اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

‘درد ہورہا ہے؟ اپنے درد کی کتنی فکر ہے تمھیں اور میرا درد دکھائی نہیں دیتا؟ ہوس۔۔ ہوس ہوتی کیا ہے اِسکے معنی بھی کہاں جانتی ہیں تم جیسی نازک مِزاج اور سیدھی لڑکیاں۔ عرشیہ بیگم! اگر مجھے تمھاری ہوس ہوتی تو ایک لمحہ، فقط ایک لمحہ چاہئیے تھا مجھے تمھارا خود کی ذات پر یہ اعتماد اور غرور چھیننے میں۔ تمھارے پیچھے جتنا میںخوار ہوا ہوں تم اِسے ہوس کہتی ہو۔ میری سچی اور پاکیزہ محبت کو ہوس اورطلب کا نام دے کر تم نے صرف میرے جذبوں کی نہیں بلکہ میری بھی توہین کی ہے۔ تم مجھے اِتنا گرا ہوا انسان سمجھتی ہو؟ جس نے اپنی پوری زندگی میں صرف تمھیں چاہا، تمھیں سوچا، تم سے عشق کیا، تمھیں بے شمار، دیوانہ وار چاہا لیکن کبھی تمھیں غلط طریقے سے پانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔قسمت سے ملیں تم مجھے اور جتنا میں تمھارے لئے تڑپا ہوں شاید ہی کوئی تڑپا ہو۔۔ تم اِتنے عرصے سے میرے پاس رہ کر بھی مجھ سے اِتنے فاصلے پر رہیں لیکن میں سب برداشت کرتا رہا اور تمھیں یہ سب ہوس لگتا ہے؟ تمھارے مضبوط کردار، حیا اور پاکیزگی نے مجھے اپنا دیوانہ بنایا لیکن تم سے پیار کرتے وقت میں یہ نہیں جانتا تھا کہ جس کو میں دیوانوں کی طرح چاہتا ہوں وہ اتنی سطعی اور گِری ہوئی سوچ کی مالک ہوگی۔۔ دور ہوجاؤ میری نظروں سے عرشیہ اِس سے پہلے کہ میرا ضبط جواب دے جائے۔’ وہ اُسے دیوار کی طرف دھکیل کر ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اُٹھاتا تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اُسکے جاتے ہی وہ سوکھی شاخ کی طرح بیڈ پر گِری اور بُلند آواز میں رونے لگی۔ یہ سب تو اُسنے بھی نہ سوچاتھا۔
‘یا الّلہ! یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔۔۔ یہ تو نہ چاہا تھا میں نے۔میرے الّلہ! میری مدد فرما، مجھے سیدھا اور صحیح راستہ دِکھا۔ میری مشکل آسان کر میرے مولا!’ وہ دوبارہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
روحیل تیز رفتاری سے گاڑی پورچ سے نکال کر باہر لے گیا۔ غصے کی شدت سے اُسکے ہاتھ کی گرفت اسٹئیرنگ پر سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی۔ آج پہلی بار اُسے عرشیہ سے نفرت محسوس ہورہی تھی۔۔
شدید نفرت۔۔
اتنی تذلیل۔۔
اتنی بڑی تہمت۔۔
وہ اس بات کو قبول ہی نہیں کر پارہا تھا کہ عرشیہ اتنی گِری ہوئی بات بھی کرسکتی ہے۔ اِتنے سالوں کی بے لوث محبت کو ہوس کا نام دیکر عرشیہ نے اُسکے وجود کو مزید تار تار کردیا تھا۔ وہ اُسکی نفرت تو پرداشت کر ہی رہا تھا لیکن آج اپنی محبت پر لگایا گیا یہ اِلزام وہ سہہ نہیں پارہا تھا۔محبت تو وہ حسین جذبہ ہے جو اپنا آپ خود منوالیتی ہے لیکن اُس پر لگایا گیا کوئی بھی جھوٹااِلزام وہ نہیں سہہ پاتی۔ انتہائی رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ سڑکوں پر گاڑی بھگا رہا تھا۔رات ہونے کی وجہ سے سڑکیں سُنسان تھیں ورنہ ضرور اُسکا ایکسیڈنٹ ہوجاتا۔ بہت دیر سڑکوں کی خاک چھانتے چھانتے جب وہ تھک گیا تو گاڑی ایک سائیڈ پر روک کر باہر اُتر آیا۔ اُسکے دماغ میں طوفان چل رہے تھے۔ ذہن بُری طرح مُنتشر تھا۔ اگر وہ تھوڑی بھی اور دیر عرشیہ کے سامنے رہتا تو شاید کچھ اُلٹا کر بیٹھتا اِسلئے گھر سے نکل آیا۔اُسکا دماغ ماؤف ہورہا تھا۔اُسے اپنی کنپٹّیاں سُلگتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ وہ ذہن کو ساری اُلجھنوں سے آزاد کرتا سگریٹ سُلگانے لگا۔ آج رابیل سے کیا ہوا وعدہ بھی وہ توڑرہا تھا۔
ایک۔۔ دو۔۔ تین۔۔۔ اور چند ہی منٹوں میں روحیل نے پورا سگریٹ کا پیکٹ پھونک دیاتھا۔ لیکن سگریٹ کا دھواں بھی اُس دھوئیں سے کم تھا جو اُسکے دل اور وجود میں اُٹھ رہا تھا۔ اُسکی آنکھیں جلن سے سُرخ پڑ گئی تھیں۔ اپنا ڈھیروں خون جلا کر وہ واپس گاڑی میں آ بیٹھا اور تھک کر سیٹ کی پُشت سے ٹیک لگا لی۔ کبھی کبھی کسی کی زُبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ سامنے والے پر صدیوںکی تھکن چھوڑ جاتے ہیں۔ تلوار کا گھاؤ تو پِھر بھر سکتا ہے لیکن لفظوں کے گھاؤ سے جو روح زخمی ہوتی ہے اُسکی چُبھن صدیوں تک محسوس ہوتی رہتی ہے۔
‘تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا عرشیہ! بہت نا اِنصافی کی ہے۔ مجھے میری ہی نظروں میں گِرادیا ہے۔’
گھر تو بہرحال جانا ہی تھا لیکن آج پہلی بار اُسے گھر جانے سے سخت وحشت ہورہی تھی۔اُسنے ایک لمبی سانس کھینچ کر اِگنیشن میں چابی گُھمائی اور گاڑی اِسٹارٹ کردی۔ گاڑی جس وقت روحیل وِلا میں داخل ہوئی رات کے تین بج رہے تھے۔ وہ گھر سے بارہ بجے نکلا تھا۔ پچھلے تین گھنٹوں سے سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا وہ اپنا خون جلاتا رہا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے وہ مرے مرے قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔ جہازی سائز بیڈ کے وسط میں وہ سُکڑی سِمٹی سو رہی تھی۔ وہ دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتا اُسکے قریب آکر کھڑا ہوا اور اُسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا۔ بکھرے ہوئے بال۔۔ آنکھوں کے پپوٹے سوجھ کر سُرخ ہورہے تھے اور چہرے پر بے تہاشا رونے کی وجہ سے لکیریں بن گئی تھیں۔ گُلابی رُخصار پر پانچ اُنگلیوں کے نشان پڑے ہوئے تھے جس کو دیکھتے ہی روحیل کی مُٹھیاں خود بخود بھینچ گئیں۔اُسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا جس نے اتنی بے دردی سے اُسکے نازک گال پر ہاتھ اُٹھایا تھا۔ سوتے میں بھی وہ ہچکیاں لے رہی تھی۔روحیل کو اِسوقت خود پر کنٹرول رکھنا مشکل ہوگیا، اُسکا شدت سے دل چاہا کہ وہ اِس پیاری سی لڑکی کو اپنی بانہوں میں چُھپا لے اور اُسے اپنی سچی محبت کا یقین دلا سکے۔ سارا غصہ اُسے دیکھتے ہی غائب ہونے لگا۔ وہ دُشمنِ جاناں سوتے ہوئے بھی کتنی معصوم لگ رہی تھی۔ لیکن اِس سے پہلے کہ روحیل کے قدم ڈگمگاتے، اُس نے سرعت سے اپنے بے لگام جذبوں کی ڈوریں کھینچ لی۔اُسکی عزتِ نفس، خودداری اور انا نے اُسکے جذبوں کو کُچل دیا اور وہ سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
************************
صبح کی چمکیلی سحر نے عرشیہ کو بیدار کیا ۔ رات رونے کی وجہ سے اُسکی آنکھیں بہت بھاری ہورہی تھیں۔ نظر بے اِختیار اپنے برابر سوئے روحیل پر گئی لیکن آج وہ وہاں موجود نہ تھا۔ صوفے پر نظر پڑی تو وہ بھی خالی تھا۔ہمت کرکے وہ نہا کر نکلی تو قدرے فریش محسوس کر رہی تھی لیکن سر ابھی بھی درد کر رہا تھا۔ایک گلاس پانی سے پیناڈول کھا کر وہ روحیل کو دیکھنے کمرے سے باہر آگئی۔عرشیہ آج دیر سے اُٹھی تھی اور سب ناشتہ کرکے شاید فارغ ہوچکے تھے کیونکہ ڈائننگ ہال خالی پڑا تھا۔وہ روحیل سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اُسے کہیں بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔وہ ممی کی خیریت پوچھنے اُنکے کمرے میں آئی تو روحیل کو بیڈ پر سوتا پایا۔ وہ بے خبر سورہا تھا۔ وہ حیران کھڑی کچھ دیرسمجھنے کی کوشش کرتی رہی پھر آگے بڑھ کر اُسے آواز دی لیکن وہ بے خبر سوتارہا۔ حرا کی آواز پر وہ پلٹی ۔
‘کیا ہوا بیٹا؟ روحیل کو ڈھونڈ رہی تھیں؟’ عرشیہ نے اثبات میں سر ہلادیا
‘یہ توگیسٹ روم میں سورہا تھا۔ میں صبح اُٹھی اور اِسے اُٹھا کر پوچھا تو پتا چلا کہ تم لوگوں کے کمرے کا اے سی خراب ہوگیا ہے۔ پھر یہ میرے کمرے میں آکر سوگیا۔ ‘ حرا بیگم نے تفصیل بتائی
‘اوہ۔۔!’ عرشیہ بس اتنا ہی بول سکی ۔باتوں کی آواز سے روحیل کی بھی آنکھ کُھل گئی اور وہ فریش انداز میں بولا
‘گُڈ مورننگ !’
‘گُڈ مورننگ بیٹا! ‘ وہ دونوں اُسکی طرف پلٹیں
‘یہاں نیند آئی آرام سے؟’ حرا نے روحیل سے پوچھا،۔وہ عرشیہ کو مکمل نظر انداز کرچکا تھا جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہ ہو
‘آف کورس ممی! یہاں کا اے سی جو ٹھیک تھا۔ میں اپنے روم کا اے سی بھی آج ہی ٹھیک کرواتا ہوں۔’ عرشیہ سمجھ گئی تھی کہ اُسنے یہاں سونے کا یہ بہانہ کیوں بنایا ہے حالانکہ اُنکے کمرے کا اے سی بالکل ٹھیک تھا۔
‘اوکے بیٹا تم فریش ہوجاؤ میں ناشتہ لگواتی ہوں تم دونوں کیلئے۔عرشیہ تم بھی ساتھ ہی ناشتہ کرلینا یہ بھی ابھی اُٹھی ہے۔’ حرا پلٹنے ہی لگی تھیں کہ عرشیہ کے دائیں گال پر نشان دیکھ کر کو وہ حیرانی سے پوچھنے لگیں۔
‘ارے! یہ کیا ہوا ہے؟ یہ نشان کیسا ہے عرشیہ؟’ عرشیہ نے سوالیہ نظروں سے روحیل کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چُرا گیا۔ وہ خود بھی اِس سوال پر ٹھٹک گیا تھا۔
‘ممی وہ۔۔۔ مچھر بہت کاٹ رہے تھے رات بھر اِسلئے شاید نشان پڑ گئے ہیں۔اے سی ٹھیک نہیں تھا نا!’ اُسے بھی یہی بہانہ سمجھ آیا
‘بیٹا لیکن ۔۔یہاں تو مچھر نہیں ہوتے۔ کیا ہوا بتاؤ مجھے؟’ وہ اُسکا گال چھوتے فکرمندی سے پوچھ رہی تھیں
‘ارے ممی سچ میں کچھ نہیں ہوا۔ میں نے زیادہ دیر ہاتھ رکھ لیا ہوگا گال پر اِسلئے نشان پڑگیا آپ پلیز پریشان نہ ہوں۔’ وہ کہتے ساتھ ہی نظریں جُھکا گئی جبکہ روحیل اُسکی بات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا
‘ممی پلیز ناشتہ لگوائیں بہت بھوک لگی ہے۔’ حرا بیگم اُسکے جواب سے مطمئن ہوئی تھیں یا نہیں لیکن وہ ناشتہ لگوانے باہر کی طرف چل دیں۔اُنکے جاتے ہی عرشیہ اُسکے پاس آئی۔
‘تم یہاں کیوں سوئے تھے؟ رات بھر کہاں رہے تم؟’ روحیل اُسکے سوال کو نظر انداز کرتا بالوں میں برش پھیرتا رہا۔ عرشیہ نے اُسکے ہاتھ سے برش جھپٹا۔
‘کچھ پوچھ رہی ہوں میں!’
‘میں تمھیں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔’ روحیل نے ایک سُلگتی نگاہ اُسکے چہرے پر ڈالی اور برش اُسکے ہاتھ سے چھین لیا
‘روحیل پلیز! کل رات جو کچھ بھی ہوا میں اُسکے لئے۔۔۔۔’
‘کل رات جو کچھ بھی ہوا مجھے کچھ یاد نہیں۔ اگر یاد ہے تو بس اتنا کہ تم پر میرا کوئی حق نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا۔ آج کے بعد میری ذات سے تمھیں کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئیے۔ میں اور تم آج سے اجنبی ہیں۔۔ صرف اجنبی۔۔ جو ایک چھت کے نیچے ایک کمرے میں رہتے ضرور ہیں لیکن ایک دوسرے پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ آج کے بعد میں جیوں یا مروں تمھیں اِس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئیے۔’
روحیل نے اُسکی بات کاٹ دی اور برش ٹیبل پر پھینک کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ عرشیہ اُسکے اتنے تلخ ردِّ عمل پر بُجھ کر رہ گئی تھی۔
************************
اُس دن کے بعد سے اُس نے عرشیہ سے بات کرنا بالکل بند کردی تھی۔وہ رات دیر سے گھر آتا اور صبح اُسکے اُٹھنے سے پہلے ہی آفس چلا جاتا۔ عرشیہ اُس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ اُس سے معافی مانگنا چاہتی تھی لیکن وہ اچانک ہی اِتنا بیگانہ اور اِتنے فاصلے پر لگنے لگا تھا کہ عرشیہ کی بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔اگر کبھی آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو روحیل کے چہرے پر ایسی پہاڑوں جیسی سختی ہوتی کہ اُس کی روح تک کانپ جاتی۔وہ کہتے ہیں نا کہ بُرے اِخلاق اور تلخ روےّوں کا احساس اِنسان کو اُسوقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود اُسکے ساتھ نہ برتے جائیں ۔ عرشیہ نے اُس دن جو کچھ بھی کہا وہ صرف غصہ تھا ورنہ حقیقت یہ تھی کہ وہ جب سے اِس گھر میں آئی تھی اور روحیل کو قریب سے جانا تھا وہ اُس سے نفرت کر ہی نہیں پارہی تھی۔اُسکے ساتھ رہ کر ، اُسے جان کر ، پہچان کر یہ احساس ہوا تھا کہ وہ کتنا اچھا اِنسان ہے۔اُسکی لاکھ نفرت اور بے رُخی کے باوجود بھی روحیل نے ہر قدم پر اُسکا ساتھ دیا اور بدلے میں صرف تھوڑی سی محبت ہی تو مانگی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ عرشیہ کو اُس سے محبت ہوگئی تھی لیکن اب وہ اُسکے بارے میں سوچنے لگی تھی۔وانیہ کے سامنے بھی اُس نے اعتراف نہ کیا لیکن میکے جاکر بھی روحیل اُسکے ذہن سے نکل نہ سکا تھا۔اور وہ کوئی فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔۔ لیکن روحیل کے منہ سے وہی سچائی سُن کر وہ قبول نہ کر پائی اور نجانے کیا کچھ کہہ بیٹھی۔
آج روحیل اُس سے ناراض تھا۔۔
بہت سخت ناراض۔۔
وہ بہت پراعتماد اور سمجھدار لڑکی تھی لیکن اِس موڑ پر آکر اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ حالات کا مُقابلہ کیسے کرے۔ روحیل کی حددرجہ بیگانگی اور اجنبیت اُسے ایک وحشت میں مُبتلا کر رہی تھی۔کامیابی کا کوئی سِرہ ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا۔ کچھ عرصے پہلے تک یہی تو چاہتی رہی تھی وہ کہ روحیل اُسے اُسکے حال پر چھوڑدے۔ لیکن اب جب یہ ہوگیا تھا تو اُسے افسوس کیوں ہورہا تھا؟ اُسکا دل روحیل سے بات کرنے بے قرار کیوں تھا؟ پر یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی آپ سے دور ہو جائے تب احساس ہوتا ہے کہ وہ شخص آپکے لئے کیاتھا۔۔ وہ خود ہی اپنے دل کی کیفیات سمجھ نہیں پارہی تھی۔ ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ کچن میں آگئی۔ اُسے کچن میں آئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب روحیل کی لاؤنج سے آواز آنا شروع ہوئی۔ آج وہ جلدی گھرآگیا تھا۔
‘بوا جی! ایک گلاس ٹھنڈا پانی لا دیں فٹافٹ،باہر بہت گرمی ہے سخت پیاس لگی ہے۔’ بوا آج چُھٹی پر تھیں اِسلئے عرشیہ ہی اُسکے لئے پانی نکالنے لگی پھر کچھ سوچ کر فریج سے مِنٹ مارگریٹا(Mint margarita) نکالا اور گلاس میں بھر کر ٹرے میں رکھا۔ اتنے میں روحیل کچن کی طرف آنکلا۔
‘بوا کتنی دیر لگا دی؟ کب سے پانی مانگا ہوا ہے آ پ سے۔’ وہ اپنی دُھن میں بولتا اندر آیا اور عرشیہ پر نظر پڑتے ہی اپنے الفاظ کہنا بھول گیا۔ وہ چہرے پر ہلکا سا تبسم سجائے اُسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے اُسی کی آمد کی مُنتظر ہو۔
آج بھی وہ سادگی میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اِسی سادگی نے تو گھائل کیا تھا روحیل سکندر کو!بلیک اور وائٹ کنٹراسٹ کاسوٹ پہنے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔
‘کاش جتنا خوبصورت تمھارا چہرہ ہے اُتنا ہی خوبصورت تمھارا دل بھی ہوتا!’ وہ بس سوچ کر رہ گیا۔ عرشیہ بڑھی اوراُسکو ادب سے سلام کرتے ہوئے جوس کا گلاس اُسکے آگے کردیا۔
‘بوا آج چُھٹی پر ہیں۔ یہ لیجئے ٹھنڈا ٹھار جوس آپکی پیاس بُجھا دیگا۔’ وہ اتنی فریش اور دلکشی سے بولی تھی کہ کوئی اور وقت ہوتا تو روحیل اُسکے اِس انداز پر نہال ہوجاتا لیکن اِسوقت اُسے یہ مسکراہٹ صرف اور صرف ایک دکھاوا لگی (اس جوس سے میرے دل میں لگی آگ نہیں بُجھ سکتی) وہ بِنا جوس لئے اور بِنا کچھ بولے وہاں سے پلٹ کر جانے لگا جب عرشیہ ایک لمحے میں بھاگ کر اُسکے سامنے آئی ۔
‘پلیز! جوس تو پی لو تمھیں پیاس لگی ہے۔’
‘نہیں پینا!’ یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے نکلنا چاہتا تھا لیکن عرشیہ اُسکی راہ میں حائل ہوگئی
‘پلیز روحیل! ایسے مت کرو، جوس تو پی لو۔’ عرشیہ نے گلاس اُسکے سامنے کیا اور اِس زبردستی پر روحیل ہتّھے سے اُکھڑ گیا۔ گلاس کو پوری قوت سے دیوار پر دے مارا اور چِلّایا۔
‘نہیں پینا! کہا نا میں نے ابھی۔ سمجھ نہیں آتی تمھیں؟ ہٹو پیچھے!’ وہ اُسے پلاسٹک کی گُڑیا کی طرح سائیڈ پر دھکیل کرباہر نکل گیا اور عرشیہ وہیں ساکت کھڑی رہ گئی۔ گلاس دیوار سے ٹکرا کر کِرچی کِرچی ہوچُکا تھا۔شاید کچھ کِرچیاں اُس کے دل میں بھی چُبھی تھیں۔وہ آج تک روحیل کے ساتھ ایسا ہی بدمزاج اور روکھا روےّہ رکھتی ہوئی آئی تھی لیکن آج روحیل کے روےّے پر اُسے تکلیف ہورہی تھی۔۔بہت تکلیف۔۔ اُسے اپنے سابقہ روےّوں پرڈھیروں شرمندگی ہونے لگی،لیکن اب اُسے یہ سب برداشت کرنا تھا۔ اپنی ہی کی گئی غلطیوں کا نتیجہ تھا جو وہ آج بُھگت رہی تھی۔اگر محبت کسی سے روٹھ جائے تو اُسے منانا اِتنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر آپ اُسی کرب اور تکلیف سے گُزرتے ہیں جس میں کسی پل آرام نہیں آتا، دل کو سکون نہیں مِلتا۔
وہ کچن سے باہر نکلا اور سامنے کھڑی رابیل کو دیکھ کر کچھ پل کیلئے وہیں رُک گیا۔وہ سب کچھ سُن اور سمجھ چُکی تھی۔روحیل کی آنکھوں میں مرچیں سی بھرنے لگیں ۔وہ تیر کی تیزی سے اُسکے سامنے سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔وہ اِسوقت رابیل کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔اُس نے جو کرب اوراذیت روحیل کی آنکھوں میں اِن چند لمحوں میں دیکھی تھی اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا (اِسکا مطلب بھائی خوش نہیں ہیں۔ بالکل خوش نہیں ہیں) روحیل کے بِنا کچھ بولے بھی وہ اپنے بھائی کی تکلیف کو چند لمحوں میں ہی محسوس کر گئی تھی۔ وہ اِتنی کم فہم یا ناسمجھ نہیں تھی کہ اپنے بھائی کی آنکھوں میں ہچکولے لیتا دُکھ جسے وہ اب تک سب سے چُھپاتا رہا تھا، وہ دیکھ نہ پاتی۔ لمحے بھر کیلئے اُسے عرشیہ سے نفرت محسوس ہونے لگی لیکن یہ نفرت بھی چند لمحوں کی ثابت ہوئی۔کچن میں آکر عرشیہ کو ساکت و جامد کھڑا دیکھ کر وہ سچ میں پریشان ہوگئی تھی۔ سارا غصہ پل بھر میں غائب ہوگیا۔وہ اُسکا دھیان بٹانے کچن میں داخل ہوگئی اوراب کوئی مُناسب وقت دیکھ کر اِس سلسلے میںعرشیہ سے بات کرنے کا وہ تہّیا کرچکی تھی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

Read Next

تائی ایسری — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!