ان لوگوں کی صبح عموماً دوپہر چڑھے ہوتی تھی۔ قمر جمیل کا آنکھ کُھلتے ہی پہلا کام ٹی وی آن کرنا ہوتا تھا۔ انہیں نرگس اور دیدار کے اسٹیج ڈانس بہت پسند تھے، سو گھر میں سارا سارا دن یہی ڈانس سانگز چلتے رہتے ۔حسینہ قمر گھومنے پھرنے کی حد سے زیادہ شوقین تھیں، لہٰذا وہ ناشتے کے فوراً بعد محلے کے ٹور پر نکل جاتیں۔ فہد اور علی کی اپنی اپنی مصروفیات تھیں ۔ جن میں وہ بُری طرح مصروف رہتے تھے اور ان کی مصروفیات زیادہ تر ان کے سیل فونز پر آنے والی کالزہی ہوتی تھیں جو انہیں گھنٹوں ارد گرد سے بیگانہ رکھتیں۔ شہلا کے لیے اس عجیب اجنبی ماحول میں سروائیو کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا، مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہی تھی۔ایسے میں اس کی ساس نے گھر کا سارا نظام اس کے سپرد کر کے جیسے اپنی جان گھر اور گھرداری سے چھڑوا لی تھی۔ اب کہنے کو تو شہلا سیاہ و سفید کی مالک تھی، مگر یہ وہ ہی جانتی تھی یا اس کا خدا، کہ اس ملکیت میں بھی کس قدر محکومیت چھپی تھی۔
“شہلا۔۔شہلا۔!! بھئی کہاں چُھپ کے بیٹھی ہو۔ سامنے توآوؑ۔ دیکھو ، تو ہم تمہارے لیے کیسا سر پرائز لائے ہیں۔!!۔ ” اپنی ساس کی چہکتی آواز سُن کر جانے کیوں اس کے ہاتھ سے برتن گر گئے تھے۔ حالاں کہ وہ تو ان سب کی ایسی تمسخر اُڑاتی نگاہوں اور آوازوں کی عادی سی ہوتی جارہی تھی۔
“شہلا۔!! کہاں مر گئی ہو۔؟ امی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تمہیں۔؟ فوراً باہر آ جاؤ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا تمہارے لیے۔!!۔” ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پائی تھی کہ فہد کی غصّے سے چنگھاڑتی آواز اسے اور زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار کر گئی۔وہ ایک ہی جست میں کچن سے نکلی اور سیدھی لاؤنج میں آگئی۔ سامنے ہی حسینہ اور فہد صوفے پر بیٹھے عجیب نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ دوسرے صوفے پر قمر جمیل اور علی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اسے تمسخر اُڑاتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ شہلا کے لیے یہ نگاہیں اب نئی نہیں رہی تھیں۔ نئی تو اس کے لیے وہ چار سال کی بچی تھی، جو فہد اور غزالہ کے درمیان بیٹھی ٹکر ٹکر سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔ شہلا اس بچی کو دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ اتنی خوبصورت اور معصوم بچی اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش یہاں موجود کسی فرد سے بھی نہیں ملتے تھے۔ شہلا کو تو بچے ویسے ہی بہت پسند تھے، اور یہ بچی۔۔یہ بچی تو لگتا تھا قدرت کا حسین ترین شاہکار تھی۔۔مگر وہ تھی کون۔؟ شہلا کو سمجھ میں ابھی تک یہ ہی نہیں آیا تھا۔وہ ناسمجھی بھرے انداز سے اسے دیکھے جارہی تھی۔
“رابیل۔!! ادھر دیکھو۔۔یہ تمہاری ماما ہیں۔ نئی ماما۔۔چلو شیک ہینڈ کرو ان کے ساتھ۔۔چلو شاباش۔!!۔” حسینہ نے چسکا لینے والے انداز سے شہلا کو دیکھتے ہوئے رابیل سے کہا تو اس نے بے یقینی سے فہد کو دیکھا تھا۔
”ماما۔۔نئی ماما۔۔کون۔۔میں۔؟۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں امی آپ۔۔یہ۔۔یہ بچی ہے کون۔؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
“یہ رابیل ہے۔ رابیل فہد۔۔فہد کی بیٹی اور ہماری پوتی، اور آج سے تمہاری سب سے بڑی ذمہ داری۔۔یہ چند دنوں کے لیے سیمیں (حسینہ کی چھوٹی بہن) کی طرف گئی ہوئی تھی، تاکہ تم یہاں اچھی طرح ایڈجسٹ ہو جاؤ۔۔تم ۔۔سمجھ رہی ناں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں ۔۔شہلا۔؟ !!۔ ” حسینہ قمر نے سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد انداز سے کہا تو اسے بڑے زور کا چکر آگیا۔ اس نے بڑی بے یقینی سے فہد کی طرف دیکھا تو وہ بھی ماں کے رنگ میں رنگا اسے ویسے ہی سرد انداز سے دیکھ رہاتھا۔
امی۔!! آپ نے بھائی کی پہلی شادی اور بیلا کے بارے میں بھابھی کوپہلے نہیں بتایا تھا۔ دیکھیں تو، ان کا تو رنگ ہی فق ہوگیا ہے بیلا کو دیکھ کر ۔!!؟ ” علی نے سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے ہنستے ہوئے اس کی گھبراہٹ کو مذاق کا نشانہ بنایا تو وہ سلگ کر رہ گئی۔
“ارے۔!! ضرورت کیا تھی بتانے کی۔؟ اور یہ کوئی بتانے والی بات تو تھی نہیں۔ سارے زمانے کو پتا ہے کہ فہد کی پہلی شادی اس کے ماموں کے گھر ہوئی تھی، وہ لڑکی گھر بسانے والی تھی ہی نہیں تو اس میں بے چارے میرے بچے کا کیا قصور۔۔اور اسے تو شکر ادا کرنا چاہئے اللہ کا کہ ہم نے اسے اتنی عزت دی، اسے اپنے گھر کی بہو بنایا۔۔اور۔۔!”
“اور بغیر کسی تردد کے ماں بھی۔۔ہے ناں۔!!” حسینہ قمر کی طنز اور تنفر میں ڈوبی بات کسی تازیانے سے کیا کم تھی کہ قمر جمیل نے عجیب چھچھورے انداز میں ٹکڑا لگاتے ہوئے بیوی کی بات کو بڑھایا تھا۔ شہلا کو چکر پر چکر آ رہے تھے، مگر وہ اپنے دل میں اٹھتے جوار بھاٹے کو دبائے ، لب سیئے بس خاموش کھڑی سب کو دیکھے جا رہی تھی۔
رابیل بہت معصوم اور بھولی بھالی بچی تھی۔ وہ کبھی بھی شہلا کے لیے مسئلہ نہیں بنی تھی۔ وہ اپنا ہر کام خود ہی کرنے کی عادی تھی۔ زیادہ تر خاموش رہتی یا پھر اپنی کتابوں کی دنیا میں مگن رہتی۔حسینہ قمر نے اسے کئی بار شہلا کے خلاف استعمال کرنا چاہا مگر وہ ہر بار کچھ ایسا کر جاتی کہ حسینہ اپنے دام میں خود ہی پھنس جاتیں۔ شہلا ان سب کی نیچر بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھی اس لیے وہ بھی اپنے کام سے کام رکھنا ہی پسند کرتی اور اب تو اس کے اپنے بھی بچے ہو چکے تھے۔ مریم، رابیل سے پانچ سال چھوٹی تھے اور بالاج آٹھ سال۔ رابیل کو اپنے چھوٹے بہن بھائی سے بہت محبت تھی۔ وہ اکثر اپنے حصے کی چیز بھی ان دونوں کو دے دیا کرتی تھی۔ خاص طور سے بالاج کو۔ شہلا کے ساتھ اس کا رویہ بہت عام سا تھا۔ بہت لیے دیئے والا انداز۔۔اور اس کے اس انداز کے ذمہ دار بھی حسینہ، قمر اور فہد ہی تھے۔ شہلا پہلے پہل تو اس معصوم بچی کے وجود سے لاتعلقی برتتی رہی، مگر کب تک۔۔ وہ تھی ہی اتنی معصوم اور پیاری کہ شہلا کا دل خود بہ خود ہی اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ وہ آہستہ آہستہ نا محسوس انداز سے بیلا کی طرف مائل ہوتی چلی گئی، اور جب اس کادل بیلا کی محبت سے بھر گیا تو حسینہ نے فہد سے کہہ کر اس پر پابندی لگوا دی کہ وہ بیلا سے دور رہے ۔ انہیں یہ خو ف ستانے لگا تھا کہ کہیں رابیل اور شہلا مل کر ان سے ان کے بیٹے کو ہی نہ چھین لیں۔ حالاں کہ ایسا ممکن نہ تھا۔ مگر غزالہ کی ذہنیت ہی ایسی تھی ۔ انہوں نے ہمیشہ رشتوں کا اپنی ضرورت کے تحت استعمال کیا تھا، اور چیزوں سے بے پناہ محبت کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ فہد کا پہلا گھر نہیں بس سکا تھا۔
“سنبل بہت پیاری بچی تھی بہت نیک اور بہت فرماں بردار مگر تمہاری ساس اور شوہر کو اس کی کسی خوبی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔اس نے تو فہد کی شادی کی بھی بھتیجی سے اسی لیے تھی کہ اسے ڈھیر سارا جہیز چاہئے تھا، مال ودولت کے لالچ نے ان ماں بیٹے کو اندھا کر رکھا تھا، اسی لیے انہوں نے سنبل غریب پر بہت ظلم ڈھائے۔ یہ فہد۔۔تمہارے ساتھ پتا نہیں کیا سلوک کرتا ہوگا، تم بہتر جانتی ہو، مگر شراب کے نشے میں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے اسے کئی بار سنبل پر وحشیانہ تشدد کرتے دیکھا ہے ۔!!۔ ” فہد کی سیمیں خالہ اور کلثوم چچی کا جب بھی شہلا سے ملنا ہوتا ، وہ اسے فہد کی پہلی بیوی اور سسرال کے بارے میں بتاتی رہتیں۔ پہلے پہل اسے ان کی باتوں پر یقین کم کم ہی ہوتا، مگر پھر جب وہ خاندان کے دوسرے افراد سے ملی، اور اس نے سب سے ایسی ہی باتیں سنیں تو اسے سنبل اور بیلا سے ہمدردی محسوس ہونے لگی۔
” ارے۔!! ظلم کرنے کی کوئی ایک وجہ تو نہیں تھی ناں ان ماں بیٹے کے پاس۔۔ سب سے بڑی وجہ تو سنبل کے باپ کا فیملی سمیت امریکا شفٹ ہو جانا ہی تھا، حسینہ نے تو امریکا کے لالچ میں ہی سنبل کا رشتہ لیا تھا، وہ بھی بھائی بھاوج کے پیروں میں گر کر، مگر پھر جب بھائی نے فہد کو امریکا شفٹ کرنے سے معذوری ظاہر کی تو ان لوگوں نے آنکھیں ہی ماتھے پر رکھ لیں۔۔بس بیٹا، کچھ نہ پوچھو۔۔اس بچی نے اپنی زندگی کا سب سے برُا دور یہاں گذارا۔۔اور تم یہاں کیسے رہ رہی ہو، تمہارا ہی حوصلہ ہے۔۔ہم تو داد دیتے ہیں تمہاری ہمت کی۔۔ ورنہ اس حسینہ اور فہد کے ساتھ رہنا تو جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔!!۔ “حسینہ کی خالہ زاد بہن شہلا کی شادی کے بعد پہلی بار امریکا سے آئیں تو موقع ملتے ہی انہوں نے اس کے سامنے فہدکی پہلی شادی ٹوٹنے کی وجہ رکھ دی۔ شہلا حیرت کی تصویر بنی خالہ کو دیکھتی رہ گئی۔ اس وقت رابیل پندرہ سال کی ہوچکی تھی۔ شہلا بھی ان سب کو بہت اچھی طرح جان چکی تھی مگر خالہ جو انکشاف کر رہی تھیں وہ اس کے لیے بالکل نئے تھے۔ اس کی نظر بے اختیار لاؤنج کے کونے میں اپنی کتابوں میں سر دئیے بیٹھی بیلا پر پڑی تو وہ بے خیالی میں اسے دیکھتی چلی گئی۔ خالہ نے بھی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا تو ایک سرد آہ ان کے لبوں سے خارج ہوئی تھی۔
” خالہ۔!! تو کیا سنبل نے اپنی بچی ان سے لینے کی کوشش نہیں کی تھی۔؟ یہاں تو سب یہی کہتے ہیں کہ وہ چند دن کی بچی چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔!!۔ “شہلا کے ذہن میں ایک عرصے سے پلتے سوالوں نے سر اُٹھایا تو ان سے پوچھے بغیر نہیںرہ سکی۔
” ارے۔۔!! جھوٹ بولتے ہیں کمبخت کہیں کے۔سنبل کو تو ان لوگوں نے بیلا کے پیدا ہونے سے پہلے ہی گھر سے نکال دیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو اس کی ماں اور نانی کا، جنہوں نے اسے سنبھال لیا۔ سنبل کی ماں اطلاع ملتے ہی امریکا سے بھاگی آئی تھی، اور ان کم بختوں نے اس کے میکے جا کر اس سے جھگڑا کیا کہ اگر بیٹی کا گھر بسانا ہے تو پہلے ہمیں امریکا کا ویزہ بھجواؤ۔۔ لو بھلا، کوئی سمجھائے ان کو ، وہ وہاں کی گورنر لگی ہوئی تھیں، جو ان سب کو ریڈ کارپٹ پہ بلوا لیتی۔ بس، بیٹا۔۔ پھر بہت تماشا ہوا۔ ان سب نے اپنی سی ہر کوشش کر کے دیکھ لی، علاقے کے کونسلر کو بھی بیچ میں ڈالا، اس سے کچھ نہ بنا تو سنبل کی ماں اور ماموں پر پرچہ بھی کٹوا دیا،بہت کچھ کیا ان لوگوں نے کسی طرح سنبل واپس ان کے ہتھے چڑھ جائے۔۔مگر بھابھی بھی اپنی دُھن کی پکی نکلیں، انہوں نے مردانہ وار ان کی چالوں کا مقابلہ کیا اور اپنی بیٹی کو ان کے چنگل سے نکال کر ہی دم لیا۔۔اور جہاں تک بات ہے، بیلا کی کسٹڈی کی، تو اس پر بھی بہت تماشا ہوا۔۔ فہد اور اس کی ماں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر طلاق لینی ہے تو بچی ہمیں دینی ہوگی۔ ان کو شائد یہی لگا ہوگا کہ یہ شرط رکھیں گے تو سنبل ڈر جائے گی۔ طلاق نہیں لے گی اور واپس اس جہنم میں آجائے گی۔۔ مگر سنبل نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے عدالت میں کہہ دیا کے میری جان اگر اس طرح ان لوگوں سے چھوٹ سکتی ہے تو ٹھیک ہے۔ میں بچی دینے کو تیار ہوں۔۔ اور اس طرح اپنے جگر کا ٹکڑا دے کر اس غریب نے اپنی جان ان لوگوں سے بچائی۔” شہلا کا ایک رنگ آ رہا تھا تو ایک رنگ جا رہا تھا۔ اس کے دل میں ابھی بھی کئی سوال گردش کر رہے تھے، مگر اب ہمت نہیں ہو رہی تھی کچھ بھی پوچھنے کی۔وہ شائد ڈر گئی تھی کہ اب اگر اس نے کچھ پوچھا تو اس کے جواب میں جانے کیا سننے کو مل جائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});