دہلیز پھلانگنے کی پہلی بنیاد ثما نے رکھی۔ پانچ پھولوں کے درمیان وہ بھی ایک پھول تھی، لیکن کیکر کاپھول۔ بے تحاشا کانٹوں کے ساتھ۔ابا تو گڑ کے بنے تھے تھوڑے سخت لیکن میٹھے میٹھے۔
دنیا اپنے خیالات کی لیپا پوتی کرنے میںمصروف ہوتی۔ وہ ہنس کر کہتے، ”میری بیٹیاں ہی بیٹوں جیسی ہیں۔“ فرطِ انبساط سے اُن کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ چند ایک نے تو دوسری شادی کی ترغیب بھی دی۔ ابا اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے رہے۔
ثما سب سے چھوٹی تھی اور نین نقش جس طرح سب سے الگ تھے ،اسی طرح مزاجاً بھی مختلف تھی۔ بھوری آنکھیں، لمبی مڑی ہوئی پلکوں سے سجی ،سرخ و سپید رنگت،پتلے ہونٹ، گھنگریالے بال، خاموش بیٹھی رہتی تو اس پر گڑیا کا گمان ہوتا۔
گڑیا جو چابی لگانے سے گھوم گھوم کر بولنے لگ جاتی ہے تو ابا کی گڑیا میں بھی ایک خرابی تھی۔ بنا چابی کے بولے نہ بولے ،بنا اجازت کوئی کچھ کہے تو بے داغ پیشانی شکنوں سے بھر جاتی۔ کچھ خودسر تھی، کچھ ابا کے لاڈ نے بگاڑ دیا تھا ۔چھوٹی عمر میں جب باہر نکلتی تو لوگ اسے پری کہہ کر بلاتے ۔آہستہ آہستہ ارد گرد کے جاننے والے اس کا اصلی نام بھی بھول گئے ۔ اب وہ پری تھی تو پر کیوں نہ نکلتے !
جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی، پر نکلتے گئے۔ اسے اپنے پورے گھر میں واحد چیز جو پسند تھی وہ صنوبر کا درخت تھا، جو داخلی دروازے کے ساتھ ایک شان سے کھڑا تھا۔ ثما بچپن سے اسے ایسے ہی دیکھتی آئی تھی۔ وہی شان اور وہی استقامت، اپنی مخصوص خوشبو کے ساتھ یوں اپنے شاخیں پھیلائے رکھتا جیسے ثما کو اپنے پروں میں چھپانا چاہتاہو ۔ثما کو بھی وہ بے حد پسندتھا۔وہ اکثر رات کو اس کے نیچے بیٹھ جایا کرتی۔ اس کی خوشبو سے اسے عشق تھا۔ ثماکے ساتھ خوشبو گھر بھر میں گھومتی رہتی ،وہ اس کے گرد طواف میں رہتی تھی۔ پر صنوبر کے پہلو میں زنگ آلود دروازے سے اسے سخت نفرت تھی۔کیونکہ وہ ہر آنے جانے والے پر پورا منہ پھاڑ کے شور مچاتا تھا، جیسے سب کو بتانا چاہتا ہے کہ کون آیا اورکون گیا۔
وہ راز رکھنے کا قائل نہ تھا۔ آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھتا ،ذرا جو کوئی دھیرے سے گھر میں داخل ہونا چاہتا، وہ چھنگاڑ ،چھنگاڑ کر اپنے کواڑ کو غصے سے پٹخ، پٹخ کر پورے محلے کو بتا دیتا۔ یوں ثما کو داخلی دروازے کی آواز سے نفرت تھی۔ وہ ان نفرت اور محبت کے دوسانچوں کے درمیان بڑی ہو گئی ،اتنی بڑی کہ اڑنے ہی لگی۔
بات بات پر اسے اپنے گھر، ماحول اور حالات پر اعتراضات ہونے لگتے۔ اماں سمجھاتے سمجھاتے چڑ گئی۔ ابا ہمیشہ اسے بہلاتے رہتے۔
٭….٭….٭
پری سنتے سنتے اس نے آخر ایک دن سچ مچ اڑنے کی ٹھان لی۔ پتا نہیں کون دیو اُسے اڑا کے لے گیا بلکہ اڑا کے کیا لے گیا۔ پری خود چلی گئی۔ اس رات پورے اہتمام کے ساتھ، اس نے ایک دن پہلے دروازے کی چٹخنی کو تیل میں بھگویا تاکہ رات کو شور نہ کرسکے ۔ وہ ہکا بکا اسے دیکھتا رہ گیا۔
رات کوجب ساری دنیا چپ تھی ۔دروازہ بھی چپ تھا تب وہ دھیرے سے نکل گئی اور کیا پتا اس وقت لمحات نے دن سے منتیں بھی کی ہوں گی۔ دن سے کہا ہوگا۔
”رک جا۔ رک جا ورنہ…. ہمیشہ کے لیے رات آئے گی۔“ سب بے کار رہا۔ صحن میں گھومتی صنوبر کی خوشبو اس کے پیروں پر لوٹنے لگی، لیکن اسے پروا کہاں تھی۔
زنگ آلود کواڑ شرم سے کٹ کر رہ گئے، جب منہ اندھیرے ایک قدم لرزتا ہوا باہر نکلا اور اندر کے مکینوں کو کالی بجھنگ دنیا میں چھوڑ گیا۔ہو سکتا ہے اس سے پہلے سروں پر پگڑیاں ایک شان سے ہوں، سر اٹھانے والے زیادہ ہوں ،سر جھکانے والے کم۔
وہ دہلیز ….وہ ہمیشہ کھٹ کھٹ کرتی اس رات خاموش چٹخنی….وہ روشنی کو نگلتی اندھیری رات…. اماں کے لیے بعد میں یہ سب ایک خواب بن گیا، ایک بھیانک خواب۔ کون تھا وہ جو ان کے گھر میں نقب لگا گیا؟
اب یہ سوال بے معنی تھا۔ جب بیٹیاں ہوں تو ماں کو سوتے میں آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں اور اماں ایک دن سر درد کی گولی کھا کے سو گئی ۔بس ثما نکل لی اسی رات!
ثما جاتے جاتے بہنوں کی خوشیوں پر تالا لگا گئی۔ پیچھے رہ جانے والی چار بہنیں ایک ایک کر کے ایک سال کے اندر گھر سے نکلتی گئیں۔ چند لوگوں کی موجودگی میں منتشر ہو گئیں۔ اماں کو ان کا خوف پلک جھپکنے نہ دیتا ۔رات کو اٹھ اٹھ کر دروازے کی چٹخنی دیکھتی۔ اب بیٹیوں کا کمرا بند تھا ،چٹخنی سے نہیں تالے سے۔ صبح سات بجے اماں پہلے مرغیوں کا ڈربا کھولتی پھر ان کا کمرا۔ ایک دن اس کمرے سے تالا اٹھایا گیا، جب آخری بیٹی روبا بھی بیاہ کر چلی گئی ۔
بہت دور ……کیسے لوگ!
کہاں کے !!
کون!!!
کوئی سوال نہیں،اماں نے دہلیز کی عزت رکھی ،قرآن کے سائے میں رکھا ،دروازے کے باہر تک ساتھ گئے واپس آکر چٹخنی چڑھا دی۔
اور اماں کہتی:”ثما تو بچپن سے بہنوں کے ہاتھ سے چھین کر کھاتی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا ان کی خوشیاں بھی چھین کر کھائے گی۔“
٭….٭….٭