ہمارے دورِ طفولیت کی جم غفیر یادوں میں سر فہرست اپنی اماں کی ذاتی رائے اور صاف گوئی کی وہ دو دھاری تلوار ہے، جس کا وار وہ عام و خاص کی تمیز کیے یا کسی کا بھی ادھار رکھے بغیر استعمال کرنے میں ملکہ رکھتی تھیں۔ اماں کی اس دمکتی تلوار کو کبھی میان میں بھی دو گھڑی سکون کا سانس لیتا دیکھنے کی حسرت لیے ہی ہم میکے سے سدھارے ۔
مثال کے طور پر اسی دور نا اہلی میں جب ہماری لنگوٹیا یاروں نے گردنیں اکڑا اکڑا کر ہمیں اطلاع فراہم کی کہ بہ قول ان کی نانیوں، دادیوں اور دیگر کہانی سنانے والی ہستیوں کے ، چاند پر پریوں کی رانیوں اور کوہ قاف کی ملکاؤں کا بسیرا ہے تو ہم نے سر پٹ دوڑ لگائی اور بلا توقف یہ سنسنی خیز خبر بہ خاطرِ تصدیق اماں کے گوش گزار کر دی۔
اماں کا فوری ردِعمل، مع کڑے تیوروں ، ہمارا سرسے پیر تک کا تنقیدی جائزہ تھا گویا خبر سے زیادہ ہماری موجودہ صحت جانچ رہی ہوں۔ اماں ہماری صحت اور صحبت دونوںپر عقابی نظر رکھتی تھیں کہ کوئی بے ہودہ گوئی یا بھونڈی اول فول ہمارے چشم و سماعت سے نہ گزرے اور ہمارا معصوم و بے شر اخلاق ہر نوعیت کی غیر مہذب و غیر متمدن اخلاقیات سے محفوظ رہے۔ اماں کی اس جابرانہ جانچ پڑتال کا گلہ عالم نوجوانی میں یہ دیکھ کر جاتا رہا کہ ابا میاں بھی کچھ ایسی ہی نوعیت کی تفتیش کا شکار رہتے تھے۔
ہماری صحبت کے اگلے پچھواڑے چھانٹنے کے بعد اماں نے اپنے نادر اصول پسندانہ انداز میں چاند کو پریوں کا دیس ہونے کی سنسنی خیز اطلاع کو تہس نہس کیا پھر ہمیں اپنے عاقلانہ ٹھوس رویے میں سمجھایا کہ چاند درحقیقت اس قدر واہیات جگہ ہے کہ وہاں پریاں اور کوہ قاف کی ملکائیں تو خاک، ضعیف العقل بھوت پریت بھی گزارا نہیں کر سکتے ۔ گھریلو امورو خانہ داری پر اماں سے ہمارے اختلافات ایک طرف لیکن ان کی کسی بھی رائے سے انحراف ہماری گھٹی میں ہی شامل تھا۔
خواندگی کی معقول منازل طے کرنے کے بعد سائنس نے بھی یہ حقیقت ہم پر آشکار کر دی کہ چاند واقعی ایک نکما سیاّرہ ہے، جہاں چڑیلوں اور ڈھڈووں کا بھی گزارا محال ہے۔
لیکن ہمارے اس سال خوردہ پختہ عقیدے میں اب ترامیم واقع ہو چکی ہیں۔ اب ہم حلفیہ بیان دے سکتے ہیں کہ اگر آدم زادوں کی کوئی نسل چاند پر پر مسرت، کامران و شادماں زندگی گزارسکتی ہے تو وہ ہمارے سرکش و ڈھیٹ ہم وطن ہیں ۔ اس اچھوتے دعوے کی عمل پذیرائی اور اس کی متوقع کامرانی کے کئی قوی و لازم امکانات ہیں۔
سب سے اوّل اور روز روشن کی طرح عیاں وجہ تو یہ ہے کہ حکومت وقت کڑوڑوں نٹ کھٹ شہریوں سے اور شہری اپنی متلون مزاج حکومت سے دائمی طور پر بے زار رہتے ہیں، لہٰذا حکومت خود ان تمام ریں ریں کرتے شہریوں کو فی الفور اپنے ذاتی پلے سے خرچے پر چاند پر روانہ کر دے گی۔ چاند ایک لاجواب انتخاب اس لیے بھی ہے کیوں کہ عالم گیر سیاسی حالات اور پاکستانیوں کی دنیا بھر میں ’’نکو‘‘ ساکھ کے پیشِ نظر یہی وہ واحد مقام ہے جہاں سے ان کی جلاوطنی یا دیس نکالا کے امکانات قلیل ترین ہیں۔
چاند پر پانی ، بجلی، کھانا، کھیت کھلیان، درخت، ڈاکٹر، امراض کا علاج، اچھے اسکول، کالج، غرض ہر وہ چیز ناپید ہے جس کی ضرورت ایک خوش حال ، کامیاب ، اور صحت مند زندگی کے لیے ناگزیر ہے ۔ چوں کہ ہمارے عزیز ہم وطن ان تمام ضروریات کے بغیر بھی زندہ رہنے کے بہ خوشی عادی ہیں ، لہٰذا انہیں چاند پر معمولی سی بھی نوعیت کی دشواری پیش آنے کے امکانات صفر ہیں۔ حقیقت انہیں اپنے ہی آنگن میں واپس آ جانے کا انوکھا اور مانوس سا احساس گھیر لے گا ۔
چاند پر البتہ کنوارے مرد حضرات کی تمنا کو مہیب ٹھیس پہنچے گی، جو یہاں پریوں اورشہزادیوں کی آس لگائے پہنچیں گے اور سخت مایوسی کا شکار ہوں گے۔ اب ہر کسی کی اماں ہماری اماں کی طرح صاف گو تو ہوتیں نہیں ۔
چاند کے داخلی پھاٹکوں پر شادی شدہ حضرات کا ازدحام بھی قابل نظارہ ہوگا کیوں کہ ان کی موت سے پہلے کی آرزوؤں میں سرفہرست بیویوں سے چھٹکارا ہوتا ہے۔لیکن یہ ان کی نری خام خیالی ثابت ہو گی کیوں کہ چاند پر پہنچنے والا ایک اور جاذب توجہ گروہ ان حضرات کی پیچ و تاب کھاتی منکوحات کا ہوگا ۔ وہ اس لیے کہ ما قبلِ ایجاب و قبول ہی ان کے والدین انہیں باورکروا چکے ہوتے ہیں کہ میکے کے دروازے اب ان پر تاحیات مقفل ہیں اور سسرال سے اب ان کا جنازہ ہی اُٹھنا چاہیے ۔ لہٰذا اپنے بھگوڑے شوہر حضرات کے پیچھے وہ چاند چھوڑ، مریخ پر بھی جانے کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتی ہیں ۔
ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ لا تعداد میکے والے اضافی حفاظتی تدابیر کے طور پر اس یاد دہانی کا اندراج نکاح نامے کی دستاویز کے اندر بھی کروا دیتے ہیں تاکہ دونوں فریقین کے باقاعدہ اس قانونی دستاویز پر دستخط حاصل کر لیے جائیں اور آنے والے وقتوں میں فرماں روا اور حزب ِاختلاف ، دونوں گروہ اپنے اپنے مورچوں پر جم کر بیٹھے رہیں اور ہر دو دو دن پر میکے والوں کی جان عذاب کرتے نہ پائے جائیں ۔ لہٰذا یہ مہم جو خواتین بھی سر دھڑ کی بازی لگا کراپنے سر کے تاجوں کو پاتال سے بھی ڈھونڈھ نکالنے پر مصر ہوتی ہیں ۔
ہمارے ذاتی قیاس میں سسرالیوں کی قابلِ احترام سماجی ساکھ کو TVکے ڈراموں نے ہولناک صدمہ پہنچایا ہے ورنہ مکاری میں میکے والے بھی اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ اسی بات سے اندازہ لگائیے کہ نکاح ناموں میں مندرجہ بالا آئین کا اندراج اس قدر خفیہ ہوتا ہے کہ لڑکے والوں کو اس کا علم ساس بہو کی پہلی دھکم پیل پر ہی ہوتا ہے اور اس وقت تو معاملہ ’’اب روت کیا ہوت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت‘‘ ہو چکا ہوتا ہے ۔ اپنی متوقعہ شادیوں کی شادمانی میں بدحال ہوتے لڑکوں اور ان کے پر جوش اہل خانہ سے گزارش ہے کہ نکاح ناموں پر دستخط ثبت کرنے سے قبل اس کا باریک بینی سے مطالعہ کر لیں تاکہ میکے والوں کی لچھے دار خفیہ کارستانیوں کا بھانڈا بروقت پھوٹ جائے ۔
چاند پر ہماری نوجوان پود بھی سیلابی ریلے کے مانند اُمڈی آئے گی کیوں کہ اس عمر میں دور کا ہر ڈھول سہانا ہوتا ہے چاہے وہ چاند جیسی بھیانک اور اجاڑ جگہ پر ہی کیوں نہ پٹ رہا ہو۔ ان شاداں و فرحاں سامعین کو ڈھول پھٹا ہوا ملنے کی اتنی آزردگی نہیں ہوگی جتنی wifi نہ ہونے کی ہوگی ۔ حکومت وقت سے گزارش ہے کہ چاند پر وائی فائی کا فی الفور انتظام کر دیا جائے کیوں کہ یہ وہ گیدڑ سنگھی ہے جس کی بدولت ہمارے ہونہار جوان ، جن کے آسرے پر ملک کا مستقبل ہے ، راتیں آنکھوں میں تمام کرسکتے ہیں اور کٹھن سے کٹھن مرحلہ ماتھے پر بل لائے بنا سر کر سکتے ہیں ۔ بہر صورتِ دیگر وائی فائی کے بغیر یہ بے نتھے بیل ہو جاتے ہیں اور ہوش و حواس سے قطعی بے گانہ ، ہر رخ اور سمت سے بے پروا ، در و دیوار اور ہر نسل کے جان داروں سے ٹکراتے پھرتے ہیں ۔
جس طرح شادی شدہ افراد کے پیچھے ان کی بیویاں آئیں گی ، اسی طرح ان فاضل نوجوانوں کے پیچھے وہ آئیں گی جنہیں ان کی جستجو جو اپنی عمر کے سولہویں سال سے ہی پڑ جاتی ہے ،یعنی شادی کی امیدوار دوشیزائیں ۔چوں کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں لائق فائق کنواروں کا مکمل کال پڑ چکا ہے لہٰذا مناسب رشتوں کی ڈھونڈ ڈھانڈ میں ہماری چاق و چوبند دوشیزائیں چاند پر بھی جانے سے گریز نہیں کریں گی ۔
ہمارے بزرگ بھی چاند پر آؤ دیکھا نہ تاؤ پہنچیں گے کیوں کہ شادی شدہ بیٹوں کی ماں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ ہر اس جگہ موجود نہ ہوں جہاں پر بہو موجود ہو ۔کنوارے لڑکوں کی ماں کو یہ فکر گھن کی طرح چاٹ رہی ہوتی ہے کہ کہیں ان کے ہونہار سپوت کسی چنڈال چڑیل کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ ابا لوگوں کو امائیں ’’جہاں ہم وہاں تم‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ساتھ ہی گھسیٹے لیے آئیں گی ۔ وجوہات کی سر فہرست باہم اتفاق اور محبت نہیں، بلکہ شوہروں پر چوکی داری میں سہولت ہوتی ہے۔ اب کون چاند پر بیٹھ کر زمین پر موجود خاوند پر نظر رکھے۔
اپنے والدین کے ہمراہ بچے تو لازم و ملزوم بندھے آئیں گے اور بڑے خوش و خرم آئیں گے کیوں کہ انہیں چاند پر کسی بھی نوعیت کے تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور زمانہ آئندہ میں بھی ان کے قائم نہ ہونے کی بھنک زمین پر ہی پڑ چکی ہو گی۔ اس قسم کی خبریں پاجی و ہونہار پاکستانی اطفال سو میل سے بھی سونگھ جانے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ پاکستانی آبادی کا یہ کاہل ترین اور سست الوجود گروہ اپنی کتابیں ایدھی سینٹروں میں ہدیہ کر کے اپنے بستوں میں کرکٹ کی گیندیں اور بغلوں میں بلے گھسیڑے شادمانی کے بینڈ بجاتے چاند پر پہنچیں گے ۔
تجویز تو ہم نے پیش کر دی ہے اور شاید حکومت وقت اس تجویز سے استفادے کا سوچ بھی لے۔ اعلان کے لیے ٹی وی پر چلتے tickerپر مستقل نظر رکھیے۔ایسا نہ ہو آپ کی فلائٹ مس ہو جائے۔
٭…٭…٭