کہتے ہیں، رشتے احساس کے ہی ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہے تو غیر بھی اپنے، اور احساس نہیں تو اپنے بھی پرائے لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنہیں نبھانے کے لیے احساس سے پرے بھی کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ ایسا ماورائی جذبہ جو کسی کسی کے حصے میں ہی آتا ہے، اور بلا شبہ جنہیں یہ حاصل ہو جائے وہ خوش نصیب ہی کہلاتے ہیں۔
رابیل نے جیسے ہی ڈائننگ روم میں قدم رکھا، ایک محسوس کی جانے والی خاموشی ہر سمت چھا گئی۔ وہ ٹھٹھک کر وہیں رک گئی۔ اس نے بہ غور سب کے تاثرات کا جائزہ لیا تو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک عجیب سی سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ ماتھے پر نامحسوس سا پسینا پھوٹ پڑا۔ سربراہی کرسی پر اس کی دادی حسینہ قمر بیٹھی اسے سرد اور خاموش نگاہوں سے گھور رہی تھی۔ دادی کے دائیں بائیں بیٹھے فہد اور شہلا کے چہروں پر بھی ایسی ہی سرد مہری کی برف جمی تھی۔ ایک معصوم اوراستقبالیہ مُسکراہٹ اگر کسی کے چہرے پر تھی تو وہ بالاج کا چہرہ تھا۔ بالاج، اس کا چھوٹا بھائی صرف وہ ہی تو تھا جو اسے بے غرض چاہتا تھا ۔ورنہ مریم بھی تو تھی،اس سے چھوٹی اور بالاج سے بڑی مگرانتہا درجے کی موڈی۔ جب موڈ ہوتا ہنس کر بلا لیتی اور جب موڈ نہ ہوتا “نولفٹ” کا یہ بڑا سا بورڈ ماتھے پر سجا لیتی۔
“اُف۔!! لگتا ہے آج کا دن ہی بُرا آیا ہے میرے لیے۔ اب سارا دن مجھے ان سب کے پھولے مُنہ اور عجیب وغریب سی نگاہیں برداشت کرنی پڑیں گی۔!!” خود کوبہ مشکل کمپوز کرتے ہوئے وہ سست قدموں سے آگے بڑھی اور بالاج کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر اس پر ٹک گئی۔ وہ دانستہ طور پر کسی سے بھی نظر نہیں ملانا چاہتی تھی، اسی لیے اس نے اپنی نگاہوں کے ساتھ ساتھ سر بھی جُھکا لیا تھا۔ مگر اس کے باوجود اسے محسوس ہو رہا تھا کہ سب کی سرد، اندر تک اُترتی نگاہوں کا مرکز صرف وہی تھی۔
“ماما۔!! بیلا آپی کو بھی پلیٹ میں کھانا ڈال کر دیں ناں۔ آپی کو تو بریانی پسند بھی بہت ہے۔۔ہے ناں آپی۔؟ !!۔” بالاج نے مسکراتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھی ماں کا بازو ہلایا تو وہ چونک گئی۔ خاموشی کے اس بہتے دریا میں بالاج کی معصوم چہکتی آواز نے جیسے ارتعاش سا پیدا کر دیا تھا۔ سب جیسے سوتے سے جاگے تھے۔ حسینہ قمر نے اپنی سرد نگاہیں رابیل پر سے ہٹا کر دوسری جانب مرکوز کرلی تھیں۔ فہد نے بلاوجہ اپنی پلیٹ میں چمچ چلانا شروع کر دیا اور مریم نے گلاس اُٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ شہلا نے خاموشی اورسنجیدہ تاثرات کے ساتھ ڈش اٹھائی اور رابیل کے سامنے رکھ دی۔ بالاج نے حیرت سے پہلے ماں کو دیکھا اور پھر رابیل کو ، جس کے چہرے پر بلاوجہ ہی خجالت اور شرمندگی کی سرخی دوڑ گئی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
“ماما۔!! آپ خود ڈال کر دیں ناں آپی کو ۔۔جیسے مجھے اور مریم باجی کو دیتی ہیں۔!!۔” بالاج نے جانے کیوں اس کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی تھی، رابیل خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی، مگر اسے بالاج کا اپنے لیے مسلسل بولنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔
“بالاج۔!! چپ چاپ کھانا کھاؤ۔ تمہاری آپی اب اتنی بھی بچی نہیں رہی کہ اس کے مُنہ میں نوالے دیئے جائیں۔ ڈال لے خود ہی کسی نے ہاتھ تو نہیں پکڑا ناں اس کا۔ تم اپنا کھانا ختم کرو خاموشی سے۔!!۔” حسینہ نے سرد انداز سے رابیل کو گھورتے ہوئے بالاج کو سرزنش کی تو شہلا کا ڈش کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں رُک گیا۔ اس نے ساس کو ایک نظر دیکھ اور پھر سر جھٹک کر اپنی پلیٹ پر جھک گئی۔ فہد اور مریم ہاتھ روکے ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ بیلا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح خود کو اس منظر سے غائب کر دے۔ نہ تو اس کے پاس سلیمانی ٹوپی تھی اور نہ ہی کوئی جادو کہ جسے چلا کر وہ خود کو اس نفرت اور سردمہری بھرے ماحول سے الگ کر پاتی۔ سو خاموشی سے سر جھکائے، آنسو پینے کی کوشش میں نڈھال سی بیٹھی تھی۔ شہلاسے اس کی حالت دیکھی نہیں گئی، اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈش اٹھائی اور بیلا کے سامنے پڑی پلیٹ میں چاول ڈال دئے۔ بیلا نے ایک دم سر اُٹھا کر اسے دیکھا، مگر اس کے تاثرات میں بہ ظاہر کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ویسے ہی سنجیدہ اور ناقابل فہم تاثرات۔ اس نے کراہ کر پھر سر جُھکا دیا تھا۔ باقی کے تمام نفوس بھی اپنی اپنی جگہ دوبارہ اپنی اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہو چکے تھے۔
شہلا عام سے نقوش رکھنے والی ایک عام سی لڑکی تھی۔ اس کی بڑھتی عمر اور ہاتھ سے جاتے رشتوں نے اس کے اماں بابا کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھی جو بھی آتا، اسے ایک نظر دیکھ کر واپس پلٹنا ہی بھول جاتا۔ اس کا سانولا سلونا رنگ اور قدرے فربہی مائل وجود تو سب کو دکھائی دے جاتا، مگر اس وجود کے اندر پنپتا نرم و نازک اور حساس دل کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کی اماں اب اس کی طرف سے تقریباً مایوس ہی ہو چکی تھی کیوں کہ اس کو دیکھنے کے لیے جو آخری بار لڑکے والے آئے تھے، انہیں بھی واپس گئے چھے ماہ سے زیادہ ہو چکے تھے اور اب تو صاف بات تھی کہ رشتہ کروانے والی ماسی نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئے تھے۔ اماں کے ساتھ ساتھ اب تو شہلا کو بھی یہی لگنے لگا تھا کہ اس کی قسمت میں اپنے گھر کا سکھ ہے ہی نہیں، اسی لیے تو اس نے جہاں اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا تھا، وہیں اماں بھی اس کی طرف سے لا پروا ہو گئی تھیں لیکن کہتے ہیں ناں کہ ہر کا م کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور نصیب سے زیادہ اور وقت سے پہلے کبھی کچھ نہیں ملتا ، تو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
اماں کے مایوس اور شہلا کے ناامید ہو جانے کے بعد اچانک قدرت کو جیسے جوش آیا اور شہلا کے لیے فہد کا رشتہ آگیا۔ حسینہ قمر نے شہلا کو خاندان کی کسی محفلِ میلاد میں دیکھا تھا۔ وہ اسے ایک نظر میں ہی بھا گئی تھی، اس لیے اس نے فوری طور پر اسے اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہر چند کہ انہیں کئی خیر خواہوں نے بہکانے کی کوشش بھی کی، مگر وہ فیصلہ کر چکی تھیں اور اس فیصلے پر قدرت کی مہر بھی لگ چکی تھی اس لیے یہ شادی بہ خیر وخوبی انجام پا گئی۔ شہلا اور اس کے گھر والوں کے لیے یہ رشتہ نعمتِ خداوندی ثابت ہوا تھا۔ فہد دبئی میں جاب کرتا تھا۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی اور ایک ہی بہن تھی۔ دونوں شادی شدہ اور دبئی میں ہی رہائش پذیر تھے۔ یہاں صرف حسینہ قمر رہتی تھی اپنے اپاہج شوہر قمر جمیل کے ساتھ اور ان کے ساتھ رہتی تھی چارسالہ ننھی، معصوم سی رابیل۔
“مجھے خوب صورتی سے شدید نفرت ہے۔ عورت کا حسن صرف دھوکا ہوتا ہے ، صرف دھوکا۔اس لیے میں نے امی کو بتا دیا تھا کہ اگر انہیں میری شادی کرنی ہے تو کوئی بدصورت اور غریب سی لڑکی دیکھیں۔۔ اور مجھے خوشی ہے کہ امی نے میری پسند کا خاص خیال رکھا۔!!۔ ” دلہن بنی شہلا کے کانوں میں فہد کی نشے میں ڈوبی لڑکھڑاتی ہوئی آواز آئی تو وہ پوری جان سے ہل کر رہ گئی۔
کہاں کی دلہن۔۔کیسا دلہناپا۔۔کیسی شرم۔۔کیسی حیا۔۔ وہ تو ایک دم ایسی بوکھلائی کہ مُنہ کھولے آنکھیں پھاڑے اپنے مجازی خدا کو دیکھنے لگی۔۔جو اُس وقت واقعی خدا بنا بیٹھا مزے سے اس کے ذات کے بخیئے اُدھیڑ رہا تھا۔ ۔نہ صرف اس کی ذات، بلکہ پوری عورت ذات کے۔۔ یہ سوچے بغیر کہ یہی عورت اس کی ماں بھی ہے، یہی عورت بہن بھی اور بیٹی بھی۔۔ اسے جانے عورتوں کے وجود سے کیا پرخاش تھی ۔۔بلکہ” حسین عورتوں “کے وجود سے کہ وہ اپنی نفرتوں کے اظہار میں ہر حد ہی پار کرتا جا رہا تھا۔۔ حالاں کہ اس کی ماں اور بہن بھی خوبصورت عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔ خود وہ بھی کوئی معمولی مرد نہیں تھا۔ لمبا، ہینڈسم اور اسمارٹ مگر صرف جسمانی طور پر۔ ورنہ اس کی ذہنی پستی کا عالم تو اس کی گفت گو سے ہی ظاہر ہورہا تھا۔ شہلا تو پہلے ہی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ ظاہری طور پر اس کا اور اس خاندان کا کوئی جوڑ بنتا نہیں تھا، مگر کہنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ سب قسمت کے فیصلے ہیں۔ اس کے نصیب یہیں لکھے تھے، سو وہ یہاں آگئی۔ لیکن یہ بھی سچ ہی ہے کہ جس قدر اسے اپنے نصیبوں سے اس وقت گلہ ہو رہا تھا، اتنا تو اس وقت بھی نہیں ہوتا تھا جب اسے ہر طرف سے دھتکار، پھٹکار ملتی تھی۔
“سنو۔!! کیا نام ہے تمہارا۔۔شہہ۔۔شہلا۔۔ہاں، شہلا۔۔میری ایک بات یاد رکھنا۔ مجھے زیادہ بولنے والی اور چڑ چڑ کرنے والی عورتوں سے سخت نفرت ہے۔ تم میرے کسی معاملے میں ٹانگ اُڑانے کی کبھی بھی کوشش مت کرنا، نہ تو مجھ پر رعب جمانے کی جسارت کرنا اور نہ ہی الٹے سیدھے سوال کر کے میرا دماغ اور ٹائم خراب کرنے کی حماقت کرنا۔۔ورنہ اپنے انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔ سمجھیں۔۔کہ نہیں۔؟۔!!۔ ” شہلا سانس روکے اپنے مجازی خدا کے فرمودات سُن رہی تھی کہ اس نے ایک دم اس کا زرتار دوپٹہ اس کے سر سے کھینچ کر اتارتے ہوئے نیا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ دوپٹہ اس کے سر پر پنوں کی مدد سے سیٹ کیا گیاتھا، یہ زوردار جھٹکا برداشت نہ کر سکا اور چرر کی آواز کے ساتھ پھٹتا چلا گیا۔ شہلا اس افتاد کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی وہ خود بھی جھٹکا کھا کر فہد کے پاؤں پر گرپڑی۔
” ہاں۔۔ ایسے ہی ہمیشہ میرے سامنے بچھتی رہنا۔ میرے کسی حکم کی کبھی خلاف ورزی مت کرنا، پھر دیکھنا میں تمہیں کیسے مہارانی بنا کر رکھتا ہوں۔۔اگر تم میرے دل کی رانی بننا چاہتی ہو تو بس، میرا اور میری امی کا ہر حکم مانو، ورنہ ہمیں مہارانی کو نوکرانی بنانا بھی آتا ہے۔!!۔نشے میں دھت بے ہنگم انداز سے ہنستے ہوئے فہد نے اسے اس کے مستقبل کا فیصلہ سنایا اس کے مُنہ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکوں نے شہلا کا دل بُری طرح متلا کر رکھ دیا مگر وہ بے بس تھی۔ فہد کی خوبصورت پرسنالٹی میں چھپا یہ بدصورت روپ دیکھ کر اس کے حواس معطل ہوئے جا رہے تھے۔
شہلا کے لیے اس گھر میں دوسرا دھچکا رابیل ثابت ہوئی تھی۔ بے حد خوبصورت اور نرم و نازک بچی جسے دیکھ کر خود بہ خود ہی دل اس کی طرف کھنچنے لگے۔ اس کی شادی کو چند ہفتے گذر چکے تھے، وہ ابھی تک خاموشی سے اس گھر اور گھر والوں کا جائزہ ہی لے رہی تھی۔ دلہناپے کی شرم و حیا اپنی جگہ، مگر اسے تو فہد کی باتوں اور حرکتوں نے ایک عجیب سی چُپ لگا رکھی تھی۔رابعہ بھی شادی کے ہنگامے سرد ہوتے ہی واپس دبئی جا چکی تھی اور اگلے چند روز میں علی(اس کا دیور) بھی واپس جانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ ایسے میں اس کی ساس نے اس سے میٹھا پکوا کر دنیاداری کی رسم ادا کرتے ہوئے، گھر کا سارا انتظام عملی طور پر اس کے سپرد کر دیا تھا۔شہلا کو نہ تو کوئی خوشی محسوس ہو رہی تھی اور نہ ہی ان کے کسی عمل پر کوئی اعتراض ہو رہا تھا۔ ایک عجیب قسم کی خاموشی اور سناٹا اس کے رگ و پے آہستہ آہستہ اترتا جا رہا تھا۔ وہ اس مختصر عرصے میں ان لوگوں کو جتنا جان پائی تھی، اس کی رگوں میں بہتے گرم خون کو ٹھنڈی سرد برف میں ڈھالنے کے لیے کافی تھا۔ نہ تو اس کا مزاج ان لوگوں جیسا تھا، اور نہ ہی لائف اسٹائل ۔ وہ سیدھی سادی زندگی گذارنے والی سیدھی سادی سی لڑکی تھی، مگر یہاں تو لگتا تھا سب جلیبی کی طرح ٹیڑھے میڑھے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});