گیہوں
دلشاد نسیم
دُور سے آتا بحری جہاز دیکھ کر ساحل پر کھڑے لوگ جوش میں آگئے۔ ایک بہت خوب صورت کہانی!
پرانے زمانے کی بات ہے افریقہ میں سمندر کنارے ایک بہت خوب صورت شہر آباد تھا۔ سمندری لہروں کے تھپیڑوں کو روکنے کے لیے یہاں ایک بہت بڑا، اونچا اور مضبوط پُشتہ بنایا گیا تھا۔
پیارے بچو! پُشتہ اُس بند کو کہتے ہیں جو ساحل پر سمندر کے پانی کو روکنے کے لیے مٹی اور پتھروں سے بنایا جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے بڑے بڑے تجارتی جہاز ساحل پر آکر رکتے ہیں۔ ان جہازوں پر مختلف ملکوں کا تجارتی سامان لدا ہوتا ہے۔ اسی تجارت کی وجہ سے وہ شہر بہت ترقی کرگیا۔
شہر کے لوگ زیادہ مال و دولت کی وجہ سے غرور کرنے لگے اور خاص طور پر ایک عورت اس کام میں بہت آگے تھی کیوں کہ اس کے بہت سے تجارتی جہاز دنیا کے ہر گوشے میں پہنچتے۔ یہ مغرور عورت رفتہ رفتہ ترقی کرکے اس علاقے کی ملکہ بن گئی۔ جب وہ گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر شہر کی گلیوں سے گزرتی تو لوگ گھروں کی چھتوں پر آجاتے، عورتیں حسرت بھری نگاہ سے اُسے دیکھتیں۔
ایک روز ملکہ نے اپنے سب سے بڑے جہاز کے کپتان کو بلایا اور کہا: ”فوراً بادبان چڑھائو، لنگر اٹھائو اور جہاز لے کر روانہ ہوجاؤ۔ جو چیز تمہیں سب سے اچھی، عجیب اور قیمتی نظر آئے وہ جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ میں اپنے شہر کے لوگوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جو واقعی لاجواب اور سب سے زیادہ قیمتی ہو۔”
کپتان فوراً ساحل پر پہنچا۔ اُس نے اپنے سب ملاحوں کو جمع کیا پھر جہاز کے بادبان کھول کر اُس کا لنگر اٹھایا اور روانہ ہوگیا۔ جہاز کچھ دیر بعد سمندر کے درمیان میں پہنچا تو کپتان نے بحری جہاز میں تمام کارکنوں کو اپنے پاس بلا لیا۔
”ہمیں کیا چیز لانی چاہیے اور کہاں چلنا چاہیے؟” کپتان نے ایک نظر سب پر ڈال کر پوچھا۔ جواب میں کسی نے کہا کہ عمدہ ریشم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کہا کہ ایسے زیورات خریدے جائیں جن کی بناوٹ اور ساخت بالکل نئی ہو۔ کسی نے اعلیٰ قسم کے نیلم، زمرد، لعل ویاقوت خریدنے کا مشورہ دیا لیکن اِس دوران ایک بوڑھا ملّاح چپ بیٹھا رہا۔ اپنی باری آنے پر وہ کہنے لگا: ”معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں پر کبھی برا وقت نہیں آیا، اس لیے تمہیں کسی چیز کی قدر و قیمت کا درست اندازہ نہیں ہے۔ جب تم لوگ بہت زیادہ بھوکے یا پیاسے ہوتے ہو تو کون سا ہیرا یا موتی کھا کر زندہ رہتے ہو؟ اگر غور کیا جائے تو ہماری زندگی میں گیہوں یعنی گندم سب سے اہم چیز ہے۔”
سب لوگ حیران رہ گئے کہ گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز بھلا کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن کپتان نے سوچا کہ بوڑھا ملّاح ٹھیک کہہ رہا ہے۔ چناں چہ جہاز کا رخ سرزمین مصر کی جانب کر دیا گیاجہاں گیہوں سب سے اچھا اور صحت بخش تھا۔ مصر پہنچ کر کپتان نے گیہوں کے مالکان سے ملاقات کی اور گندم کے بڑے بڑے ذخیرے خرید کر جہاز پر لاد لیے۔
دوسری طرف جہاز روانہ ہو جانے کے بعد اُس ترقی یافتہ افریقی شہر کو سمندری طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تمام کھیت، فصلیں اور بڑی تعداد میں گھر زیرِ آب آگئے۔ حالت یہاں تک آپہنچی کہ لوگ فاقوں پر مجبور ہوگئے۔ خود مغرور عورت کے گودام بھی غلے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاسے خالی ہونے لگے۔ پڑوسی ملکوں سے امداد کی درخواست بھی رد ہو چکی تھی۔ ایسے میں اِس مغرور حکمران عورت کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ پورے ملک میں سخت مایوسی پھیل چکی تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز بہت دُور سمندر کے سینے پر لوگوں کو ایک جہاز آتا دکھائی دیا۔ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ملکہ کا بھیجا ہوا جہاز ہی ہے۔ بچے، بوڑھے، سبھی اس سوچ میں تھے کہ نہ جانے جہاز پر کون سی قیمتی چیز ہو گی۔ اس قیمتی چیز کو دیکھنے کے لیے سب لوگ بے تاب اور منتظر تھے۔
جب جہاز لنگر انداز ہوا تو کپتان اپنی ملکہ کے پاس پہنچا جو جہاز کی خبر سن کر ساحل تک چلی آئی تھی۔ کپتان نے ملکہ سے کہا: ”مادام! میں ایک بہت ہی عمدہ اور قیمتی چیز لایا ہوں جو حقیقت میں زندگی کا سہارا ہے۔” یہ سن کر ملکہ بہت حیران ہوئی۔
”قیمتی چیز… وہ کیا بھلا؟” اُس نے جلدی سے پوچھا۔
”آپ اِس چیز سے واقف تو ہوں گی، اِسے کہتے ہیں گیہوں!” کپتان نے اپنی مٹھی کھول کر دکھائی جس میں گندم کے کچھ دانے تھے۔
”کک… کیا کہا، گیہوں؟” ملکہ پر حیرانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ارد گرد کھڑے لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ خوشی سے چلّا اٹھے اور نعرے لگانے لگے۔ ملکہ نے لوگوں کے یہ تاثرات دیکھے تو اُس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ بھی خوشی سے چِلّا اٹھی: ”گیہوں؟ واہ کمال کر دیا۔ واقعی اس وقت یہ سب سے قیمتی چیز ہے۔”
ملکہ نے کپتان کو شاباش دی پھر گیہوں کا ایک حصہ اپنے گودام میں رکھوایا۔ باقی گیہوں عوام میں تقسیم کروادی۔ یوں اُس بوڑھے ملاح کی دُور اندیشی سے نہ صرف ملکہ خوش ہوئی بلکہ شہر کے لوگ بھی اِس خزانے سے فائدہ اٹھانے لگے۔
٭…٭…٭