اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے، ان کے لکھے گئے ناول بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔انہوں نے اپنا تحریری سفر بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیااور اپنا پہلا ناول ١٩٧٣ء میں لکھا۔ ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
انسپکٹر جمشید سیریز ایک جاسوس انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے گرد
اشتیاق احمد کا انتقال ٢١٠٦ء میں ہوا اور انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا آخری ناول '' عمران کی واپسی'' شائع ہوا تھا جو لوگوں میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔
٭….٭….٭
بیگم جمشید، انسپکٹر جمشید اور بچوں کو ناشتا کرا چکی تھیں۔ اب وہ دفتر اور اسکول جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ جب کہ بیگم جمشید برتن دھونے میں مصروف تھیں۔ بچوں سے پہلے انسپکٹر جمشید تیار ہو گئے۔
”اچھا بھئی! میں چلا۔ جاتے وقت اپنی امی کو بتا دینا تاکہ وہ دروازہ بند کر لیں۔“ انہوں نے کہا۔
”جی اچھا۔“ محمود بولا۔
ان کے جانے کے پندرہ منٹ بعد وہ بھی تیار ہو گئے۔
”امی کو بتا دو فرزانہ ہم جا رہے ہیں۔ آکر دروازہ بند کر لیں۔“
”اچھا۔“ فرزانہ نے کہا اور دوڑتی ہوئی باورچی خانے کی طرف گئی۔
”امی جان! ہم جا رہے ہیں، دروازہ بند کر لیں۔“
”اچھا بیٹی! تم لوگ جاﺅ۔ میں ابھی بند کر لیتی ہوں۔“ بیگم جمشید بولیں۔
اور وہ تینوں بھی چلے گئے۔ صرف ایک منٹ بعد وہ اٹھیں اور دروازے کی طرف بڑھیں۔ دروازے کی چٹخنی لگا کر وہ واپس مڑیں تو فرش پر کیچڑ میں بھرے ایک جوتے کا نشان نظر آیا۔ وہ دھک سے رہ گئیں۔ بھلا کیچڑ بھرے جوتے کے نشان کا ان کے صحن میں کیا کام۔ چند قدم آگے بڑھیں تو میز پر انہیں ایک پستول رکھا نظر آیا۔ ان کے اٹھتے قدم رک گئے۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ آنکھوں میں خوف سمٹ آیا۔ پھر جونہی انہوں نے نظریں اوپر اٹھائیں ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہاں پر کوئی موجود تھا۔
وہ بہت لمبا چوڑا اور خوف ناک شکل صورت کا آدمی تھا۔ اس کی آنکھیں اگرچہ چھوٹی تھیں مگر ان میں بَلا کی چمک تھی، ہونٹ بھدے، سیاہ اور موٹے تھے۔ سر کے بال گہرے سیاہ اور بہت گھنے تھے۔ ہاتھوں کی پشت اور بازوﺅں پر بھی بال ہی بال تھے۔ غرض پہلی نظر میں تو وہ خوف ناک لگتا ہی تھا۔ اسے دیکھ کر بدن میں سنسنی سی پیدا ہونا لازمی بات تھی۔ خوف کی ایک لہر بیگم جمشید نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں دوڑتی محسوس کی۔ ان کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ پھر ان کے کانوں سے اس کی کرخت آواز ٹکرائی۔ بالکل ایسی جیسی پھٹے ہوئے بانس میں سے نکلتی ہے۔
”میں جانتا ہوں، گھر میں تمہارے سوا کوئی اور نہیں ہے۔“ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرایا بھی تھا۔ اس کی مسکراہٹ کس قدر خوف ناک تھی۔ وہ کانپ کر رہ گئیں۔
حلق خشک ہونے لگا۔ بدن میں تھرتھراہٹ دوڑنے لگی۔ آخر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنے لب کھولے:
”تم…. تم کیا چاہتے ہو؟“
”سب سے پہلے ناشتا۔“ وہ ہنسا۔
”اگر تم بھوکے ہو تو تمہیں کھانا ضرور ملے گا۔ اس گھر سے کوئی بھوکا خالی نہیں جاتا۔“
”میں بھوکا ضرور ہوں، لیکن بھیک نہیں مانگتا۔ اس وقت چوں کہ اس گھر پر میری حکومت ہے، اس لیے جو حکم بھی دوں، تمہیں بجا لانا ہو گا۔ میں انکار سننے کا عادی نہیں ہوں۔ جاﺅ، پہلے میرے لیے ناشتا لے کر آﺅ۔“ اس نے گرج دار آواز میں کہا۔
”اس گھر میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والا محفوظ نہیں رہ سکتا، تم نے اپنی شامت کو آواز دی ہے۔“
اس کے الفاظ سُن کر بیگم جمشید کو غصہ آگیا۔ ان کا خوف اُڑن چھو ہو گیا۔ وہ ایک دم دلیر ہو گئیں اور خون خوار نظروں سے اُسے گھورنے لگیں، لیکن اس تبدیلی سے بھی اس خوف ناک آدمی نے کوئی اثر نہیں لیا۔
”میں جانتا ہوں، یہ انسپکٹر جمشید کا گھر ہے، یہاں اس کے تین بچے محمود، فاروق اور فرزانہ بھی رہتے ہیں۔ ان کی بیوی بھی رہتی ہے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ انسپکٹر جمشید دفتر اور بچے اسکول جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ بچے دو بجے سے پہلے اور انسپکٹر جمشید پانچ بجے سے پہلے واپس نہیں آئیں گے۔ گھر کا دروازہ بند ہے اور اس گھر کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی گھر میں ٹیلی فون ہے۔ پھر تم کس بنا پر اس قدر اکڑ کر بات کر رہی ہو؟ یاد رکھو، میں بہت بُرا آدمی ہوں۔“ اُس نے منہ بنا کر کہا۔
”وہ تو تم شکل سے نظر آہی رہے ہو۔“ بیگم جمشید جل کر بولیں۔
”چلو اچھا ہے، تمہیں اندازہ ہو گیا ہے۔ اب جلدی سے ناشتا لے آﺅ۔“
وہ پھر مسکرایا۔
”ناشتا ختم ہو چکا ہے۔“ انہوں نے منہ بنا کر کہا۔
”تو اور تیار کر لاﺅ۔“ اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے اپنے گھر میں بیٹھا ہو۔
”پہلے یہ بتاﺅ، تم کون ہو اور یہاں کیا لینے آئے؟“
”ناشتے سے پہلے ایک لفظ نہیں بتاﺅں گا۔“ اس نے کندھے اُچکائے۔
”اچھی بات ہے، میں تمہارے لیے ناشتا لاتی ہوں۔“ تنگ آکر انہوں نے کہا اور باورچی خانے میں چلی آئیں۔ ان کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھیں۔ یوں وہ اس کے مقابلے میں ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ وہ ان کے ساتھ باورچی خانے میں نہیں آیا تھا، بدستور صحن میں بیٹھارہا تھا۔ باورچی خانے سے نکل کر اس کی نظروں سے بچ کر کسی دوسرے کمرے تک جانا ناممکن تھا، وہ ضرور دیکھ لیتا۔“ ورنہ وہ سیدھی اپنے کمرے میں جاتیں اور انسپکٹر جمشید کا پستول اٹھا لاتیں۔ فائر کرنا تو انہیں آتا ہی تھا، لیکن اس صورت میں کہ وہ صحن میں بیٹھا تھا کسی اور کمرے میں جانا ناممکن تھا۔ وہ ہوشیار بیٹھا تھا اور برابر باورچی خانے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
انہوں نے باورچی خانے کا جائزہ لیا، جہاں لوہے کے چمچ تھے جنہیں وہ ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتی تھیں لیکن ایک پستول کے مقابلے میں وہ کیا کام دیتے۔ آخر انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عقل سے کام لے کر اس کا مقابلہ کریں گی۔
انہوں نے ناشتا تیار کر لیااور ٹرے میں رکھ کر وہ باہر نکلیں۔ نہ جانے کیوں اب انہیں خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا اور وہ دل ہی دل میں مسکرا رہی تھیں۔ ٹرے میز پر رکھتے ہوئے انہوں نے زندہ دلی سے کہا:
”ناشتا تیار ہے، کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔“
”بہت خوب، اب آئی ہو تم سیدھے راستے پر۔ میرا خیال ہے تم نے پہلے ہی کافی کچھ تیار کر دیا ہے، بہرحال اگر ان چیزوں سے میرا پیٹ نہ بھرا تو ضرور بتا دوں گا۔“
”ضرور بتا دینا۔“ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ خوف ناک آدمی نے انہیں چند لمحوں کے لیے حیران ہو کر دیکھا اور پھر ناشتے پر اس طرح ٹوٹ پڑا، جیسے کئی دنوں سے ہو، لیکن پہلے ہی لقمے پر اسے ابکائی آگئی۔ ڈبل روٹی کے توسوں میں نمک اور مرچ کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا تھا اور وہ بہت بد ذائقہ تھے۔ اس کی آنکھوں اور ناک سے بھی پانی بہنے لگا۔
”یہ ناشتا ہے؟“ وہ حلق پھاڑ کر چلایا۔
”تو کیا نہیں؟“ بیگم جمشید نے حیرت کا اظہار کیا۔
”ان ڈبل روٹی کے ٹکڑوں میں سوائے نمک اور مرچ کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔“
”اوہ۔ شاید مجھ سے غلطی ہو گئی۔“ انہوں نے چونک کر کہا۔
”تم یہ انڈوں کا آملیٹ کھا لو۔ اگر یہ اچھا لگا تو اور بنا دوں گی۔“
”یہ بھی دیکھ لیتا ہوں، لیکن تم میرے غصے کو آواز دے رہی ہو۔“ اس نے غرا کر کہا۔
”نہیں تو، میں نے تو کسی کو بھی آواز نہیں دی۔ جب سے تم آئے ہو، تم سے ہی باتیں کر رہی ہوں۔“ انہوں نے معصومانہ لہجے میں کہا اور انہیں فاروق کا خیال آگیا۔ اس قسم کے جواب وہی دیا کرتا تھا۔ انہوں نے سوچا، وہ تو مزے سے اسکول میں بیٹھے پڑھ رہے ہوں گے اور میں یہاں ایک نئی مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ ایک ایسی مصیبت میں کہ کچھ پلّے نہیں پڑ رہا ہے، کیا کروں، کیا نہ کروں۔ دوسری طرف اجنبی نے آملیٹ چمچ میں لے کر منہ میں ڈالا اور پھر منہ نیچے کر کے آخ تھو آخ تھو کرنے لگا۔ منہ صاف کرنے کے بعد اس نے نگاہیں اوپر اٹھائیں اور گرج کر بولا:
”تو یہ آملیٹ ہے؟“
”اور یہ کسٹرڈ بھی ہے۔“ بیگم جمشید مسکرائیں۔ وہ انڈوں میں بہت ساری پھٹکری ملا لائی تھیں جس کی وجہ سے آملیٹ کڑوا زہر ہو گیا تھا۔
”میں سمجھ گیا، اس میں بھی کچھ ملا ہو گا۔ کیا تم مہمانوں کو ایسا ہی ناشتا دیا کرتی ہو؟“ اس نے جھنجھلا کر کہا۔
”جو مہمان تمہاری طرح میرے گھر میں داخل ہوں، انہیں اس سے بہتر ناشتا نہیں دے سکتی۔“ بیگم جمشید نے بھی بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ جو مجھے اس قسم کا ناشتا دے، میں اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔“ اس نے بھی مسکرا کر کہا۔ اب اس نے اپنے غصے پر قابو پا لیا تھا۔
”معلوم ہو ہی جائے گا۔ اب آگئے ہو تو خود کو ظاہر کیے بغیر تو جاﺅ گے نہیں۔ ویسے تمہارا نام کیا ہے؟“
یہ سوال انہوں نے اس لیے کیا تھا کہ انہیں بھی تھوڑی بہت جاسوسی کرنی چاہیے۔ کیوں کہ محمود، فاروق اور فرزانہ تو گھر میں تھے نہیں کہ سارا معاملہ ان پر ڈال کر آپ باورچی خانے میں چلی جاتیں۔
”کیوں، تم نے میرا نام کیوں پوچھا؟“ اس نے چونک کر کہا۔
”بس یونہی۔ گھر میں آئے مہمان کا نام پوچھنا کوئی اخلاق سے گری ہوئی بات تو نہیں ہے۔“ انہوں نے تنک کر کہا۔
”بداخلاقی کی ابتدا بھی تو تمہاری طرف سے شروع ہوئی ہے۔“
”اچھا جاﺅ۔ دوسرا ناشتا تیار کر کے لاﺅ، لیکن اس مرتبہ ناشتا خوش ذائقہ ہونا چاہیے۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔“
”پہلے ہی کب ہے؟“ بیگم جمشید نے تلملا کر کہا۔
”تم ناشتا تیار کر نے کے لیے جاتی ہو یا نہیں؟“ اس نے پھر کہا۔
”تم نے ابھی تک بتایا نہیں کہ یہاں کس لیے آئے ہو، کیا چاہتے ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟“
”میں کوئی تمہارا ملازم تو ہوں نہیں کہ تمہاری ہر بات کا جواب دینے پر مجبور ہوں۔ جاﺅ، ناشتا لاﺅ۔“
”افسوس! تمہیں اسی ناشتے سے پیٹ بھرنا ہو گا۔“ بیگم جمشید بولیں۔
”کیا مطلب؟“
”باورچی خانے میں اب کچھ نہیں بچا۔“
”تم جھوٹ کہتی ہو۔“ اس نے غرا کر کہا۔
”چل کر دیکھ لو۔“ یہ کہتے وقت وہ مسکرائیں۔
”چلو۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
دونوں آگے پیچھے چلتے باورچی خانے میں آئے اور پھر وہ خوف ناک آدمی چونک اُٹھا۔ انڈے فرش پر گرا کر توڑ دیے گئے تھے۔ ڈبل روٹی پانی میں بھگو دی گئی تھی۔ مربے اور چٹنی کے خالی جار بھی منہ چڑا رہے تھے۔ آٹے کے ڈرم کا ڈھکنا الگ پڑا تھا۔ اجنبی نے اس میں جھانک کر دیکھا۔ آٹے میں بھی کچھ ڈال دیا گیا تھا۔ چینی کے ڈبے میں نمک اور مرچ بھی شامل کیے جا چکے تھے۔ غرض ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جس سے وہ ناشتا یا ناشتے کی قسم کی کوئی چیز تیار کی جا سکتی۔
٭….٭….٭
”یہ تم نے کیا کیا؟“ خوف ناک آدمی حلق پھاڑ کر بولا۔ وہ انہیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”ناشتے کا سارا سامان برباد کر دیا۔ اب مجھے سو دو سو روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔“ بیگم جمشید نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ نہ جانے کیا بات تھی۔ اب انہیں اس سے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ حالاں کہ وہ پہلے سے زیادہ غصے میں تھا۔
”اب میں کیا کھاﺅں گا، میں بہت بھوکا ہوں۔“ وہ گلا پھاڑ کر بولا۔
”تمہیں اپنے گھر سے ناشتا کر کے آنا چاہیے تھا۔ کسی کے گھر بن بلائے جائیں تو کھا پی کر جانا چاہیے۔“
”خاموش، تمہاری آواز مجھے زہر لگ رہی ہے۔“ وہ چلا اُٹھا۔
”میرا بھی یہی حال ہے۔ کانوں میں درد ہونے لگا ہے۔ تمہاری بھدّی آواز سُن سُن کر۔“ بیگم جمشید نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گا۔ خون پی جاﺅں گا۔“ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔
”کیا آدم خور ہو؟“ بیگم جمشید نے گھبراہٹ کا مظاہرہ کیا۔
”اچھا، تم یوں نہیں مانو گی۔“ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور بیگم جمشید کے بال مٹھی میں پکڑ کر ایک جھٹکا مارا۔ ان کے منہ سے تکلیف کی وجہ سے چیخ نکل گئی۔
”بولو، میرے لیے ناشتا تیار کرو گی یا نہیں؟“
”اگر تم کہو تو میں باورچی خانے میں موجود چیزوں سے ناشتا بنا دوں۔ انہوں نے اب ڈرے بغیر کہا۔“ ویسے اگر تم اندر آنے کے بعد شرافت کا ثبوت دیتے تو میں کبھی کا تمہیں ناشتا کرا چکی ہوتی، لیکن تم نے تو اتنا تک نہیں بتایا کہ کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیوں آئے ہو، چاہتے کیا ہو؟ مزے کی بات یہ کہ میرے گھر کا فرش برباد کر دیا۔ کیا تم دیکھ کر نہیں چلتے؟“
”کیا مطلب؟“اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا۔
”تمہارا ایک جوتا کیچڑ میں بھرا ہوا ہے۔ اس سے میرے گھر کا فرش گندا ہو گیا ہے۔ بھلا میں ایسے آدمی کو ناشتا دے سکتی ہوں؟“ بیگم جمشید کا منہ بن گیا۔
”اگر ناشتا نہیں دو گی تو پچھتاﺅ گی۔“ اس نے سرد آواز میں کہا۔
”اچھا، پچھتا لوں گی۔“ بیگم جمشید نے مایوسانہ لہجے میں کہا اور چیخ اٹھیں۔ اُس نے ان کے بالوں کو ایک اور جھٹکا دیا۔ ان کے منہ سے پھر چیخ نکلی۔
”میں کرتا ہوں تمہارا بندوبست۔ اس کمرے میں چلو جس میں تم سوتے ہو۔“
”کیوں، وہاں کیا کام ہے۔ کیا چارپائیاں چرا کر لے جانا چاہتے ہو؟“ انہوں نے پوچھا۔
”بے وقوف عورت، میں چور نہیں ہوں۔“
”تو پھر کیا ہو؟“ وہ ایک دم بولیں۔
”جانے سے پہلے تمہیں ضرور بتا کر جاﺅں گا۔“
”کب جا رہے ہو تم؟“ انہوں نے پوچھا۔
”فکر نہ کرو۔ دو چار دن یہاں نہیں ٹھہروں گا۔“
”مجھے تو تم کوئی مفرور مجرم معلوم ہوتے ہو۔ سچ کہو۔ تم جیل سے فرار ہو کر آئے ہو نا۔“
”جیل؟ میں نے آج تک جیل کا منہ نہیں دیکھا۔ نہ جانے جیل کیسی ہوتی ہے۔“ اس نے پُرغرور لہجے میں کہا۔
”اگر کچھ دیر ٹھہرے رہے تو شاید ہم تمہیں دکھا دیں، جیل کیسی ہوتی ہے۔“
”میں کہہ چکا ہوں کہ اس گھر اور گھر کے رہنے والوں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اسی لیے تو تمہارے دروازہ بند کرنے سے پہلے میں گھر کے اندر موجود تھا۔“
”وہ تو میں سمجھ چکی ہوں، محمود فاروق اور فرزانہ کے جاتے ہی تم اندر آگئے ہو گے۔ جب میں باورچی خانے سے نکلی تو تم میز کے نیچے دب گئے ہو گے تاکہ میں دروازہ بند کر دوں۔“
”ہوں، یہی بات ہے، لیکن تمہیں اس سے کوئی فائدہ تو پہنچنے سے رہا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ چارپائیوں والے کمرے میں چلو۔“
”چلو۔“ بیگم جمشید نے بے بسی کے عالم میں کہا۔
وہ انہیں لے کر سونے والے کمرے میں آئیں۔ ان کے بال ابھی اس کی مٹھی میں تھے۔ بال اسی طرح پکڑے پکڑے اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ایک چارپائی کی رسی کاٹ کر اسے چارپائی سے الگ کیا۔
”کیا مجھے باندھنے کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”ہاں، تمہیں باندھ کر اطمینان سے اپنا کام کروں گا۔“
”یعنی ناشتا تیار کرو گے؟“ بیگم جمشید نے حیران ہو کر پوچھا۔
”اگر کچھ ملا تو ناشتا بھی تیار کروں گا، ورنہ باہر سے کچھ لے آﺅں میں بھوکا ننگا نہیں ہوں۔“
”تو شکل سے ہی نظر آتے ہو۔“
یہ کہتے ہوئے انہوں نے اچانک اپنے بالوں کو جھٹکا۔ خوف ناک آدمی بے دھیان تھا۔ بال اس کے ہاتھ سے پھسل گئے۔ جھٹکے کے ساتھ ہی بیگم جمشید سرہانے والی میز تک پہنچ گئیں۔ دوسرے ہی لمحے وہ ایک دراز کھینچ کر اس میں سے پستول نکال چکی تھیں۔
”تم جانتے ہو کہ یہ گھر کس کا ہے، اس لیے یہ بھی جانتے ہو گے کہ اس گھر کا ہر فرد پستول چلانا خوب جانتا ہے۔ اس لیے اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا۔ پہلا کام یہ کرو کہ چارپائی کی رسی دوبارہ کس دو تاکہ تمہارے جیل جانے کے بعد مجھے تکلیف نہ ہو۔“ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
٭….٭….٭
”آج نہ جانے کیا بات ہے، اسکول میں دل نہیں لگ رہا۔“ فاروق نے ایک خالی پیریڈ میں کہا۔
”میرا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔“ محمود بولا۔
”خدا جانے، ہو سکتا ہے کوئی بات بھی نہ ہو اور ہمیں یونہی محسوس ہو رہا ہو، جیسے کوئی بات ہے۔“
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کوئی بات ہی ہو اور ہمارے محسوسات ٹھیک ہوں۔“
”تو پھر، کیا گھر چلیں؟“ محمود نے پوچھا۔
”میرا تو یہی جی چاہتا ہے۔“ فاروق بولا۔
”تو پھر لکھو درخواست۔“
اور ان دونوں نے چھٹی کی درخواست لکھ ماری۔ درخواست مانیٹر کے حوالے کی اور اسکول سے باہر نکل آئے۔ وہ کبھی مشکل سے ہی اسکول سے چھٹی کرتے تھے۔ یوں بھی تمام بچوں میں پڑھائی میں آگے تھے۔ اس لیے مانیٹر جانتا تھا، کلاس کے انچارج کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔
”کیا خیال ہے، فرزانہ کو بھی ساتھ لے لیں۔“ محمود نے پوچھا۔
”وہ اسکول سے گھر جانا پسند نہیں کرے گی۔“ فاروق نے انکار میں سرہلایا۔
”ہو سکتا ہے، اس کا دل بھی نہ لگ رہا ہو۔“ محمود مسکرایا۔
”آج ہم پر ”ہو سکتا ہے“ کا دورہ تو نہیں پڑ گیا۔“ فاروق نے بھی ہنس کر کہا، لیکن اس کی ہنسی میں وہ جانینہیں تھی۔
”ایسا ہی لگتا ہے۔ میرا خیال ہے، ہم فرزانہ سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگر اس نے ساتھ چلنا پسند کیا تو اسے بھی ساتھ لے لیں گے، ورنہ ہم دونوں ہی چلیں گے۔“
”ٹھیک ہے، لیکن شام کو جب ابا جان چھٹی کرنے کی وجہ پوچھیں گے تو کیا جواب دیں گے؟“
”جو بات ہے، وہی بتائیں گے۔ صاف صاف کہہ دیں گے کہ اسکول میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ دھیان اِدھر اُدھر جا رہا تھا۔“
”تو پھر چلو، پہلے فرزانہ سے پوچھیں۔“
فرزانہ کا اسکول زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ وہ جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ لڑکیوں کے اسکول میں لڑکوں کا داخلہ بند تھا، اس لیے انہوں نے چوکیدار کے ذریعے فرزانہ کو دروازے پر بلوایا۔ فرزانہ دروازے پر آئی تو دونوں اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں بے چینی تھی۔ بس یوں لگتا تھا۔ جیسے اب روئی کہ اب روئی۔
”خیر تو ہے فرزانہ، کیا سہیلی سے لڑائی ہو گئی ہے؟“ فاروق نے گھبرا کر کہا۔
”نہیں تو۔“ اس کے منہ سے نکلا۔
”پھر کیا بات ہے، تم بہت پریشان دکھائی دے رہی ہو؟“
”ہاں! نہ جانے کیا بات ہے۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔“
”یا اللہ رحم۔“ محمود بولا۔
”تم کیسے آئے؟“
”ہمارے بھی دل بیٹھے جا رہے تھے۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”اوہ۔ تو ہم تینوں کی ایک ہی حالت ہے۔“ فرزانہ نے چونک کر کہا۔
”ہاں! ہم تو اسکول سے چھٹی لے آئے ہیں اور گھر جا رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے، پڑھنا پسند کرو گی یا ہمارے ساتھ چلنا؟“ محمود نے پوچھا۔
”میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ اسکول تو آج مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔“
”تو پھر جلدی سے چھٹی لے آﺅ۔ نہ جانے آج کیا بات ہے۔“
”میں ابھی آئی۔“
چند منٹ بعد تینوں گھر کی طرف تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے۔ پھر جونہی وہ گھر کے دروازے پر پہنچے، ان کے کانوں سے ایک گھٹی چیخ کی آواز ٹکرائی۔ وہ دھک سے رہ گئے۔ یہ چیخ ان کی ماں کے حلق سے نکلی تھی۔
٭….٭….٭
”بہت خوب، تم تو بہت دلیر عورت ہو۔ میں سمجھا تھا، بزدل ہو گی۔“ خوف ناک آدمی نے حیران ہو کر کہا۔ اس کی نظریں بیگم جمشید کے ہاتھ میں پکڑے پستول پر جمی ہوئی تھیں۔
”تم نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ میں نے کہا ہے، چارپائی کی رسی دوبارہ کس دو۔“
”اچھا، ابھی کستا ہوں۔“
اس نے کہا اور رسی ہاتھ میں پکڑ کر چارپائی پر جھک گیا، لیکن پھر نہ جانے اچانک اس نے کیا کیا کہ رسی سیدھی بیگم جمشید کے دائیں ہاتھ کی طرف آئی اور پستول کے گرد لپٹتی چلی گئی۔ ساتھ ہی رسی کو جھٹکا دیا گیا اور پستول بیگم جمشید کے ہاتھ سے نکلتا ہوا خوف ناک آدمی کے ہاتھ میں آگیا۔ بیگم جمشید بھونچکی رہ گئیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شخص اس قدر تیزطرار اور پکا نشانے باز بھی ہو سکتا ہے۔ ورنہ ہوشیار ہو جاتیں۔
”میں یہاں یونہی نہیں چلا آیا، کچھ سوچ سمجھ کر ہی مجھے بھیجا گیا ہے۔“
”بھیجا گیا ہے۔ کیا مطلب؟“ ان کے منہ سے نکلا۔
”مطلب بتانے کا میں قائل نہیں۔ تم بتاﺅ، اب کیا کہتی ہو؟“
”کچھ بھی ہو، تمہیں ناشتا نہیں ملے گا۔“
”ٹھیک ہے۔ دیوار کی طرف منہ کر کے اپنے ہاتھ کمر پر لے آﺅ۔ میں تمہیں باندھ کر بازارسے کچھ کھانے کے لیے لے آﺅں گا۔“ اس نے کہا۔
”آخر تم چاہتے کیا ہو، کیا تمہارا یہیں رہنے کا ارادہ ہے؟“
”کم از کم اس وقت تک جب تک تمہارے تینوں بچے گھر نہیں آجاتے۔“
”کیا مطلب، تم ان سے کیا چاہتے ہو؟“ بیگم جمشید نے بوکھلا کر پوچھا۔
”اصل کام تو انہی سے ہے۔“ وہ خوف ناک انداز میں مسکرایا اور وہ کانپ اٹھیں۔ انہوں نے دل ہی دل میں دُعا کی کہ یا خدا، آج محمود، فاروق اور فرزانہ لیٹ ہو جائیں، بہت دیر سے گھر آئیں۔
”کیا کام ہے ان سے؟“ انہوں نے ہمت ہارنا کب سیکھا تھا۔
”یہ میں انہی کو بتاﺅں گا۔“
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا اور چارپائی کی رسی سے بیگم جمشید کے ہاتھ باندھنے لگا۔ اس نے ہاتھ باندھنے پر ہی بس نہیں کی، ہاتھوں کے بعد پیر باندھے، پھر ان کے منہ میں ایک رومال ٹھونسا اور اوپر ایک اور رومال باندھ دیا۔ اب بیگم جمشید کمرے کے فرش پر بندھی پڑی تھیں۔ اس طرح کہ منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکال سکتی تھیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ کمرے سے باہر نکلا اور دروازہ بند کر کے باہر سے چٹخنی لگا دی۔ مطمئن انداز میں مسکرایا اور باہر کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ اچانک اسے یاد آیا، میں نے اپنا پستول تو میز پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ میز سے پستول اٹھا کر اس نے دوسری جیب میں رکھا کیوں کہ ایک جیب میں تو پہلے ہی انسپکٹر جمشید والا پستول موجود تھا۔ ایک بار پھر وہ دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ٹھٹک کر رُک گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی، کیوں کہ عین اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی تھی جب کہ اسے معلوم تھا کہ دو بجے سے پہلے کسی کے آنے کا امکان نہیں ہے۔ چند لمحے تک وہ کھڑا سوچتا رہا۔ پھر دبے پاﺅں دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
٭….٭….٭
”یا اللہ رحم۔“ محمود نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔
”اندر تو کوئی گڑبڑ ہے۔“ فاروق بولا۔
”کہیں امی ریڈیو پر کوئی ڈراما تو نہیں سُن رہی ہیں۔“ فرزانہ نے سوچتے ہوئے کہا۔“ اور یہ گھٹی گھٹی چیخ اس ڈرامے میں شامل ہو۔“
”لیکن آواز امی جان کی تھی۔“ محمود نے اعتراض کیا۔
”ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ چیخ امی جان کی تھی۔“ فاروق نے کہا۔
”پھر اب کیا کریں، دروازہ تو اندر سے بند ہے۔“
”ہم گھنٹی بجانے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟“
”کیوں نہ پہلے پائیں باغ والی کھڑکی کا جائزہ لے لیں۔ اگر وہ کھلی ہوئی ملی تو ہم گھنٹی بجائے بغیر بھی اندر داخل ہو سکیں گے۔“ فرزانہ نے تجویز پیش کی۔
”لیکن ہم صبح کھڑکی اندر سے بند کر کے اسکول گئے تھے۔“ فاروق بولا۔
”اس وقت گھر کے حالات بدلے ہوئے ہیں، اندر نہ جانے کون ہے۔ ہو سکتا ہے، بدلے ہوئے حالات کے تحت کھڑکی کھلی ہوئی ہو۔“ محمود نے خیال پیش کیا۔
”تو پھر آﺅ، وقت کیوں ضائع کرتے ہو۔“ فاروق گھبرا کر بولا۔
اور وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف بڑھے۔ اُسے دھکیلا، تو پتا چلا کہ وہ تو اندر سے بند تھی۔
”اب ہمیں گھنٹی ہی بجانا ہو گی۔“ محمود بولا۔
”میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”جلدی بتاﺅ۔“
”تم دونوں گھنٹی بجا کر اندر جاﺅ، میں ابا جان کو فون کر کے اندر آنے کی کوشش کروں گی۔ اس طرح انہیں بھی اطلاع مل جائے گی۔“
”بہت اچھے۔ یہ بالکل ٹھیک رہے گا۔“ محمود نے خوش ہو کر کہا۔
تینوں پائیں باغ سے باہر نکلے۔ محمود اور فاروق دروازے پر رُک گئے اور فرزانہ آگے بڑھتی چلی گئی۔
محمود نے گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھی اور دباﺅ ڈال دیا۔ اندر گھنٹی زور سے بجی اور بجتی چلی گئی۔ پھر دونوں انتظار کرنے لگے۔ یہ لمحے ان کے لیے بہت مشکل سے گزر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے، دروازہ فوراً کھل جائے، پھر چاہے انہیں آگ میں کودنا پڑے۔ وہ اپنی امی کو بچانے کے لیے کود جائیں گے۔ ابھی تک انہیں قدموں کی آہٹ بھی سنائی نہیں دی تھی۔
”کوئی دروازہ کھولنے کے لیے نہیں آیا۔ اب ہم کیا کریں؟ “ محمود نے پریشان ہو کر کہا۔
”اندر کوئی لمبا چکر چل رہا ہے۔ یا اللہ، یہ ہمارے جاتے ہی کیا شروع ہو گیا؟“ فاروق بولا۔
”کیوں نہ ہم دروازہ توڑنے کی کوشش کریں۔ اس طرح محلے کے لوگ بھی تو ہماری مدد کے لیے آجائیں گے۔“ محمود نے مشورہ دیا۔
”جب تک یہ نہ معلوم ہو جائے کہ اندر کیا چکر ہے اور کیا حالات ہیں، اس وقت تک ہم کسی سے مدد نہیں مانگ سکتے۔ ہو سکتا ہے، مدد الٹی نقصان دہ ثابت ہو۔“ فاروق نے کہا۔
”ہوں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ اوہ خاموش میرا خیال ہے، کوئی دروازے کی طرف دبے پاﺅں آرہا ہے۔“ محمود نے چونک کر دبی آواز میں کہا۔
”یہی بات ہے، لیکن ہم کوئی حرکت نہیں کریں گے۔ دروازے پر آرام سے کھڑے رہیں گے۔ ہمارا پہلا مقصد اندر جا کر حالات کا جائزہ لینا ہو گا تاکہ معلوم ہو سکے امی کس حال میں ہیں؟“
”ٹھیک کہتے ہو۔“ محمود نے فکرمند ہو کر کہا۔
اسی وقت چٹخنی گرنے کی آواز آئی۔ دونوں نے چہروں پر مسکراہٹ طاری کر لی۔ جونہی دروازہ کھلا دونوں ایک ساتھ بولے۔
”السلام علیکم امی جان!“ وہ جان بوجھ کر رُک گئے۔ جانتے تھے کہ دروازہ کھولنے والی ان کی والدہ نہیں ہو سکتیں۔
پھر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کے سامنے ایک خوف ناک آدمی کھڑا تھا جو انہیں بری طرح گھور رہا تھا۔
”کون ہو تم؟“ اس نے پوچھا۔
”ارے، یہ ہمارا گھر ہے۔ تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟“ فاروق نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”اوہ، تو یہ تم ہو، مگر تم اسکول سے اتنی جلدی کیوں آگئے؟“ اس نے حیران ہو کر کہا۔
”ہماری مرضی، تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے۔“
”ٹھیک ہے، اندر آجاﺅ۔“
”لیکن تم کون ہو اور ہمارے گھر میں کیا کر رہے ہو؟“
”میں تمہارے سوالات کے جوابات دینے کا پابند نہیں، چلو اندر۔“
یہ کہتے ہوئے، اس نے جیب سے پستول نکال لیا۔ انہوں نے دیکھا، پستول ان کے والد کا تھا۔
”اب تو اندر چلنا ہی پڑے گا، کیوں محمود۔“ فاروق نے شریر لہجے میں کہا۔
”ہاں! مجبوری ہے۔“ محمود نے کندھے اچکائے۔
دونوں اس کے آگے چلتے ہوئے صحن کی طرف بڑھے۔ خوف ناک آدمی دروازہ اندر سے بند کرنا نہیں بھولا تھا۔ کھانے کی میز کے پاس فرش پر انہیں تھوکا ہوا کچھ کھانا نظر آیا۔ وہ حیران رہ گئے۔ خوف ناک آدمی انہیں بھی سونے والے کمرے میں لے آیا۔
انہوں نے دیکھا، ان کی والدہ رسیوں سے جکڑی فرش پر پڑی ہیں۔ ان کے منہ پر بھی رومال بندھا تھا۔ وہ دنگ رہ گئے۔ ساتھ ہی ان کا رواں رواں سُلگ اٹھا، خون جوش مارنے لگا اور آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
”بدتمیز، پاگل، ہم تمہیں اس حرکت کا مزہ چکھائیں گے۔“ محمود نے پاگلوں کی طرح گلا پھاڑ کر کہا۔
”لیکن یہ نہ بھولنا کہ میرے ہاتھ میں تمہارے باپ کا پستول ہے اور میرا نشانہ تمہارے والد سے بھی زیادہ پختہ ہے۔“ اس نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
”کچھ بھی ہو، ہم تمہیں تگنی کا ناچ نچا کر رہیں گے۔“
”تم دونوں بے وقوف ہو، مجھے یہاں کچھ سوچ سمجھ کر ہی بھیجا گیا ہے۔“ اس نے کہا۔
”تم کون ہو اور یہاں کس لیے آئے ہو؟“ فاروق نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”یہ سوال تمہاری والدہ نے بھی کیا تھا۔“ اس نے جواب دیا۔
”تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ پہلی فرصت میں ہماری والدہ کو کھول دو ورنہ تمہارا انجام اتنا بھیانک ہو گا کہ زندگی بھر پچھتاﺅ گے۔“
عین اسی وقت گھنٹی ایک بار پھر بجی۔ وہ چونک اٹھے۔ محمود اور فاروق نے سوچا، یہ ضرور فرزانہ ہو گی، جو فون کر آئی ہو گی۔
٭….٭….٭
”اور یہ تمہاری بہن ہو گی۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔“ خوف ناک آدمی نے مسکرا کر کہا۔
”ہو سکتا ہے۔“ فاروق بولا۔
”تم دونوں میرے ساتھ دروازے تک چلو گے، سمجھے۔“
”جی بہت بہتر۔“ محمود نے سعادت مندی کا مظاہرہ کیا۔
”سنو، اگر دروازے پر تمہاری بہن موجود ہوئی تو چپ چاپ اس کے لیے دروازہ کھول کر پیچھے ہٹ آنا۔“
”اچھا۔“ دونوں کے منہ سے نکلا۔ ان کے ذہن تیزی سے گردش کر رہے تھے۔
وہ انہیں ساتھ لے کر دروازے پر آیا اور محمود کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ خود دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ محمود نے دروازہ کھول دیا۔ فرزانہ کی آواز سنائی دی۔
”کیا اندر سب خیریت ہے، میں نے پھر یونہی فون کیا۔“
محمود اور فاروق دھک سے رہ گئے، انہیں یہ امید نہیں تھی کہ فرزانہ یہ جملہ بول دے گی۔ دوسری طرف خوف ناک آدمی بھی بڑے زور سے چونکا۔ پھر اس نے غرا کر کہا۔
”اب اندر جانے کی ضرورت نہیں، یہیں ٹھہرو۔“
اُن کے اٹھتے قدم رُک گئے۔ فرزانہ بھی بوکھلا گئی۔ پھر خوف ناک آدمی کو دیکھ کر تو اس کی سٹی ہی گم ہو گئی۔ اسے احساس ہو گیا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ دوسری طرف خوف ناک آدمی جیب سے چاک نکال کر دیوار پر کچھ لکھنے لگا تھا، لیکن ایسے میں بھی اس کی نظر ان تینوں پر جمی تھی۔ وہ اسے حیرت سے دیوار پر لکھتے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا، اس نے دیوار پر صرف ایک نام لکھا تھا۔
”جیرال۔“
اچانک وہ بڑی زور سے اچھلے اور پھر سکتے کی حالت میں کھڑے رہ گئے۔
”تو۔ کیا۔ تم جیرال ہو؟“ محمود ہکلایا۔
”ہاں! معلوم ہوتا ہے تم میرے نام سے واقف ہو۔“
”بہت اچھی طرح۔ ہم نے اخبارات میں تو پڑھا ہی ہے۔ ہمارے والد نے بھی تمہارے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے۔“ فاروق نے جواب دیا۔
”پھر تو مجھ سے اچھی طرح واقف ہوگے۔ چلو یہ اور بھی اچھا ہے۔ اچھا، اب سنو۔ اپنے منہ دروازے کی طرف کر لو۔“ اس نے حکم دیا۔ تینوں مُڑ گئے۔
”اب پھر میری طرف پلٹو۔“ اس نے کہا، وہ پلٹے تو انہیں پستول نظر نہیں آیا۔
”پستول اب میرے کوٹ کی جیب میں ہے اس کی نالی کا رُخ تمہاری طرف ہے۔ میں ایک ہی فائر میں تم تینوں کو ڈھیر کر سکتا ہوں۔ یہ بات شاید تمہیں معلوم ہی ہو گی۔“
”ہاں! ہم جانتے ہیں۔“
”ہوں ٹھیک ہے۔ تمہیں اتنا کرنا ہے کہ میرے آگے آگے چلتے رہنا، جونہی تم نے کوئی حرکت کی اور میں نے تمہیں گولی ماری، لیکن جب تک تم کوئی حرکت نہیں کرو گے، میں گولی نہیں چلاﺅں گا۔ اب چلو، کہیں تمہارے والد سے بھی یہیں مقابلہ نہ کرنا پڑ جائے۔ ویسے ان سے مقابلہ تو ہو گا ہی۔ وہ تمہارے پیچھے ضرور آئیں گے۔“ اس نے ہنس کر کہا۔
”تم ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہو؟“ محمود نے پوچھا۔
”یہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا۔“ جیرال نے کہا۔
”بس اب چلو۔“
وہ دروازے سے باہر نکل کر سڑک کی طرف چلنے لگے۔ جیرال اور اس کے کارناموں سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے والد نے اس کے بارے میں انہیں بہت کچھ بتایا اور یہ بھی ہدایت کی تھی کہ اگر کبھی جیرال سے سامنا ہو جائے تو اس کی ہدایت پر عمل کرنا اور بالکل چوں چرا نہ کرنا۔ وہ جانتے تھے، جیرال ایک ایسا جاسوس ہے جس سے بڑے بڑے ملک معاوضہ دے کر کام لیتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے راز معلوم کرتے ہیں، فائلیں وغیرہ اس کے ذریعے غائب کراتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ تینوں حیران تھے اور سوچ رہے تھے، آخر جیرال ہمیں کہاں لے جا رہا ہے۔ ایک اتنے بڑے جاسوس کو ہمارے گھر آنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ پھر انہیں جیرال کا وہ جملہ یاد آیا، اس نے کہا تھا، مجھے یہاں کچھ سوچ سمجھ کر ہی بھیجا گیا ہے۔
یہ سب باتیں سوچ کر ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، پھر وہ آگے آگے چلتے ہوئے سڑک تک آگئے۔ سڑک کنارے ایک نیلے رنگ کی کار کھڑی تھی۔ پیچھے سے جیرال کی آواز آئی:
”تمہیں اس کار میں بیٹھنا ہے۔ کوئی غلط حرکت نہ کر بیٹھنا۔ اگر میرے ہاتھ سے مارے گئے تو مجھے بہت افسوس ہوگا جس طرح تم مجھ سے اچھی طرح واقف ہو، اسی طرح میں بھی تمہیں بہ خوبی جانتا ہوں۔“
”بہت خوب۔“ فاروق نے کہا۔
تینوں اپنے ذہنوں کو تیزی سے گھما رہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے نہ جانے یہ ہمیں کہاں لے جانا چاہتا ہے اور یہ کہ ان کے والد انہیں کس طرح تلاش کریں گے۔ کر بھی سکیں گے یا نہیں۔ اگر وہ تلاش نہ کر سکے تو کیا ہو گا؟ انہوں نے کچھ نہ کچھ کر ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جانتے تھے، تینوں مل کر بھی جیرال کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے کیوں کہ اس کا مقابلہ تو دس آدمی مل کر بھی نہیں کر سکتے تھے، ان کی تو حیثیت ہی کیا تھی، لیکن وہ دوسری قسم کی کوشش تو کر سکتے تھے۔ دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ کار کی طرف قدم اٹھانے لگے۔ اچانک فاروق کو ایک زوردار چھینک آئی۔ اس نے منہ ہی منہ میں کہا۔
”شاید میں نزلے کا شکار ہونے والا ہوں۔“ پھر جیب سے اپنا رومال نکال کر ناک صاف کرنے لگا۔
”تم رومال سڑک پر نہیں گراﺅ گے، میں تمہاری ان کرتبوں سے واقف ہوں۔“ پیچھے سے جیرال کی مسکراتی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی اور فاروق نے مایوس ہو کر رومال جیب میں رکھ لیا۔ عین اسی وقت محمود نے ٹھوکر کھائی۔
”ارے ارے، سنبھل کر۔“ فرزانہ نے گھبرا کر کہا اور اسے تھامنے کی کوشش میں آگے بڑھی۔
”کیا تم لوگ کوئی چال چلنے کی فکر میں ہو؟“ جیرال نے چونک کر کہا۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ چھینک کا آنا کوئی عجیب بات نہیں، نہ ہی محمود کے پاﺅں کو ٹھوکر لگنا۔“
اتنی دیر میں وہ کار تک پہنچ چکے تھے۔
”اچھا خیر، اس میں بیٹھ جاﺅ۔ تمہاری جیبوں میں کوئی ہتھیار تو نہیں۔“
”جی نہیں۔“ فاروق بولا۔
”کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں نے تمہاری تلاشی کیوں نہیں لی جب کہ میں یہ بات بھی جانتا ہوں کہ تم تینوں پروفیسر داﺅد کے بنائے ہوئے کھلونے نما ہتھیار اپنی جیبوں میں رکھتے ہو۔“
”اس لیے کہ ہم اسکول سے آئے تھے۔ ہتھیار ہم کسی مہم پر جاتے وقت ساتھ لیتے ہیں۔“ فرزانہ بولی۔
”بہت خوب، تم واقعی بہت عقل مند ہو۔ میں نے بھی یہی سوچ کر تمہاری تلاشی نہیں لی تھی۔“ جیرال نے مسکرا کر کہا۔
پھر اس نے دونوں طرف کے دروازے بند کرتے ہوئے انہیں لاک کر دیا۔
” میں ایک ہاتھ سے کار چلانے میں ماہر خیال کیا جاتا ہوں اور صرف ایک ہاتھ سے تم تینوں سے نمٹ سکتا ہوں۔ اس لیے ایک بار پھر بتاتا چلوں، کوئی حرکت نہ کر بیٹھنا، پھر میں کوئی لحاظ نہیں کروں گا۔“
”اچھی بات ہے، ہم کوئی غلط حرکت نہیں کریں گے۔“ فاروق نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میں نے تمہاری بہت تعریفیں سنی ہیں۔ یہ بھی سُن رکھا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، تم چہکتے رہتے ہو۔“
”ہم پرندے نہیں، انسان ہیں۔“ فاروق مسکرایا۔
”بہت خوب۔“ اس نے کار سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
”میں تم تینوں کی نوک جھونک اپنے کانوں سے سُن کر لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ تم پر میرا رعب اس حد تک طاری ہو چکا ہے کہ شاید ہی تم کار میں کوئی بات کر سکو۔“
”نہیں خیر، ایسی تو کوئی بات نہیں۔“ محمود بولا۔
”ویسے فرزانہ، کیا تم نے اپنے والد کو خطرے کی اطلاع دے دی تھی؟“ جیرال نے اس طرح پوچھا جیسے وہ مدتوں ان کے ساتھ رہا ہو۔“
”ہاں! میں فون کر کے ہی اپنے دروازے پر آئی تھی۔“
”انہوں نے کیا کہا تھا؟“
”انہوں نے کہا تھا وہ فوراً پہنچ رہے ہیں، فکر نہ کرنا۔“
”ویسے میں تمہیں ایک خاص بات بتانا چاہتا ہوں۔“ جیرال عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”وہ کیا؟“ انہوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
”وہ یہ کہ میں ذاتی طور پر انسپکٹر جمشید کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس لحاظ سے تم تینوں کو بھی پسند کرتا ہوں۔“
”بہت بہت شکریہ جناب! آپ پہلے مجرم ہیں جن کی زبان سے ہم اس قسم کے الفاظ سن رہے ہیں۔“ محمود نے خوش ہو کر کہا۔
”میں اور قسم کا مجرم ہوں۔“ وہ مسکرایا۔
”ویسے آپ نے اب تک یہ نہیں بتایا، ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں؟“ فاروق نے سوال کیا۔
”ابھی نہیں، کچھ دیر بعد بتاﺅں گا۔“ اس نے کہا۔
”اب تو ہم کار میں بیٹھ بھی چکے ہیں۔ اب ہم کسی کو خبردار تو کر نہیں سکیں گے۔“ محمود نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔
سامنے سے آنے والی کاروں میں اچانک اُسے اپنے ایک دوست کے والد بیٹھے نظر آئے تھے۔ اس نے سوچا کاش! دوست کے والد انہیں کار میں بیٹھا دیکھ لیں۔
”دشمن کو کبھی کم زور نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ میرا بہت پرانا اصول ہے۔“ اس نے کہا۔
”اچھا نہ بتائیں لیکن ایک بات میں بھی آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں۔“ فاروق نے پُراسرار لہجے میں کہا۔
”وہ کیا؟“
”ہمارے والد ہمارے پیچھے آئیں گے ضرور۔“
”کیا تم کوئی سراغ چھوڑ آئے ہو۔ میں نے پوری طرح دھیان دیا تھا کہ تم ایسا نہ کرو۔ اسی لیے جب تم چھینکے تھے اور محمود لڑکھڑایا تو میں ہوشیار ہو گیا تھا، لیکن مجھے سڑک کنارے ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جس سے تمہارے والد یہ اندازہ لگا سکیں کہ تم اس جگہ سے کار میں بیٹھ کر روانہ ہوئے ہو۔“
”کچھ بھی ہو، وہ آئیں گے ضرور۔“ اس نے پختہ یقین سے کہا۔ جیرال نے اس کے الفاظ پر پچھلا منظر دکھانے والے آئینے میں اس کی طرف گھور کر دیکھا اور بولا۔
”کوئی بات نہیں، ایک عرصے سے میری خواہش بھی تھی، کہ ان سے میرا مقابلہ ہو۔“
”کار پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ آبادی اب بہت پیچھے رہ گئی تھی اور سڑک کے دونوں طرف درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید ریسیور ہاتھ سے رکھتے ہی اچھل کر کھڑے ہو گئے اور اکرام سے بولے:
”اکرام، میرے ساتھ چلو۔“
یہ کہہ کر وہ دفتر سے باہر نکل آئے اور اپنی موٹرسائیکل کی طرف لپکے۔ اکرام بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا ان کے پیچھے بیٹھ گیا۔ دوسرے ہی لمحے موٹرسائیکل پوری رفتار سے اڑی جا رہی تھی۔
”خیریت تو ہے جناب؟“
”نہیں۔ فرزانہ نے خبر سنائی ہے کہ گھر کے اندر کوئی گڑبڑ ہے۔ محمود اور فاروق اندر جا چکے ہیں۔ وہ فون کرنے بیگم شیرازی کے ہاں چلی آئی ہے۔ اب وہ بھی گھر میں جا چکی ہو گی۔“
”کیسی گڑبڑ، کیا اس نے بتایا نہیں؟“
”نہیں کچھ بتانے کا وقت ہی کہاں ہو گا۔“
”بچے آج اسکول نہیں گئے؟“ اکرام نے حیران ہو کر پوچھا۔
”جب میں گھر سے چلا تھا تو اسکول جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ اب خدا جانے وہ اسکول گئے تھے یا نہیں۔“ انہوں نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔
”خدا خیر ہی کرے۔“ اکرام کے منہ سے نکلا۔
آندھی اور طوفان کی طرح موٹرسائیکل چلاتے وہ گھر کے دروازے تک پہنچ گئے۔ ساتھ ہی ان پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
”ارے! یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ دروازہ تو کھلا پڑا ہے۔“ انہوں نے موٹرسائیکل سے اترتے ہوئے کہا۔
”اس کا مطلب ہے، اندر کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔“ اکرام بولا۔
”غلط سمجھے، اندر زبردست گڑبڑ ہوئی ہے۔“ انہوں نے گھبرا کر کہا اور پھر دوڑتے ہوئے اندر گھس گئے۔ اکرام ان کے پیچھے دوڑا۔ صحن میں انہیں کچھ بھی نظر نہ آیا۔ سارا مکان بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ وہ باورچی خانے کی طرف لپکے۔ یہ بھی خالی تھا، البتہ اندر بے ترتیبی کا عالم تھا۔ لمحہ بہ لمحہ ان کی حیرت اور خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ آخر وہ سونے والے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر دھک سے رہ گئے۔ اُن کی بیگم رسیوں سے بندھی فرش پر بے ہوش پڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ جلدی جلدی انہوں نے ان کی رسیاں کھولیں۔ انہیں اٹھا کر چارپائی پر ڈالا۔ منہ میں سے رومال نکالا۔ اتنے میں اکرام ایک گلاس میں پانی لے آیا۔ انہوں نے بیگم کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے، تب کہیں جا کر ان کی آنکھوں کے پپوٹے حرکت میں آئے۔ انہوں نے نیم بے ہوشی کے عالم میں آنکھیں جھپک جھپک کر انہیں دیکھا، پھر چونک اٹھیں اور چلائیں۔“
”وہ۔ وہ۔ میرے بچوں کو لے گیا۔“
”کیا کہا؟ کون بچوں کو لے گیا؟“ انسپکٹر جمشید نے بوکھلا کر پوچھا۔
”میں نہیں جانتی، وہ کون تھا۔ ہاں وہ بہت خوف ناک شکل صورت کا آدمی تھا، لمبا تڑنگا۔“
”گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تفصیل سے بتاﺅ۔ وہ میرے ہاتھ سے بچ کر نہیں جا سکے گا۔“
اور بیگم جمشید نے تفصیل سے انہیں ساری بات بتا دی۔ چند لمحے تک وہ کھڑے سوچتے رہے، پھر بولے:
”لیکن اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان تینوں کو لے گیا ہے۔“
”محمود اور فاروق اندر آچکے تھے۔ اس وقت میں ہوش میں تھی، پھر گھنٹی ایک بار پھر بجی تھی۔ اس نے کہا تھا، یہ ضرور تمہاری بہن ہو گی۔ اس پر محمود نے یا فاروق نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے۔ اس سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ فرزانہ ہی ہو گی۔ پھر وہ تینوں دروازے پر چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔“
”ہوں۔ خیر، تم آرام کرو۔ اگر اٹھ سکو تو بیگم شیرازی کے ہاں جا کر ڈاکٹر کو بلا لو۔ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ نہ جانے وہ کون تھا اور تینوں کو کہاں لے گیا ہے۔ آﺅ اکرام ہم چلیں۔“ انہوں نے صحن کی طرف مُڑتے ہوئے کہا۔
”جلدی جائیے، میری فکر نہ کریں۔“ بیگم جمشید بولیں۔
وہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے دروازے تک آئے اور پھر ٹھٹک کر رُک گئے۔ انسپکٹر جمشید کی نظریں دیوار پر چاک سے لکھے ایک نام پر جم کر رہ گئیں۔
٭….٭….٭
ان کا سفر دو گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر کار ایک طرف مُڑتی نظر آئی۔ انہوں نے دیکھا، وہ ساحل سمندر پر پہنچ چکے تھے۔ دُور دُور تک انہیں کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ البتہ ایک طرف سمندر میں ایک موٹربوٹ کھڑی ہلکورے لے رہی تھی۔ یہ ایک غیرآباد ساحل تھا۔
”نیچے اُتر آﺅ۔“ جیرال نے سرد آواز میں کہا۔ اس سے پہلے وہ اس کی آواز میں جو دوستانہ گرمی محسوس کرتے رہے تھے، ایک دم غائب ہو گئی تھی۔ انہوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، اب اس کے چہرے پر وحشت اور درندگی کا راج تھا۔
”گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ، یہ تم یکا یک بدل کیوں گئے؟“ فاروق نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”تم سے نرم گرم گفتگو اس لیے کرتا رہا کہ کہیں تم کار میں کوئی حرکت نہ کر بیٹھو۔ جب کہ تمہیں بخیروعافیت یہاں تک پہنچانے کا معاہدہ ہوا تھا۔“ اس نے کہا۔
”یہ معاہدہ کس کے ساتھ ہوا؟“ محمود نے پوچھا۔
”یہ ایسے راز ہیں جو بچوں کو بتائے نہیں جاتے۔“ اس نے طنزیہ انداز میں مسکرا کر کہا۔
”چلو خیر۔ ہمارے والد کو بتا دینا۔“ فاروق مسکرایا۔
”اُن کے تو فرشتے بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔“ اس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”کچھ دیر پہلے تو تم کہہ رہے تھے کہ اُن سے مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہو۔“ فرزانہ نے جل بھن کر کہا۔
”بالکل ہوں، لیکن مجھے ایک فیصد بھی امید نہیں کہ وہ یہاں پہنچ سکیں گے۔“
”دیکھا جائے گا۔“
وہ کار سے اُتر ے اور اب موٹربوٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جیرال نے اب پھر پستول ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔ اچانک پانی کی ایک تیز لہر آئی اور ان کی پنڈلیوں کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔
”ارے میری چپل نکل گئی۔“ فاروق چلایا۔
”پروا نہ کرو۔ موٹربوٹ میں ننگے پاﺅں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔“ جیرال ہنسا۔
”لیکن میرے والد کو تو دوسری چپل خریدنی پڑے گی۔“
”بھول جاﺅ انہیں۔“
”کیا کہا؟ اپنے والد کو بھول جاﺅ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی اس طرح بھی اپنے ماں باپ کو بھولا کرتا ہے۔ یا تمہاری طرف ایسا ہی ہوتا ہے۔“
فاروق نے جل بھن کر کہا۔
”اچھا بھائی نہ بھولو۔ ذرا تیز تیز چلو۔“ اس نے دوستانہ لہجے میں کہا۔
”تم میری سمجھ میں نہیں آئے۔ کبھی دوست نظر آتے ہو، کبھی دشمن۔“ محمود بولا۔
”میں تو بڑے بڑوں کی سمجھ میں نہیں آیا، تم کیا سمجھو گے؟“
پانی کی لہر جب واپس گئی تو انہوں نے دیکھا، فاروق کے صرف ایک پیر میں چپل تھی۔
”اسے بھی اتار پھینکو۔ یوں اچھے نہیںلگ رہے۔“ فرزانہ نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”اچھا، یہ لو۔“ فاروق نے کہا اور دوسری چپل بھی اچھال دی۔ وہ ریت میں گری۔
چاروں آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ موٹربوٹ تک پہنچ گئے۔ اب انہوں نے دیکھا، یہ ایک بہت بڑی اور جدید قسم کی موٹربوٹ تھی۔ اس میں باقاعدہ کمرے بنے تھے۔
جیرال نے کہا:
”کیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو۔ یہ صرف موٹربوٹ ہی نہیں۔ ضرورت پڑنے پر آبدوز میں بھی تبدیل کی جا سکتی ہے اور گھنٹوں پانی کے نیچے سفر کر سکتی ہے۔“
”اوہ۔“ ان کے منہ سے نکلا۔
”ہیلو جارج۔ ہم آگئے ہیں۔“ جیرال نے چلا کر کہا۔
فوراً ہی موٹربوٹ میں ایک کھڑکی سی نمودار ہوئی اور پھر غائب ہو گئی۔ اس کے بعد موٹر بوٹ چل پڑی ہے۔ نامعلوم منزل کی طرف۔
”ہماری آواز اس کمرے سے باہر نہیں جا سکے گی کیوں یہ موٹربوٹ آبدوز بھی ہے۔ اس لیے تم بے خطربات چیت کر سکتے ہو۔“ محمود نے انہیں بتایا۔
”خطر کیا اور بے خطر کیا۔ یہاں بات چیت کرنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”کیا تم مایوس ہو گئی ہو؟“ محمود نے کہا۔
”نہیں، مایوسی گناہ ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”تو پھر خدا کی ذات پر یقین رکھو۔ ابا جان ضرور آئیں گے۔“ فاروق بولا۔
”آخر تمہیں اس قدر یقین کیوں ہے؟“ فرزانہ نے پوچھا۔
”اس لیے کہ ابا جان جیرال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ اس کے کام کرنے کے طریقوں سے بھی واقف ہیں۔ پھر بھلا وہ کیوں نہ آئیں گے؟“
”لیکن اب تو ہم سمندر میں ہیں اور پھر یہ شہر کا وہ ساحل بھی تو نہیں، جہاں سے موٹربوٹیں اور آبدوزیں چلتی ہیں۔“ فرزانہ بولی۔
تو پھر کیوں نہ ہم خود ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کریں۔ اس وقت تو ہم تنہا ہیں۔“ محمود نے کہا۔
”لیکن ہم اس بند کمرے میں دشمنوں کے خلاف کیا کر سکتے ہیں۔ پہلے ایک جیرال ہی کیا کم تھا کہ یہ جارج بھی شامل ہو گیا۔“ فاروق کے لہجے میں ناامیدی تھی۔
”ہمت نہ ہارو۔ حوصلہ رکھو اور دماغ پر زور دو۔“ محمود نے انہیں دلاسا دیا۔
”کیوں نہ ہم یہ دروازہ کھولنے کی کوشش کریں۔“ اچانک فرزانہ نے کہا اور دونوں چونک اُٹھے۔
”بالکل ٹھیک۔ “ محمود بولا۔
تینوں ایک ساتھ دروازے کی طرف بڑھے۔
٭….٭….٭
”اُف خدا، تو یہاں جیرال آیا تھا۔“ ان کے منہ سے نکلا۔
”دیوار پر نام لکھ کر جانے کا تو یہی مطلب ہو سکتا ہے۔“ اکرام نے بوکھلا کر کہا۔
”تو وہ تینوں بچوں کو اغوا کر کے لے گیا ہے، لیکن کیوں؟ اس نے ایسا کیوں کیا۔“ انسپکٹر جمشید نے پیشانی پکڑ کر کہا۔
”جیرال ہمیشہ بڑے بڑے ملکوں کے لیے معاوضے پر کام کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے، کسی نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہو۔“
”آﺅ اکرام! جلدی کرو۔ کہیں وہ دُور نہ نکل جائے۔“ انسپکٹر جمشید بوکھلا کر بولے۔
دونوں تیزی سے باہر نکلے اور موٹرسائیکل پر بیٹھ کر سڑک کنارے پر آئے، یہاں آکر انہوں نے موٹرسائیکل روک لی۔
”ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ وہ کوئی نشانی تو نہیں چھوڑ گئے۔“ وہ بولے۔
”جیرال نے انہیں اس کا کب موقع دیا ہو گا۔“ اکرام نے کہا۔
”ہاں! وہ بہت چالاک ہے، مگر بچے بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی سی کوشش ضرور کی ہو گی۔“
یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ غور سے جائزہ لینے لگے۔ اکرام محسوس کر رہا تھا کہ وہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ دفعتاً انسپکٹر جمشید چونکے۔
”دیکھو اکرام، اگرچہ لوگ سڑک پر آجا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ آثار چھوڑ گئے ہیں۔“ انہوں نے فٹ پاتھ کے ساتھ سڑک پر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔“
”اوہ! تم میں غور سے دیکھنے کی عادت نہ جانے کب پیدا ہو گی۔“ پاﺅڈر کے ان ذروں کو غور سے دیکھو۔ کیوں کیا نظر آئے؟“
”لیکن پاﺅڈر۔ بھلا اس سے کیا بات ثابت ہوتی ہے۔“ اکرام نے حیران ہو کر پوچھا۔
”تم نہیں جانتے۔“ انسپکٹر جمشید پہلی مرتبہ مسکرائے۔ فاروق کی ایک عادت ہے۔ اپنے رومال میں تھوڑا سا پاﺅڈر ضرور چھڑک کر رکھتا ہے۔ اس نے ضرور کسی بہانے سے رومال جیب سے نکالا ہو گا اور رومال یہاں جھٹک دیا ہو گا۔ اس سے کم از کم یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سے وہ کسی کار یا جیپ میں سوار ہو کر لے جائے گئے ہیں۔“
”لیکن اس سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کار کس طرف گئی ہے۔“ اکرام نے کہا۔
”فاروق اپنے حصے کا کام کر چکا تھا۔ محمود اور فرزانہ اس کی چال سمجھ گئے تھے۔ اگلا قدم ان دونوں نے اٹھایا۔“ انسپکٹر جمشید سڑک کو بہ غور دیکھتے ہوئے بولے۔
”کیا مطلب؟“ اکرام بڑے زور سے چونکا۔
”مطلب یہ کہ اس کے بعد محمود نے چلتے چلتے اچانک ٹھوکر کھائی ا ور فرزانہ اسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھی اور اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ اس طرف گئے ہیں۔“ انہوں نے ایک سمت میں کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن یہ کس بات سے ثابت ہو رہا ہے۔“ اکرام نے حیران ہو کر کہا۔
”لڑکھڑانے کے نشانات جو پاﺅڈر کے ذرّات کی وجہ سے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ آﺅ اب دیر نہ کرو، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ موٹرسائیکل پر سوار ہو گئے۔ اکرام پھر ان کے پیچھے بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر موٹرسائیکل طوفانی رفتار سے جا رہی تھی۔ اس کا رُخ اب جس سڑک کی طرف تھا، وہ آگے جا کر دو طرف مُڑ جاتی تھی، لیکن انسپکٹر جمشید رُکے بغیر ایک سڑک پر مُڑ گئے۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ ساحل سمندر پر پہنچ چکے تھے۔
ساحل پر بہت سی موٹربوٹیں اور آبدوزیں کھڑی تھیں۔ لوگ انہیں کرائے پر لے کر سیر کرتے تھے۔ دونوں اترے اور ایک موٹربوٹ کی طرف بڑھے اس کا مالک لپک کر ان کی طرف آیا۔ یہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔
”موٹربوٹ چاہیے جناب؟“ اس نے کہا۔
”ہاں! چاہیے تو، لیکن پہلے یہ بتاﺅ، ابھی ابھی چند منٹ پہلے ایک کار میں تین بچے اور خوفناک سی صورت والا آدمی یہاں آئے تھے۔ وہ موٹربوٹ میں بیٹھ کر کس طرف گئے ہیں؟“
”ایک خوف ناک آدمی اور تین بچے….“ اس نے پیشانی پر انگلی رکھ کر کہا۔
”ہاں! بچوں میں ایک لڑکی اور دو لڑکے تھے۔“
”جی نہیں! میں بہت دیر سے یہاں موجود ہوں۔ ایسی کوئی کار یہاں نہیں آئی۔“ اس نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا، تمہارے خیال میں کوئی اور ایسا ساحل ہے، جہاں سے موٹربوٹیں چلتی ہوں۔“
”صرف یہیں سے چلتی ہیں۔“ اس نے جواب دیا۔
”اگر کوئی جرائم پیشہ آدمی کسی کو سمندر کے راستے اغوا کرنا چاہے تو وہ کہاں سے لے کر جائے گا۔ بڑے میاں اس سوال کا جواب خوب سوچ کر دو۔ میں تمہاری موٹربوٹ کرائے پر بھی لوں گا اور کرایہ بھی منہ مانگا دوں گا۔“
”اس کی ضرورت نہیں، دوسروں کی مدد کرنا میری عادت ہے۔ اگر آپ بوٹ کرائے پر لیں گے تو میں وہی کرایہ لوں گا جو بنے گا۔ نہ لیں گے تب بھی وہ باتیںآپ کو ضرور بتاﺅں گا جو مجھے معلوم ہیں۔ یہاں سے چند میل دُور ایک چھوٹاسا غیرآباد ساحل ہے۔ دو ایک بار میں نے وہاں ایک بڑی سی نئی قسم کی موٹربوٹ کھڑی دیکھی ہے۔“
”اوہ۔“ انسپکٹر جمشید پر جوش انداز میں بولے:
”تو پھر بڑے میاں، اس طرف لے چلو، لیکن ٹھہرو پہلے میں موٹرسائیکل ایک طرف کھڑی کر دوں۔“
موٹرسائیکل سٹینڈ پر رکھ کر وہ موٹربوٹ میں سوار ہو گئے۔
”اب جس قدر تیز چل سکتے ہو چلو۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”اس ساحل کی طرف؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں ۔“
بوڑھے نے موٹربوٹ گھمائی اور پوری رفتار پر چھوڑ دی۔ وہ کافی ماہر معلوم ہوتا تھا۔ پانی کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس لیے انہیں اونچی آواز میں بات کرنا پڑ رہی تھی۔
”چکر کیا ہے؟“ بوڑھے نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
کچھ غیر ملکی تین بچوں کو اغوا کر لے گئے ہیں۔“
”اوہ! یہ تو بہت بھیانک جرم ہے۔“ اس نے کانپ کر کہا۔
”ہاں۔ اور تم اس معاملے میں ہماری مدد کر رہے ہو۔ یہ بہت بڑی نیکی اور ملک اور قوم کی خدمت ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے اس کی تعریف کی۔
”شکریہ جناب، یہ تو میرا فرض ہے۔“
تقریباً پانچ منٹ بعد وہ اس ساحل پر پہنچ گئے لیکن یہاں دُور دُور تک کوئی نہ تھا۔
”کنارے پر روک لو۔ ہم ذرا اُتر کر جائز ہ لیں گے۔“
”اچھا!“
انسپکٹر جمشید اور اکرام موٹربوٹ سے کود کر اُترے اور ریت پر چلتے ہوئے خشکی کی طرف بڑھنے لگے۔ کچھ دُور چل کر انہیں ایک نیلی کار نظر آئی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔
”وہ اسی کار پر لائے گئے ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے پُرجوش انداز میں کہا۔
”کار میں سے مخصوص خوشبو آرہی ہے۔ یہ محمود استعمال کرتا ہے۔“ وہ مسکرائے۔ پھر واپس مڑ کر ریت پر نظریں دوڑانے لگے۔ اچانک وہ چلائے۔
”ارے، وہ چپل اٹھانا۔
چپل انہیں بوڑھے کے قریب نظر آیا تھا جو ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے چپل اٹھا لیا اور ان کی طرف بڑھا۔ چپل کو نزدیک سے دیکھتے ہی انسپکٹر جمشید کانپتی ہوئی آواز میں بولے:
”یہ چپل فاروق کا ہے۔“
”کیا آپ کو یقین ہے۔“ اکرام کے منہ سے نکلا۔
”بالکل مجھے سو فیصد یقین ہے۔“ انہوں نے کہا اور بوڑھے کی طرف مُڑے۔
”کیا یہاں آس پاس کوئی جزیرہ موجود ہے؟“
”جزیرہ۔ جزیرے تو کئی ہیں۔“
”تو پھر چلو۔ وہ لوگ ضرور بچوں کو کسی جزیرے پر لے گئے ہیں۔“
”آئیے میں آپ کو نزدیک ترین جزیرے پر لے چلوں۔“ بوڑھا بولا۔
وہ ایک بار پھر موٹربوٹ میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔
٭….٭….٭
دروازہ کھولنے کی انہوں نے لاکھ کوشش کی، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ ان کے پاس چابیوں کا گچھا تو تھا نہیں کہ اس کو آزماتے، نہ ہی کوئی کیل وغیرہ تھی۔ آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
”جو ہو گا دیکھا جائے گا۔“ محمود نے ہانپتے ہوئے کہا۔
”اور کیا۔ دروازہ کھول کر بھی ہم کیا کر لیں گے؟ کیا سمندر میں تیر کر کنارے تک پہنچیں گے۔“ فاروق نے جھلا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے۔ آرام کرو۔“
تینوں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جلد ہی ان کے کمرے کا دروازہ کھلا اور جیرال کی شکل دکھائی دی۔
”باہر آجاﺅ۔ اندر بیٹھے بیٹھے اُکتا گئے ہو گے۔“
”بہت خیال ہے تمہیں ہمارا؟“ فاروق نے جل کر کہا۔
”اگر خیال نہ ہوتا، تو صحیح سلامت یہاں تک نہ آسکتے۔“
”اب کیا ارادہ ہے؟“ محمود نے پوچھا۔
”یہاں ایک بہت پُرفضا جزیرہ ہے، ذرا تمہیں اس کی سیر کرائیں گے، پھر آگے چلیں گے۔“ جیرال نے وحشیوں کی طرح ہنس کر کہا۔
”اچھی بات ہے۔“ انہوں نے کہا اور باہر نکل آئے۔ یہاں جارج تنہا کھڑا تھا۔
”چلو! نیچے اترو۔“ اس نے غرا کر کہا۔
جزیرہ واقعی پرفضا تھا۔ درخت بہت لمبے لمبے، گھنے اور سرسبز تھے۔ کئی درختوں پر انہوں نے پھل لدے دیکھے۔ ان میں بعض پھل ایسے بھی تھے جو انہوں نے آج تک نہیں دیکھے تھے۔
”اس جزیرے پر اس وقت ہماری حکومت ہے۔“ جیرال نے ہنس کر کہا۔
”اچھا۔ پھر کیا ارادہ ہے؟“
”وقت آگیا ہے کہ تمہیں سب کچھ بتا دیا جائے۔ بس چند منٹ ٹھہرو۔“
جزیرے کی زمین ریتلی تھی۔ کہیں کہیں گھاس بھی اُگی ہوئی تھی۔ جزیرے کے بیچوں بیچ پہنچ کر وہ ٹھٹک کر رُک گئے۔ یہاں تین غیرملکی آرام کرسیوں پر بیٹھے سگار پی رہے تھے۔ ان کے سامنے میز پر گلاس اور مشروب کی بوتل رکھی تھی۔ وہ بھی انہیں دیکھ کر سیدھے ہو گئے۔
”بہت خوب جیرال۔ تو تم انہیں لے ہی آئے۔“ ان میں سے ایک نے خوش ہو کر کہا۔
”انہیں لانا بھی کوئی مشکل کام تھا ماسٹر۔“ جیرال نے مسکرا کر جواب دیا۔
”مزہ تو تب ہے، جب ان کا باپ بھی ان کے پیچھے بھاگا چلا آئے۔“ اسی آدمی نے کہا جسے جیرال نے ماسٹر کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
”وہ بھی آئے گا ماسٹر۔ وہ بہت چالاک ہے، لیکن ہمارے جال سے بچ نہیں سکتا۔ اپنے تین بچوں کے لیے اسے آنا ہی پڑے گا اور اگر نہیں آئے گا تب بھی جیت ہماری ہی ہو گی۔ کیا بچوں کا گم ہو جانا اُسے زندہ درگور نہیں کر دے گا۔ پھر کس کام کا رہ جائے گا۔ ان بچوں کو بھی خوب چکر دے کر یہاں تک لایا ہوں۔ میں نے انہیں احساس دلا دیا تھا کہ یہ ایک دوست کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔“
”بہت خوب جیرال! تمہارا جواب نہیں۔ بڑی بڑی حکومتیں تم سے یونہی تو کام نہیں لیتیں، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر انسپکٹر جمشید کس طرح یہاں پہنچے گا۔ ظاہر ہے کہ تم نے انہیں راستے میں کوئی آثار چھوڑنے نہیں دیے ہوں گے۔“
”میں نے دہری چال چلی ہے۔ ایک طرف تو انہیں کوئی نشانی کسی جگہ پر گرانے کی اجازت نہیں دی، دوسری طرف میں ان کے گھر کی دیوار پر چاک سے جیرال لکھ آیا ہوں۔“
محمود، فاروق اور فرزانہ یہ گفتگو سن سن کر حیران ہو رہے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ دراصل ان لوگوں نے ان کے والد پر قابو پانے کا ایک خوف ناک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کو بنانے والا جیرال تھا۔ سب کچھ اس کی ہدایت کے مطابق ہو رہا تھا۔ اگرچہ اغوا کرانے والے اور تھے۔ نہ جانے ماسٹر اور اس کے ساتھی کس ملک سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں انسپکٹر جمشید سے کیا دشمنی تھی؟ انہوں نے چاروں طرف دیکھا، ان پانچ دشمنوں کے سوا انہیں دُور دُور کوئی نظر نہ آیا۔ یہ جزیرہ غیرآباد تھا۔ یوں بھی شہر سے بہت دُور تھا۔ کوئی سیروتفریح کرنے والا گروپ بھی اِدھر مشکل سے ہی آتا ہو گا۔
اس سے پہلے وہ یہ دعا کرتے رہے تھے کہ ان کے والد انہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن اب وہ یہ دُعا کر رہے تھے، یا اللہ ہمارے والد ہم تک نہ پہنچیں۔
٭….٭….٭
نزدیک ترین جزیرے میں انہیں لوگوں کے چند گروہ پکنک مناتے نظر آئے۔ وہ جان گئے کہ کم از کم محمود فاروق اور فرزانہ کو اس جزیرے پر نہیں لایا گیا۔ بوڑھا بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا۔
”کوئی بات نہیں۔ یہاں اور بھی بہت سے جزیرے ہیں۔ آئیے ہم ان پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔“
جزیروں کی تلاش میں انہیں ایک گھنٹہ لگ گیا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انسپکٹر جمشید بولے۔
”بڑے میاں! کیا تم کسی ایسے جزیرے سے واقف نہیں جو یہاں سے بہت فاصلے پر ہو اور غیرآباد بھی ہو۔“
یہ سن کر بوڑھا سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔
”جی ہاں! ایک جزیرہ ایسا ہے تو سہی، لیکن وہ بہت دُور ہے۔
”کیا وہاں تک لوگ سیر کرنے جاتے ہیں۔“
”جی نہیں۔“ اس نے کہا۔
”تو پھر وہیں چلو۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”اچھا صاحب۔“
ایک بار پھر وہ موٹربوٹ میں روانہ ہوئے۔ انسپکٹر جمشید کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر اس غیرآباد جزیرے پر بھی بچے نہ ملے، تو وہ کیا کریں گے، کہاں جائیں گے۔ اکرام بھی خاموش تھا۔ بھاگ دوڑنے یوں بھی انہیں بُری طرح تھکا دیا تھا۔ آخر آدھ گھنٹے تک تیز رفتاری سے سفر کرنے کے بعد وہ جزیرہ انہیں دکھائی دینے لگا۔ انسپکٹر جمشید نے دُور سے دیکھا، ایک بڑی سی موٹربوٹ اس کے کنارے کھڑی تھی۔
”کیا یہ وہی موٹربوٹ ہے جو تم نے اس غیرآباد ساحل پر کئی بار کھڑی دیکھی ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
”جی ہاں! وہی لگتی ہے۔“
”ٹھیک ہے، ہم اس جزیرے پر اتریں گے۔“ وہ بولے۔
بوڑھے نے موٹربوٹ کنارے کے ساتھ لگاتے ہوئے روک لی۔
”کیا میں بھی آپ کے ساتھ آﺅں؟“ اس نے پوچھا۔
”نہیں بڑے میاں، ہماری وجہ سے تم پر کوئی مصیبت کیوں آئے، تم یہیں ٹھہر کر ہمارا انتظار کرو۔ اگر ہم دو گھنٹے تک واپس نہ آئیں تو تم پولیس کو اطلاع دے دینا اور یہ اپنا کرایہ بھی رکھ لو۔“ یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید نے جیب سے سو سو روپے کے دو نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
”ابھی رہنے دیں، ابھی تو آپ کو واپس بھی چلنا ہے۔ بعد میں لے لیں گے۔ آپ فکر نہ کریں، میں یہاں پورے دو گھنٹے تک انتظار کروں گا۔ اگر آپ کی واپسی نہ ہوئی تو پولیس کو خبر کر دوں گا۔“
”تمہارا بہت بہت شکریہ بڑے میاں، تم بہت اچھے آدمی ہو۔“
انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا اور موٹربوٹ سے جزیرے پر اُتر گئے۔ اکرام ان کے پیچھے تھا۔
وہ جزیرے کے درمیانی حصے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ پھر انسپکٹر جمشید دبی آواز میں بولے:
”اکرام! وہ بچوں کو اسی جزیرے پر لائے ہیں۔ اگرچہ زمین ریتلی ہے، لیکن کہیں کہیں ان کے قدموں کے نشان موجود ہیں۔ محمود اور فرزانہ کے پیروں میں چپل موجود ہیں جب کہ فاروق ننگے پاﺅں ہے۔ اس نے تو اپنے چپل ہمیں راستہ دکھانے کے لیے ساحل کی ریت پر ہی چھوڑ دیے تھے۔“
”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ پیروں کے نشانات کہیں کہیں مجھے بھی دکھائی دیے ہیں۔“
”اور یہ بھی بتا دوں۔ انہیں یہاں تک صرف دو آدمی لے کر آئے ہیں۔“
ان میں سے ایک یقینا جیرال ہے، دوسرا کوئی اور ہو گا۔“ انہوں نے آگے بڑھتے اور زمین کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اب ہم کیا کریں۔ کیا اپنے پستول نکال لیں؟“ اکرام نے پوچھا۔
”اس کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے پورا انتظام کر رکھا ہو گا۔ تم جیرال کو کیا سمجھتے ہو۔ وہ بہترین منصوبے بنانے کا بہت بڑا ماہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی حکومتیں اس سے کام لیتی ہیں اور….“
انسپکٹر جمشید کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ وہ عجیب سے انداز میں مسکرائے تھے۔
”اور کیا؟“ اکرام نے پوچھا۔
”اور یہ کہ میرا خیال ہے، ہم جال میں پھنس گئے ہیں۔“
انہوں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی کیا مطلب؟“ اکرام بُری طرح چونکا۔
”ہاں اکرام! دشمن کی چال میری سمجھ میں چند لمحے پہلے آئی ہے۔ انہوں نے بچوں کو جیرال کے ذریعے اغوا کرنے کا پروگرام صرف اس لیے بنایا ہے کہ میں ان کو تلاش کرتا ہوا ان تک پہنچ جاﺅں گا۔ جیرال کے نام کے ساتھ ہی سمندر ذہن میں آتا ہے کیوں کہ عام طور پر یہ سمندروں میں سفر کرتا ہے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ میں سمندر کی طرف بھاگا آﺅں گا اور پھر کوئی موٹربوٹ والا مجھے اس جزیرے تک پہنچا دے گا۔“
”اوہ۔“ اکرام کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
”یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ساری سکیم جیرال کی ہو اور اس سے کام لینے والے صرف تماشائی کی حیثیت سے موجود ہوں۔“
”کیا یہ جزیرہ ہماری حکومت میں شامل نہیں۔“ اکرام نے پوچھا۔
”ضرور شامل ہے، لیکن غیرآباد ہے۔ ہم یہاں مدد کے لیے کسی کو کیسے بلا سکتے ہیں؟“ انہوں نے بتایا۔
”تو کیا ہم پھنس چکے ہیں۔“
”شاید۔ یہ تو آگے چل کر ہی معلوم ہو گا۔“
پھر وہ جزیرے کے بیچوں بیچ پہنچ گئے۔ یہاں کچھ درختوں کے نیچے ایک کرسی کے گرد پانچ کرسیاں پڑی تھیں، لیکن ان کے پاس کوئی نہ تھا۔ انہوں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز میں چلائے۔
”محمود! تم کہاں ہو؟“
انہیں اپنی آواز کی گونج سنائی دی، مگر بچوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ دوبارہ انہوں نے اپنے حلق سے پھر آواز نکالی، لیکن کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔
”ہو سکتا ہے، وہ یہاں نہ لائے گئے ہوں۔“ اکرام نے مایوس ہو کر کہا۔
”نہیں میرا دل کہہ رہا ہے کہ وہ یہیں کہیں موجود ہیں۔ دشمنوں نے انہیں حلق سے آواز نہ نکالنے کی ہدایت کر رکھی ہو گی۔“ انہوں نے کہا۔ پھر اچانک وہ چونک اُٹھے۔ ایک آواز ان سے مخاطب تھی۔
”خوش آمدید انسپکٹر، ہمیں تمہارا ہی انتظار تھا۔“
٭….٭….٭
بیگم جمشید کے اوسان بحال ہوئے تو وہ اٹھ کر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیگم شیرازی کے گھر پہنچیں۔ انہیں سارے واقعات تفصیل سے بتائے تو وہ دھک سے رہ گئیں۔ پھر بیگم جمشید نے خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد کو فون کیے۔
تھوڑی دیر بعد ان کے گھر میں بیگم شیرازی کے علاوہ پروفیسر داﺅد شائستہ سمیت اور خان رحمان اپنے تینوں بچوں حامد، سرور، ناز اور بیگم شہناز کے ساتھ موجود تھے۔
”میں ڈی آئی جی صاحب کو فون پر حالات بتا آیا ہوں۔ انہوں نے تالش کا سلسلہ شروع کروا دیا ہو گا۔“ خان رحمان نے انہیں بتایا۔
”اور میں نے تمام بڑے بڑے افسروں کو اطلاع دی ہے۔ امید ہے کہ بڑے پیمانے پر انہیں تلاش کیا جا رہا ہو گا۔“ پروفیسر بولے۔
”آپ کا بہت بہت شکریہ۔“ بیگم جمشید بجھی بجھی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے بولیں۔
”بھابھی فکر نہ کریں۔ کوئی ان تک پہنچے نہ پہنچے، جمشید ضرور پہنچے گا۔ اور انشا اللہ وہ انہیں لے کر آتا ہی ہو گا۔“ خان رحمان نے کہا۔
”بالکل، مجرم تو اس کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں۔ نہ جانے انہیں یہ جرا¿ت کس طرح ہوئی۔“ پروفیسر بولے۔
”مجھے وہ آدمی بہت خطرناک دکھائی دے رہا تھا۔“ بیگم جمشید نے بتایا۔
”کوئی بات نہیں اللہ سے دعا کریں۔“
پھر وہ سب ان کا دھیان بٹانے کے لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔
وقت بہت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا اور جوں جوں گزر رہا تھا، ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔
”یا اللہ خیر۔“ خان رحمان کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی وہ دروازہ کھولنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ دروازے پر انہیں ایک سب انسپکٹر نظر آیا۔
”مجھے خان صاحب نے بھیجا ہے۔“ اس نے بتایا۔
”ڈی آئی جی صاحب نے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”جی ہاں! سارے شہر میں بچوں کی تلاش شروع ہو چکی ہے۔ تمام جرائم پیشہ لوگوں کو چیک کیا جا رہا ہے۔ مجرموں کے اڈوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، لیکن ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔ تلاش بدستور جاری ہے۔“
”انسپکٹر جمشید اور اکرام بھی کہیں نہیں ملے؟“
”جی نہیں۔“
”تب پھر وہ ضرور اغوا کرنے والوں کے پیچھے لگے ہوں گے۔“ خان عبدالرحمن نے خیال ظاہر کیا۔
”ہو سکتا ہے۔“ اس نے کہا۔ پھر وہ اجازت لے کر چلا گیا۔ خان عبدالرحمن نے اندر آکر ساری بات بتائی اور ایک بار پھر وہ سوچ میں ڈوب گئے۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید درختوں کے جھنڈ میں سے آتی ہوئی اس آواز کو سن کر نہ چونکے نہ گھبرائے بلکہ دبے لفظوں میں اکرام سے بولے۔
”میرا خیال ہے، یہ جیرال ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے تیار ہو جاﺅ۔“
جیرال جھنڈ میں سے نکل کر ان کے سامنے آگیا اور قدم اٹھاتا ہوا ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ ایک بین الاقوامی مجرم کو وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے اور وہ بھی اس قدر نزدیک سے۔ چند لمحوں تک انسپکٹر جمشید اور جیرال ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے۔ دونوں طرف سے کسی نے بھی پلک تک نہ جھپکی۔ آخر جیرال ہی بولا:
”ہیلو انسپکٹر، مجھے تم سے ملنے کی بہت آرزو تھی۔“
”تو کیا۔ تم نے یہ سب مجھ سے ملاقات کرنے کی خاطر کیا ہے؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”یہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ ایک حکومت نے میری خدمات حاصل کیں اور میں تیار ہو گیا۔ منصوبہ تمہارے متعلق تھا، اس لیے میں بہت خوش ہوا کہ چلو اسی بہانے تم سے ¾ملاقات بھی ہو جائے گی۔“
”بہت خوب، تمہیں زندہ جیرال کہا جاتا ہے اور آج میں بھی کہتا ہوں کہ تمہیں یہ نام غلط نہیں دیا گیا۔“ انسپکٹر جمشید نے اس کی دلیری کی تعریف کی۔
”شکریہ انسپکٹر، میں تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں، اس لیے ایک عرصے سے میری یہ خواہش بھی تھی کہ کبھی ہم دونوں میں مقابلہ ہو۔ قدرت نے آج ایک ہی وقت میں میری دو خواہشیں پوری کر دیں۔ تم سے ملاقات بھی ہو گئی اور آج مقابلہ بھی ہو گا۔“
”ضرور، لیکن میرے بچوں کا کیا قصور ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
”انہیں چارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ میں جانتا تھا تم کسی نہ کسی طرح انہیں تلاش کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاﺅ گے۔“
”تو منصوبہ تمہارا ہی بنایا ہوا تھا؟“
”ہاں۔“ اس کے منہ سے نکلا۔
”بچے ہیں کہاں؟“ انہوں نے پوچھا۔
”فکر نہ کرو۔ وہ خیریت سے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے انسپکٹر جمشید، کہ تمہارے بچوں سے مل کر بھی بہت خوش ہوا ہوں۔ انہوں نے میری ہدایات پر بھی پوری طرح عمل کیا ہے۔ بس ایک بار فاروق نے چھینک مار کر رومال گرانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن میرے مقابلے میں اس کی یہ چال ناکام ہو گئی۔“
”یہاں تم غلطی پر ہو۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا مطلب؟“
”ان تینوں نے ہی مجھے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی تھی کہ ہمیں اس طرف لے جایا جا رہا ہے اور تم یہ سن کر ضرور حیران ہو گے کہ وہ سو فی صد کامیاب ہو گئے تھے۔“
”یہ غلط ہے۔ میں نے پوری طرح خیال رکھا تھا، کیوں کہ میں اپنا نام تمہارے مکان کی دیوار پر لکھ آیا تھا۔ اس کے بعد اگر تمہیں محمود وغیرہ کی طرف سے چھوڑی ہوئی کوئی نشانی نظر آجاتی تو تم فوراً سمجھ جاتے کہ جال بچھایا گیا ہے، اس صورت میں تم پوری طاقت ساتھ لے کر آتے۔“
”تم غلط فہمی میں مبتلا ہو۔ دراصل فاروق نے رومال گرانے کے متعلق تو سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ رومال پر پاﺅڈر چھڑک کر رکھتا ہے۔ اس نے رومال جھٹک کر پاﺅڈر کے ذرات سڑک پر گرائے تھے۔ پھر محمود نے ٹھوکر کھائی تھی، فرزانہ نے اسے سنبھالا تھا اور اس طرح انہوں نے اپنے قدموں کے نشانات سے سمت کا اشارہ مجھے دیا تھا۔
”اوہ۔“ جیرال کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”پھر غیرآباد ساحل پر فاروق نے اپنی چپل بھی تو چھوڑی تھی۔“
اس کے بارے میں تو مجھے معلوم ہو گیا تھا، لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں دی کیوں کہ میں جانتا تھا، تم آباد ساحل کی طرف سے جزیروں کی تلاش میں نکلو گے۔“
”خیر یہ تو ہوا۔ اب تم بتاﺅ بچے کہاں ہیں؟“
اکرام یہ سوچ سوچ کر حیران ہو رہا تھا کہ آخر انسپکٹر جمشید جیرال سے دوستانہ فضا میں کیوں گفتگو کر رہے ہیں۔ آگے بڑھ کر اسے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے۔ اس وقت جیرال کی نظر اکرام پر پڑ گئی۔
”انسپکٹر، یہ شاید تمہارا اسسٹنٹ ہے۔“
”ہاں! یہ اکرام ہے۔“
”میں بتاﺅں۔ یہ سوچ رہا ہے کہ تم مجھے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے۔“ اس نے مسکرا کر کہا اور اکرام حیرت زدہ رہ گیا۔
”میں بھی یہ بات جانتا ہوں۔“ انسپکٹر جمشید نے جواب دیا۔
”تم نے اب تک بتایا نہیں کہ بچے کہاں ہیں؟“
”مسٹر جارج، بچوں کو لے آئیں۔ انسپکٹر صاحب کو انہیں دیکھے بغیر چین نہیں آئے گا۔“
درختوں کے جھنڈ میں سے نہ صرف بچے اور مسٹر جارج نکل کر باہر آگئے بلکہ ماسٹر اور اس کے دونوں ساتھی بھی ان کی طرف بڑھنے لگے۔ انسپکٹر جمشید کی نظر جونہی ماسٹر پر پڑی۔ وہ بڑے زور سے چونکے۔ ان کے منہ سے نکلا۔
”تم….“
”ہاں میں۔“ اس نے پراسرار انداز میں کہا۔
”اکرام، ہمارے دشمن ملک کے سب سے بڑا سراغ رساں سے ملو۔ یہ اپنے ملک میں ماسٹر کے نام سے مشہور ہیں۔“
”اوہ۔“ اکرام کے منہ سے نکلا۔ اس نے ماسٹر کے بہت چرچے سنے تھے۔
”مجھے حیرت ہے، تم نے بندوق جیرال کے کندھے پر رکھ کر کیوں چلائی۔ کیا تم خود یہ کام نہیں کر سکتے تھے؟“
”جیرال آج کل مستقل طور پر ہمارے ملک کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہم دونوں دوست بن چکے ہیں۔ میں نے اس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تھا کہ انسپکٹر جمشید کی وجہ سے ہمارے بہت سے جاسوس پکڑے جا چکے ہیں۔ کوئی ایسا منصوبہ بناﺅ کہ تم ہمارے قبضے میں آجاﺅ۔ سو اس نے صرف تین منٹ میں منصوبہ بنا ڈالا۔
”بہت خوب، تو یہ بات ہے۔ اچھا، اب تم لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے ایسے لہجے میں پوچھا جیسے وہ سب یہاں پکنک منانے آئے ہوں۔
”یہ تمہیں جیرال بتائے گا، کیوں کہ منصوبہ اس نے بنایا ہے۔ میں تو صرف بطورِ نگران آیا ہوں۔“
”چلو جیرال تم بتاﺅ؟“
”پہلے اپنے بچوں کی خیریت تو دریافت کر لو۔ دیکھ لو ہم نے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔“
”تم جیسے بڑے مجرم ایسی گری ہوئی حرکت کر بھی نہیں سکتے۔ میں جانتا ہوں۔ تم پروگرام بتاﺅ؟“
”پروگرام یہ ہے کہ ہم نہیں چاہتے، تم یہاں سے واپس جاﺅ۔ البتہ تمہارے بچے اور تمہارا اسسٹنٹ جا سکتے ہیں۔“
”تفصیل سے بتاﺅ۔“ انسپکٹر جمشید نے بے خوف ہو کر کہا۔
”تم پوری طرح گھر چکے ہو۔ اپنے چاروں طرف کے درختوں پر نظر ڈال لو۔ تمہیں چار درختوں پر ایک ایک آدمی بیٹھا نظر آئے گا۔ ان کے ہاتھوں میں مشین گنیں ہیں جو آن کی آن میں تمہیں بھون سکتی ہیں، لیکن ہم نے آج تک بزدلوں جیسے کام نہیں کیے۔ اس لیے تمہیں پورا پورا موقع دیا جائے گا۔“
یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کی باتیں محمود، فاروق اور فرزانہ کے جسموں میں سنسنی دوڑائے جا رہی تھیں۔
”تم نے بات پھر درمیان میں چھوڑ دی۔“ انسپکٹر جمشید چاروں طرف ایک نظر ڈال کر بولے۔
”تمہیں مجھ سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ اگر تم نے مجھے شکست دے دی تو تمہیں یہاں سے زندہ جانے دیا جائے گا، ورنہ یہ لوگ تمہاری لاش کو لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔“
”بہت خوب، لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”ہاں ہاں! ضرور۔“ جیرال نے کہا۔
”میرے اسسٹنٹ اور بچوں کو میرے سامنے یہاں سے جانے دیا جائے۔“
”لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ جا کر مدد لے آئیں گے۔“ جیرال نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”ہرگز نہیں، یہ یہاں آج شام سے پہلے واپس نہیں آئیں گے۔ میں انہیں سختی سے اس کی ہدایت کر دیتا ہوں۔“
”لیکن تم انہیں پہلے ہی کیوں رخصت کر دینا چاہتے ہو؟“
”تاکہ کم از کم یہ تو محفوظ رہیں۔“
”بے فکر رہو، انہیں خراش تک نہیں آئے گی۔“ جیرال نے وعدہ کیا۔
”لیکن میرا اطمینان اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔“ انہوں نے کہا۔
”اچھی بات ہے میں انہیں جانے کی اجازت دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں یہ تمہاری ہدایت پر عمل کریں گے۔ تم وعدے کے پکے ہو۔“
”ٹھیک ہے، اکرام! تم بچوں کو لے کر چلے جاﺅ اور دیکھو شام سے پہلے واپس نہ آنا۔“
اکرام اور بچوں نے اپنی جگہ سے حرکت تک نہ کی۔
”ہم نہیں جائیں گے ابا جان۔“
”میں بھی نہیں جاﺅں گا۔“ اکرام نے مضبوط لہجے میں کہا۔
”انسپکٹر جمشید نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانے۔ اگر وہ انہیں حکم دیتے تو شاید انہیں جانا ہی پڑتا، لیکن انہوں نے حکم نہیں دیا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ وہ لڑائی کے انجام تک یہیں ٹھہریں گے۔“
”اب مقابلہ شروع ہو جانا چاہیے۔“ جیرال بولا۔
”ٹھیک ہے۔“ انہوں نے کہا۔
”آپ سب لوگ دور ہٹ جائیں بلکہ درختوں کی اوٹ لے لیں۔“ جیرال نے باقی لوگوں سے کہا۔
ان کے ہٹنے کے بعد جیرال اور انسپکٹر جمشید ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ باقی سب لوگوں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ خاص طور پر محمود، فاروق، فرزانہ اور اکرام کا تو بہت ہی بُرا حال تھا۔ انہیں پرانے زمانے کی وہ لڑائیاں یاد آگئیں جب فوجوں کے جنگ شروع کرنے سے پہلے ایک اور ایک کا مقابلہ ہوتا تھا۔
وہ سب پلکیں جھپکائے بغیر میدان میں کھڑے دو جنگجو انسانوں کو دیکھ رہے تھے۔ دُور بہت دُور خیالوں میں انہیں ڈھول بجتا محسوس ہوا۔
٭….٭….٭
”کس چیز سے مقابلہ کرنا پسند کرو گے انسپکٹر؟“ جیرال نے کہا۔
”تم ایک بہادر دشمن ہو، میں تمہاری قدر کرتا ہوں اور تم پر چھوڑتا ہوں جس ہتھیار سے بھی مقابلہ کرنا پسند کرو۔“
”تو پھر پستول ہی ٹھیک رہیں گے۔“ جیرال نے کہا۔
”مجھے منظور ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
جیرال نے اپنی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور دو پستول نکالے۔ پھر ایک انسپکٹر جمشید کی طرف اچھالتے ہوئے بولا۔
”سنبھالو انسپکٹر، یہ تمہارا ہی ہے۔ گولیاں چیک کر لو۔ پھر نہ کہنا میں نے تمہیں دھوکا دیا۔“ جیرال نے کہا اور اپنے پستول کی گولیاں چیک کرنے لگا۔ انسپکٹر جمشید نے بھی گولیاں دیکھیں اور بولے:
”ٹھیک ہے۔“
پھر وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اور کمر سے کمر ملا کر مخالف سمتوں میں قدم اٹھانے لگے۔ لڑائی کے اس طریقے کو ڈوئل کہا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں جب دو آدمی جھگڑ پڑتے تھے تو اس طرح فیصلہ کرتے تھے کہ کسے زندہ رہنا ہے اور کسے مرنا ہے۔ کمر سے کمر ملا کر دونوں دس قدم مخالف سمتوں میں بڑھتے اور پھر تیزی سے گھومتے ہوئے اپنے مدمقابل پر فائر جھونک دیتے۔ وہ ایک ایک قدم گن رہے تھے۔ ایک ایک قدم پر دوسروں کے دل دھڑک رہے تھے۔ موت اور زندگی کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ صرف چند سیکنڈ میں پھر جونہی دس قدم پورے ہوئے، دونوں ایک ساتھ بجلی کی تیزی سے مڑے اور ایک دوسرے پر فائر کھول دیے۔
تماشائیوں نے دیکھا، دونوں اپنی پھرتی کی وجہ سے بچ گئے تھے اور بالکل ٹھیک ٹھاک کھڑے تھے۔ انہوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ شاید انہیں اپنے اپنے نشانے پر یقین تھا۔
”یہ کیا ہوا انسپکٹر؟“ جیرال نے کہا۔
”ایک ہتھیار بے کار ثابت ہو گیا تو کیا ہوا، کوئی اور ہتھیار سنبھال لو۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”بہت خوب! یہ ہوئی نا بات۔ خنجروں کے متعلق کیا خیال ہے؟“
”اگر مل سکیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ہم ہر طرح تیار ہو کر آئے ہیں۔“ جیرال ہنسا، پھر درختوں کی طرف منہ کر کے بولا۔
”مسٹر جارج، ہمیں خنجر دے دیں۔“
جارج اوٹ سے باہر نکل آیا۔ اس کے ہاتھ میں دو خنجر تھے جو دھوپ کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ خنجروں کو دیکھ کر ان کے دلوں کی دھڑکن اور بھی تیز ہو گئی۔ جارج نے دونوں خنجر جیرال کو دے دیے۔ جیرال خنجر لے کر آگے بڑھا اور بولا:
”لو انسپکٹر، ان میں سے ایک پسند کر لو۔“
انسپکٹر جمشید نے ایک خنجر اس سے لے لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے دو فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔ پہلا وار جیرال نے کیا۔ اس کا ہاتھ ایک دم سر سے اونچا اٹھا تھا۔ پھر انسپکٹر جمشید کے چہرے کی طرف بڑھا۔ انہوں نے پھرتی سے اپنے دائیں ہاتھ پر وار روکا اور خمیدہ ہوکر الگ ہو گئے۔
”میں ایک وار کر چکا۔ اب تمہاری باری ہے۔“ اس نے کہا۔
”پہلے تم ہی وار کر لو۔“انسپکٹر جمشید نے اسے دعوت دی۔
”نہیں، یہ اصول کے خلاف ہے۔“
”اچھا تو وار سنبھالو۔“ انہوں نے ترچھا ہاتھ مارا۔ نشانہ جیرال کے پیٹ کا لیا تھا۔ جیرال اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ ساتھ ہی اس نے ان کے شانے پر وار کیا۔ وہ تیزی سے مڑے اور بائیں ہاتھ سے اس کا خنجر والا ہاتھ کلائی پر سے پکڑ لیا۔ پھر خود اس کے سینے پر وار کیا۔ جیرال نے بھی ان کی کلائی تھام لی۔ اب دونوں خنجروں والے ہاتھوں پر زور صرف کرنے لگے۔ دونوں کی کوشش یہی تھی کہ ان کا خنجر دشمن کی شہ رگ میں اتر جائے لیکن خنجر تھے کہ گردنوں تک پہنچ ہی نہیں رہے تھے۔ کئی سیکنڈ تک زور آزمائی ہوتی رہی۔ آخر جیرال بولا۔
”میرا خیال ہے، ہم اس طرح کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔“
”پھر کیا کیا جائے؟“
”کیوں نہ دست بدست لڑائی لڑ کر فیصلہ کر لیں۔“
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
دونوں نے خنجر دور پھینک دیے اور ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ اب وہ اپنے مکّوں اور لاتوں کو استعمال کر رہے تھے۔ انسپکٹر جمشید نے ایک زبردست مکا تان کر اس کی ناک پر مارا۔ وہ نیچے جھک گیا اور مکا اس کے سر پر لگا۔ ساتھ ہی اُس نے انسپکٹر جمشید کی کمر پر ایک زبردست ہاتھ جما دیا۔ وہ بھی تیزی سے مڑے اور اس کے پیٹ میں ٹکر ماری۔ جیرال لڑکھڑا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس کے قدم لڑکھڑائے تھے لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ فوراً ہی وہ سنبھل گیا۔ اب پھر دونوں چٹانوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”ویسے میرے دوست، کیا یہ مقابلہ انصاف سے خالی نہیں۔“ اچانک انسپکٹر جمشید بولے۔
”کیا مطلب؟“ جیرال چونکا۔
”مطلب یہ کہ میرے اور میرے ساتھیوں کے سروں پر سٹین گنیں چمک رہی ہیں، جب کہ تم اس لحاظ سے آزاد ہو۔“
”میں نے بھی اس پر اعتراض کیا تھا، مگر میرا دوست ماسٹر نہیں مانا۔ اس نے کہا تھا کہ اس طرح تم مقابلے پر مجبور ہو جاﺅ گے۔“
”خیر کوئی بات نہیں آﺅ۔ ہو جائیں دو دو ہاتھ۔“ انسپکٹر جمشید نے بےپروائی سے کہا۔
وہ پھر ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ اس مرتبہ دونوں ایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے کر رہے تھے۔ لڑائی لمبی ہوتی جا رہی تھی اور دیکھنے والوں کی بے چینی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہو گی، یہ یونہی جاری رہے گی اور وہ کھڑے کھڑے ختم ہو جائیں گے۔ اچانک جیرال کا ایک مکا انسپکٹر جمشید کے سر پر لگا۔ ان کا سر بری طرح چکرایا، وہ لڑکھڑائے۔ جیرال نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ان پر چھلانگ لگا دی۔ دوسرے ہی لمحے انسپکٹر جمشید اس کے نیچے دبے پڑے تھے۔ فوراً ہی جیرال نے دونوں ہاتھ ان کے گلے پر جمادیے۔ محمود، فاروق ، فرزانہ اور اکرام کو اپنے سانس سینوں میں اٹکتے محسوس ہوئے ان کے حلق خشک ہو گئے۔
”انسپکٹر جمشید، آخر تم پھنس ہی گئے، تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں لکھی تھی، پھر بھی مجھے اقرار ہے کہ تم بہادر شخص ہو۔ تم نے ان حالات میں بھی جس دلیری سے مقابلہ کیا، اس کی داد دینی پڑتی ہے۔“
انسپکٹر جمشید کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ انہیں اپنا دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ پیشانی کی رگیں تن گئی تھیں۔ وہ کچھ اس طرح اچانک گرے تھے کہ سنبھل نہیں سکے تھے۔ ورنہ جیرال انہیں اتنی آسانی سے نہیں دبوچ سکتا تھا۔
”مجھے حیرت ہے انسپکٹر، آخر تم اپنے ہاتھ پیر کیوں استعمال نہیں کر رہے ہو۔ آرام سے لیٹے ہوئے اپنا گلا کیوں گھٹوا رہے ہو؟“ جیرال نے ہنس کر کہا۔
اس کے ان الفاظ کے ساتھ ہی انسپکٹر جمشید عجیب سے انداز میں مسکرائے اور بولے:
”میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم اس طرح گلا گھونٹ کر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔“
”کیا مطلب؟“ جیرال نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
”مطلب یہ کہ میں بہت دیر تک اپنا سانس روک سکتا ہوں۔ تم کچھ دیر اور زور لگا لو۔ جب دیکھوں گا کہ تم ناکام ہو چکے ہو اور تمہارا بس نہیں چل رہا ہے تو پھر اپنے ہاتھ اور پیر استعمال کروں گا۔“
یہ سن کر جیرال ہکا بکا رہ گیا۔ شاید یہ اس کی زندگی کا سب سے زیادہ حیران کن لمحہ تھا۔ ابھی وہ حیران ہی تھا کہ اچانک اس کی گردن پر انسپکٹر جمشید کے ہاتھ کی ہڈی اس زور سے لگی کہ وہ دوسری طرف الٹ گیا۔ ان کی گردن سے اس کے ہاتھ خود بہ خود الگ ہو گئے تھے۔
فوراً ہی انسپکٹر جمشید اٹھ کھڑے ہوئے مگر جیرال نے بھی اٹھنے میں دیر نہیں لگائی تھی اور ایک بار پھر وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔
”جیرال، تم لڑائی کو طول کیوں دے رہے ہو؟ اسے جلدی سے ختم کیوں نہیں کر دیتے۔“ ماسٹر نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
”تمہارا کیا خیال ہے ماسٹر، کیا میں انسپکٹر جمشید سے کھیل کھیل رہا ہوں؟ یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ اگر میں بین الاقوامی جاسوس ہوں تو ان کی شہرت بھی نہ جانے کتنے ملکوں میں ہے۔ ان سے مقابلہ کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ لوہے کے چنے چبانا ہے۔ میری جگہ اس وقت کوئی اور ہوتا تو کب کا شکست کھا چکا ہوتا۔“
”کیا تم انسپکٹر جمشید کے مقابلے میں ہمت ہار بیٹھے ہو؟“ ماسٹر نے پوچھا۔ اس کی آواز میں ناگواری کی جھلک تھی۔
”نہیں خیر! یہ بات تو نہیں۔ میں ان سے مقابلہ کروں گا اور انہیں شکست دوں گا۔ یہ مجھے شکست نہیں دے سکتے۔“ البتہ میں اتنا جان چکا ہوں کہ گلا گھونٹ کر میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
”اچھا خدا کے لیے اب اس مصیبت کو ختم کر دو، انسپکٹر جمشید کا جلد از جلد صفایا کرو۔ ہمیں ابھی واپس بھی جانا ہے۔“ ماسٹر نے کہا۔
”بہت بہتر۔ ابھی لو۔“ اس نے کہا اور انسپکٹر جمشید سے بولا:
”تم نے سن لیا انسپکٹر جمشید میرے ساتھی کس قدر بے چین ہیں۔ انہوں نے مجھے اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے پچیس لاکھ روپے دیے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ سچے ہیں۔ پچیس لاکھ انہوں نے کھیل دیکھنے کے تو دیے نہیں۔ اس لیے آﺅ ہم سنجیدگی سے فیصلہ کر لیں۔“
”تو کیا تم ابھی تک غیرسنجیدگی سے لڑتے رہے ہو؟“ انسپکٹر جمشید نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”اور نہیں تو کیا میں تم سے لڑ رہا تھا۔ لڑائی تو دراصل اب شروع ہو گی۔“ جیرال نے ہنس کر کہا۔
”بہت خوب، اگر یہ بات ہے تو آﺅ۔ میں تمہاری اصل لڑائی بھی دیکھ لوں۔“
انہوں نے ایک دوسرے پر چھلانگ لگائی۔ اس مرتبہ ان کے جسم بجلی کی طرح حرکت کر رہے تھے۔ دیکھنے والے دم بہ خود ہو کر یہ خوف ناک دنگل دیکھ رہے تھے۔ انسپکٹر جمشید نے پوری قوت سے ایک مکا جیرال کی ناک پر مارا۔ جیرال نیچے جھک گیا اور جواب میں انسپکٹر کے پیٹ میں مکا مارا، لیکن دونوں کے وار خالی گئے۔ انسپکٹر جمشید نے اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور جیرال کے سر کے بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر ایک زور دار جھٹکا مارنا چاہا، لیکن یہ کیا۔ اس کے بال تو ان کے ہاتھ میں آگئے تھے۔ جیرال تو بالکل گنجا تھا۔ اس نے سر پر مصنوعی بالوں کی وِگ لگا رکھی تھی۔
”دھت تیرے کی۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا اور وِگ کو زمین پر پٹخ دیا۔ ساتھ ہی جیرال کا ایک ہاتھ ان کے کندھے سے ٹکرایا۔ انہیں یوں محسوس ہوا، جیسے ان کا کندھا جسم سے الگ ہو گیا ہو۔ وہ جھلا گئے اور سر کی ایک ٹکر جیرال کی ٹھوڑی پر دے ماری۔ جیرال کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ٹھوڑی پکڑ لی۔ چند لمحوں تک دونوں کھڑے ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ پھر ایک دم ایک دوسرے کی طرف دوڑے اور دونوں کے جسم اس زور سے ٹکرائے کہ جزیرہ گونج اٹھا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں دوسری طرف اُلٹ گئے۔ لیٹے لیٹے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے سوچ رہے ہوں، اب کیا کریں۔ کس رُخ سے حملہ کریں۔ آخر انسپکٹر جمشید تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جیرال کو دبوچنے کے لیے آگے جھپٹے۔ جیرال نے لڑھکنیاں کھا کر خود کو ان سے بچایا اور پھر وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
لڑائی طول پکڑ گئی تھی۔ کسی طرح فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ دیکھنے والے انہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے او رسوچ رہے تھے، نہ جانے اس لڑائی کا کیا انجام ہو گا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شاید اس قدر خوف ناک لڑائی نہیں دیکھی تھی۔
وہ پھر ایک دوسرے پر جھپٹ جھپٹ کر حملہ کرنے لگے۔ ابھی تک دونوں میں سے کسی کے چہرے پر غصے کے آثار دکھائی نہیں دیے تھے۔ دونوں مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے