہی وہاں سے اُٹھ کر کمرے میں آگئی تھی۔
سر میں زیادہ درد ہونے کی وجہ سے روحیل کی آنکھ جلدی لگ گئی تھی۔کچھ دیر بعد اُسے اپنی پیشانی پر کسی کے ہاتھوں کا نرم گرم لمس محسوس ہوا۔اِس لمس کو تو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔اُسکے پورے وجود میں بجلی سی دوڑ گئی۔ اُس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ عرشیہ اُسکے بے حد قریب بیٹھی اُسکا سر دبا رہی تھی۔وہ کچھ دیر یونہی دیکھتا رہا۔ اُسکا دل چاہا یہ وقت یہیں رُک جائے اور وہ اُسکو یونہی دیکھتا ہوا اُسکے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتا رہے۔مگر جلد ہی اُس نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور اُسکا ہاتھ اپنی پیشانی سے ہٹا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ عرشیہ پھر سے اُسکا سر دبانے لگی تو وہ گھور کر اُسے دیکھنے لگا۔ وہ زیادہ دیر تک اُسے دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ آج وہ اِتنی حسین لگ رہی تھی کہ اگر روحیل اُسے یونہی دیکھتا رہتا تو پل بھر میں اپنا سارا غصہ اور ناراضگی بھول جاتا۔ لیکن اب وہ اِس خوبصورت چہرے سے کوئی دھوکا نہیں کھانا چاہتا تھا۔ اپنے دل کو پتھر کرلیا تھا اُس نے۔اُسکا ہاتھ دوبارہ ہٹا کر بے زار لہجے میں بولا۔
‘کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ؟’ وہ جیسے ہی اُٹھنے لگا عرشیہ نے اُسکے شانے پر زور دے کر اُسے واپس لِٹا دیا اور اپنائیت سے بولی
‘لیٹے رہو، تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔’ وہ سائیڈ ٹیبل سے ٹیبلٹ اور دودھ کا گلاس اُٹھا کر اُسکی طرف بڑھا نے لگی۔ وہ چُبھتی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا تلخ لہجے میں بولا۔
‘اِس نوازش کی وجہ؟’ وہ اُٹھ کر بیٹھا ہی تھا کہ عرشیہ نے تیزی سے دودھ کا گلاس اُسکے ہونٹوں سے لگا دیا۔ وہ مجبوراً گلاس میں موجود دودھ اپنے حلق میںاُتارنے لگا۔
‘یہ کیا بد تمیزی ہے؟’ وہ دودھ کا گلاس اُسکے ہاتھ سے لیکر بولا
‘یہی تو میںتم سے پوچھ رہی ہوں کہ یہ سب کیا ہے؟’ وہ اُسی اطمینان سے بولی، روحیل اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
‘تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم کل امریکہ جارہے ہو؟’
‘میں تمھیں بتانے کا پابند تو نہیں ہوں۔ اور ویسے بھی۔۔ تمھیں میری ذات سے اِتنی دلچسپی کب سے ہونے لگی؟’ وہ بیڈ سے اُتر آیا
‘مجھے نہ سہی تمھیں تو ہے نا میری ذات سے دلچسپی؟؟’ وہ جانتی تھی کہ روحیل اُسے جان بوجھ کر اِگنور کر رہا ہے اِسلئے چِڑاتے ہوئے بولی
‘اور اگر میں یہ کہوں کہ مجھے بھی تمھاری ذات میں دلچسپی ہونے لگی ہے تو؟؟’ روحیل نے حیرت سے دیکھا۔ آج وہ اُسکا ضبط آزمانے پر تُلی ہوئی تھی لیکن روحیل اب کوئی دھوکا کھانے والا نہیں تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
‘تم جو بھی کہو مجھے اُس سے کوئی غرض نہیں۔ ہٹو میرے راستے سے مجھے تمھاری شکل نہیں دیکھنی!’
‘ارے واہ! کل تک تو اِسی شکل کو ایک نظر دیکھنے کیلئے بے تاب رہتے تھے اور اب یہ کہہ رہے ہو؟ میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو نا یہی بات تو میں مانوں!’ وہ اُسے چِڑا رہی تھی اور وہ سچ میں چِڑ کر دانت پیستا ہوا بولا
‘عرشیہ! ہٹ جاؤ پلیز! میرے صبر کو اور مت آزماؤ۔’
‘تو کیوں کر رہے ہو خود پر جبر۔ صبح سے دیکھ رہی ہوں مجھے اِگنور کئے جارہے ہو۔دیکھ لو نا ایک نظر میری طرف۔ کیوں آزما رہے ہو خود کو؟’ اُسکی بات پر روحیل کو شدید غصہ آیا ، اُسے کندھوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا ور غُرایا۔
‘تمھیں سمجھ نہیں آرہی میں کیا کہہ رہا ہوں؟
‘تم سمجھا دو نا پلیز!’ آج اُسکے غصے کا بھی کوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ وہ بے بسی سے اُسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر بولا
‘آخر چاہتی کیا ہوتم؟
‘تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ اُس دن کے روےّے کی معذرت کرنا چاہتی ہوں۔ غصے میں نجانے میں نے کیا کیا کہہ دیا، پر میرا مقصد۔۔۔۔’
‘اوہ پلیز! مت بولو یہ ڈائیلوگ۔ تمھارے دل میں میرے لئے کیا ہے یہ میں بہت اچھے سے جان گیا ہوں، اِسلئے پلیز یہ دِکھاوا بند کردو اب!’ وہ اپنی بات کہہ کر آگے بڑھنے لگا جب عرشیہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے جانے سے روکا اور اِلتجائی انداز میں بولی۔
‘پلیز روحیل مجھے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا ایک موقع تو دو’
‘ضرور دونگا۔ لیکن اُس سے پہلے تمھیں ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔’ وہ اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ سے نِکالتا ہوا بولا
‘کیسا فیصلہ؟’ اُسکا ذہن کھٹک رہا تھا۔ اُسے ڈر لگ رہا تھا روحیل کے رویے سے، اُسکی باتوں سے۔ وہ اُسکے چہرے پر نظریں جمائے بولا
‘اگر تمھیں میرے ساتھ رہنا ہے تو جیسے میں چاہتا ہوں ویسے ہی رہنا ہوگا اور میں جانتا ہوں کہ یہ تمھیں کبھی منظور نہ ہوگا۔اِسلئے اگر تم مجھ سے الگ ہوکر خوش رہ سکتی تو میں تمھیں خود سے دور کرنے کیلئے بھی تیار ہوں۔’
‘کک۔۔ کیا مطلب؟ کہنا کیا چاہتے ہوتم؟’ اُسکی آواز لڑکھڑائی۔ جو خدشہ رابیل نے کچھ دِن پہلے ظاہر کیا تھا آج وہ سچ ہوتا دِکھائی دے رہا تھا۔وہ جی جان سے کانپ گئی۔
‘میں جو کہنا چاہتا ہوں تم اچھے سے سمجھتی ہو، پھر بھی واضح کردیتا ہوں۔اچھی طرح سے سوچ لو، ایک ہفتہ ہے تمھارے پاس۔ میں اگلے ایک ہفتے کیلئے امریکہ جارہا ہوں وہاں سے واپس آکر تمھارا جواب چاہوںگا۔’ وہ کچھ دیر رُکا پھر دوبارہ بولا
‘میں جان گیا ہوں عرشیہ کہ تم مجھ سے شدید نفرت کرتی ہو اور ایک قابلِ نفرت شخص کے ساتھ رہنا یقیناً بہت مشکل کام ہے۔ اِسلئے میں تمھاری یہ مشکل اب آسان کئے دیتا ہوں۔ تم میرے ساتھ خوش نہیں ہو۔ میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اپنی زندگی کو آگے بڑھانا نہیں چاہتی تو میں تمھیں ڈائیورس دینے کیلئے تیار ہوں۔’ روحیل بہت ضبط سے کام لے رہا تھا۔آخری جُملہ کہتے وقت وہ اپنا ضبط چُھپانے رُخ موڑ گیا۔عرشیہ تو اُسکی بات سُن کر سناٹے میں آگئی تھی۔۔ اتنی بڑی بات۔۔ اتنا بڑا فیصلہ۔۔وہ کیسے کہہ گیا تھا ایسا۔۔ بات کی سنگینی کا احساس ہوتے ہی وہ چِلائی۔
‘روحیل۔۔!’ اِس سے زیادہ اُس سے بولا نہ گیا۔اُسکے آنسو روانی سے بہنا شروع ہوگئے اور وہ روحیل کو گھورنے لگی۔
‘گھبراؤ مت عرشیہ! تم پر کوئی حرف نہیں آنے دوںگا۔سارا اِلزام چپ چاپ اپنے سر لے لونگا۔ بس مجھے تمھاری خوشی عزیز ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمھاری خوشی میرے ساتھ نہیں بلکہ مجھ سے دور رہنے میں ہے۔شاید میری محبت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جو تمھاری نفرت کے آگے ہارگئی۔تم اچھی طرح سوچ لو۔ میں تمھارے جواب کا مِنتظر رہونگا۔’ وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا اور عرشیہ کمرے میں اکیلی کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ صبح اُسے امریکہ جانا تھا اوروہ پوری رات گھر سے غائب رہا تھا۔۔
عرشیہ اُسکے جانے کے کتنی دیر بعد تک ادھ کُھلے دروازے کو دیکھتی رہی۔یہ کیا کہہ گیا تھا وہ۔۔ ڈائیورس۔۔ اِسکے بارے میں تو اُس نے سوچا تک نہ تھا۔ اور سوچا تو اُس نے اب روحیل سے الگ ہونا بھی نہیں تھا۔وہ اِس گھر سے مانوس ہوگئی تھی۔۔یہاں کے مکینوں سے۔۔ اِس گھر کے در و دیوار سے۔۔اور اب تو روحیل بھی اُسکی ضرورت بنتا جارہا تھا۔۔وہ روٹھا تو یہ احساس ہوا کہ وہ اُسکے لئے غیر محسوس طریقے سے کتنا اہم ہوگیا تھا۔وہ سوچے جارہی تھی اور اُسکا دِماغ پھٹ رہا تھا۔ کتنا سفاک بن گیا تھا وہ۔۔ یہی سوچتے سوچتے نجانے کب اُسکی آنکھ لگ گئی ۔ کسی چیز کی آواز پر ایک دم اُسکی آنکھ کُھلی جب وہ اُٹھی تو روحیل اپنا سوٹ کیس اُٹھائے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ تو گویا روحیل اُس سے مِلے بغیرہی جارہا تھا۔ یہ سوچ کر عرشیہ کا غصہ عود کر آیا اور وہ دھڑ سے بیڈ سے نیچے اُتری اور روحیل کو آواز دے ڈالی۔ روحیل سوٹ کیس نیچے رکھ کر پلٹا۔
‘ہاں؟’ عرشیہ دھپ دھپ کرتی اُس تک آئی۔ آنکھوں میں نیند کا خُمار ابھی بھی جھلک رہا تھا۔ چہرے پر غصہ اُسکے سفید رنگ کو سُرخی بخش رہا تھا۔وہ آج کافی دن بعد اُسے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا۔ روحیل اُسکے غصے کی وجہ جانتا تھا پھر بھی انجان بنا کھڑا رہا۔
‘سمجھتے کیا ہو تم اپنے آپ کو ہاں؟’ وہ اِسوقت غصے میں اِس قدر پیاری لگ رہی تھی کہ ایک بے اِختیار سی کیفیت روحیل کو اپنے اند راُٹھتی محسوس ہوئی۔ اُس نے عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ ڈالا۔وہ اِس غیر متوقع حملے کیلئے بالکل تیار نہ تھی اِسلئے لڑکھڑا کر اُس سے آ لگی۔روحیل نے مضبوطی سے اُسکا بازو تھام رکھا تھا۔ یہ سب بالکل بے اِختیاری میںہوا تھا ، اگلے لمحے ہی روحیل خجل سا ہوگیا اور فوری اُسکا ہاتھ چھوڑ کر دور ہٹ گیا۔لیکن یہ دیکھ کر شدید حیران تھا کہ آج زندگی میں پہلی بار عرشیہ کے چہرے پر کہیں غصے کی شبیہ تک نہ تھی، بلکہ وہ مسکراتی ہوئی اُسے گھور رہی تھی۔کچھ تھا اُن آنکھوں میں بہت خاص جو آج سے پہلے کبھی دکھائی نہ دیا تھا۔
‘بِنا بتائے امریکہ کا پروگرام بنا ڈالا اور اب مجھ سے مِلے بغیر ہی جارہے تھے؟ مجھے اُٹھا دیا ہوتا، کیوں کیا تم نے ایسا؟’
‘میرا تم پر ایسا کوئی حق نہیں ہے عرشیہ!’ اور عرشیہ جو کسی اچھی بات کی اُمید کر رہی تھی یہ سُن کر کچھ بول ہی نہ پائی۔روحیل دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے رُکا ۔
‘چلتا ہوں، اپنا خیال رکھنا! جب میں واپس آؤنگا تو مجھے تمھارے فیصلے کا اِنتظار رہے گا۔الّلہ حافظ!’
************************
روحیل اُس سے فیصلہ کرنے کا کہہ کر امریکہ آ تو گیا تھا لیکن اُسکی سوچیں سخت مُنتشر تھیں۔اُسکا کسی بھی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کرپاگل ہورہا تھا کہ عرشیہ کیا فیصلہ کریگی؟ جو بات وہ اِتنی آسانی سے عرشیہ کو کہہ آیا تھا اب خود اُسکے لئے وہ قبول کرنا مُشکل ہورہا تھا۔وہ اُس رات کے بعد سے عرشیہ کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھ رہا تھا۔اُسکی ساری حرکات و سکنا ت اوراپنی طرف بڑھتے اِلتفات بھی محسوس کر رہا تھا۔ عرشیہ نے کئی بار اپنے تلخ رویے کی معافی بھی مانگی تھی۔کبھی روحیل کا دل چاہتا کہ وہ عرشیہ کی باتوں پر یقین کرلے اور اُسے معاف کردے لیکن اُسکی طرف سے مِلنے والے کچھ گھاؤ اِتنے گہرے تھے کہ اُسکی روح تک زخمی ہوچُکی تھی۔اب وہ اپنے دل کو کوئی اور دھوکا نہیں دینا چاہتا تھا۔اُس نے اپنی ساری فکریں الّلہ کے سپرد کرنے کا سوچا اورجانماز بچھا کر نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔ دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو لفظ اشک بن کر چہرے کو بِھگونے لگے۔
‘یا الّلہ! توُ تو جانتا ہے نا۔۔ تُو سب جانتا ہے کہ میں کئی سال اُسکے لئے کتنا تڑپا ہوں ، کتنا رویا ہوں ، کتنا گِڑگڑایا ہوں تیرے آگے اور پھر ایک دِن اچانک تُو نے اُسے میری جھولی میں ڈال دیا۔۔ میں خوش تھا۔۔ بہت خوش ۔۔لیکن۔۔ اب جو آزمائش کی گھڑی میرے اوپر آئی ہے تو مجھے اُس سے نِکال لے میرے مولا! میں آج پھر تجھ سے اُسے مانگ رہا ہوں اے خُدا!میرے حق میں اُسے بہترین کردے۔ میرے لئے اُسکا دل نرم کردے! میں تھک گیا ہوں اِس بھیڑ میں اکیلے محبت کا سفر طے کرتے کرتے۔ تُو اُسے میرے ہمقدم کردے یا الّلہ! عرشیہ کو میرے سنگ کردے۔۔۔’
وہ اپنے رب کے آگے کسی چھوٹے بچے کی طرح بِلک بِلک کر رورہا تھا۔ وہ اُس لڑکی کیلئے رو رہاتھا جس کو اُسنے بے پناہ چاہا تھا۔دِن اور رات کا فرق بُھلا کر ، اپنا آپ بُھلا کر چاہاتھا۔خُدا سے بات کرکے وہ خود کواب بہت ہلکا پُھلکا محسوس کر رہا تھا۔اُسنے اپنی ساری اُلجھنیںالّلہ کے حوالے کردیں اورکاموں میں مصروف ہوگیا۔ جہاں روحیل اُلجھن کا شِکار تھا وہیں عرشیہ بھی عجیب سی بے چینی میں گِھری ہوئی تھی۔ آج پورے چار دِن ہونے کو آئے تھے روحیل نے امریکہ جاکر ایک دفع بھی اُسے کال نہیں کی تھی۔ وہ بے چینی کی حالت میں اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی۔ رابیل بھی کچھ دن رہ کر اپنے گھر جاچُکی تھی اِسلئے وہ اُس سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ پھر اُسے وانیہ کا خیال آیا تو اُسے ہی فون مِلا بیٹھی اورپچھلے دِنوں بیتے سارے حالات اُسے بتادئیے جسے سُن کر وانیہ شدید غصہ ہوئی تھی۔
‘دیکھ لیا تم نے اپنی ہٹ دھرمی کا نتیجہ؟ مِل گیا سکون؟ کتنا سمجھاتی تھی کہ مت آزماؤاُس شخص کو اِتنا لیکن تمھیں اپنے عِلاوہ سب پاگل لگتے ہیں۔ اب مزے کرو خوب!’
‘وانی پلیز! تم تو ایسے مت کہو۔ روحیل پہلے ہی اپنے الفاظ اور رویے سے مجھے چھلنی کرچکا ہے۔ اب تم تو ایسے مت بولو۔’ عرشیہ رونے لگی، ریسیور میں اُسکی سسکیاں سُنائی دیں تووہ کچھ نرم پڑ گئی۔
‘اب کیوں رو رہی ہو؟ یہی تو چاہتی تھیں نا تم، پھر تمھیں تو خوش ہونا چاہئیے کہ وہ تمھیں خود سے دور کرنے کیلئے تیار ہے، تمھیں ڈائیورس۔۔۔’
‘وانیہ پلیز! یہ گھٹیا لفظ اپنے منہ سے مت نکِالو۔ میں نے یہ سب کبھی بھی نہیں چاہا۔میں اب روحیل سے الگ نہیں ہوسکتی میں اُسے بہت پسند کرنے لگی ہوں۔وہ واقعی بہت اچھا ہے اور میں اُسکے ساتھ تھوڑے بھی دِن اور رہی تو یقیناً مجھے اُس سے شدید محبت ہوجائیگی۔’ وہ اعتراف کر رہی تھی ۔ عرشیہ کی بات سُن کر وانیہ کو ڈھیروں اطمینان ہوا تبھی وہ بولی۔
‘ٹھیک ہے عرشیہ! پر اِس بار تمھیں اُنکی طرف بڑھنا ہوگا۔ تمھیں اعتراف کرنا ہوگا کہ تمھاری زندگی میں وہ کتنے اہم ہیں۔ کیونکہ تم اُنھیں پہلے ہی بہت آزما چُکی ہو اِسلئے اب پہل تمھیں ہی کرنی ہے!’
‘ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔بے فکر رہو! جیسا تم نے کہا بالکل ویسا ہی ہوگا۔ میں بھی دیکھتی ہوں اب روحیل مجھ سے کب تک نِگاہیں چُرائیگا۔’
آخری جُملے پر وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Read Next

تائی ایسری — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!