جان ڈریک نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے مردم بیزار اور دل آزار لہجے میں کہا:
”دیکھو آنٹی! جو کچھ بھی کہنا ہے، جلدی سے کہہ دو، میرے پاس وقت بہت کم ہے۔”
اس کی معمر آنٹی نے ایک ان چاہا عجز محسوس کیا۔ اسے اس امر کا گمان تک نہیں تھا کہ اس کے حقیقی بھائی کا کروڑ پتی بیٹا، اس کا سگا بھتیجا اس سے ایسا روکھا پھیکا اور جی بجھا دینے والا سلوک کرے گا۔ یہ بے رخی، بیزاری اور سرد مہری معمر خاتون کے لیے غیر متوقع تھی۔ بھتیجے سے ملنے کے لیے بھی اسے آدھے گھنٹے انتظار کی کوفت برداشت کرنی پڑی تھی جو اس کے لیے بہت زیادہ تھی۔ اس کے نک چڑھے پی، اے کی واہی تباہی سننی پڑی تھی تاہم وہ ہمت کر کے کچھ کہنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کر رہی تھی کہ جان ڈریک نے ایک اور کچوکا لگایا:
”آنٹی! اگر تم کچھ پیسے مانگنے آئی ہو تو یہ بات مت کرنا۔”
”نہیں جان! نہیں۔ میں پیسے مانگنے نہیں آئی بلکہ ایک گزارش کے لیے آئی ہوں۔”
خاتون نے خائف لہجے میں کہا۔
”جان! دیکھو سام تمہارا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ اسے اپنے ہاںملازم رکھ لو۔ وہ بی کام اور ایل ایل بی کے امتحانوں میں اوّل آیا ہے۔ شریف ہے، دیانتدار ہے، قابل اعتبار ہے، شراب نہیں پیتا، جوا نہیں کھیلتا، اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھی بھی نہیں گھومتا اور تو اور وہ کلب تک نہیں جاتا۔ جان اسے اپنے بینک میں رکھ لو، وہ تمہارے بینک کے لیے ایک موزوں امیدوار ہے۔”
”لیکن بینک میں تو کوئی اسامی خالی نہیں ہے۔”
”ہے، خالی اسامیوں کے لیے اشتہار تواخبار میں بھی چھپا ہے، میں اس کا تراشا ساتھ لائی ہوں۔”
”اوہ! ہاں، یاد آیا کہ ایک اسامی تو پر کرنے کا اختیار مجھے بھی ہے۔ اچھا آنٹی! تم درخواست بھجوا دینا۔”
”جان! میں تو سام سے درخواست لکھوا کر ساتھ لائی ہوں۔”
معمر پھوپھی نے سام کی درخواست، جان ڈریک کے آگے رکھ دی اور معذرتیں کرتے ہوئے واپس جانے کے لیے کھڑی ہو گئی۔
اس کے جاتے ہی جان ڈریک نے درخواست پھاڑ کر پھینک دی۔
اس کے بعد وہ بڑبڑانے لگا:
”ان رشتے داروں نے تو جینا حرام کر دیا ہے۔ جب دیکھو، ملنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، وقت بے وقت چلے آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے کوئی خیرات خانہ کھولا ہوا ہے۔”
پھر اسے اپنے مختلف رشتے دار یاد آئے اور اپنے بچپن کا زمانہ یاد آیا۔ ان ایام رفتہ کا خیال آیا۔ جب وہ بہت چھوٹا تھا، تو اس کی یہی پھوپھی ایک تنومند، خوش دل اور بھرپور جوان عورت تھی اور اسے اپنی آنکھوں کا تارا اور دل کا سرور کہتی تھی۔ وہی اس کی دنیا کا بہترین کردار تھی۔ اس کی پھوپھی پہروں اسے اپنے پاس رکھتی، اسے ہاٹ چاکلیٹ بنا بنا کر کھلاتی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:
”میں نے اپنی پھوپھی کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا ہے۔ درخواست پھاڑ دینا، تو ہر گز درست نہیں ہے۔ اگر سیموئیل کو ملازمت مل جاتی ہے، تو آخر میرا کیا بگڑتا ہے۔”
وہ ایسی باتیں سوچتے سوچتے مضطرب ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے پی اے کو بلا کر ہدایت کی:
”مجھے آدھے گھنٹے تک ملنے کے لیے کوئی نہ آئے، سمجھے، کوئی بھی نہیں۔”
اس کے بعد اس نے دروازہ اندر سے بند کیا۔ پھاڑی ہوئی درخواست کے تمام پرزے جمع کیے، انہیں صحیح ترتیب دے کر جوڑا، اس نے سام کی لکھی ہوئی درخواست اپنے ہاتھ سے لکھی اور دوبارہ اپنے سکرٹری کو بلا کر وہ درخواست اسے دیتے ہوئے کہا:
”دیکھو، بینک میں خالی اسامی کے لیے جو درخواستیں آئی ہیں، یہ درخواست بھی ان کے ساتھ رکھ لو۔ یہ درخواست دہندہ میرا کزن ہے، اگر یہ انٹرویو وغیرہ میں کامیاب ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ کچھ نہیں، میں صرف اس کی درخواست دے رہا ہوں، کوئی سفارش قطعاً نہیں کر رہا، سمجھے۔”
کچھ دنوں بعد اس کی پھوپھی پھر آئی اور اس نے بڑے غمگین اور افسردہ لہجے میں کہا:
”جان! تم نے سیموئیل کو کیوں نہیں لیا؟ وہ تو انٹرویو میں اوّل آیا تھا۔ اس کے بہ جائے ایک بگڑے ہوئے رئیس زادے کو لے لیا جو پورے شہر میں بدنام ہے اور کئی تھانوںمیں اس کے خلاف سنگین جرائم کی رپورٹیں ہیں۔”
جان ڈریک نے پھر ایک بے لحاظ انداز میں کہا:
”آنٹی! اس وقت تو میں گورنر سے ملنے کے لیے جا رہا ہوں، واپس آکر خود تحقیق کروں گا۔”
پھوپھی کے جانے کے اس نے اپنے سیکرٹری کو بلایا اور پوچھا:
”کیا سام موزوں امیدوار نہیں تھا جو اسے نہیں لیا گیا؟”
”نہیں جناب! بات کچھ اور ہے، سام تو انٹرویو میں بھی اول آیا تھا لیکن!”
”یہ لیکن ویکن کیا ہے؟”
”جناب! آپ کے حکم اور بینک کے قواعد کے مطابق ہم نے اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر اپنے ماہر تحریر کو دی تھی۔ اس کی رپورٹ یہ تھی کہ ایسے خط اور تحریر والا، شرابی، کبابی، عیاش، بدکار، خائن، بددیانت، احسان فراموش اور بے ایمان ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد ہم اسے کیسے لے سکتے تھے۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});