‘بھابھی اندر آجاؤں؟’ وہ اندر جھانکی۔ عرشیہ وارڈروب میں کپڑے رکھ رہی تھی۔ اُسکی آواز پروہ چلتی ہوئی ڈریسنگ روم سے باہر آگئی
‘ارے آؤ رابی، اندر آؤ۔’ رابیل کچھ دنوں کیلئے میکے آئی ہوئی تھی۔ وہ اِسوقت کافی سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی تبھی عرشیہ نے پوچھا
‘کیا ہوا رابی؟ تم کچھ پریشان لگ رہی ہو؟’ رابیل ہنوز خاموش رہی تو وہ اُسکے قریب آگئی اور اُسکے شانے پر ہاتھ رکھا
‘کیا بات ہے؟ کیا ہوا ہے؟’
‘یہی تو میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔’ عرشیہ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنی لگی
‘کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔’
‘بھابھی! آپ اور جانی بھائی ایک ساتھ خوش نہیں ہیں نا؟’ سوال سُن کر عرشیہ کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔ اُسکے تو وہم و گُمان میں بھی نہیں تھا کہ رابیل ایسا کوئی سوال کر بیٹھے گی۔ اِسکا مطلب وہ سب جانتی تھی۔ وہ کچھ بول نہ پائی تو رابیل نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔
‘آپ نے جواب نہیں دیا میری بات کا؟’
‘ایسی کوئی بات نہیں ہے رابی۔ ہم ایک ساتھ بہت خوش۔۔۔’
‘جھوٹ بولتی ہیں آپ۔’ رابیل نے اُسکی بات کاٹ دی اور کچھ بُلند آواز میں بولتی وہ کھڑی ہوگئی۔ عرشیہ بہت حیرت سے اُسے تک رہی تھی۔آج سے پہلے رابیل نے اُس سے کبھی اِس انداز میں بات نہ کی تھی۔
‘آپ کیوں خوش نہیں ہیں اُنکے ساتھ؟ پلیز مجھے بتائیے!’
‘کس نے ایسا کہا ہے تم سے؟ روحیل نے؟؟’ عرشیہ اب سنجیدگی سے اُس سے پوچھ رہی تھی۔ اُسے روحیل سے یہ اُمید ہرگز نہ تھی کہ وہ اپنی بہن کو سب بتا کر اپنی وکالت کیلئے یہاں بھیجے گا۔
‘یہی تو دُکھ ہے بھابھی! آپ ابھی تک بھائی کو سمجھ ہی نہیں پائیں۔ مجھے اُنھوں نے کچھ نہیں بتایا۔ وہ آج تک اپنی اِس یکطرفہ محبت کا بھرم رکھے ہوئے ہیں حالانکہ اندر سے بالکل ٹوٹ چکے ہیں۔اِتنا کرب، اتنی اذیت اور ویرانی تو میں نے اُنکی آنکھوں میں اُسوقت بھی نہ دیکھی تھی جب آپ ہمیشہ کیلئے اُن سے دور جاچُکی تھیں۔ جتنا کرب کل میں نے اُنکی آنکھوں میں دیکھا ہے۔ وہ بالکل تنہا ہوگئے ہیں بھابھی، آپ نے اُنھیں بالکل تنہا کردیا ہے۔’ رابیل بہت ضبط سے بات کر رہی تھی۔ لیکن آخری جُملے پر اُسکی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے۔ اپنے بھائی کی اِس حالت اور ناقدری پر اُسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔وہ جانتی تھی کہ روحیل عرشیہ کو کتنا دیوانوں کی طرح محبت کرتاہے اور اُسکے لئے کتنا خوار ہوا تھا۔ عرشیہ بالکل خاموش بیٹھی تھی۔ وہ کچھ غلط تو نہیں کہہ رہی تھی۔ اُسکا ایک ایک لفظ سچ ہی تو تھا۔
‘بھابھی آپ دل کی اِتنی اچھی ہیں، اِتنا سب کا خیال رکھتی ہیں۔ تو پھر بھائی کے ساتھ ایسا سُلوک کیوں؟ کیا وہ آپکو اچھے نہیں لگتے؟ کیا وہ آپکا خیال نہیں رکھتے؟ ‘
عرشیہ خاموش ہی رہی۔ اپنی صفائی میں اُسکے پاس کہنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا۔ رابیل نے اپنے آنسو صاف کئے اور مضبوط لہجے میں بولی۔
‘بھابھی اگر آپ اُن کے ساتھ خوش نہیں ہیں تو جلد کوئی فیصلہ کرلیں۔’
‘فیصلہ؟ کیسا فیصلہ؟’ عرشیہ ٹھٹکی
‘اگر آپ بھائی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو اُن سے کہیں کہ وہ آپکو آزاد کردیں۔ وہ آپکی خوشی کی خاطر یہ بھی کر گُزریںگے۔’
‘رابیل۔۔!’ عرشیہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوگئی اور غصے سے اُسکی طرف دیکھا
‘تم ہوش میں تو ہو؟ کیا کہہ رہی ہو کچھ اندازہ بھی ہے؟’ اُسکو رابیل سے اِس اِنتہائی بات کی بالکل اُمید نہ تھی۔اُن دونوں کا رِشتہ جیسا بھی تھا لیکن عرشیہ اِتنی بڑی بات کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور وہ کتنی آسانی سے بول گئی تھی۔ جب رابیل بولی تو اُسکا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ ٹوٹا ہوا تھا۔
‘ہاں! بہت سوچ سمجھ کر بول رہی ہوں ۔ جب آپ اُن کے ساتھ خوش ہی نہیں ہیں تو یہ زبردستی کا رِشتہ بھی کیوں برداشت کر رہی ہیں۔ یہ فیصلہ کرکے ایک بار میں ہی میرے بھائی کو مار دیں۔ اُنکا یہ روز روز کا مرنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا بھابھی۔۔ نہیں دیکھا جاتا۔۔’ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے اپنی کمرے کی طرف بھاگی تھی اور عرشیہ پتھرائی ہوئی نظروں سے اُسے جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی۔ پھر ایک ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح بیڈ پر ڈھ گئی۔
************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
عرشیہ سیڑھیاں اُترتی حرا بیگم کے کمرے کی طرف آئی جب اندر سے آتی آوازوں پر ٹھٹک کر باہر ہی رُک گئی۔
‘بیٹا تم خوش تو ہو نا؟’ یہ حرا کی آواز تھی۔عرشیہ کا خیال تھا کہ وہ رابیل سے سوال کر رہی ہیں لیکن جواب میں آتی روحیل کی آواز سُن کر وہ چونکی۔اُسکا دل معمول سے تیز دھڑکنے لگا۔روحیل اور رابیل دونوں نے آج تک کوئی بھی بات اپنی ماں سے کبھی نہیں چُھپائی تھی اِسلئے عرشیہ آنے والے خدشے کے سبب دل ہی دل میں ڈر رہی تھی لیکن روحیل کا جواب سُن کر وہ حیرت سے کنگ رہ گئی۔
‘آپ کو کیا لگتا ہے ممی؟’ وہ اُلٹا اُن سے سوال کر بیٹھا
‘لگتے تو تم خوش ہو روحیل۔’ حرا نے اُسکی پیشانی پر آئے بال محبت سے ہٹائے تو وہ سرشار لہجے میں بولا
‘خوش نہیں ممی، بہت خوش ہوں میں(محبت بھی کبھی کبھی کس طرح رُسوا کرواتی ہے۔ممی میں نے آپ سے جھوٹ بولا اِس کیلئے مجھے معاف کردیجئے گا)’
‘بیٹا ویسے تو وہ بچی ہے ہی اِتنی پیاری کہ کبھی کسی کو اُس سے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی میںاپنے بیٹے کے منہ سے سُننا چاہتی تھی۔’ رابیل نے نظریں اُٹھا کر روحیل کو دیکھا تو وہ نظریں چُرا گیا (ایک عرصے سے قائم رکھا برہم اُسکی بہن کے سامنے آخرکار ٹوٹ ہی گیا تھا) وہ بھی وہاں موجود تھی لیکن بالکل خاموش بیٹھی اُن دونوں کی باتیں سُن رہی تھی۔
‘آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ عرشیہ ہے ہی ایسی کہ وہ کبھی کسی کو تکلیف نہیں دے سکتی۔وہ میرا بھی بہت خیال رکھتی ہے شاید میں ہی کبھی کوئی کوتاہی کر جاتا ہوں۔میں سچ میں خوش ہوں ممی!’ رابیل دکھی دل سے اُسے دیکھ رہی تھی جو کتنی آسانی سے اپنے اندر موجود کرب کو سب سے چھُپا رہا تھا۔اُسکی ہنسی میں چُھپا خالی پن رابیل کو محسوس ہوا۔پھر وہ فریش موڈ میں بولا۔
‘چلو اسی خوشی میں آج ہم ڈنر باہر کریں گے۔رابی! تم بھی تیار ہوجاؤ اور اپنی بھابھی کو بھی جاکر کہہ آؤ ۔ میں تب تک ایک دو ضروری کام نِمٹا لوں۔’ باہر کھڑی عرشیہ کو اِسوقت روحیل انتہائی عظیم اِنسان لگا اور اُسے اپنا آپ بہت ہی چھوٹا محسوس ہونے لگا۔کیا نہیں کیا تھا عرشیہ نے اُسکے ساتھ۔۔ لیکن اُسکی زُباں پر کوئی گلِہ نہ تھا۔کوئی شکایت۔۔ کوئی آزمائش۔۔ کوئی ٹورچر کبھی نہیں دیا اُسے۔۔ ساری آزمائشیں خود ہی اپنی ذات پر جھیلتا آیا تھا وہ۔۔کتنی شدید محبت کرتا تھا وہ ، اِسکا اندازہ عرشیہ کو آج سہی معنوں میں ہوگیا تھا۔جس سے آپ شدید محبت کرتے ہیں اُسکی طرف سے دیا جانے والا بڑے سے بڑا زخم بھی آپ ہنس کر سہہ لیتے ہیں۔ عرشیہ کے گُلابی ہونٹوں کی تراش میں بڑی پیاری مُسکراہٹ اُبھری تھی۔ وہ کچھ مسرور سی ہوکر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ رابیل نے آکر اُسے ڈِنر کے پلین کا بتادیا تھا۔ گو کہ عرشیہ کو ابائے میں ہی باہر جانا تھا لیکن وہ پھر بھی آج بہت فُرصت سے تیار ہورہی تھی۔روحیل نے کچھ دن پہلے اُسے ایک خوبصورت ڈریس گِفٹ کیا تھا جِسے آج تک اُس نے پہننے کی زحمت نہیں کی تھی۔ آج بطورِخاص اُس نے وہ ڈریس نکالا اور پہن کر تیار ہونے لگی۔شاید وہ اسطرح روحیل کی توجہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ بلیک اینڈکوپر کلر کا شِفون کا خوبصورت ڈریس تھا، گلے اور سلیوز پر سفید موتیوں کا نفیس کام تھا۔ وہ آج بہت فریش لگ رہی تھی اور اُسکی رنگت بلیک کلر میں پہلے سے بھی زیادہ نُمایاں ہورہی تھی۔ آج پہلے بار وہ روحیل کیلئے اِسطرح تیار ہورہی تھی اور اُسے یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔ وہ اپنے دل کی اچانک کیفیت پر خود بھی حیران تھی جو کچھ دِنوں سے بدلی بدلی سی تھی۔آج دل اُسکے نام پر چِڑنے کی بجائے سرشار جھوم رہا تھا۔ اُسے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہورہی تھی جسے وہ کوئی نام نہ دے پارہی تھی۔ لیکن یہ خوشی اُسوقت عارضی ثابت ہوئی جب روحیل کمرے میں داخل ہوا اور ایک نِگاہِ غلط بھی عرشیہ پر نہ ڈالی۔کپڑے تبدیل کر کے وہ ایک لمحے میں کمرے سے باہر نکل گیا جیسے کمرے میں کوئی اور موجود ہی نہ ہو۔ عرشیہ کے جذبات پر گھڑوں پانی گِر گیا۔ رابیل اُسے آوازیں دیتی اندر آئی اور اُسکا قیامت خیز سراپا دیکھ کر حیران رہ گئی۔ رابیل کی توجہ کا مرکز وہ ڈریس تھا جو عرشیہ نے پہن رکھا تھا۔ شدید حیرت کے ساتھ اُسے بے پناہ خوشی بھی ہورہی تھی ۔
‘واؤ! یہ وہی ڈریس ہے نا جو جانی بھائی نے آپکو دیا تھا؟ یو آر لُکنگ اڈوربل(You are looking adorable)’ عرشیہ مسکرا کر بولی
‘ہاں بالکل یہ وہی ڈریس ہے۔ لیکن تمھارے بھائی نے تو ایک نظر مجھے دیکھا تک نہیں۔’ وہ مصنوئی خفگی سے بولی تو رابیل کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ عرشیہ نے اپنے دل کے بدلے ہوئے حال سے اُسے شام کو ہی آگاہ کردیا تھا اِسلئے رابیل شرارت سے آنکھ مار کر بولی۔
‘آپ نے بھائی کو تنگ بھی تو اِتنا کیا ہے۔ اب تھوڑی ناراضگی تو جائز ہے نا۔’
‘میں پوری کوشش کرونگی کہ آئندہ کبھی اُنھیں تنگ نہ کروں، یہ وعدہ ہے میرا۔’ عرشیہ نے مُسکرا کر کہا جسکی سچائی پر رابیل کو مکمل یقین تھا۔اُسکے لفظوں کی سچائی اُسکی روشن آنکھوں سے ظاہر تھی۔ رابیل اُسکے ساتھ سیڑھیاں اُترتے ہوئے بولی۔
‘میں ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوں بھابھی!’
************************
گاڑی فائیو اِسٹار ہوٹل کے سامنے پارک کرکے وہ تینوںباہر اُتر آئے۔ حرا بیگم اُنکے ساتھ نہیں آئی تھیں وہ بچوں کو ساتھ اِنجوائے کرنے دینا چاہتی تھیں۔سِکندر صاحب کی ڈیتھ کے بعد اُنھوں نے ویسے بھی باہر آنا جانا بہت کم کردیا تھا۔ ہوٹل کے احاطے میں اُس نے ایک سائیڈ کی ٹیبل رِزرو (Reserve) کروائی تھی جہاں کا ماحول پُر سکون تھا۔ اِس جگہ پر لوگوں کی تعداد کچھ کم تھی۔ روحیل نے کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے پوچھا جس پر رابیل نے اپنی پسند بتائی اور عرشیہ بولی۔
‘جو تم اپنی پسند سے منگوانا چاہو۔’ اُسکی مسکراہٹ میں کچھ ایسی بات تھی کہ روحیل چوکنے پر مجبور ہوگیا۔ وہ اُسے ہمیشہ سے کافی مختلف لگ رہی تھی۔ ایک والہانہ وارفتگی تھی اُسکی سُنہری آنکھوں میں۔ روحیل اُسکی بات پر حیران ہوا البتہ رابیل نے مینیو کارڈ اپنے چہرے کے سامنے لاکر بے اختیار آنے والی ہنسی کو چُھپایا۔ ویٹر نے ڈِنر ٹیبل پر لگایا اور وہ تینوں کھانے میں مصروف ہوگئے۔ روحیل کچھ خاموش تھا اور عرشیہ کو مکمل طور پر نہ صرف نظرانداز کر رہا تھا بلکہ اُسکی طرف دیکھنے سے بھی گُریز برت رہا تھا۔وہ رابیل سے ہی باتیں بھی کررہا تھا اور اُسی سے بات کرکے ہنس بھی رہا تھا لیکن عرشیہ کی طرف ایک بار بھی نِگاہ نہیں کی تھی۔ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا؟ آج وہ خاص اُسکے لئے تیار ہوئی تھی۔ وہ سوچے جارہی تھی کہ کسی نے اُنکی ٹیبل بجا کر توجہ اپنی جانب مبذول کی۔
‘مے آئی جوائن یو گائز(May I join you guys?)؟’ آواز پر عرشیہ تو اُچھل ہی پڑی ۔ وہ سُمیر صاحب تھے جو ایک سوبر سی مسکراہٹ کے ساتھ اُن تینوں کو دیکھ رہے تھے۔ عرشیہ جھپاک سے اُنکے گلے لگ گئی۔ اُنھوں نے بھی اُسے بانہوں میں زور سے بھینچ لیا ۔سُمیر کو اپنی تینوں بیٹیوں میں سب سے زیادہ عرشیہ سے لگاؤ تھا۔وہ چھوٹی ہونے کے باعث اُنکی بے حد لاڈلی تھی اور اُسکی زندگی میں ہونے والے سانحے کے بعد وہ اُنکے اور بھی زیادہ قریب ہوگئی تھی۔ اُنھوں نے اُسے خود سے الگ کیا ۔
‘کیسی ہے میری بیٹی میری جان؟’ اُنھوں نے اُسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اور اِس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی روحیل آگے آیا اور سلام کرنے کے ساتھ ہی اُنکے گلے لگ گیا۔ اُسکا دایاں ہاتھ عرشیہ کے ہاتھ سے مس ہواتھا جسے ایک لمحے میں اُس نے پیچھے کرلیا۔سُمیر صاحب بھی خاصی گرمجوشی سے اُس سے ملے تھے۔وہ اُسکی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے بولے۔
‘کیسے ہو ینگ مین؟’
‘ایک دم فرسٹ کلاس پاپا آپ کیسے ہیں؟ بیٹھئے نا پلیز!’ روحیل ایک کُرسی کھینچ کر اُنکو بیٹھنے کا اِشارہ کرنے لگا۔ عرشیہ کافی حیرت میں گھری تھی، روحیل اور سُمیر صاحب کی حد درجہ بے تکلفی پر اُسے حیرت تھی۔ سب بیٹھ گئے لیکن وہ نجانے کِن سوچوں میں اب تک کھڑی تھی کہ سُمیر نے اُسکی سوچوں کا تسلسل توڑا۔
‘کیا ہوا بیٹی؟ بیٹھو نا!’ وہ ایک خوشگوار احساس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ کسی بھی لڑکی کیلئے اِس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہوتی ہے کہ اُسکا شوہر اُسکے میکے والوں سے ہنس بول کر مِلے اور اُنھیں عزت دے۔اُسے بہت خوشی ہورہی تھی اپنے پاپا کے ساتھ روحیل کا اِتنااپنائیت بھرا برتاؤ دیکھ کر۔ پھر اُسے یاد آیا کہ انیلہ چچی نے بھی روحیل کی بہت تعریف کی تھی اوربتایا تھا کہ وہ اکثر اُن سے ملنے آتا ہے، تب بھی وہ حیران ہوئی تھی۔اُنھوں نے رابیل سے سب کی خیریت دریافت کی اور پھر روحیل سے بزنس کی باتوں میں مگن ہوگئے۔سُمیر صاحب کسی میٹنگ کے سلسلے میں یہاں آئے ہوئے تھے اور ڈنر سے واپسی پر روحیل کی ٹیبل پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی پیاری بیٹی اور داماد سے ملنے چلے آئے۔اُنھوں نے بچوں کے ساتھ صرف آئسکریم کھائی تھی وہ بھی روحیل کے بے حد اصرار پر۔ جب بِل آیا تو وہ پے کرنے لگے جس پر روحیل نے اُنکو خفا ہوتے لہجے میں روکا۔
‘پاپا یہ بہت غلط بات ہے۔ ایک طرف تو آپ مجھے اپنا بیٹا کہتے ہیں اور پھر یہ تکلف۔۔ پلیز بِل میں ہی پے کرونگا۔’ سُمیر کتنی ہی دیر اُسے دیکھتے رہے۔ وہ بھی شارق کی طرح ہی کچھ عرصے میں اُنکو عزیز ہوگیا تھا۔ اُنھوں نے خُدا کا شکر ادا کیا کہ ایک دفع پھر بیٹے جیسا داماد اُنکی جھولی میں ڈال دیا گیا تھا۔ اگر ایک کو خُدا نے اپنے پاس بُلالیا تھا تو دوسرا بھی ویسا ہی سعادت مند داماد ے دیا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر ‘اوکے’ کیا اور روحیل نے بِل پے کردیا۔ جب وہ جانے کیلئے اُٹھے تب سُمیر صاحب نے سوال کیا۔
‘اور بیٹا امریکہ کی فلائیٹ کب ہے؟ ساری تیاری ہوگئی؟’
‘جی پاپا سب ہوگیا ہے، بس پیکنگ باقی ہے وہ آج کرلونگا۔ کل صبح نو بجے کی فلائیٹ ہے۔ آپ دعا کیجئے گا کہ یہ پروجیکٹ ہماری ہی کمپنی کو مِلے۔’ وہ اور بھی نجانے کیا باتیں کر رہے تھے لیکن عرشیہ اُسی ایک بات میں اٹک گئی تھی ( روحیل امریکہ جارہا ہے، وہ بھی کل۔۔ اور اُسنے مجھے بتایا تک نہیں۔ بتانا تو دور اُس نے ذکر تک نہیں کیا۔ کتنے دِنوں کیلئے جارہا ہے یہ بتانا بھی مُناسب نہیں سمجھا؟) سب کو معلوم تھا یہاں تک کہ سُمیر صاحب کو بھی ۔ ایک نہیں معلوم تھا تو صرف اُسے۔۔روحیل اِتنا کٹھور دل اور اِس حد تک اجنبی بن جائیگا اُسے اندازہ نہ تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ٹھیک سے اپنے پاپا کو خُدا حافظ بھی نہیں کہہ پائی تھی۔اُسکا دل اِسی بات میں اُلجھا تھا کہ روحیل نے اُسے آخر بتایا کیوں نہیں کہ وہ کل جارہا ہے۔رابیل اور وہ پتا نہیں کیا کیا باتیں کر رہے تھے مگر عرشیہ ایک دم ہی ماحول سے کٹ گئی تھی۔ماحول میں واپس تب لوٹی جب رابیل نے زوردار آواز میں سی ڈی پلئیر آن کردیا جِسے روحیل آف کرتا ہوا بولا۔
‘رابی گُڑیا! سوری میرے سر میں درد ہورہا ہے اِسلئے بند کردیا ۔’ گاڑی میں اے سی کی ٹھنڈک کے باوجود روحیل کے چہرے پر پسینے کے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔شاید اُسکی طبیعت کچھ خراب تھی۔ عرشیہ نے اُسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کیا۔
‘کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ‘ وہ اُسکی اِس حرکت پر جتنا بھی حیران ہوتا کم تھا۔ اُسے کب پرواہ رہی تھی کبھی روحیل کی۔ کچھ دِنوں سے وہ عرشیہ میں بہت بدلاؤ محسوس کر رہا تھا۔ وہ بالکل ہی بدلی ہوئی لگ رہی تھی، خصوصاً آج تو وہ حیران کرنے پر تُلی ہوئی تھی۔اُسکا لایا ہوا ڈریس پہن لینا ، اُسکی پسند کا کھانا منگوانا اور اب یہ اپنائیت بھرے اِلتفات اُسے حیرانی میں مُبتلا کر رہے تھے۔لیکن اُس تلخ رات کو سوچتے ہی اُسکے نقوش تن گئے اور وہ اُسکا ہاتھ اپنے ماتھے سے ہٹا کر بولا۔
‘ٹھیک ہوں میں۔’ اِتنے دِن میں یہ پہلی بات تھی جو روحیل نے عرشیہ سے کی تھی۔عرشیہ کا دل کسی نے مُٹھی میں لیا۔روحیل کو بُخار لگ رہا تھا۔ وہ گھر آنے کا اِنتظار کرنے لگی۔ اُسے آخری وقت تک ہمت نہیں ہارنی تھی اور روحیل کو منانا تھا جو اُس سے بہت بُرا روٹھ گیا تھا۔
************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});