آپا — فاطمہ عبدالخالق

بچپن سے پچپن تک میں اسی شش و پنج کا شکار رہا کہ وہ میری آپا ہیں یا میں ان کا بھیا ہوں؟ کیوں کہ یوں تو آپا مجھ سے عمر میں چھوٹی تھیں، لیکن ا ن کی جسامت دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا ضرور کر دیتی تھی۔ آپا صرف جسامت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ عقل کے لحاظ سے بھی کافی موٹی تھیں۔ یہ بھی الگ قصہ ہے کہ ان کی ساری کوتاہیوں کا نزلہ مجھی پر گرتا تھا۔پہلے پہل تو میں آپا کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا، لیکن جب میری ناؤ کنارے پر پہنچنے کے بجائے بیچ منجدھار میں غوطہ کھانے لگی، تو مجھے شدت سے اپنی بزدلی پر غصہ آیا اور اماں مرحومہ کی یاد نے شدت سے حملہ کیا کیوں کہ ایک اماں ہی تھیں جو آپا کو کسی نادیدہ ریموٹ سے کنٹرول کرنا جانتی تھیں۔ اماں کے علاوہ آپا اپنی زبان درازی کے باعث پورے خاندان والوں پر بھاری تھیں۔
آپا اگر چھے بچوں کی اماں تھیں، تو میں بھی چار بچوں کا باپ تھا۔ یہ الگ داستان ہے کہ اتنا بڑا ہونے کے باوجود ان کے سامنے میری گھگی بندھ جاتی جس کا میری بیگم صائمہ منیر کو از حد قلق ہے کیوں کہ وہ اکثرہی آپا کی زیادتیوں کا شکار بنتی آئی ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ جوان اولاد کا باپ طاقت ور ہوتا ہے، مگر میں محمد خضر ولد حیات علی ایسا مرد ہوں جو اپنی بیوی کے سامنے شیر اور آپا کے سامنا گیدڑ کا رول بہ خوبی نبھاتا ہے۔ میری کہانی پڑھتے ہوئے یقیناآپ کو مجھ پر بے تحاشا غصہ آ رہا ہو گا اور میری بیوی کے لیے آپ کے دل میں رحم کے لڈو پھوٹ رہے ہوں گے، حالاں کہ اگر انصاف کی عینک سے دیکھا جائے تو آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ بیگم سے زیادہ میری حالت قابلِ رحم ہے کیوں کہ میں بچپن سے لے کر اب تک آپا کے زیر عتاب ہی رہا ہوں۔ ایک سوچ یقینا آپ کو مسلسل بے چین کر رہی ہو گی کہ آپا تو اب بال بچوں والی ہیں اور اپنے گھر جا چکی ہوں گی، توپھر میں کیوں دکھڑے رو رہا ہوں تو پیارے قارئین! آپ کی اطلاع کے لیے عرض کرتا چلوں کہ ہماری آپا بیاہ کر کبھی رخصت ہی نہیں ہوئیں بلکہ وہ تو ہمارے دلہا بھیا کو رخصت کروا لائی تھیں۔ یہاں تک تو زندگی کی گاڑی ٹھیک ٹھاک دوڑ رہی تھی، مگر جونہی کچھ سالوں بعد اماں محترمہ کو ہمارے سر پر سہرا سجانے کا شوق طاری ہوا، تو زندگی کی چلتی ہوئی اس گاڑی کو ایک زوردار بریک لگا اور اس بریک کے لگتے ہی ہماری آپا کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔ ہمارے رشتے کی مہم شروع کیا ہوئی کہ آپا کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں آگیا۔ رنگ برنگے کھانوں کی شوقین آپا گھر گھر جا کر کھانے کھاتیں اور جب پیٹ اچھی طرح بھر جاتا، تو ایک لمبا سا ڈکار مارتے ہوئے کھانے میں نادیدہ قسم کے نقص نکال کر واپس آ جاتیں۔ لڑکی والے جو آپا کو رغبت سے کھانا کھاتا دیکھتے دل میں آس امید جگا لیتے، لیکن آپا کے نقص نکالنے پر ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا اور دل الگ کھٹا ہوتا اور یقینا دل ہی دل میں آپا کے خوب لتے لیے جاتے ہوں گے۔ اماں مرحومہ نے جب آپا کا یہ حال دیکھا، تو چپکے سے اپنے چھوٹے بھائی کے گھر میرا رشتہ پکا کر آئیں۔ اس بات کی خبر جونہی آپا کو ہوئی، انہوں نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا کیوں کہ انہیں بہ خوبی علم تھا کہ میں صائمہ کو پسند کرتا ہوں اور ان کا نظریہ تھا کہ صائمہ آتے ہی میرے کان بھرنا شروع کر دے گی اور یوں میں اماں سے جدائی کا مطالبہ کروں گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دن محلے والے بھی آپا کی زبان کے جواہر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ بالآخر اماں مرحومہ نے بھی آپا کو کسی نہ کسی طرح قابو کر ہی لیا۔ اب واللہ علم اماں نے آپا کو کیا کہا تھا کہ ایک دم سے پرسکون ہوگئیں۔ ابھی بات پکی کیے چھے ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اماں کو میرے بیاہ کی رٹ لگ گئی۔ آپا بھی نہ جانے کیسے اماں کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں۔ خیر جو بھی تھا، میرے سر پر سہرا سج گیا اور صائمہ منیر میری دلہن بن کر روشنی بکھیرنے آ گئی۔ چوں کہ وہ آپا کی مخالفت کے باوجود بیاہ کے اس گھر میں آئی تھیں اس لیے آپا کو صائمہ منیر کی خوشی ایک آنکھ نہ بھاتی اور جب کبھی بھی وہ صائمہ منیر کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھتیں، تو کوئی نہ کوئی زہریلا جملہ اس کے کانوں میں انڈیلنا اپنا اوّلین فرض سمجھتیں اور کڑوی گولی پلانے کے بعد ٹی وی پر چلنے والے پسندیدہ ڈرامے کی جانب متوجہ ہو جاتیں۔ یہ بھی ایک مزے دار بات ہے کہ صبح نو سے رات بارہ بجے تک مسلسل اسٹار پلس پر چلنے والے تمام ڈرامے ان کے پسندیدہ تھے۔ ادھر کبھی غلطی سے کیبل بند ہوئی نہیں کہ ادھر آپا کیبل والے کی شان میں ”شان دار قصیدہ” گوئی شروع کردیتیں۔ دُلہا بھائی کی پچاس ہزار ماہوار تنخواہ ہونے کے باوجود مہینے کی چوبیس یا پچیس تاریخ کو آپا کے پاس پیسے ختم ہو جاتے تھے۔ حالاں کہ گھر کے سارے خرچے اماں میری تنخواہ اور زمینوں سے آنے والی آمدن سے پورے کرتی تھیں۔ دراصل آپا کو کھانے پینے، دوسروں کو کھلانے پلانے اور بلاوجہ کی دعوتوں کا بہت شوق تھا جس کی بنا پر ان کے لیے پچاس ہزار بھی کم تھے۔ اماں بھی آپا کی اس عادت سے چشم پوشی اختیار کیے رکھتی تھیں کہ اُنہیںکچھ کہنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔اماں کی اسی چشم پوشی کی بدولت آپا کی یہ عادت خاصی پختہ ہو گئی کہ انہوں نے اماں کے دار فانی سے رخصت ہو نے کے بعد آہستہ آہستہ میری تنخواہ پر نظریں جمانا شروع کر دیں۔حالاں کہ میں خود بال بچوں والا ہوں، لیکن آپا کو اب یاد آیا کہ میں تو ان کا بڑا بھائی ہوں۔ ہمارا گھر صحیح معنوں میں جنگ کا میدان تب بنا جب میں نے اماں کے انتقال کے بعد پہلی تنخواہ اپنی بیگم صائمہ منیر کو پکڑائی۔آپا کا کہنا تھا کہ میری تنخواہ پر ان کا حق ہے اور میری بیگم صائمہ منیر کا نقطۂ نظر تھا کہ اب اماں کے گزر جانے کے بعد یہ اس کا حق بنتا ہے۔ آپ اسے میری شرافت کہہ لیں یا بزدلی کا نام دے لیں، لیکن سچ تو یہ تھا کہ میں دو خواتین کے درمیان چکی کے دو پاٹوں کی طرح پس رہا تھا۔ جب دونوں خواتین میں کوئی ہار ماننے کو تیار نہ ہوا، تو آپا نے سارے خاندان کو فون گھما کر اکٹھا کر لیا۔ سارے خاندان والوں کو بھی آپا پر ہی ترس آیا کہ ماں کے بعد اب اکلوتا بھائی بھی اس سے منہ موڑ رہا ہے، لیکن اگر انصاف کی بات کی جائے تو سب غلط تھا۔ چار و ناچار سب کے سامنے مجھے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور یوں خاصی منت سماجت کے بعد آپا اس بات پر بہ مشکل راضی ہوئیں کہ انہیں ماہوار بیس ہزار خرچ دیا جائے جب کہ اس وقت میری تنخواہ چالیس ہزار تھی۔ باقی کا بیس ہزار اور چار بچوں کا ساتھ میرے لیے انتہائی مشکل تھا۔ میری بیگم بھی مجھ سے ناراض تھیں کہ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا جب میں اپنی بزدلی ختم کر پائوں گا اور اپنے فیصلے آپا کے بہ جائے خود کروں گا جب کہ میں اس بات پہ شکر منا رہا تھا کہ چاہے آدھی تنخواہ ہاتھوں سے چلی گئی، لیکن کم از کم گھر میں سکون تو ہوا کرے گا۔ یوں بھی پوری تنخواہ ان کے ہاتھوں میں تھمانے سے بہتر تھا کہ آدھی تھما دی جائے۔ کاش میری آپا جیسی عورتیں جو مرد کی کمائی کو بلاوجہ فضول کاموں میں خرچ کرتی ہیں، ایک بار مرد کی جگہ کھڑے ہو کر تو دیکھیں کہ وہ کیسے محنت و مشقت سے پیسے کما کر لاتا اور آپ کو تھماتا ہے، لیکن جب آپ اس محنت کی کمائی کو ضروریاتِ زندگی کی بہ جائے آسائشاتِ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بلاوجہ خرچ کرنے لگتی ہیں، تو آہستہ آہستہ نئی نکور چمکتی دمکتی زندگی کی گاڑی کی باڈی کو زنگ لگنے لگتا ہے اور ہاتھ میں کباڑ کے سوا کچھ نہیں آتا۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی چادردیکھتے ہوئے ہی پائوں پھیلانے چاہئیں، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے تھوڑے پر گزارہ کرنا سیکھ لیا جائے ۔
خیر، وقت کا کام بیتنا ہے، تو یہ دبے پاؤں گزرتا چلا جاتا ہے۔ ہم نے بھی جیسے تیسے بیس ہزار میں گزارہ کرنا سیکھ لیا تھا اور اب جہاں میرے بچے جوان ہوئے، وہیں آپا کی بیٹیاں بھی جوان ہوگئیں۔ آپا کی بیٹیاں، آپا سے قدرے مختلف ہیں کیوں کہ ان کی پرورش میں میری بیگم صائمہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، لیکن آپا کا اکلوتا بیٹا اُنہی کا پرتو نکلا تھا۔ بچوں کے بڑے ہونے پر گھر میں کافی سکون رہنے لگا۔آپا بھی شاید میری بیگم کے ساتھ تھوڑا بہت سمجھوتا کر چکی تھیں، لیکن سیانے سچ ہی کہتے ہیں، طویل خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے کیوں کہ اصل بھونچال تو ہمارے گھر تب آیا جب آپا اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے میری لاڈلی بیٹی شائستہ کا رشتہ لے کر آئی۔ اُن کا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا تھا اور بالکل آپا کی کاربن کاپی تھا، اس لیے میں بہ خوبی جانتا تھا کہ یہ میری لاڈلی بیٹی کے لیے درست فیصلہ نہیں ہے، لیکن آپا کو انکار کرنے کی ہمت مجھ میں کب تھی؟
مجھے وہ دن بہ خوبی یاد ہے جب سارے گھر والے بڑے ہال میں جمع تھے۔ محفل پر سکتہ طاری تھا۔ آپا بھی بڑے رعب سے رشتہ مانگ رہی تھیں کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ میں انہیں کبھی بھی انکار نہیں کر پائوں گا۔ آپا کی بڑی بیٹی مریم نے کچھ کہنا چاہا کہ آپا نے اسے بھی جھڑک کر خاموش کروا دیا۔ میرے دائیں جانب بیٹھی میری بیگم صائمہ منیر بھی بڑی بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ اس کا سارا وجود اضطراب کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ کیوں کہ وہ بہ خوبی جانتی تھی کہ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ میں اس رشتے سے انکار کر سکوں اور یہ سچ ہی تھا۔ میں کبھی انکار کر نہیں پاتا اگر میری بیٹی میرے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی نہ ہوتی۔ جی ہاں اس دن میں آپا کو رشتے کے لیے ہاں کہنے ہی والا تھا کہ میری نظر اپنی لاڈلی بیٹی شائستہ کے چہرے پر پڑی جو ہال کے دروازے پر کھڑی آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔کیا نہیں تھا اس وقت اس کی آنکھوں میں؟ لاچاری، بے بسی، سوالات کا انبار، کانچ کی کرچیوں کی صدا، سمندری طوفان جو امڈنے کو بے تاب تھا، ٹوٹے خوابوں کی مسمار عمارت اور بھی بہت کچھ جس سے میں چاہتا، تو بھی نظریں نہیں چرا سکتا تھا۔
میں، خضر حیات، جو کبھی آپا کے سامنے نہ بول پایا تھا، اپنی بیٹی کی آنکھوں کے سمندر میں تیرتے سوالوں میں ڈوب گیا۔
آپا کی حیرت بھری نگاہیں مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں کیوں کہ وہ دن اور منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ پچپن سال تک جس لاوے کو انہوں نے دبائے رکھا تھا، وہ اس دن شعلہ بن کر جب دہکا، تو اس کی لپیٹ میں آپا کا وجود ہی جھلسا تھا۔
اس دن سے آپا نے خاموشی کی چادر اوڑھ کر ہماری زندگی پر حکومت کرنا چھوڑ دی۔”آپا” نامی خوف ہمارے سروں سے اتر چکا تھا۔ اس دن میں نے پہلی بار اپنی اور آپا کی بیٹیوں کو خوش اور آزاد دیکھا تھا۔
میں نے دیر سے ہی سہی، لیکن یہ ضرور جان لیا تھا کہ ظالم کا ظلم سہنا بھی گناہ ہے۔ اگر آپ ظلم کو روکنے کی ہمت نہیں رکھتے، تو ظلم سہنے سے آپ کے علاوہ کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، آپ کی ہی زندگی بدتر ہوتی چلی جاتی ہے اور دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ بیٹیوں کے باپ کو ہمیشہ مضبوط ہونا چاہیے ورنہ یہ کلیاں مرجھا جاتی ہیں اور اگر یہ کلیاں مرجھا جائیں، تو در و دیوار سے وحشت ٹپکنے لگتی ہے۔ اُداسی اپنے پر کھولے منڈیر پر ڈیرہ جما لیتی ہے، خوشیاں ان کلیوں کے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مسمار عمارتوں کے ملبے تلے دب کر سانسوں سے ناتا توڑ لیتی ہیں اور پھر آپ کے ہاتھ میں فقط پچھتاوے کی پوٹلی آتی ہے۔
آپ قارئین میں سے بھی اگر کوئی ایسی صورت حال سے دوچار ہے، تو خدار اسے روکیے تاکہ کوئی کلی مرجھا نہ پائے۔

ختم شد
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نوشتہ تقدیر — حاجرہ عمران خان

Read Next

ادھوری کہانیاں — کوثر ناز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!