مٹی کے سیلن زدہ کمرے میں اماں روز دروازے کو دیکھ کر ساکت رہ جاتی ۔ سیلن زدہ گھر روز بہ روز ڈھنے والا ہوتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ اماں ابا بھی۔ بالوں میں وقت نے چاندی کی تاریں بچھا دیں۔بوڑھے ہو گئے دونوں، لیکن معمول ایک رہا۔ سورج جب جاتے جاتے وقت کے ماتھے پر رات کا ٹیکا لگا جاتا ہے تب….تب وہ دونوں دروازے کی چٹخنی بند کر دیتے ۔ صنوبر کی خوشبو سے معطر اس گھر میں غم کا، دکھ کا دھواں تھا۔ ثما جاتے جاتے عزت کے مزار پر جلتا آخری دیا بھی بجھا گئی تھی۔ اسے پتا تک نہ تھا بلکہ اسے کیا کسی بھی بیٹی کو پتا نہیں ہوتا کہ جب وہ لرزتے قدموں سے ہمیشہ کے لیے چوری چھپے دہلیز پھلانگتی ہے تو اس کے پیچھے دبے پاﺅں ”عزت“ بھی چلی جا رہی ہوتی ہے اور پھر ایک رات اور ایک دن کے اندر اماں ابا دونوں چلے گئے ۔
صبح اماں اور شام کو ابا۔ ویران کواڑ ایک دوسرے سے لپٹ کر روئے۔ کیاری میں موتیے کے پھول خوشبو سے ناراض ہو گئے۔ بیٹیوں میں صرف روبا پہنچ گئی اور سپردخاک کر دیا ۔ اماں کو باغی پری کا غم لے گیا اور ابا کو اماں کا غم۔ ابا تو دنیاداری میں کبھی بھولے سے بھی ثما کا نام نہ لیتے،لیکن وقت گواہ ہے اماں کی زبان پر وقت نزع ایک ہی لفظ ”ثما“ تھا اورجس کے پاﺅں تلے جنت ہو اس کے وجود کا کیا عالم ہوگا !یہ اولاد تب تک نہیں جان سکتی جب تک اُن کی اولاد نہ ہو۔
٭….٭….٭
تیسرے دین ویران گھر میں دیوار کے ساتھ لگی چارپائی کی گانٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے روبا نے سوچا۔ ثما! اس گھر کی ہوا بھی تمہیں بد دعا دیتی ہے جا خوش رہ۔ ٹھہری ہوا نے وقت سے پوچھا۔ تم نے سنا ہے؟ وقت دور اندیش تھا ،چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔
٭….٭….٭
وہ ٹی وی لاﺅنج میں صوفے پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھوں پر کھیرے کے قتلے رکھے ہوئے تھے ۔ بیل کی آواز پر ملازمہ کو آواز دی۔
”نوراں!شہیر آگئے ہیں دیکھ لو۔ “
شہیر کو اندر آتے دیکھ کر وہ طمانیت سے مسکرا دی۔ بے شک گھر چھوڑ کر آنا مشکل تھا، لیکن اس کے حق میں وہ فیصلہ سب سے بہتر رہا تھا۔ کہیں دور ماضی کے کواڑ کھلے ۔ اماں ابا کا سونا، رات کا پچھلا پہر۔ اس کا زنگ آلود کواڑ کھولنا، باہر کھڑا شہیر مرزا۔ پھر شہیر کے ساتھ یہ گھر۔ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا۔وہ آگے بڑھتا گیا۔
پھر دو بچے،روحا اورحسن کے قد ان کے قد سے اوپر تھے۔ اب تو وہ دونوں بال ڈائی کرنے لگے تھے ۔ اس نے سر جھٹک کر سوچا۔ ہونہہ میں کیا سوچنے لگی ہوں ۔
٭….٭….٭
کئی دنوں سے اسے ایئر فریشنر کی خوشگوارخوشبو میں ایک دھیمی خوشبو آتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ۔ ۔ وہ بلیو لیڈی ،شیلیز ،شی ہر طرح کے پرفیومز چھڑک کر دیکھتی ،خوشبو بڑھتی جاتی۔ ہاں وہ صنوبر کی خوشبو!اماں کے گھر میں دالان والے صنوبر کی خوشبو زندہ وجود دھار چکی تھی اور اب اس کے کلیجے پر لپٹ جاتی، گلے کا ہار بن جاتی ۔ وہ لاکھ سر جھٹکتی، ناک سکیڑ لیتی لیکن وہ مستقل مزاج تھی اور بے حد تھی۔ تبھی تو اسے ڈھونڈتے گھومتے اس کے گھردوسرے فلور میں اس کے بیڈ روم تک پہنچ جاتی۔ پہلے پہل یہ خواب لمحوں کا تھا، جھونکاآتا گزر جاتا، پھر وہ خوشبو اس سے لپٹنے لگی۔ اوّلین ساعتوں میں خوشبو کا طواف اس نے اپنا وہم سمجھا، لیکن بعد میں وہ خوشبو ہر خوشبو پر حاوی ہو گئی۔ البتہ بچوں اور شہیر کے لیے یہ وہم ہی رہا، انہیں کبھی کوئی خوشبو نہیں آئی۔
٭….٭….٭