ناک — محمد نوید اکرم

ناک تین اقسام کی ہوتی ہیں۔ ایک ناک وہ ہے جو ہمارے چہروں پر پائی جاتی ہے۔ یہ سونگھنے کا کام کرتی ہے اور اس کے علاوہ ان لوگوں کی بینائی لوٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، جن کی نظر کمزور ہوچکی ہوتی ہے، کیوں کہ اگر ناک نہ ہو تو عینک لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ناک کی دوسری قسم وہ ہے، جو پہلی قسم کی ناک سے خارج ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کو خارج کرنے کے لیے زور لگانا پڑتا ہے جب کہ بعض اوقات یہ ازخود ناک سے باہر تشریف لے آتی ہے، اس عمل کو ناک بہنا کہتے ہیں۔ تیسری قسم کی ناک وہ ہے جو بات بات پر کٹ جاتی ہے یا جس کا بات بات پر کٹنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہمارا آج کا موضوع یہی تیسری قسم کی ناک ہے اور اس پر ہم تفصیلی گفت گو کریں گے۔
ناک کٹنے کی ایک بڑی وجہ لوگوں تک آپ کے ذاتی معاملات کا نہ پہنچنا ہے۔ مثال کے طور پر والدین کا اپنی بیٹی کو تحائف دینا ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہ چاہیں تو دیں، چاہیں تو نہ دیں، چاہیں تو زیادہ دیں، چاہیں تو کم دیں۔ اصولی طور پر اس سے دوسرے لوگوں کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن شادی کے موقع پر اگر کوئی ماں چپکے سے اپنی بیٹی کو زیور اور کپڑے وغیرہ دے دے اور خاندان والوں کو اس کی خبر نہ ملے تو ناک کٹنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر خاندان والوں کو یہ پتا چل جائے کہ اِس زیور کا وزن اُس زیور کے وزن سے کم ہے، جو موصوفہ کی دیورانی، جیٹھانی، بہن یا بھابھی وغیرہ نے اپنی بیٹی کو دیا تھا، یا جہیز کا دیگر سامان اس سامان سے کم ہے جو دوسرے لوگ اپنی بیٹیوں کو دیتے ہیں تو اس سے بھی ناک کو شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ چناں چہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں، جو شادی پر اپنی بیٹی کو ڈھیروں زیور پہنا دیتے ہیں اور جب سارے لوگوں کو اس کے وزن اور قدروقیمت کا پتا چل جاتا ہے تو پھر چپکے سے وہ زیور ان صاحب کو واپس کردیا جاتا ہے، جن سے وہ کرائے پر حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ تاہم میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ اس قسم کا کام بالکل نہ کیجئے گا کیوں کہ یہ کافی پرُ خطر کام ہے اور اس میں لینے کے دینے بھی پڑسکتے ہیں۔
لڑکی والوں کی طرح لڑکے والوں کی ناک کا انحصار بھی تقریباً انہی چیزوں پر ہوتا ہے، جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شوہر اپنی ہونے والی بیوی یا ساس سسر ہونے والی بہو کے لیے زیور، کپڑوں اور دیگر سامان کا بندوبست کریں تو اردگرد کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ زیور کتنے تولے کا ہے، کپڑے کتنے ہیں، سادہ کپڑے کتنے ہیں اور فینسی کپڑے کتنے ہیں، عام دکان سے خریدے گئے ہیں یا برانڈ کے ہیں، سستے برانڈ کے ہیں یا مہنگے برانڈ کے ہیں، وغیرہ وغیرہ اور اوپر سے ستم یہ ہے کہ صرف معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہاں بھی بالکل وہی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ اگر ان چیزوں کی تعداد اور قیمت دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کم نکل آئے تو پھر بیچاری ناک کا مقدر کٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ناک کٹنے کی وجوہات میں سے ایک اور وجہ شہر کے مشہور اور مہنگے ترین بیوٹی پارلر کی بہ جائے درمیانے درجے کے بیوٹی پارلر سے دلہن کا میک اپ کرانا ہے۔ اس کے علاوہ دودھ پلائی کے موقع پر ڈھٹائی سے ہزاروں، لاکھوں روپے مانگنے والی سالیوں کو اگر اپنی حیثیت کے مطابق کچھ پیسے دے دیے جائیں تو اس سے بھی ناک کٹ سکتی ہے اور اگر کسی کے پاس چھوٹی گاڑی ہے اور اس نے دلہن کو لانے کے لیے کرائے پر بڑی گاڑی کا بندوبست نہیں کیا تو یہ چیز بھی اس کی ناک کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دلہن صاحبہ کو باقی ساری زندگی اسی چھوٹی گاڑی میں ہی سفر کرایا جاتا ہے مگر ناک کو خطرہ خاص شادی والے دن ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کی ناک تو اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اگر ان کی بہو مطلوبہ مقدار میں جہیز نہ لائے تو وہ کٹنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتی۔ چناں چہ ایسے لوگ اپنی ناک بچانے کی خاطر شرم و حیا کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے بے غیرتی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، اور لڑکی والوں کے ہاتھ میں مطالبات کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھما دیتے ہیں۔ ان میں سے وہ لوگ جو خود کو شریف اور معزز گمان کرتے ہیں، وہ جہیز کا بلاواسطہ مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اپنی فرمائشیں لڑکی والوں کے گوش گزار کرکے آخر میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تو کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں، یہ سب کچھ آپ نے اپنی بیٹی کو ہی دینا ہے۔ ایسے لوگ اپنے دل کو تو شاید تسلی دے لیتے ہوں مگر یہ بات مسلم ہے کہ اس عمل سے ان کی بے غیرتی میں کوئی کمی نہیں آتی۔
مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ ناک کٹنے کی اور بھی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں مگر یہاں سب کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔ ایک چیز جو ان وجوہات کو دیکھ کر پتا چلتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ناک کافی نازک واقع ہوئی ہے۔ صنف نازک کو صنفِ نازک چوں کہ کہتے ہی اسی لیے ہیں کہ وہ صنف مخالف کے مقابلے میں نازک ہوتی ہے، اس لیے بعض لوگوں کے خیال میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی ناک زیادہ نازک ہوتی ہے اور یوں اس کے کٹنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم میں اس بحث میں الجھے بغیر مردوں اور عورتوں دونوں ہی میں اس ناک کو نازک قرار دیتا ہوں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس ناک کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اوپر بیان کی گئی وجوہات پر تھوڑا غور کرنا ہوگا۔ جب ہم ان وجوہات پر غور کریں گے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ان تمام وجوہات کا تعلق نمودونمائش اور تکبر کی بیماریوں سے ہے۔ لہٰذا اگر ہم ان بیماریوں سے نجات حاصل کرلیں اور مال و دولت کو عزت کا معیار نہ بنائیں تو ان شا ء اللہ ہماری یہ ناک خود بہ خود مضبوط اور توانا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان غلیظ بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔




Loading

Read Previous

سزا — مریم مرتضیٰ

Read Next

دوسرا دوزخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!