ٹیپو اور سنہری پری ۔ الف نگر

ٹیپو اور سنہری پری

دلشاد نسیم

گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں۔ ٹیپو کی امی بہت پریشان تھیں کیوں کہ ٹیپو کے سونے اور جاگنے کا وقت خراب ہو چکا تھا۔ وہ رات دیر تک جاگتا رہتا۔ کبھی کارٹون دیکھتا اور کبھی دادی سے کہانی سنتا اور صبح دیر تک سویا رہتا۔

امی نے دادی سے ٹیپو کی شکایت کی۔ ”ماں جی! آپ ٹیپو کو سمجھائیں ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی۔ اتنی دیر سے سوتا ہے صبح کیسے جاگا کرے گا۔ اسکول کھلنے والے ہیں۔”

دادی نے تسلی دی۔ ”بیٹی کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک آدھ دن کی پریشانی ہو گی پھر ٹھیک ہو جائے گا۔”

لیکن امی کی پریشانی ختم نہیں ہوئی۔ اسکول کھلنے سے ایک روز پہلے دادی شام ہی سے ٹیپو کو جلدی سونے کی تاکید کر رہی تھیں۔ ٹیپو کیا کرتا؟ اُسے تو نیند آہی نہیں رہی تھی۔ کروٹیں بدل بدل کر اس کی کمر دُکھنے لگ گئی۔

دادی جان نے پیار سے پوچھا: ”تم ابھی تک سوئے نہیں؟”

ٹیپو لاچاری سے بولا۔ ”نیند نہیں آرہی دادی جان!”

دادی اٹھ کر بیٹھ گئیں جب کہ ٹیپو پریشانی سے سرکھجانے لگا۔

”امی بہت خفا ہوں گی دادی! مگر مجھے نیند نہیں آرہی کیا کروں؟ صبح کیسے آنکھ کھلے گی۔” دادی نے ٹیپو کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔

”اچھا میں تمہیں ایک بہت مزے کی کہانی سناتی ہوں۔”

”امی کو پتہ چل گیا تو؟” ٹیپو نے کہا۔

دادی مسکرائیں: ”تمہاری امی بہت اچھی ہیں کچھ نہیں کہیں گی۔”

ٹیپو رونی آواز میں بولا: ”آپ کو تو کچھ نہیں کہیں گی مگر مجھے تو ڈانٹیں گی نا۔”

”اگر تم ان سے ڈرتے ہو تو ان کی بات مانو۔” دادی نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا تو ٹیپو چپ ہو گیا اور پھر بولا: ”آپ کہانی تو سنائیں۔”

دادی نے کہانی شروع کی:

”سلمان ایک پیارا بچہ تھا۔ ایک صبح وہ اسکول جانے کے لیے اٹھا تو اُسے تکیے کے نیچے چاکلیٹس ملیں۔ سلمان حیران بھی تھا اور خوش بھی۔ وہ بھاگا بھاگا گیا امی کے پاس گیا اور کہنے لگا: ”امی! کیا یہ چاکلیٹس آپ نے رکھی ہیں؟”

”نہیں میں نے تو نہیں رکھیں۔ سنہری پری نے رکھ دی ہوں گی۔” امی نے کہا۔

”سنہری پری کون ہے؟” سلمان نے پوچھا۔

”جو بچے اپنی امی کو تنگ نہیں کرتے اور صبح جلدی اٹھ کر اسکول جاتے ہیں تو ایک سنہری پری آتی ہے اور ان کے تکیے کے نیچے تحفہ رکھ جاتی ہے۔” امی نے کہا۔

”دادی! مجھے سنہری پری سے ملنا ہے۔” کہانی سُنتے ہوئے ٹیپو سنجیدہ ہو گیا۔ 

”اس کے لیے تو آپ کو سلمان جیسا بننا پڑے گا!”

”لیکن پھر سنہری پری کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں سلمان جیسا بن گیا ہوں۔” اس نے پریشانی سے پوچھا۔

”وہ پری ہے نا! اس لیے اس کو پتا ہے کہ کون جلدی سوتا اورجلدی اٹھتا ہے، کون سا بچہ وقت پر ہوم ورک کرتا ہے۔” ٹیپو ساری باتیں بہت دھیان سے سن رہا تھا۔ اپنے ذہن پہ زور دیتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی۔

اگلے دن سے ٹیپو نے دیر سے سونے کی اپنی عادت بدلی اور وقت پر سونا شروع کر دیا۔ اب وہ قرآن پاک دھیان سے پڑھتا اور ہوم ورک بھی وقت پر مکمل کرلیتا۔ آج تو اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی، کیوں کہ اس کا رزلٹ آیا تھا جس میں ٹیپو کی اول پوزیشن تھی۔ اس بات پر ابّو نے اسے اس کے پسندیدہ کھلونے دلائے اور امی نے اس کی پسند کا کھانا بنایا۔

دادی نے البتہ صرف گلے سے لگا کر ڈھیر سارا پیارا کیا۔ رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے ٹیپو نے جب اپنے تکیے کے نیچے کلرنگ بکس اور بہت ساری کلر پنسلز دیکھیں تو وہ بھاگا بھاگا دادی کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ آج سنہری پری نے اس کو کلرنگ بکس اور پنسلز دی ہیں۔ دادی بھی بہت خوش ہوئیں اور دل ہی دل میں مسکرا دیں کیوں کہ سوائے دادی کے اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ ٹیپو کو کلرنگ بکس اور کلرپنسلز کتنی اچھی لگتی ہیں۔

Loading

Read Previous

سونے کی ڈَلی ۔ الف نگر

Read Next

جھوک عشق – ایم رضوان ملغانی – داستانِ محبت 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!