دل فگار الفاظ لکھتے ہوئے میری انگلیاں کبھی نہیں تھکیں۔ میری نگاہ و دل کی گہرائی و گیرائی اپنے مکمل عروج پر تھی۔ درد لکھنے والی میںبے ساختہ قہقہے لگاتی، اپنے ارد گرد مسکراہٹ بکھیرنے کے فن میں ماہر تھی۔
لوگ کبھی سمجھ ہی نہیں سکے کہ حقیقت کیا ہے، وہ جو درد لکھتی ہے یا وہ جو قہقہے بکھیرتی ہے اور یہی الجھی ہوئی ذات تو کہانی کار کی ہوتی ہے۔ وہ بے نام الجھنوں کو ایک اچھی تحریر لکھ کر بھول جانا چاہتا ہے۔
میں ہمیشہ کی طرح ایک عام ڈگر پر چل رہی تھی۔ کئی کہانیوں میں گھری میں ان دنوں کسی اور زاویے پر سوچتی ہی نہ تھی۔ نہ شوشل میڈیا پر دھیان تھا نہ ہی دوسری سرگرمیوں میں شامل ہوتی تھی۔ اسی دوران مجھے فیس بک پر کسی اجنبی لڑکی کا پیغام موصول ہوا۔ لازمی جواب دینے کی گزارش تھی۔ اس پیغام میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ میں اسے نظر انداز نہیں کرسکی۔ جواب ملتے ہی اس نے اپنی درخواست میرے گوش گزار کی اور میں سوچ میں ڈوب گئی۔ اتنی ساری ادھوری کہانیاں تو میری فائلز اور لیپ ٹاپ میں موجود ہیں، میں ایک اور تحریر کا بار نہیں اٹھانا چاہتی تھی لیکن وہ بضد تھی کہ میں بس اس کی کہانی لکھوں، اس کے اصرار پر میںنے اس کی کہانی سننے کے لیے رضا مندی ظاہر کر دی اور اس نے مجھے وہی کہانی سنائی جو فیس بک پر یقینا ہر تیسری نوعمر لڑکی کی کہا نی ہے۔
کہتی رہی کہ ایسا لکھیے گا کہ پڑھنے والا دردمحسوس کرے، لفظوں میں وہ قیامت خیزی لائیے گا کہ دل فگار ہوجائیں۔ وہ چاہتی تھی کہ میں وہ درد لکھوں جو وہ محسوس کرتی ہے۔ وہ سمجھتی تھی کہ جو اس پر بیتا ہے وہ اس دنیا سے ہٹ کر ہے اور شاید وہ ٹھیک ہی سمجھتی تھی کیوں کہ ہر کردار اپنی کہانی کا مرکزی کردار ہی ہوتا ہے۔ پھر چاہے اس کی کتاب زندگی میں اس سے بہتر درجے کے کتنے ہی لوگ کیوں نہ موجود ہوں۔
اس نے مجھے بتایا کہ سالِ نو کے پہلے مہینے کا ذکر ہے جب وہ زمین زاد مجھے فلک زاد بن کر ملا اور ملتے ہی میری آنکھوں کو اپنے خواب دان کرگیا۔کہتی تھی کہ وہ سب سے جدا تھا، نہ بولتا تھا ، نہ ہنستا تھا اور نہ ہی بات کرتا تھا ۔ میرے فیس بک گروپ میں موجود تھا اور سب سے بالکل مختلف تھا۔ میں نے اس کی جانب کبھی توجہ دی ہی نہ تھی، وہ کافی عرصے سے میرے دوستوں میں بھی شامل تھا۔ پھر ایک روز میری بیماری کے اسٹیٹس پر اس نے سوالیہ نشان بھیجا تو جواباً ”کچھ نہیں” کہہ کر میں آگے بڑھ گئی اور وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہوگیا لیکن اس بار اس کا خاموش ہونا مجھے محسوس ہوا تو میں سلام دعا کرنے انباکس میں پہنچ گئی۔
پہلی بار کے بعد پھر کئی بار اس سے بات کی۔ اس سے بات کرکے ہمیشہ لگتا کہ وہ تن ِ تنہا تمام عالم کا غم اٹھا رہا ہے۔ وہ اکیلا ہے جو غموں کے جھرمٹ میں سر گھٹنوں میں دیے بیٹھا کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ خاموش شخص اپنے اندر لاتعداد اسرار رکھتا ہے، وہ بھی ایسا ہی تھا لیکن وہ جب مجھ سے بات کرتا تو ہنس دیتا تھا اور مجھے اس کی ہنسی بھلی لگتی تھی ۔ اس ایک بار کی گفتگو کے بعد ہماری بات چیت کے درمیان کوئی لمبے دنوں کا وقفہ نہیں آیا ۔ ہم مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ عام سی ساری باتیں ہوتیں لیکن ہم انہی عام سی باتوں پر اپنا سارا وقت صرف کرنے لگے۔ دنیا جہاں کا کوئی موضوع نہ چھوڑتے۔ ہم مزید مانوس ہوئے تو مجھے علم ہوا کہ وہ اس بھری دنیا میں بالکل تنہا ہے۔ اس کے والدین اس کے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ
”مایا میں نے کبھی بچپن نہیں دیکھا۔” اور صحیح کہتا تھا جس کے پاس لاڈ اٹھانے والے ہی نہ ہوں تو وہ زندگی کا حسین چہرہ کیسے دیکھ سکتا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ عجیب و غریب باتیں کیا کرتا۔ کہتا کہ ” آپ کو پتا ہے یہ لوگ جو زندگی سے ہار مان جاتے ہیں نا دراصل یہ ان کی لفظی ہار ہوتی ہے ورنہ تو زندگی کے لیے آخری سانس تک لڑتے رہتے ہیں، ہاں خود کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہار مان لی ہے تاکہ زندگی اپنے امتحان آسان کردے ۔” اس کے دکھ سن کر مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی، مجھے خواہش ہوتی کہ اس کے غم چن لیے جائیں لیکن میں چپ چاپ اس کی باتیں سنے جاتی۔ پھر عجیب واقعہ ہوا جب میں ایک روز یونیورسٹی سے لوٹی تو اس کے کئی پیغامات میرے منتظر تھے۔
”کیا ہم بات کرسکتے ہیں پلیز؟” اس کا پیغام دیکھ کر میں نے فوراً سے پیشتر جواب دیا تھا۔
”کیا ہوا؟”’ اور وہ میرا ہی منتظر تھا کہنے لگا ۔
”بہت گھبراہٹ ہورہی ہے، کسی طور سکون نہیں ہے، کیا ہم کچھ دیر بات کرسکتے ہیں؟ بہت سے لوگوں کو میسج کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔” میں اس کی مسیحائی کے لیے تیار بیٹھی فوراً اس کی سننے لگی۔ چند دن بعد پھر اسی وقت پر اس کا وہی میسج تھا اور میں اسے پھر مختلف حیلے بہانوں سے بہلانے لگی۔ وہ کہتا تھا کہ ”مایا تم سے بات کرکے میں سکون کی کس منزل پر پہنچ جاتا ہوں میں کبھی بیان نہیں کرسکتا ۔” ہم بن کہے ایک دوسرے کے ہوگئے تھے۔ ہمارا دل ایک ساتھ دھڑکنے لگا تھا، کوئی معنی خیز سی بات ہماری سانسوں میں گرمی بھر دیا کرتی تھی۔ زندگی کب کیا رخ اختیار کرلیتی ہے، کسی کو بھنک تک نہیں پڑتی۔ ہم اب صبح سے شام اور رات سے صبح صادق تک بات کرتے کرتے نہ جانے کس راہ پر نکل آئے تھے کہ اب ایک دوسرے کے بغیر جینا تو دور سانس تک لینا محال لگنے لگا تھا۔ لیکن بات اب تک صرف اپنی ذات کے درمیان تھی ، ہم نے ابھی ایک دوسرے کو حال دل نہیں بتایا تھا، ہم منتظر تھے کہ اقرار کا کوئی لمحہ ہمارے ہاتھ لگے اور پھر ایک دن فیضان نے پوچھ ہی لیا۔
”اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہوں تو کیا اسے بتا دینا چاہیے؟” اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا کہ ضرور بتانا چاہیے اور وہ میرے سر ہوگیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ میں اس کے غمو ں کا مداوا کرتے کرتے اس کی مسیحا بن گئی اور وہ عشق کے مدار میں چکر کاٹنے لگا تھا۔ مجھے نا خدا ماننے لگا تھا۔
کہتا کہ اگر مجھے کسی انسان کو سجدے کی اجازت ہوتی تو وہ میں آپ کو کرتا۔ آپ میرا ایمان بن گئی ہیں۔ کوئی ایک لمحہ آپ کے دھیان سے خالی نہیں ہوتا۔ کوئی پل آپ کی ذات کے خیال سے باہر کا نہیں ہوتا۔ آپ میرا کعبہ میرا قبلہ بن گئی ہیں۔ میں ڈر جاتی ، اس کی شدتیں عروج پر ہوتیں۔ مجھ پر گناہ گار ہونے کا خوف مسلط ہوجاتا، لیکن اس کے لیے میرے عشق کی گہرائی نہ ختم ہوتی۔ یہ سچ تھا کہ میں خود سے چار سال چھوٹے شخص کے عشق میں خود کو بھولی ہوئی تھی اور وہ… وہ تو پاگل بن بیٹھا تھا، میرے علاوہ اسے کچھ سوجھتا ہی نہ تھا، ہمیشہ ایک ہی نام اس کی زبان پر ہوتا اور وہ نام میرا ہوتا۔ کہتا کہ
”یقین کرو۔ میرا سارا سکون تم سے وابستہ ہے۔ تمہارا ہاتھ تھامے رکھوں، تمہارے ساتھ ہونے کے احساس کو محسوس کرتا رہوں تو اس کے آگے ساری دنیا ہیچ ہے۔” وہ اظہارِمحبت میں کنجوسی کرتا لیکن باقی جذبات وہ بہت دھڑلے سے بتایا کرتا۔ ایک دن کسی بات پر کہنے لگا۔
”مجھے اپنے شناختی کارڈ کی تصویر لے کر بھیجیں لیکن اپنے چہرے کو کسی چیز سے ڈھانپ دینا، مجھے وہ نہیں دیکھنا کیوں کہ مجھے آپ ہر صورت پسند ہیں۔” لیکن ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ جہاں محبت اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ پنپ رہی ہو وہاں کوئی پردہ، کوئی جھجک درمیان آجائے۔ میں نے اس کی بات کو معتبر جان کر اسے کہا کہ تصویر تو میں تمھیں ویسے ہی دکھا دوں گی، وہ بہت حیران ہوا۔
”کیا آپ مجھے واقعی تصویر بھیجیںگی؟”
”ہاں !کیوں نہیں۔”
”لیکن میں نا محرم ہوں۔”
”’تو کیا نہیں بھیجنی چاہیے؟” میں نے سوال کیا۔
جواباً وہ خاموش رہا تو میں نے اسکارف پہن کر ایک عدد تصویر لی اور اسے بھیج دی۔ وہ تادیر مبہوت سا اسے دیکھتا رہا، اس کی محبت عروج کی جانب بڑھتی رہی اور میں اس کی محبت کی شدت پر آسودہ سی مسکراتی رہی۔
وہ میرے ساتھ پر نازاں تھا۔ میرے ہونے کا مطلب پورا ہوگیا تھا۔
ہم خوش تھے کہ ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ میسر ہے۔ راتوں کو دیر تک فون پر بات کرتے۔ خدا کا شکر ادا کرتے۔ ایک دوسرے کے بغیر کھانا نہ کھاتے، میں اسے جب تک اطلاع نہ دیتی وہ بھوکا رہتا۔ اکثر مذاقاً کہتا کہ ، آپ مجھے بھوکا مار دیں گی۔ میری محبت چاہے لاکھ شدت رکھتی ہو لیکن اُس کی محبت مکمل دین، ایمان والی تھی۔ میں اسے بات کے دوران کہتی ‘ ‘رکو” اور وہ صبح سے شام تک میسنجر کھولے میرا منتظر رہتا۔ میں خدا حافظ کیے بغیر سو جاتی تو وہ صبح صادق تک میرے پیغام کا انتظار کرتا رہتا اور پھر لکھتا کہ:
”بہت نیند آئی ہے ، اب سوتا ہوں۔”
دن اپنی برق رفتاری کے ساتھ گزرتے رہے کہ ایک روز کسی نے میرے گروپ میں پوسٹ لگائی کہ ” میں اور مایا دوست ہیں۔” اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ وہ مجھے لے کر اسی قدر جذباتی تھا۔ کہتا کہ:
”آپ کو خدا کا واسطہ ہے ، آپ کو میرے علاوہ کوئی اور نہ دیکھے، کوئی نہ بات کرے، آپ میرا تمام تر ایمان ہیں، میں آپ کے گرد حصار رکھنا چاہتا ہوں، پلیز میری مقدس محبت کو عام نہ کیجیے۔ ایسے میرا ایمان مجروح ہوتا ہے، میری محبت کی توہین ہوتی ہے۔” وہ روتا، گڑگڑاتا اور میں اس کی محبت میں ہر اس شخص کو گروپ سے بلاک کردیتی جس جس کی طرف وہ اشارہ کرتا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});