لاڈلا
انعم سجیل
وہ ہمیشہ سے ہی ماں کا لاڈلا تھا، اکلوتا جو تھا۔ چھوٹا تھا تو جب بھی اسے چوٹ لگتی، بھاگتا ہوا ماں کے پاس آتا۔ کبھی میز سے ٹھوکر لگی اور پاﺅں پر لگ گئی، کبھی کُرسی سے گِر گیا اور ہاتھ چھِل گیا۔ جو بھی ہوتا، وہ روتا روتا ماں کے پاس پہنچ جاتا۔ ماں اسے سےنے سے لگاتی، چوٹ زدہ حصّے کو بوسہ دیتیتو اس کا درد جیسے غائب ہو جاتا اور وہ اگلے ہی پل ہنستا مسکراتا واپس پلٹ جاتا۔
اب وہ جوان ہو گیا تھا، گھبرو جوان! بیوہ ماں کے بڑھاپے کا سہارا لیکن اب بھی جب جب چوٹ کھاتاتو سکون کے لیے ماں کی آغوش میں ہی آتا تھا۔ ایک دن آیا ماں کے پاس، بہت زیادہ چوٹ لگی تھی اور شاید درد بھی بہت ہو رہا تھا۔ ماں نے بہتیرا سینے سے لگایا،اپنے لاڈلے کو چومتے چومتے خود نڈھال ہو گئی لیکن اس کا درد کم ہونے میں ہی نہ آیا، نہ ہی اس کے چہرے کی مسکراہٹ بحال ہوئی۔ درد جیسے اس کے چہرے پر ثبت ہو کر رہ گیا تھا۔ کیوں کہ اس بار چوٹ میز یا کرسی سے نہیں بلکہ کسی اندھی گولی سے لگی تھی۔
وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا تھا۔
٭….٭….٭