چھین لیا ہے پاکستان ۔ الف نگر

چھین لیا ہے پاکستان

محمد ضیاء اللہ محسن

وہ ہاتھوں میں درانتی پکڑے تیز قدموں سے کھیتوں کی جانب رواں دواں تھا۔ اس کا نحیف اور کمزور بدن تھکن سے چُور تھا لیکن اس بڑھاپے میں بھی اس کا جذبہ جوان تھا۔ اسے منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ابھی رات ہی کو یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گاؤں کے تمام مسلمان گھرانے صبح سحری کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں گے۔

یہ گاؤں آس پاس کے باقی دیہات سے قدرے خوش حال تھا۔ ہندوؤں کی آبادی یہاں زیادہ تھی جبکہ مسلمانوں کے جند ایک گھرانے تھے البتہ مسلمان معاشی طور پر زیادہ خوش حال تھے۔ لمبی چوڑی زمینیں، پالتو جانور اور معاش کے دیگر ذرائع پر مسلمان حاوی تھے مگر کبھی بھی انہوں نے ہندو مسلم تفریق پیدا نہ کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ گاؤں میں سبھی مل جل کر رہتے تھے۔

ملکی سطح پر سیاسی شورش کے باعث چند جذباتی ہندو نوجوانوں نے مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کردیا تھا۔ جیسے ہی قیام پاکستان کا اعلان ہوا اسی رات نمازِ تراویح سے فارغ ہوکر قطب دین نے گاؤں کے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کے بارے میں رائے طلب کی۔

متفقہ رائے میں یہ بات سامنے آئی کہ عید کے فوری بعد سبھی مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرجائیں گے۔ ابھی تمام لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہونے والے تھے کہ اچانک ہندو نوجوانوں کا ایک گروہ وہاں آگیا۔ ڈرانے دھمکانے کے بعد قریب تھا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کردیتے مگر بابا قطب دین نے آگے بڑھ کر بچ بچاؤ کرا دیا۔ اس صلح صفائی میں کچھ ہندو بزرگ بھی شامل تھے۔ امن اور شانتی کے ساتھ سب لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے مگر پھر بھی مسلمانوں کے لیے خطرہ بہرحال موجود تھا۔

چناں چہ بابا قطب دین نے رات کے اندھیرے میں بابا رحمت علی، بابا تاج دین اور دوسرے مسلمان بزرگوں کے گھر چکر لگا کر انہیں صبح سحری کے بعد ہی ہجرت پر راضی کرلیا۔

”دوستو! میرے خیال میں اس جگہ ہمارا دانہ پانی اتنا ہی تھا۔ اب مزید یہاں رہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کیوں نا ہم صبح سویرے ہی یہاں سے ہجرت کرجائیں۔” بابا قطب دین نے تشویش ناک صورتِ حال پر باقی بزرگ دوستوں کو الگ الگ جاکر قائل کرنے کی کوشش کی۔

آخر سبھی نے اس فیصلے کی تائید کی۔ اب رات کو سونے کے بجائے تمام مسلمان گھرانے اپنا ضروری اور قیمتی سازو سامان سمیٹ رہے تھے۔ سبھی کی آنکھیں نمناک تھیں۔ آخر برس ہا برس سے یہاں قیام پذیر مسلمان کیسے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے تھے مگر یہ کرنا پڑا۔

صبح سحری کے بعد مسلمانوں کا قافلہ تیار ہوچکا تھا۔ وہ منہ اندھیرے گاؤں سے نکلنا چاہتے تھے۔ اچانک بابا قطب دین کو کچھ یاد آیا۔

”اوہ! میں اپنے بیلوں کی جوڑی کو تو بھول ہی گیا۔ کل سے بے چارے کھیتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔” انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔

”قطب میاں! چھوڑئیے بیلوں کو… کہاں اتنی دور جائیں گے۔ بیل تو کہیں سے بھی مل جائیں گے۔ ہم چلتے ہیں اللہ کا نام لے کر۔” بابا رحمت علی نے قطب دین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

”ارے نہیں رحمت بھائی! مجھے بیلوں کا لالچ نہیں، بس ایک چبھن سی ہے کہ بے چارے کل شام کے بندھے ہوئے ہیں۔ اگر ایک دو دن مزید کسی کی نظر نہ پڑی تو بے زبان بھوکے مر جائیں گے اور سارا گناہ میرے سر پر ہوگا۔” قطب دین نے وضاحت کی۔

”ارے چھوڑیں قطب میاں! وہ بیل کوئی ہندو یا سکھ لے جائے گا۔ آپ کیوں فکر کررہے ہیں۔” بابا تاج دین نے کہا۔

”دیکھو بھائی! اچھا ہی ہے اگر کوئی ہندو یا سکھ انہیں کھول کرلے جائے مگر کیا کروں؟ میرا دل نہیں مانتا۔ بڑے چاؤ سے پالے تھے۔ اب مجبوری ہے تو ہم انہیں چھوڑ کر جارہے ہیں مگر… مگر مجھے خدشہ ہے کہ کسی کی نظر نہ پڑی تو وہ ان کا کیا حال ہوگا؟ ہم خود تو آزاد ہوکر جارہے ہیں مگر بے زبان جانوروں کو کیوں قید کر رکھا ہے؟ آپ سب لوگ ایسا کریں کہ اللہ کا نام لے کر قافلہ روانہ کریں میں درانتی لے کر کھیتوں میں جارہا ہوں۔ ابھی ان بیلوں کی رسیاں کاٹ کر انہیں آزاد کر دوں گا۔ پھر جلد آپ لوگوں کے ساتھ قافلے میں شامل ہوجاؤں گا۔” بابا قطب دین نے تفصیل بتائی۔

”اور اگر راستے میں کسی بلوائی یا شدت پسند گروہ سے ٹاکرا ہوگیا تو؟” اللہ بخش نے پوچھا۔

”تو کیا…؟ اللہ کرم کرے گا۔ بچ گئے تو غازی، اگر موت وہیں پر لکھی ہوئی تو شہادت!… ویسے بھی اس بڑھاپے میں اور کتنا جینا ہے؟ مجھے جانے دیں، کوشش کروں گا کہ جلد قافلے کے ساتھ مل جاؤں۔” بابا قطب نے کہا اور ہاتھ میں درانتی لے کر کھیتوں کی طرف چل پڑا۔ ادھر قافلے نے تیاری کی اور اللہ کا نام لے کر پاکستان کی راہ لی۔

٭…٭…٭

”چل بھئی اللہ کے حوالے… اب تُو آزاد ہے۔” بابا قطب نے کھیتوں میں پہنچ کر ایک بیل کی رسی درانتی سے کاٹتے ہوئے اسے تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد اس نے دوسرے بیل کی رسی بھی کاٹی اور انہیں نمناک آنکھوں آزاد کردیا۔ بھوکے پیاسے بیل قریبی دریا کے کنارے کی طرف بھاگ نکلے۔ پیاس کسی شدت سے ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔

ہاتھ میں درانتی لیے بابا قطب بھی دریا کی طرف ہولیا۔ اُسے تقریباً تین کلو میٹر دور لکڑی سے بنے پل کے ذریعے دریا کے پار جانا تھا۔ تاکہ جالندھر کی اس سرزمین کو خیر باد کہہ کر اپنے پیارے وطن پاکستان میں قدم رکھ سکے۔

ابھی قطب بابا چار قدم ہی چلا ہوگا کہ عقب سے نعروں اور شور کی آواز سے وہ چونک اٹھا۔

”اوہ! بلوائی…؟ شدت پسند…؟” بابا قطب نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر یہ خیال جھٹک کر آگے روانہ ہوگیا۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اس گاؤں کا اہم فرد ہونے کی وجہ سے گاؤں کے شر پسند نوجوانوں سے محفوظ رہے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔

بلوائیاں کے ایک جتھے نے اُسے گھیرے میں لے لیا تھا۔ سبھی کے ہاتھ میں تلواریں، کریانیں اور نیزے تھے۔ ان میں بہت سے چہرے بابا قطب کے جانے پہچانے تھے۔

شدت پسندوں کو امن کا پیغام دینے کے لیے بابا نے ہاتھ میں پکڑ درانتی پھینک دی۔

”میرے بچو! بات سنو ذرا…”

لیکن جواب میں کئی قہقہے بلند ہوئے۔

”پکڑ لو اُسے… جائے نہ پائے یہ بڈھا کھوسٹ مسلا… ہاہاہا…”

ایک زہریلی آواز بابا قطب کے کانوں سے ٹکرائی اس کے ساتھ ہی خون کے پیاسے کئی بھیڑیے نما انسان اس بوڑھے مسلمان پر پل پڑے۔

بابا قطب نے حملہ آوروں کے تیور دیکھ کر دوبارہ ہاتھ میں درانتی پکڑلی۔ اپنے اوپر کیا گیا وہ ہر وار درانتی پر لینے کی کوشش کرتا، اتنے میں کرپان کا ایک وار اس کے بائیں کندھے پر لگا۔ خون کا ایک فوارہ ابل پڑا۔ درد کی شدت سے بابا قطب دوہرا ہوا جارہا تھا۔

اسی اتنا سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ دونوں بیل جو دریا سے پانی پینے گئے تھے اپنے مالک کو مشکل میں دیکھ کر انہوں نے بلوائیوں پر حملہ کردیا۔ دو چار بلوائیوں کو اپنی ٹکر مار کر پاؤں سے کچل کر انہیں خوب سبق سکھایا۔ مگر ظالم دشمنوں نے بابا قطب دین سے پہلے تلواروں کے وار سے ان دونوں بیلوں کا کام تمام کردیا۔

آہ! وہ کیا ہی منظر تھا جب دو بے زبان جانور اپنے مالک کی محبت میں پاکستان کے نام پر قربان ہوئے۔

ادھر بابا قطب کو حملہ آوروں سے چنگل سے نکلنے کا موقع مل گیا۔ بھاگتے ہوئے اس نے دریا میں چھلانگ لگادی۔ اس کا بدن جگہ جگہ زخموں سے چُور تھا۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ دریا کی گہرائی بہت زیادہ تھی۔ یہاں بھی بچ نکلنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ پانی بابا قطب کے زخموں کے اندر داخل ہورہا تھا۔

ایک نظر بھر کر بابا قطب نے دریا کے کنارے کھڑے پلوائیوں کو دیکھا جو قہقہے لگا رہے تھے۔ اسی دوران گاؤں کے ہندو لوہار کا بیٹا نردش تیواڑی بابا قطب کی طرف دیکھ کر چلّایا۔

”اے قطبے… اے بڈھے… تیری زمینیں گئیں۔ گھر بار گیا… مال ڈنگر لٹ گیا… چنچل باڑی اور باقی سامان بھی نہ رہا… ایک جان تھی… وہ بھی تو نے گنوا دی: ارے یہ بتاؤ کہ تم لوگوں کو کیا ملا اس کھیل میں… ہا ہا ہا…

بابا قطب تکلیف کی شدت سے بے حال پانی کی موجوں سے لڑ رہا تھا۔ اس نے تیواڑی کی طرف دیکھ کر ایک دھیمی مسکراہٹ اچھالی اور پوری قوت جمع کرکے ایک جملہ بولا:

”چھین لیا نا پاکستان؟… ہا ہا… چھین لیا ہے پاکستان” مسکراتے ہوئے بابا قطب نے یہ جملہ ادا کیا اور اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیئے۔ اس کے ساتھ ہی پانی کی ایک بڑی لہر نے قطب بابا کو اپنی لپیٹ میں لیا پھر کچھ دیر بعد پانی کی سطح پر ایک خونی … ہی باقی بچی۔ بابا قطب اپنے رب کے حضور پہنچ چکا تھا۔

بات ختم کرتے ہی ہماری دادی جان پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔

”جانتے ہو بچو! وہ 85 سالہ بابا قطب دین میرے ابا جان تھے۔ ان کی شہادت کے وقت میں مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے پہلے سے منٹگمری میں اپنے شوہر یعنی تمہارے دادا کے ساتھ موجود تھی۔ ہم سبھی رشتہ داروں اور باقی مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ساتھ اپنے ابا جان کا انتظار ہی کرتے رہے مگر وہ نہیں آئے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

ثمرہ کا کمرا ۔ الف نگر

Read Next

دِیا جلائے رکھنا ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!