لیکن وہ پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پیچیدگی نکال ہی لیا کرتا۔ میں اسے کہتی کہ میں چاہے لاکھ مردوں سے بات کروں لیکن مجھ پر صرف تمہارا حق ہے۔ جس طرح تم مجھ پر مرتے ہو بالکل اسی طرح میری محبت کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ہے، لیکن وہ کہتا کہ’ ‘یہ میری برداشت سے باہر کا کام ہے کہ میری محبت کسی سے بات کرے۔ بس آج سے آپ کسی سے بات نہیں کریں گی، نہ ہی کسی کی پوسٹ پر آپ کا کومنٹ ہوگا اور نہ ہی کسی کو ٹیگ کریں پلیز… میرے لیے۔” گروپ ایڈمن ہونے کی حیثیت سے یہ ایک مشکل کام تھا لیکن میں نے اسے کہا کہ ”تم پر یہ سب بھی قربان ہے۔ یہ گروپ، یہ لوگ سب۔” وہ خوش ہوجاتا اور پھر تادیر اپنی محبت کا یقین دلاتا۔ میں مسکراتی رہتی ، اس کے بچپنے پر محبت پاش نظروں سے اس کے پیغامات پڑھتی رہتی، لیکن پھر یہ سلسلہ عام ہونے لگا تھا۔ وہ آ ئے روز کسی کو کہہ دیتا کہ اسے بلاک کرو اور اسے بھی بلاک کرو۔ اکثر وہ میرے بہترین جاننے والوں کو بلاک کرنے لگ گیا تھا، تو میرے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
میں اسے کہتی کہ ”مجھ پر صرف تمہارا حق ہے لیکن مجھے تمہارا یہ عمل سخت ناپسند ہے۔” وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتا۔ ڈھے جاتا۔ معافی مانگنے لگتا اور کہتا کہ ” یقین کریں۔ برداشت نہیں ہوتا مایا۔ بالکل برداشت نہیں ہوتا۔” اور پھر ہماری محبت میں پہلی دراڑ یہاں پڑی۔
پہلی لڑائی ہوئی تو ہم دونوں کی تمام رات روتے ہوئے ہی گزری اور اگلے دن فیضان نے عہد کیا کہ وہ آئندہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ میں اس کے اس وعدے پر ایمان لے آئی۔ ہمارے درمیان سب ٹھیک ہوگیا اور میں پھر سے اپنے گروپ کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے لگی۔
کچھ وقت گزرا تھا کہ ہماری پھر اسی بات پر لڑائی ہوگئی۔ وہ کہتا کہ ‘ ‘تمہارے لیے لوگ ضروری ہیں ،میں نہیں؟ تم ان لوگوں کے لیے مجھ سے لڑتی ہو۔” اس بار لڑائی ہوئی تو پھرمیںبھی اکڑ گئی۔ میں نے اسے چھوڑنے کی بات کردی اور وہ بے یقین سا ، حق دق سا بیٹھا رہ گیا۔
”اتنی بڑی بات کیسے کرسکتی ہیں آپ؟ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آپ کے بغیر میرا کیا ہوگا؟ میں مرجاؤں گا۔ پلیز مجھے چھوڑنے کے بارے نہ سوچیں۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی آپ کے نا م کرچکا ہوں، آپ مجھے دھتکار لیں، غصہ کرلیں، گالیاں بھی دے لیں، آپ کی قسم اُف تک نہ کروں گا، لیکن خدارا مایا پھر ایسی بات نہ کیجیے گا۔” اس طرح کے کئی دل فگار ‘ ‘وائس میسجز” مجھے موصول ہوئے اور محبت سے لبریز میرا دل پسیج گیا۔ ہم نے پھر صلح کرلی اور پھر سے ساتھ ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا، لیکن یہ جو دراڑ آئی تھی پھر بھر نہ سکی۔ محبت اپنی جگہ لیکن ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی اس چیز کو قبول نہیں کر پارہے تھے۔ میں کسی طور نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے اس طرح سے باندھ کر رکھے، اس کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور وہ غیرت مند بن رہا تھا، اس سے یہ کسی طرح برداشت نہ ہوتا تھا کہ باقی کوئی مرد میری جان پہچان میں بھی شامل ہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اسی شش و پنج میں ، میں بیمار پڑ گئی۔ اس سے تمام رابطے کاٹ ڈالے۔ وہ میری منتوں سماجتوں پر اتر آیا۔ کہتا کہ :
”خدارا…آپ بات نہ کریں، مجھے برا بھلا کہہ لیں، لیکن مجھے اپنی خیریت کی اطلاع دے دیں۔”
”آج میں نے درگاہ پر منت کا دھاگا باندھا ہے۔”
”آج میں نے آپ کے نام کا دیا جلایا ہے۔”
”آج میں نے نیاز دی ہے۔ خدا کا واسطہ ہے ٹھیک ہوجائیں تو اطلاع دیجیے گا۔”
وہ میرے لیے مر رہا تھا، لیکن میں اسے مرنے نہیں دے سکتی تھی۔ وہ محبت تھا میری اتنی آسانی سے سب ختم کیسے ہوسکتا تھا۔
لیکن پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہمارا رابطہ ختم ہوگیا اور وجہ وہی تھی۔
اس نے کہانی بتا کر کچھ وقفہ لیا تو میں نے اسے مخاطب کیا۔
”اس کہانی کا انجام کیا ہوگا؟ یہ ہر تیسری نو عمر لڑکی کی کہانی ہے اور فیس بک ایسی لاتعداد کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ ایک عام سی کہانی ہے۔” میرا کہنا تھا کہ وہ تڑپ اٹھی۔
”یقین کریں، قسم لے لیں ، یہ بہت خاص کہانی ہے ، اسے عام نہ کہیں۔” میں سمجھ سکتی تھی کہ یہ اس کے جذبات ہیں جو اسے خاص بناتے ہیں۔
”اس میں خاص کیا ہے؟بنا کسی انجام کے افسانہ نہیں لکھا جاسکتا۔” میں کہانی کو افسانوی پہلو دینے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”اس کی خاصیت یہی ادھورا پن ہے۔”
”لیکن کسی ایک کو تو غلط لکھنا ہوگا نا؟” میں افسانے کے داؤ پیچ کے مطابق کہانی کو بننے لگی تھی۔
”کوئی غلط نہیں۔ دونوں صحیح تھے۔”
”ہونہہ۔” میں سوچ میں پڑگئی۔
”آپ لکھیں گی نا میری کہانی؟” وہ بہت آس سے پوچھ رہی تھی، لیکن میں سمجھتی تھی کہ اس کہانی میں کچھ نیا نہیں ہے، وہی وعدے ہیں جو جوڑا کرتا ہے۔وہی کعبے کے طواف کا ذکر کرکے لڑکی کے دل کے تار چھیڑنے والے عہد وپیمان ہیں، لیکن میں اسے انکار نہیں کرسکی۔ ہم کہانی کار ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیں ، توڑنے کا کام زمانہ کرتا ہے، لیکن باوجود اس کے میں اس کی کہانی کو افسانوی رنگ دینے سے قاصر رہی۔
میں اپنی کئی اور کہانیوں کی طرح اس کہانی کی بھی مخصوص چیزیں لکھ کر اسے بھی ایک طرف رکھ کر بھول گئی۔
اور پھر ایک عرصے بعد دکھ لکھ کر قہقہے لگانے والی کہانی کار سے کسی نے اس کے خالی اور ویران صفحے کے بارے میں پوچھا، تو اسے اپنی ہی طرح کی ایک اور ادھوری کہانی یاد آگئی۔ فوراً سے پیشتر فیس بک پر اسی ادھوری کہانی کو تلاش کیا، تو سوائے مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ اب کوئی اس کے بارے میں جانتا بھی نہیں تھا ، لوگ اسے بھول کر کب کے آگے بڑھ گئے تھے۔کئی سو لوگوں کو عزیز رہنے والی لڑکی جب کسی ایک کو عزیز تر ہوگئی تو پھر اس کی تمام امیدوں کا شیرازہ بکھر گیا۔
اور پھر جب ایک کہانی کار نے ادھوری کہانی کا غم جانا،تو مکمل کہانی لکھ کر بھی ادھورے ہونے کی کسک کو محسوس کرنا نہیں چھوڑا کیوںکہ یہی ادھوری کہانیاں ایک مکمل انسان کھا جاتی ہیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});