موہن داس ۔ الف نگر

موہن داس

خالد محی الدین 

جھاڑیوں سے ہاتھ آنے والی گول چیز دیکھتے ہی اُس کی چیخ نکل گئی۔ وہ کون تھا؟ اور وہ چیز کیا تھی؟ پڑھیے اس خوب صورت کہانی میں!

جب اُسے ہوش آیا تو ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوئیں تو اُسے اپنے ساتھیوںکی یاد آئی اور وہ دائیں بائیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ وہاں کوئی ہوتا تو دکھائی دیتا۔ پانی کی بوتل اور فوجیوں کا مخصوص راشن جو جنگ کے دنوں میں ہر فوجی کے پاس ہوتا ہے یہ نعمتیں وہ کھو چکا تھا، اس کے بائیں کندھے پر خون اور دھول جمی ہوئی تھی اور زخم ٹھنڈا ہونے سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ اندھیرے کی وجہ سے اِس علاقے کی پہچان کرنا ممکن نہیں تھا۔ 

یہ 9 ستمبر 1965ء کی سہ پہر تھی۔ ہر طرف دھول ہی دھول جیسے خاک کا طوفان اُمڈ آیا ہو۔ خاکی وردیوں میں ملبوس کوئی فوجی دکھائی نہیں دے رہا تھا کیوں کہ خاک اور وردیوں کا رنگ ایک جیسا تھا۔ ایسے میں توپ کا گولا قریبی پہاڑی پر گرا، کئی فوجی اس کی زد میں آگئے۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود سبھی نے لب سی لیے تھے تاکہ آواز نکلنے کی صورت میں وہ پکڑے نہ جائیں۔ رفتہ رفتہ اندھیرا چھانے لگا۔ وہ مٹی پر پڑا کراہ رہا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا۔

جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس کے زخموں سے ابھی بھی خون رس رہا تھا۔ گرتے پڑتے وہ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا بھگوان کا نام لے کر ایک جانب چل پڑا۔ چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں سے ٹکراتا’ گرتا پڑتا وہ بہت دیر چلتا رہا۔ بھوک زوروں پر تھی اور وہ جلد از جلد کسی آبادی والے علاقے میں پہنچنا چاہتا تھا تاکہ کھانے کو بھوجن مل سکے۔ وہ جھاڑیوں کو ٹٹولتا جارہا تھا کہ اُس کے ہاتھ ایک نرم اور گول چیز پر جا پڑے۔ اُس نے جیسے ہی اُسے اُٹھایا تو وہ ایک موٹا تازہ سانپ تھا۔ ایک خوف ناک چیخ مار کر اس نے سانپ کو وہیں پٹخا اور لنگڑاتے ہوئے ایک طرف دوڑ لگا دی۔ خوش قسمتی سے وہ آبادی والے علاقے میں پہنچ گیا۔ قریب ہی ایک مکان کے کواڑ کھلے تھے۔ وہ اندر چلا گیا۔

صحن میں جانوروں کی کھرلی پڑی تھی’ لیکن بالکل ویران۔ نہ گائے نہ بکری۔ ساتھ والے کمرے میں گیا تو کہیں سے آواز نہ آئی۔ نہ کسی نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ ٹوٹی ہوئی چارپائی، بکھرے ہوئے کپڑے، لڑھکی ہوئی ہنڈیا اور پھوٹے ہوئے گھڑوں نے اُس کا استقبال کیا۔ دیواروں پر اندھا دھند فائرنگ کے نشان تھے۔ یہ دیکھ کر اُسے مایوسی ہوئی اور وہ اس کھنڈر سے نکل آیا۔ ہر سو ویرانی دل پر ہول طاری کر رہی تھی۔ 

اچانک اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ سامنے ہی ایک مکان میں لالٹین روشن تھی۔ یہ دیکھ کر اُس میں توانائی لوٹ آئی اور وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا دروازے تک پہنچا اور بے دھڑک کھٹکھٹانے لگا۔

دن بھر کا تھکا ہارا مومن خان چھت پر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا اور اُس کی ماں ماسی برکتے جو اپنے پوتے کو سلا کر خود بھی سونے لگی تھی یہ سوچتے ہوئے دروازے کی طرف آئی کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟

جیسے ہی اُس نے دروازہ کھولا، سامنے ایک زخمی فوجی کو کھڑے دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ حیران ہوتے ہوئے ماسی نے جلدی سے دروازے کے دونوں پٹ کھول دیے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا اندر آتے ہی گرپڑا۔ امّاں برکتے نے جلدی سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ درد سے کراہ اُٹھا۔

”ہائے میں صدقے…” اُس نے زخمی فوجی کی بلائیں لیں اور اُسے فوراً اندر لے جاکر بستر پر لٹا دیا۔ پھر لالٹین لے کر جلدی سے باورچی خانے میں چلی گئی۔ اتنے میں ماسی کا بیٹا مومن خان بھی اُٹھ گیا۔

”اماں! کون ہے؟ تُو کس سے باتیں کررہی ہے؟” چھت سے اترتے ہی مومن خان نے پوچھا۔

”پتر! کوئی شیر جوان ہے اپنی فوج کا۔” ماسی برکتے ایک ہاتھ میں ہلدی والے دودھ کا پیالہ لیے باورچی خانے سے نکلی۔ مدھم روشنی میں اُسے فوجی کے روپ میں اپنا بیٹا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کا تصور کرکے اس کی تیمار داری کرنے لگی۔ وہ چپ سادھے ماسی سے اپنی خدمت کروا رہا تھااور دل ہی دل میں اس کے سلوک سے متاثر ہورہا تھا۔ پھر اسی حالت میں سوچوں کے سمندر میں کھو گیا۔ وہ اس وقت چونکا جب ماسی برکتے کی آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی: ”میرا شوہر بھی فوج میں تھا۔” یہ کہتے ہوئے ماسی اُسے اپنے ہاتھوں سے دودھ پلانے لگی۔

اُس نے پیالہ پکڑ لیا اور ماسی برکتے شوہر کے ساتھ بیتے لمحے یاد کر کے افسردہ ہو گئی۔ آواز رندھ گئی اور نحیف آواز میں کپکپاہٹ بڑھ گئی۔ ماسی برکتے بتانے لگی: ”شہادت کی تمنا اُس کے دل میں رچی بسی تھی۔ وہ اکثر اس بات کا  اظہار کرتا تھا۔ اب تم یہی دیکھ لو بزدل دشمن نے چپکے سے پاکستان پر حملہ کردیا۔ نہتے اورمعصوم لوگوں پر گولہ باری کردی۔ ہم مسلمان تو دشمن کو للکار کر وار کرتے ہیں اور شہادت کی تمنا کرتے ہیں۔” ماسی برکتے کی بات سنتے ہی وہ چونک اٹھا:

”اوہ! میں… میں کہاں ہوں؟” حیرانی و پریشانی کی ایک لہر اس کے چہرے کو زرد کر گئی۔ ماسی برکتے کا بیٹا مومن خان اب پاس کھڑا ہمدردی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

”کک… کیا… میں پاکستانی علاقے میں… غلطی سے…” یہ بات سوچتے ہوئے زخمی فوجی موہن داس کو جھرجھری آگئی۔ دل ہی دل میں وہ خوف زدہ ہوگیا پھر سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔

رات خاصی بیت چکی تھی۔ ماسی لالٹین اُس کے چہرے کے قریب لائی جیسے یہ دیکھنا چاہتی ہو کہ اب وہ کس حال میں ہے۔ یہ دیکھ کر ماسی کو اطمینان ہوا کہ وہ سوچکا تھا۔ مومن خان چھت پر چلا گیا اور ماسی برکتے اپنے کمرے میں لالٹین کی لو دھیمی کرکے سونے لگی۔ گہری خاموشی میں جھینگروں کی آواز لوری کا کام دے رہی تھی۔ وہ کب نیند کی آغوش میں گئی، اسے پتا ہی نہ چلا۔

اچانک کھڑاک کی آواز سن کر ماسی ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی اور ڈنڈا تھامے لالٹین لیے صحن میں آئی تو ایک سایہ باہر کے دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ماسی نے چور اُچکا سمجھ کر للکارتے ہوئے ڈنڈا ہوا میں لہرایا تو وہ سایہ دیوار کے ساتھ دبک کر بیٹھ گیا۔ ماسی نے لالٹین کی روشنی اس کے چہرے پر ڈالی تو حیران رہ گئیں۔

”تم…؟ تم یہاں کیسے؟”انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔

”وہ… وہ میرے زخموں کی وجہ سے بہت درد ہورہا تھا۔ میں پانی پینے اُٹھا تھا۔” موہن داس نے گھبراتے ہوئے جھوٹ بولا۔

دراصل وہ بھارتی فوج میں حوالدار تھا۔ جنگ کے دوران سرحد کے قریب پاک فوج کی بمباری سے زخمی ہوا۔ پھر جنگل سے گرتا پڑتا اندھیرے میں غلطی سے پاکستانی سرحد میں گھس آیا تھا۔ لیکن رات کو باتوں ہی باتوں میں مومن خان اور اس کی ماں سے مل کر اسے حقیقت پتا چلی تھی کہ وہ پاکستانی علاقے میں ہے۔ اب وہ جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا تاکہ حقیقت پتا چلنے پر یہ لوگ اُسے مارنہ دیں۔

لیکن چوری چھپے فرار ہوتے ہوئے امّاں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ کچھ لمحوں بعد چھت سے مومن خان بھی اتر آیا۔ ماسی برکتے کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اُس سے نام پوچھ لیا۔

موہن داس کی ٹال مٹول اور گھبرائے لہجے کو دیکھ کر ماسی کے بیٹے مومن خان کو کچھ شک گزرا۔ اس نے آگے بڑھ کر موہن داس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ایک دم حیران رہ گیا کیوں کہ موہن داس کی فوجی وردی پر بھارت کا جھنڈا بنا ہوا تھا۔

”اوہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔” مومن خان کے منہ سے نکلا مگر جلد ہی اس نے خود پر قابو پایا اور موہن داس کو شک نہ ہونے دیا کہ اسے حقیقت پتا چل چکی ہے۔

ابھی وہ اندھیرے میں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک موہن داس نے ماسی کے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا چھین کر مومن خان پر حملہ کردیا۔ اس سے پہلے کہ ڈنڈا مومن خان کے سر میں لگتا۔ وہ جلدی سے ایک طرف ہوگیا اور پُھرتی سے اس نے موہن داس کو قابو کرلیا۔

”نام بتاؤ اپنا…” مومن خان نے غضب ناک ہوتے ہوئے پوچھا۔

”مم… موہن داس…” اس نے مرے ہوئے لہجے میں جواب دیا ساتھ ہی زخم سے اٹھنے والے درد سے کراہنے لگا۔ یہ دیکھ کر مومن خان نے اپنی گرفت ڈھیلی کردی۔

”چھوڑ دے اسے پُتر… زخمی ہے۔” اماں برکتے نے کہا تو مومن خان سے اسے چھوڑ دیا۔ موہن داس کا سر جھک گیا تھا۔

”آپ مجھے جان سے مار کر اپنا بدلہ لے سکتے ہیں۔” وہ بے بسی کے ساتھ بجھے ہوئے لہجے میں بولا۔

”نہیں، ہم نہتے پر وار نہیں کرتے۔” مومن خان نے سرد لہجے میں کہا۔

موہن داس پر کپکپی اب بھی طاری تھی۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا یہ کیسے لوگ ہیں جو گھر آئے دشمن کو ناصرف زندہ سلامت چھوڑ رہے ہیں بلکہ اس کی خدمت بھی کررہے ہیں۔

سوچوں میں گم موہن داس شرمندگی سے زمین میں گڑھا جارہا تھا۔ ایسے میں مومن خان کی آواز گونجی۔

”موہن داس! جاؤ اب تم آزاد ہو۔” اس سے پہلے کہ موہن داس قدم اُٹھاتا، پیچھے سے ماسی برکتے نے آواز دی۔

”رُکو! صبح ہونے والی ہے۔ میں ابھی آتی ہوں۔” یہ کہہ کر ماسی برکتے باورچی خانے میں گئی پھر جلد ہی لوٹ آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹفن تھا جس میں سالن اور کچھ روٹیاں تھیں۔

”لو! یہ ساتھ رکھ لو، بھوک لگے تو کھا لینا۔” ماسی نے ٹفن اس کی طرف بڑھایا۔ تشکر آمیز نگاہوں سے اس نے ماسی کے ہاتھ سے وہ ٹفن لیا اور سرجھکاتے ہوئے ایک طرف چل پڑا۔ لنگڑاتے ہوئے اس نے ماسی برکتے کی دہلیز پار کی پھر رک کر پیچھے دیکھا جہاں ماسی برکتے اور مومن خان اسے واپس جاتا دیکھ رہے تھے۔ نمناک آنکھوں سے موہن داس نے ہاتھ اُٹھا کر انہیں سلیوٹ کیا پھر ایک زرد دار نعرہ بلند کیا: پاکستان زندہ۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

ننھا سبز گدھا ۔ الف نگر

Read Next

سوچ کا رخ ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!