وہ کافی دیر بے مقصدکاموں میں لگی رہی۔ باہر لاؤنج میں بیٹھی میگزین کو اُکٹ پُلٹ کرتی رہی۔ ڈنر کے بعد روحیل اپنے کمرے میں جا چکا تھا اور اُسے بھی جلدی کمرے میں آنے کا کہہ گیا تھا پھر بھی وہ گھنٹوں سے یہاں وہاں بے مقصد گھوم رہی تھی۔ کمرے میں جانے سے کترا رہی تھی۔اب تو سارے مُلازم بھی اپنے اپنے کام نمٹا کر سرونٹ کوارٹرز میں جاچکے تھے۔ روحیل وِلا پر خاموشی کا راج تھا۔ بے مقصد ٹی وی چینلز چینج کرتے کرتے بھی اب وہ اُکتا چکی تھی اسلئے وہ بھی بند کردیا۔دوبارہ میگزین کھول کر بیٹھ گئی تو اُسمیں بھی دل نہ لگا۔ آخرکار کب تک اسطرح باہر بیٹھی رہتی۔ دیر سے سہی پر کمرے میں تو جانا ہی تھا۔ اُسنے وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اُسکا دل آج معمول سے تیز دھڑکنے لگا۔ ایک نامعلوم سا ڈر لگ رہا تھا۔ کمرے کے قریب پہنچ کر وہ ایک لمحے کیلئے رُکی اور اپنا اعتماد بحال کرنے لگی۔ پھربہت آہستگی سے دروازے کا ناب گُھمایا ااور دبے پاؤں اندر داخل ہوگئی۔ جہازی سائز بیڈ کے این وسط میں روحیل نیم دراز تھا۔ آنکھوں پر بازو رکھے شاید وہ سوگیا تھا۔ عرشیہ کی جان میں جان آئی۔وہ دبے پاؤں باتھروم میں گھس گئی۔ کچھ دیر بعد باہر آئی اور ٹاول سے منہ پوچھ رہی تھی جب روحیل کی کھنکدار آواز پر اُسکے ہاتھ رُک گئے۔
‘کافی دیر لگادی تم نے ؟ آج کچھ کام زیادہ تھا کیا؟’ وہ بیڈ پر کوہنیوں کے بل اُلٹا لیٹا عرشیہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ عرشیہ نے اثبات میں سر ہلاکر ٹاول کو واپس باتھروم میں لٹکایا اور ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آکر بالوں میں برش پھیرنے لگی۔ اُسکی ہمیشہ سے عادت تھی وہ رات کو بال بناکر سوتی تھی۔وہ برش پھیر رہی تھی جب روحیل نے نرمی سے اُسکی کمر سے نیچے تک آتے گھنے دراز بالوں کو چھوا۔ عرشیہ بال باندھنے لگی جب روحیل نے ٹوک دیا۔
‘اوہو! اتنے خوبصورت بال باندھنے کیلئے نہیں ہیں۔ کُھلے رہنے دو ۔’
‘اُلجھن ہوتی ہے مجھے بال کھلے رکھنے سے۔’ عرشیہ نے کوفت زدہ لہجے میں کہا پر روحیل تو آج الگ ہی موڈ میںتھا
‘کچھ دیر تو کھلے رہنے دو۔ ابھی تو جی بھر کے دیکھا بھی نہیں میں نے!’ وہ اُسکے بالوں کو دوبارہ چھوتے ہوئے بولا تو عرشیہ نے ٹیبل پر برش رکھا اور ناگواری سے بولی۔
‘روحیل پلیز! ہر بات میں ضد مت کیا کرو۔ جب کہہ رہی ہوں کہ اُلجھن ہوتی ہے تو سمجھ لو نا۔’ وہ یہ کہہ کر چوٹی باندھنے لگی۔ آج روحیل بہت خوشگوار موڈ میں تھا اسلئے مسکراتے ہوئے ‘اوکے’ بولتا بیڈ پر جا بیٹھا۔ کچھ دیر یونہی ڈریسنگ ٹیبل کی چیزیں سیٹ کرتی وہ وہیں کھڑی رہی۔ وہ اُسکی ساری حرکات نوٹ کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اُسنے آواز دی۔
‘عاشی۔۔!’ وہ آواز جذبوں اور محبت سے پُر تھی۔ عرشیہ کا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ اُسے اتنے فری انداز میں کب مخاطب کرتا تھا، ہمیشہ اُسکا پورا نام لیتا تھا۔ ابھی عرشیہ کچھ اور سوچتی جب روحیل نے دوبارہ آواز دی۔
‘عاشی۔۔!’
‘جی؟’ وہ پلٹی تھی۔ روحیل نے اِشارہ کرتے ہوئے اُسے اپنے پاس بُلایا
‘یہاں آؤ!’ عرشیہ مرے مرے قدم اُٹھاتی بیڈ کی طرف آئی ۔ روحیل نے اُسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ چپ چاپ بیٹھ گئی اور سر بھی جُھکا لیا۔
‘ایک سوال پوچھوں؟’ وہ اُسکے نرم و نازک چہرے پر نظریں جمائے پوچھ رہا تھا۔ عرشیہ نے صرف سر ہلانے پر اِکتفا کیا
‘اِن تین دنوں میں مجھے مِس کیا تم نے؟’ یہ ایک غیر متوقع سوال تھا
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
‘نہیں۔’ اُسکے منہ سے بے ساختہ نکلا اور روحیل کی مسکراہٹ لمحے میں غائب ہوئی تھی۔ عرشیہ کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ جلدی سے بولی۔
‘مم۔۔میرا مطلب ہے کہ بہت مِس کیا تمھیں۔’ روحیل نے بے یقینی سے اُسے دیکھا اور پھر مسکرانے لگا۔ عرشیہ نے نگاہوں کا زاویہ بدلا ۔لیکن وہ یہ کہہ کر پھنس گئی تھی۔ روحیل نے اُسکے مر مریں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لئے اور اپنے لہجے میں بے پناہ محبت سمیٹے جذبوں سے پُر آواز میں بولا۔
‘میں جانتا تھا، تمھیں بھی عادت سی ہوگئی ہے میری۔ میں نے بھی بہت مِس کیا ! تمھیں پتا ہے پہلے بھی بہت سال صرف تمھارے اِنتظار میں، تمھیں یاد کرتے گُزارے ہیں میں نے لیکن جو بے چینی اِن تین دنوں میں تم سے دور رہ کر ہوئی ہے وہ لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ دل چاہ رہا تھا اُڑھ کر تم تک پہنچ جاؤں لیکن میں صبر سے کام لیتا رہا کہ تمھیں کچھ دِن میں واپس میرے پاس آ ہی جانا ہے۔ اب یہ اطمینان ہے کہ تم میرے پاس ہو اور صرف میری ہو۔’ اُسکی باتوں سے عرشیہ عجیب سے احساسات سے گُزر رہی تھی۔ کسی بھی بیوی کیلئے اپنے شوہر کا اِس درجہ والہانہ پن یقیناً بہت بڑی خوشی قسمتی اور سکون کا باعث ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے دل کی کیفیات سمجھنے سے قاصر تھی۔اُسنے اپنا ہاتھ روحیل کی گرفت سے چُھڑانا چاہا لیکن گرفت اِتنی مضبوط تھی کہ اُسکی ہلکی سی کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔ وہ شش و پنج میں گرفتار تھی جب روحیل نے ایک خوبصورت غزل پیش کی۔
‘اگر مل سکے تو وفا چاہئیے،
ہمیں کچھ نہ اُسکے سوا چاہئیے،
بہت بے سکوں ہیں ہم تیرے بِنا،
ہمیں زندگی کی دوا چاہئیے،
کہیں بھی میں جاؤں ، پلٹ آؤنگا،
مجھے تیری بس اِک صدا چاہئیے،
ہو تکمیل جس سے میری ذات کی،
بہاروں کی ایسی ہوا چاہئیے،
مجھے تیرے دل میں اے ہمنواں!
اگر مل سکے تو جگہ چاہئیے،
کہاں تک بھلا میں نبھاؤں وفا،
کبھی تو مجھے بھی صلہ چاہئیے۔۔!’
وہ خاموش ہوگیا تھا۔
‘تم کچھ نہیں کہوگی؟’ روحیل اُسکی طویل خاموشی سے جھنجھلا یا
‘کیا کہوں؟’ وہ انجان بنی اُس سے سوال کرنے لگی
‘ارے یار! سارے رومانٹک موڈ کا ستیاناس کر رہی ہو۔ اب یہ بھی میں بتاؤں تمھیں؟ چلو پھر آج اپنے طریقے سے بتاتا ہوں۔’ روحیل سارے فاصلے مِٹا تا اُسکے بے حد قریب آگیا، اِتنا کہ اُسکی سانسیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اُسکے کیا اِرادے ہیں اسلئے اپنے چہرے پر پہاڑوں جیسی سختی لاتے ہوئے بولی۔
‘پیچھے ہٹو اور ہاتھ چوڑو میرا فوراً!’
‘وہاٹ؟؟’ روحیل کو ہزار والٹ کا کرنٹ لگا تھا۔ وہ جو اُسکی طرف سے کوئی پیار بھرے اظہاراور پیار بھری نگاہ کا منتظر تھا ، یہ سُن کر بے حد حیران ہوا ۔ اُسے عرشیہ سے اسوقت یہ اُمید ہرگز بھی نہیں تھی۔وہ اُسی اُکھڑ انداز میں بات کر رہی تھی جیسے پہلے کیا کرتی تھی۔
‘میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑیں۔ آپکو سُنائی نہیں دیا؟’ وہ اُس بار پہلے سے زیادہ زور سے بولی
‘پر کیوں؟’ روحیل نے خفگی سے اُسے دیکھا
‘جب دیکھو تب یہی کرتے رہتے ہو تم۔ چھوڑو پلیز!! ‘ وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چُھڑا کر بیڈ سے اُٹھ گئی اور کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔ روحیل اُسے جاتا دیکھ کر مسکرایا اور اُسکے پیچھے چل پڑا۔ وہ جیسے ہی اُسکے برابر آکر کھڑا ہوا عرشیہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ روحیل نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی اور شرارت سے اُسکے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
‘اتنی کنفیوز کیوں ہورہی ہو تم؟’ وہ اُسکے چہرے کے اُتار چڑھاؤ بغور دیکھ رہا تھا جہاں ایک رنگ آرہا تھااور ایک رنگ جارہا تھا۔ وہ اُسکی بات کو نظر انداز کرتی رُخ موڑ گئی لیکن آج روحیل نے بھی تہّیا کر رکھا تھا کہ وہ اُس سے اپنی محبت کا اظہار کروا کر ہی دم لے گا۔وہ اُسکے مدِمُقابل ا کھڑا ہوا اور اُسکا راستہ روک دیا۔
‘اتنا کیوں کترا رہی ہو مجھ سے؟؟ کہیں پیار ویار تو نہیں ہوگیا مجھ سے؟’ وہ اُسکی ہونق بنی شکل سے خط اُٹھا رہا تھا ۔ یہ سچ تھا کہ عرشیہ اب پہلے کی طرح اُسکا سامنا نہیں کر پاتی تھی، وہ اُس سے حقیقتاً کترانے لگی تھی اور ایسا اکثر تبھی ہوتا ہے جب آپ کے دل میں کوئی جگہ بنانے لگتا ہے۔لیکن اِسوقت وہ خود بھی اپنے دل کی حالت سمجھ نہیں پارہی تھی۔وہ چور سی بنی اِدھر اُدھر جانے کا راستہ تلاش کرنے لگی جب وہ دوبارہ اُسکی راہ میں حائل ہوگیا۔
‘ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہٹو نامیرے سامنے سے۔’
‘اچھا تو پھر یہی بات میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو کہ تمھیں مجھ سے پیار نہیں ہے۔’
‘مجھے آپکی آنکھیں سخت زہر لگتی ہیں۔’ عرشیہ کو غصہ آنے لگا۔اُسے ایسی گفتگو کی اُمید نہیں تھی۔ روحیل شہادت کی اُنگلی سے اُسکا چہرہ اوپر اُٹھاتے ہوئے بولا۔
‘اچھا! پر مجھے تو تمھاری آنکھیں بہت پسند ہیں، دل چاہتا ہے کہ۔۔۔’
‘روحیل! جانے دو مجھے خدا کے لئے۔’ وہ بے بسی سے بولی (عجیب مصیبت میں پھنس گئی ہوں)
‘آج نہیں جان! آج تو کہیں نہیں جانے دونگا تمھیں۔’
‘روحیل! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میرے سر میں ویسے ہی درد ہے۔ میرا درد اور مت بڑھاؤ۔’
‘ میں دبادوں سر؟’ وہ فکرمندی سے پوچھتے ہوئے آگے آیا اور وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔
‘سوئیٹ ہارٹ! تمھارے سارے درد آج میں سمیٹ لینا چاہتا ہوں۔ اِدھر آؤ!’ روحیل اُسے ہاتھ بڑھا کرتھامنا چاہتا تھا لیکن وہ اُسے روکتے ہوئے بولی۔
‘دیکھو روحیل! میرے صبر کا اِمتحان مت لو، ہٹ جاؤ پلیز سونے دو مجھے۔’ عرشیہ اپنی ایک ہی رٹ لگا ئی ہوئی تھی جس پر روحیل اب جھنجھلا گیا تھا۔ کتنی دیر سے وہ اُسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ تھی کہ کچھ سمجھ ہی نہیں رہی تھی۔
‘ عرشیہ پلیز! ختم کرو اب یہ گُریز۔ کیوں بھاگ رہی ہو سچ سے؟ مان کیوں نہیں لیتی کہ تم بھی پسند کرنے لگی ہو مجھے؟ خود کو بھی سزا دے رہی ہو اور مجھے بھی۔ ایک سال ہوگیا ہے ہمیں ساتھ رہتے رہتے ،میں تھک گیا ہوں تنہا اِس سفر میں چلتے چلتے۔ مجھے تمھارے ساتھ اور وفا کی ضرورت ہے۔ اور اب یہ گُریز بے معنی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمھیں اچھا لگنے لگا ہوں میں۔’ اپنی بات کہہ کر اُسنے عرشیہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا تو وہ ہتھّے سے اُکھڑ گئی۔
‘اوہ پلیز بند کرو اپنا یہ محبت نامہ! تنگ آگئی ہو ں میں تمھاری اِن باتوں سے۔ کیوں پیچھے پڑگئے ہو میرے۔ سکون برباد ہوگیا ہے میری زندگی کا۔ سکون سے جینے کیوں نہیں دیتے تم ؟ اور ہاں! ایک بات کان کھول کر سُن لو، میں کل بھی تم سے نفرت کرتی تھی اور آج بھی کرتی ہوں اسلئے کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔’ اُسکا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا
‘تم۔۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو نا؟ کہہ دو کہ یہ جھوٹ ہے عاشی!’ روحیل سے ہاتھ چُھڑا کر وہ بیڈ کی طرف بڑھی ۔وہ پتھرائی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھنے لگا (اب اتنی نفرت کیوں؟) اتنی حقارت کا تو اُسنے تصور بھی نہ کیا تھا۔ وہ کتنی سفّاکی سے یہ سب بول گئی تھی۔وہ آ ج بھی اُس سے اتنی ہی نفرت کرتی تھی، روحیل کو یقین نہ آیا۔
‘مجھے تم سے جھوٹ بولنے کا کوئی شوق نہیں ہے سمجھے تم!’
‘پلیز! کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا؟ میں نے تمھاری آنکھوں میں اپنے لئے چاہت اور اپنائیت دیکھی ہے پھر کیوں قبول نہیں کرلیتی تم سچائی کو؟ تم اِسوقت جھوٹ بول رہی ہو اور میں ایسا اب نہیں ہونے دونگا۔ تمھیں اعتراف کرنا ہوگا کہ تم بھی مجھے پسند کرنے لگی ہو ۔’ عرشیہ کو اُسکی بات پر گویا پتنگے لگ گئے تھے ۔ وہ غصے سے چٹخ کر بولی۔
‘نہیں تو کیا کرلوگے تم؟ مسٹر روحیل سکندر! یہ شادی میں نے صرف اور صرف اپنے شارق کی خوشی کیلئے مجبوری میں کی تھی۔اُسکی رُکتی سانسوں کو سُکون بخشنے کیلئے میں نے اپنا سکون برباد کرلیا۔ بولو کیا کروگے تم؟ آج بھی میرے وجود کا دام لگاؤگے، جیسے آج سے کچھ سال پہلے بھی تم نے میری محبت کو پیسوں سے خریدنا چاہا تھا۔’ روحیل تو کچھ بول ہی نہ پایا۔ عرشیہ کے الفاظ کی کاٹ تیر کی طرح اُسکے دل میں پیوست ہورہی تھی۔ کیسے کیسے اِلزام لگا رہی تھی وہ اُس پر۔ اُسکا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے عرشیہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو غصے سے لال انگارہ بن گیا تھا۔ وہ لمحے بھر کو رُکی پھر بولی۔
‘یاد رکھو روحیل! پیسوں سے چیزیں تو خریدی جاسکتی ہیں لیکن زندہ وجود اور کسی کا دل نہیں۔ تمھیں جو کرنا ہے کرلو میرے ساتھ۔۔ میں تمھارے سامنے کھڑی ہوں۔ کل میں تمھارے آگے بے بس نہیں تھی لیکن آج میں مکمل بے بس اور مجبور ہوں۔ تمھاری دسترس میں ہوں کرلو اپنی طلب پوری اور بنالو مجھے بھی اپنی ہوس کا نشانہ۔ میں کچھ۔۔۔۔’
آگے کا جملہ اُسکے منہ میں رہ گیا۔ روحیل کا بھاری ہاتھ فضا ء میں بُلند ہوا اور اُسکے نازک رُخصار پراُنگلیوں کے نشان چھوڑ گیا۔ تھپڑ اتنا شدید تھا کہ وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی۔
‘شٹ اپ! بہت فضول بول چُکی تم۔ آگے ایک لفظ بھی اور مت کہنا ورنہ میں کچھ کر بیٹھونگا۔’ وہ ہذیانی انداز میں چِلایا اور اُسے بے دردی سے دونوں کاندھوں سے پکڑ کر بیڈ سے اُٹھایا۔ وہ اِسوقت غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ اُسکی اُنگلیاں اتنی بے دردی سے عرشیہ کے بازو میںپیوست ہوئی تھیں کہ اُسکی سِسکی نکل گئی۔ وہ اُسے اپنے سامنے کھڑا کرکے قہر آلود نِگاہیں اُسکے چہرے پر گاڑتے ہوئے پھنکارا۔
‘کیا کہا تم نے؟ تمھیں میری محبت ہوس نظر آتی ہے۔ شرم نہیں آئی تمھیں ایسے الفاظ اپنے منہ سے نکالتے ہوئے؟ بچپن سے لیکر آج تک تم ہر قدم پر میرے پاکیزہ اور سچے جذبوں کی تذلیل کرتی آئی ہو اور میں چپ چاپ برداشت کرتا رہا۔کونسی گھٹیا حرکت کرتے دیکھا ہے تم نے مجھے؟ کِن جرائم میں مُلوث رہا ہوں میں؟ کتنی لڑکیاں خرید لی میں نے اپنے پیسوں سے یا کہاں تم نے میرے کردار میں کوئی جھول دیکھا ہے؟ بولو۔۔ جواب دو۔۔’ وہ غصے سے چیخ رہا تھا اور عرشیہ سہم گئی تھی۔ اُسے کب عادت تھی اِتنی اونچی آواز سُننے کی۔ روحیل تو ہمیشہ ہی اُس سے بہت محبت سے بات کرتا آیا تھا۔اُسکا یہ روپ دیکھ کر عرشیہ دہل کر رہ گئی ۔روحیل کی سخت اُنگلیاں اُسکے نازک بازوؤں میں جم کر رہ گئیں ۔ تکلیف سے عرشیہ کے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔
‘روحیل پلیز چھوڑو! بہت درد ہو رہا ہے۔’ تکلیف کی شدت سے بس وہ اِتنا ہی کہہ پائی لیکن روحیل پر کوئی اثر نہ ہوا۔وہ وحشی بن گیا تھا اِسوقت۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});