” شہلا۔!! بیٹا تم اچھی عورت ہو۔ میں جب سے یہاں آئی ہوں، میں نے ایک بار بھی تمہیں بیلا کے ساتھ برا برتاؤ کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں، ٹھیک ہے، تم اس سے دور دور رہتی ہو،زیادہ بات نہیں کرتی اس سے۔۔مگر روائتی سوتیلی ماؤں کی طرح کوئی برُا سلوک کرتے بھی نہیں دیکھا میں نے تمہیں اور مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے۔ اللہ تمہیں خوش رکھے بیٹا، تم بن ماں کی بچی کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہو، اللہ تمہارے لیے آسانیاں بنائے گا انشااللہ۔!!۔” وہ گہری سوچوں میں گم تھی کہ خالہ نے بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تو وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر پھیکی سے مُسکراہٹ ڈوڑ گئی۔ اس نے بے خیالی میں ایک بار پھر بیلا کی طرف دیکھا ،اس کے دل میں عجیب قسم کے جذبات ابھرے تھے، ایسے جذبات جنہیں وہ خود بھی کوئی نام نہیں دے پارہی تھی۔
خالہ کچھ عرصہ ان کے گھر رہ کر واپس جا چکی تھیں، لیکن جاتے جاتے شہلا کے لیے سوچوں کے کئی در وا کر گئی تھیں۔ اسے جہاں اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل چکے تھے، وہیں اس کے دل میں چبھی بہت پرانی پھانس بھی نکل چکی تھی۔ "رابیل کس پر تھی؟ اور فہد اکثر اسے عجیب سی نگاہوں سے کیوں دیکھتا تھا۔خاس طور پر جب نشے میں ہوتا تو بات بے بات بیلا کو مارنے کے لیے کیوں لپکتا تھا۔؟ او ر جب وہ ہوش میں نہ ہوتا تو حسینہ کیوں بیلا اور مریم کو کمرے میں بند کر دیا کرتی تھی۔؟ ۔کیوں۔۔؟ ” یہ وہ سوال تھے جو نیزے کی انی کی طرح اس کے دل میں گڑے تھے، اب اسے ان کے جواب مل گئے تھے۔ وہ اچھی طرح جان چکی تھی کہ رابیل فہد اپنی ماں کا عکس تھی۔ سنبل کی ڈیٹو کاپی۔۔اور جب فہد آپے سے باہر ہوتا ، تو اسے بیلا میں سنبل دکھائی دیتی، اور اس کے ساتھ ہی اسے اپنی وہ بے عزتی بھی پوری جزیات کے ساتھ یاد آ جاتی، جو سنبل کے اس کے ہاتھوں بچ نکلنے کی صورت اسے اور اس کی ماں کو برداشت کرنی پڑی تھی۔ شہلا کو اب بیلا پر ترس آتا ، تو سنبل کے ساتھ ہمدردی ہونے لگی تھی۔ اس نے چند ایک بار ڈرتے ڈرتے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش بھی کی تھی، مگر بات کر کے اسے ہمیشہ کی طرح پچھتانا ہی پڑا۔ وہاں نہ تو سچ سننے کا کسی میں حوصلہ تھا ، اور نہ ہی کوئی سچ بولنا پسند کرتا تھا اس لیے اس نے ایک بار پھر اپنے ہونٹوں پر وہی چُپ کی مہر لگا لی تھی، جو شادی کی پہلی رات فہد نے اس کے مُنہ پر لگائی تھی۔
حسینہ قمر کے مزاج اب ساتویں آسمان پر رہنے لگے تھے۔ بہت سال پہلے فہد کو دبئی سے ڈیپورٹ کر دیا گیا تھا۔ کیوں؟ اس کی وجہ شہلا آج تک نہیں جان پائی تھی۔ بس اُڑتے اُڑتے اتنا ہی سُنا تھاکہ فہد قمر وہاں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیاتھا، اور اس کا ذریعہ معاش بھی کچھ غیر قانونی قسم کا تھا۔ سو جب تک وہ سب سے چھپا رہا ، بچا رہا۔۔ لیکن جیسے ہی اس کی سرگرمیاں منظر عام پر آئیں ، اگلوں نے اسے اپنے ملک سے نکال باہر کرنے میں منٹ نہیں لگایا۔ اس موقع پرنہ تو علی نے بھائی کی کوئی مدد کی اور نہ ہی رابعہ اور اس کا عرب شیخ میاں اس کو بچانے کے لیے سامنے آئے تھے۔ کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب پڑتی ہے تو پھر بے بھاؤ ہی پڑتی ہے اور ان کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا تھا۔ ادھر فہد کو دبئی سے نکال دیا گیا، تو ادھر قمر روڈ ایکسیڈنٹ کے بعد معذور ہو کر وہیل چیئر پر آگیا۔ حسینہ ان پہ درپہ ہونے والے حادثات کو بھی ہمیشہ سنبل اور رابیل کے کھاتے میں ڈالتی آئی تھیں۔ انہیں جب غصہ آتا تو وہ جنونی ہو جاتیں اور جب جنوں سر چڑھ کر بولتا تو وہ بھائی بھاوج سے شروع ہوتیں اور بیلا پر آ کر سانس لیتی۔ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے خوب گالیاں بکتیں اور پھر نڈھال ہو کر سر پر پٹی باندھ کر پڑ جاتیں۔ شہلا کو یہ تماشے دیکھتے ہوئے آٹھ سال ہو چکے تھے اور اب تو وہ بھی ان سب باتوں کی عادی ہوچکی تھیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ہاں البتہ رابیل کے لیے یہ صورتِ حال آج بھی اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی تھی، جتنی کہ پہلے دن ہوئی تھی۔ وہ بہت چھوٹی تھی جب اس نے پہلی بار دادی اور پاپا کو اپنی ماں اور نانو کے خلاف زہر اُگلتے دیکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں۔۔اور کیوں کہہ رہے ہیں۔ مگر وہ معصوم بچی خاموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی تھی۔ پھر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی، اس کے کان بھی ان باتوں کے عادی ہوتے گئے، حتیٰ کہ اس کے پاپا نئی ماما کو بیاہ لائے۔ نئی ماما کے آنے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید اب دادی اور پاپا کو اس کی ماما بھول جائیں گی۔ وہ شاید اب ان کے بخیئے ادھیڑنے چھوڑ دیں گے۔۔ مگر یہ اس کی بھول تھی۔ دادی نہ تو خود کچھ بھولتی تھیں اور نہ ہی کسی اور کو بھولنے دیتی تھیں۔ رابیل نے ایک چپ اور خاموشی کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ اس نے اپنی ایک خیالی دنیا بسا لی اور اس میں نہ تو دادی کی چخ چخ ہوتی اور نہ ہی پاپا کی دھاڑتی آواز، نہ نئی ماما کی خاموش سنجیدہ نگاہیں تو نہ سنبل ماما کی یادیں۔ اس دنیا میں وہ اکیلی ہوتی اور اس کے نازک نازک خوبصورت خیال۔ جنہیں وہ کبھی لفظوں کی صورت کاغذ پر اتارتی، تو کبھی رنگوں کی صورت کینوس کی نظر کر دیتی لیکن ایک بات تھی، اسے اچھی طرح اندازہ ہو چکا تھا کہ ایک ہی خاندان ہونے کی وجہ سے جب بھی دادی کو سنبل ماما یا نانو کی کوئی خبر ملتی، دادی کے ساتھ ساتھ باقی گھر والوں کا نزلہ بھی اس کی جان پر ہی گرتا۔ اسے پھر کئی کئی دن دادی کے گالیاں کھانی پڑتیں،پاپا کی سرد برفیلی نگاہیں برداشت کرنی پڑتیں تو شہلا ماما کی حد سے بڑھی خاموشی اور ایسے میں مریم اور دادا کیوں پیچھے رہتے۔ وہ بھی بلا وجہ ہی اس سے ناراض ہو جاتے اور پھر بیلا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہ جاتا کہ وہ اپنے آپ کو اسی خول میں بند کر لے ۔ہاں ایک بالاج ہی تھا، جو کبھی بھی کسی بھی حالت میں اس سے ناراض نہیں ہوا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ بھی اس پر جان دیتی تھی۔
اس دن بھی وہی ہواتھا۔ دادی کو رابعہ پھپھو کا فون آیا تھا، اور انہوں نے جانے کیا صور پھونکا تھا کہ سب کے مُنہ غبارے کی طرح پھول گئے تھے۔ رابیل نے جیسے ہی ڈائننگ روم میں قدم رکھا، کمرے میں محسوس کیا جانے والا سناٹا چھا گیا تھا۔ وہ ٹھٹھک کر وہیں رک گئی اور ٹیبل کے گرد بیٹھے سب نفوس کو دیکھنے لگی، جو اسے سرد نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ اس کے ماتھے پر پسینہ پھوٹ پڑا تھا اور ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ وہ مرے مرے قدموں سے چلتی ٹیبل تک آئی اور بالاج کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ جھکے ہوئے سر کے باوجود بھی وہ اچھی طرح محسوس کر سکتی تھی کہ سب کی برفیلی سرد نگاہیں اس کا ہی ایکسرے کر رہی ہیں۔بالاج سے یہ بولتی خاموشی برداشت نہیں ہوئی تو اس نے شہلا سے اس کے لیے بریانی پلیٹ میں ڈالنے کی فرمائش کر دی۔ اس کی معصوم چہکتی آواز نے ماحول پر چھائے فسوں کو جیسے توڑ دیا تھا۔ شہلا نے ساس کی سرزنش کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے پہلی بار اپنے دل کی خوشی سے پلیٹ سجائی تھی۔ بیلا سمیت سب ہی نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ شہلا نے کسی کی نگاہوں کی پرواہ نہیں کی تھی اور پلیٹ بیلا کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے بالاج کو دیکھاتھا۔ بالاج کے چہرے پر بے پناہ خوشی دکھائی دے رہی تھی، جیسے اسے اپنی ماں سے اسی بات کی توقع تھی۔ شہلا اب کے کُھل کر مسکرائی اور ہاتھ بڑھا کے بالاج کے بال سنوارتے ہوئے اس کے مُنہ میں نوالہ ڈالنے لگی۔ بالاج بے اختیار ہنسا تھا اور اس کی اس خوبصورت، معصوم ہنسی میں شہلا کے ساتھ ساتھ بیلا اور مریم کی حسین مسکراہٹیں بھی شامل ہو چکی تھیں۔ حسینہ، قمر اور فہد سانس روکے انہیں دیکھ رہے تھے۔ مگر ان سب کی توجہ کہاںتھی ان کے حیران چہروں پر۔
” آنٹی۔!! آپ۔۔آپ کو کچھ چاہئے تھا۔؟ کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیا ہوتا۔؟آپ۔۔۔!!
"بیلا۔!! سوری بیٹا۔ میں تمہیں سمجھ ہی نہیں سکی۔مجھے معاف کر دو بیٹا۔”!!۔ بیلا رات کے اس پہر شہلا کو اپنے کمرے میں دیکھ کر گھبرا گئی تھی، اسی لیے بے ربط سے انداز میں بولتی چلی گئی تھی۔ مگر شہلا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے کچھ اس طرح کہا کہ بیلا کی سانسیں رکنے لگیں۔ "آنٹی، آپ۔۔۔!!”۔
"آنٹی نہیں۔۔ماما بولو بیٹا۔۔بالاج اور مریم کی طرح میں تمہاری بھی تو ماما ہی ہوں ناں۔۔تو پھر تم آج سے مجھے ماما ہی کہو گی ٹھیک۔!! ۔ "بیلا کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی طرح بہ رہے تھے۔ وہ بے اختیار شہلا کی کھلی بانہوں میں سمائی گئی۔شہلا نے بھی اسے سینے سے لگا لیاتھا۔ ایک سکون سا اس کے رگ وپے میں اتر رہا تھا۔ بہت پرسکون سا احساس تھا جس نے اس وقت ان دونوں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ بہتی رات بھی رک کر اس حسین منظر کو دیکھ رہی تھی۔
کہتے ہیں رشتے تو احساس کے ہی ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہے تو غیر بھی اپنے، اور احساس نہیں تو اپنے بھی بیگانے ہو جاتے ہیں۔ "سوتیلی ماں اور سوتیلی اولاد” کا رشتہ بھی ایسا ہی کہلاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی بات احساس کی ہی ہوتی ہے۔ ایک احساسِ شراکت جو اس نازک رشتے کو بدصورت بھی بناجاتا ہے اور ناقابلِ برداشت بھی۔ لیکن اگر یہی احساس، احساسِ ذمہ داری اور خلوص میں بدل جائے تو پھر کوئی بیلا کبھی بھی اپنے خول میں پناہ نہ ڈھونڈے اور نہ ہی کوئی شہلا اپنے جذبات کو بھاری برف کی سلوں تلے دبا کر رکھنے پر مجبور ہو۔ یہ احساس، ایک ایسا ماورائی جذبہ ہے جو صرف خوش نصیب لوگوں کو ہی ودیعت کیا جاتا ہے۔ کوئی عام انسان نہ تو اس کاحقدار بن سکتا ہے اور نہ ہی اسے یہ خدائی تحفہ مل سکتا ہے۔
******************************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});