کوئی بتلاوؑ کہ ہم بتلائیں کیا — صائمہ اقبال

ہمارا خیال تھا کہ ہوائی جہاز کا سفر نہایت پرُ سکون ماحول ہوتا ہوگا۔ (لیکن یہ تب تک کی بات ہے جب تک کہ ہم نے خود جہاز میں سفر نہیں کیا تھا) بنی ٹھنی ائیر ہوسٹس اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ’’ٹِپ ٹِپ‘‘ کرتی پھر رہی ہوں گی۔ ادھر ہم نے بیل دی ادھر بوتل کے جن کی طرح وارد ہوگئی۔ سب کچھ ایسا ہی تھا جیسا ہم نے سوچا تھی، جب تک کھانے کی ٹرالی گھسیٹتی ائیرہوسٹس کو نہیں دیکھا تھا۔
ادھر جہاز فضا میں بُلند ہوا، ادھر ائیر ہوسٹس کھانے کی ٹرالی گھسیٹتے آپ کے سامنے۔ وہی ائیرہوسٹس جو خوب صورتی سے کیے میک اپ اور نفاست سے بنائے بالوں میں اپسرا لگ رہی تھی اب ایپرن باندھے، بالوں کو کس کے اوپر کئے ’’ماسی ماسی‘‘ سی لگنے لگی ہے۔ بلکہ ہمیں تو لاہور سے مرید کے یا شیخوپورہ جانے والی ’’تھکڑ‘‘ بسیں بھی شدت سے یاد آئیں۔ جن میں ’’منجن‘‘ ’’سُرمہ‘‘ یا ’’چورن‘‘ بیچنے والے بس کے چلتے ہی اپنی پراڈکٹ کی خصوصیات گنواتے نظر آتے ہیں۔ بھئی یہ سستا جہاز ہے اس کی ٹکٹ سستی ہے تو کھانا بیچ کر ہی کچھ کمائیں گے ناں۔
ہر سیٹ کے سامنے ٹرالی (ٹریکٹر والی نہیں) بلکہ اشیائے خوردو نوش اور ٹیکس فری کی اشیاء سے سجی کھڑی کچھ اس ادا سے آپ کی طرف دیکھتی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں ’’ہاں توں دس۔‘‘ کہتی تو نہیں لیکن لگتا یوں ہی ہے۔


ویسے تو کوئی کچھ لیتا نہیں، کیوں کہ سستی ٹکٹ لے کر سارے پیسے کھانے پینے میں تھوڑا ہی ضائع کرنے ہیں، ویسے بھی ٹیکس فری بھی نام کا ہی ہوتا ہے مارکیٹ میں چیزیں اس سے بھی سستی مل جاتی ہیں اور اگر کوئی لینے کا ارادہ کر ہی لے تو بعد میں قیمت سن کر لینے کے ارادے پر پچھتانا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک بھائی نے ایک بار ہمارے سامنے ائیرہوسٹس کے جوتوں پر کیچڑ کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کیا تھا کہ ہم اب ائیر ہوسٹس کے منہ کی بہ جائے اُس کے جوتوں پر نظر رکھتے ہیں۔
؎ لوٹ جاتی ہے نظر ’’اِدھر‘‘ اب کیا کیجئے؟
ابھی تھوڑا سا سفر ہی طے ہوا تھا کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی نہ کوئی پیچھے کی جانب گامزن دیکھا، سیٹوں کے درمیان ہاتھ رکھے بچتے بچاتے نہ جانے پیچھے ہے کیا اب مجھ جیسا بے چارہ شخص جو پہلی بار سفر پر گامزن ہے وہ بھلا پیچھے کی یاترا بارے کیا جانے۔ تجسس بہر حال ہمیں بہت ہوا۔ ناجانے کیا بھید، کیسا اسرار ہے کہ سب پیچھے بھاگے جارہے ہیں اور آتے ہوئے کیسے پرسکون دکھائی دیتے ہیں۔ واللہ بھید تو اب آشکار ہوا ہے۔
جہاز کے ٹائلٹ نے تو فرانسیسیوں کے ٹائلٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ فرانسیسی ٹوائلٹ میں کم از کم دروازہ بند کرکے کھڑے ہونے کی جگہ تو ہوتی ہے لیکن جہاز میں تو یہ سہولت بھی کموڈ کے اوپر چڑھنے کے بعد ہی میسر آتی ہے۔ جہاز تو جس نے بھی ایجاد کیا ہو سو کیا ہو، ہاں ٹوائلٹ اور وہ بھی جہاز کا یقینا، کسی فرانسیسی نے ہی ایجاد کیا ہوگا۔
کموڈ کی بھی کیا کہیے؟ اگر کوئی ہم جیسا ’’مہاتر ساتھ‘‘ کموڈ بند کیے بغیر ہی فلش کردے تو کیا ہو سوچ کر ہی ہمارے پسینے چھوٹ گئے۔
جہاز اڑتا تو بالکل ٹائم پر ہے لیکن پہنچ ٹائم سے پہلے ہی جاتا ہے اور پھر بڑے دھیمے خوب صورت انداز میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہم طے شدہ ٹائم سے دس منٹ پہلے پہنچ گئے۔ تالیاں! یہ میں نے، مجھ ناچیز نے نہیں سراہا بلکہ اعلان کرنے والے حضرت یا خاتون ایک ریکارڈنگ چلا دیتے ہیں جس میں زور زور سے اس خوشی میں تالیاں پیٹی جاتی ہیں کہ ہم وقت سے پہلے پہنچ گئے بات تو واقعی تالیاں بجانے ہی کی ہے۔ بھلا ہم سے زیادہ اس بات کو کون جان سکتا ہے؟ لیٹ ہونے پر کسی کو پیٹنے سے بہتر ہے بندہ جلدی پہنچ کر تالیاں پیٹ لے۔
اب کچھ ذکر اِن ’’سستے جہازوں‘‘ کے ائیرپورٹس کا بھی ہوجائے۔ یہ کچھ ایسی نامعلوم جگہ یا مقام پر واقع ہوتے ہیں کہ ’’پرواز‘‘ کرنے سے پہلے چار بندوں کی خدمات لینا پڑتی ہیں (شکر ہے کہ آپ کو ڈنڈی ڈولا کرکے نہیں چھوڑتے) بلکہ معلومات لینے کے لیے کہ ائیرپورٹ کس جگہ پر واقع ہے اس کا حدود اربعہ کیا ہے اگر پھر بھی بات نہ بنے تو ’’نیوی گیٹر‘‘ ہی کام آتا ہے اور جہاز کے لینڈ کرنے سے پہلے آپ کو کیسی کیسی مثالیں اور نشانات بتا کر اپنے ’’رشتہ داروں‘‘ کو پتا سمجھانا پڑتا ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے یا آپ۔ ایسے نشانات بتانے پڑتے ہیں جن سے خود آپ بھی آگاہ نہیں ہوتے اور لینے کے لیے آنے والے آپ کو ’’ریسیو‘‘ کرتے وقت آپ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے اس جگہ ہوائی اڈہ تعمیر کرنے میں آپ کا ہاتھ رہا ہو۔


اب کچھ اپنے وطن کے ہوائی سفر کا بھی احوال ہوجائے۔ کیا خوب صورتی سے دوپٹہ اوڑھے نازک اندام سے السلام علیکم کرتی ائیر ہوسٹس دیکھ کر تو مانو گھر ہی یاد آگیا اور دل باغ باغ ہوگیا۔ مسکراہٹ خود ہی ہونٹوں پر رینگ آئی۔ اپنے وطن کے کیا ہی کہنے۔
جوں ہی جہاز کے اندر قدم رکھا، دیگچے میں چمچ ہلاتی آنٹی پر بھی اسی وقت نظر پڑی۔ واقعی گھر گھر ہی ہوتا ہے۔ گھنٹی بجانے کا کچھ خاص ارادہ تو نہیں رکھتے تھے مگر مجبوراً بجانی پڑی، بے بی بیلٹ جو چاہئیے تھی بہت کوشش اور تلاش بسیار کے بعد بھی بیلٹ میسر نہیں آسکی تھی، سو آنٹی کو زحمت دینی پڑی۔
’’بے بی تو گود میں ہوتا ہے۔‘‘
ہمارے بیلٹ مانگنے پر کراراسا جواب دیا گیا تھا اور ہمیں ماننا ہی پڑا کہ بے بی واقعی گود میں ہوتا ہے لیکن اس کے لیے ایک چیز جسے دنیا بیلٹ کے نام سے جانتی ہے وہ بھی درکار ہوتی ہے۔
بہرحال کوئی آنٹی سے بحث کیسے کرسکتا تھا جو اپنی بات پر جمی اس خوب صورتی سے مسکرا رہی تھیں کہ دو تین ’’انکل‘‘ تو ویسے ہی ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار تھے۔
بہرحال نتیجہ کچھ یوں نکالا ہے ہم نے کہ سفر سفر ہی ہوتا ہے۔ چاہے اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک، سستے جہاز میں ہو یا مہنگے جہاز میں۔ چوں کہ ہم ذاتی طیارے کے سفر کے بارے ابھی کچھ جانتے نہیں ہیں اس لیے اپنی ناقص معلومات اور محدود تخیل کی بدولت اُدھر تک پرواز نہیں کرسکتے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

خالو — فیضان قادری

Read Next

فینسی ہیئر کٹنگ سیلون — غلام عباس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!