کفن میں پاکٹ ۔ افسانچہ

کفن میں پاکٹ

فاطمہ شیخ

”کیا صاحب؟ ایک جیکٹ کم قیمت میں خریدنے کے لیے آپ نے سارا دن ہمارا ٹانگ تڑوایا۔“ گل خان اپنے مخصوص پختون انداز میں بولا۔

”کچھ تو خوفِ خدا کرو گل خان! ہمیں صرف دو گھنٹے لگے ہیں۔“ ولی نے اس کی مبالغہ آرائی پر کانوں کو ہاتھ لگایا۔

”صاحب دو گھنٹے میں بھی ٹانگ بہت دکھ جاتا ہے۔“ گل خان نے منہ بسورا۔

”تمہیں ناصر بھائی کے ساتھ رہ رہ کر گاڑی کے مزے لگ گئے ہیں۔“ ولی نے رُک کر اپنے سامنے والی سڑک پر ایک بُری طرح سے جھلسی ہوئی دکان کا جائزہ لیتے ہوئے گل خان کو گھرکا۔

”ویسے صاحب بُرا نہ ماننا، لیکن ناصر صاحب آپ کی طرح کنجوس نہیں تھا۔ کیا ٹھاٹ تھا اس کا، شان سے ایک بڑی سی دکان میں گھسا اور اچھا سا چیز اٹھا کر اس کا پیسہ دیا اور ایسے ہی شان سے گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور ایک تم ہو…. جب تک ہمارا ٹانگ نہ دکھا دو کچھ خریدتا نہیں ہو او صاحب! ہمارا ایک بات غور سے سنو، کفن میں پاکٹ نہیں ہوتا…. یہ تم اتنی کنجوسی دکھا کر اتنا ڈھیر سارا پیسہ کدھر لے کر جائے گا؟“ گل خان نے تپ کر ولی کو غیرت دلانہ چاہی۔

”بالکل غلط گل خان! کفن میں پاکٹ ہوتا ہے۔“ وہ فلسفیانہ انداز میں بولا۔

ایک پوشیدہ پاکٹ…. جو دکھتا نہیں لیکن ہوتا ہے اور میں اپنی کنجوسی سے بچائے پیسے کو اپنے کفن کی اسی پاکٹ میں جمع کر کے رکھتا ہوں….“

”او صاب! تم کدھر جاتا ہے؟“ گل خان نے ولی کو اس جھلسی ہوئی دکان کی سمت بڑھتا دیکھ کر پوچھا جس کے باہر دکان کا بوڑھا مالک سر پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔

”اس مہنگی جیکٹ سے بچے ہوئے پیسے کو اپنے کفن کی پاکٹ میں رکھنے….“ وہ اب اس بوڑھے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے تسلی دیتا دوسرے ہاتھ سے اپنی پاکٹ سے پیسے نکال رہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

لاڈلا ۔ افسانچہ

Read Next

قلم کار کی شہزادی ۔ افسانچہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!